ہمارا حقیقی اور دائمی سرمایہ
جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ ، علم نافع اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعاء کرتی رہے۔ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ھیکہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کے لیے جاری رہتا ہے ۔
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم: امابعد!
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاث: صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ (صحیح مسلم:1631)
جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ ، علم نافع اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعاء کرتی رہے۔ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ھیکہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کے لیے جاری رہتا ہے ۔
پہلی چیز: صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ وخیرات یا فلاحی کام جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہے ۔مثلا مسجد کی تعمیر کی جائے یا فی سبیل اللہ زمین وقف کی جائے یا اسپتال بنوا کر غریبوں اور محتاجوں کے لیے 75فیصدیا 50 فیصد چھوٹ رکھنے کی وصیت کی جائے۔اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ اگر صاحب ثروت حضرات اپنی حیثیت کے مطابق سماج کے بچوں کو لائق ڈاکٹر، پروفیسر اور عالم دین وغیرہ بنانےپراٹھنے والے خرچ کا بوجھ اپنے اوپر لیں تو ایسے لائق ڈاکٹروں، انجینیروں، پروفیسروں اور علماء دین وغیرہ سے جب تک لوگ مستفید ہوتے رہیں گے ان حضرات کو ثواب ملتا رہے گا۔
اس لیے جنہیں اللہ تعالی نے دولت وثروت سے نوازا ہے ان کے لیے اچھا موقع ھیکہ اپنی آخرت کے لیے ذخیرہ اندوزی کرلیں اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت دولت سے ملت اسلامیہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں اور ان کی ترقی وبھلائی کی خاطر زیادہ سے زیادہ دولت لٹائے تاکہ آخرت میں کام آئے۔ بے جا دولت کی نمائش اور شہرت کی خاطر ہرگز ہرگز دولت کو ضائع نہ کیا جائے ورنہ یہی دولت جو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے وبال جان بن جائیگی۔ذرا غور تو کریں ہمارے لیے کس قدر موقع ہے، اگر ہم اپنی دولت کا معمولی سا حصہ بھی رفاہی کاموں میں لگادیں تو ہمارے لیے بڑی خوش نصیبی کی بات ہوگی کہ مرنے کے بعد بھی ہماری نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا بالکل اسی طرح جس طرح ہماری زندگی میں نیک عمل کرنے پر ہماری نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز نفع بخش علم :جیسےکوئی لوگوں کو تعلیم دیا ہو، بھلائی کا حکم دیا ہو نیکی کے کاموں پر ابھارا ہو تو اس کے مرنے کے بعد بھی جب تک لوگ اس کے علم سے نفع حاصل کرتے رہیں گے،لوگوں کا اجر بغیر کسی کٹوتی کے اس کو ملتا رہے گا کیونکہالدال علی الخیر کفاعل الخیر خیر کا حکم دینے والا خیر کو انجام دینے والے کے مصداق ہے ۔ یہ علم کی برکت کی کھلی دلیل ہے ، نیز اس بات کی دلیل ھیکہ علم کس قدر دنیا وآخرت کے لیے فائدہ مند ہے۔
اسی طرح جنہیں اللہ رب العزت نے عہدہ ومقام عطا کیا ہومنصب وکرسی کا مالک بنایا ہو ایسے حضرات اگر کسی حکومتی منصوبہ بندی میں یا قانون سازی میں امت کی بھلائی کو ملحوظ رکھتے ہوں تو انشاء اللہ جب تک مسلمان اس اسکیم یا منصوبہ سے مستفید ہونگے ، مرنے کے بعد بھی ثواب ان کے کھاتے میں درج ہوتے رہیں گے۔اسی طرح کسی آئینی عہدہ پر فائز شخص کسی ادارہ کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں تو جب تک ان کے نیک مشوروں کی بدولت ادارہ کو فائدہ ہوگا ان کی قبر تک نیکیاں پہنچتی رہیں گی۔ انشاء اللہ۔ اس لیے ہماری زیادہ سے زیادہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے علم سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں اور پھر یہ سلسلہ قیامت تک کے لیے چل پڑے اور ہم قبر میں لیٹے لیٹے نیکیاں بٹورتے رہیں ۔
تیسری چیز: نیک اولاد جو والدین کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعاء خیر کریں۔ حدیث میں قابل غور بات یہ ھیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اوولد صالح یدعولہنیک اولاد جو دعا کریں، کیونکہ جو اولاد نیک نہ ہوں وہ تو خود اپنے لیے دعاء کا اہتمام نہیں کرتے تو کیونکر اپنے والدین کے حق میں دعاء کا اہتمام کرسکتے ہیں؟اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ھیکہ والدین بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ نیک صفات کے حامل ہوں تاکہ بچے ان کے لیے دنیا میں فائدہ پہنچائیں اور مرنے کے بعد بھی ۔
حدیث کے اس ٹکڑےاوولد صالح یدعولہسے ایک اہم بات یہ معلوم ہوتی ھیکہ والدین یا دوسرے رشتہ داروں کے لیے دعاء کرنا ہی افضل ہے بنسبت اس کے کہ ان کے واسطہ کوئی عبادت کی جائے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نیک اولاد ان کے لیے نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا صدقہ کرے۔چنانچہ انسان کے لیے یہی بہتر ھیکہ والدین کے لیے دعاء کرے۔ انسان تو خود نیک اعمال کا محتاج ہوا کرتا ہے اس لیے نیک اعمال اپنے لیے کرے اور والدین کے لیے دعاءکرے۔
اس حدیث سے ہم نے یہ جانا کہ جب انسان فوت کرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ، چنانچہ ہر انسان کو موت سے قبل زیادہ سے زیادہ عمل صالح کرنا چاہئے ہم نے یہ بھی جانا کہ اللہ رب العالمین بڑا فضل وکرم والا ھیکہ موت کے بعد بھی بندہ کے لیے ایسے اسباب مہیا کر رکھے ہیں جن کا ثواب اس تک پہنچتا رہتا ہے اور ہم نے یہ بھی جانا کہ ہماری نیک اولاد ہماری موت کے بعد بھی ہمارے لیے باعث اجر وثواب ہیں جس سے اس بات کی ترغیب ملتی ھیکہ اولاد کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے اور ان کی دینی اور اسلامی تربیت ہونی چاہئے۔
اس کے لیے ہم پر ضروری ھیکہ ہم بچوں کو ضرور دینی تعلیم سے روشناس کرائیں کہ انہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول اور اپنے دین کی معرفت حاصل ہوجائے اور ان کے دلوں میں مذہب اسلام کی محبت اس قدر رچ بس جائے کہ باہر کی الحادی والا فضا ان پر اثر انداز نہ ہوسکے ۔
" …کوثر مدنی
آپ کا ردعمل کیا ہے؟