سارے اعمال میں روزہ کی خصوصی حیثیت
مذکورہ حدیث سے مستنبط ہونے والے روزے کے فضائل نیز بعض دوسرے فوائد ۔ 1۔سارے اعمال کے مابین سے اللہ رب العالمین نے روزہ کو اپنے لیے مختص کرلیا اس سے اللہ کے نزدیک روزے کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوتی اور روزے سے اللہ تعالی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ بات در اصل یہ ھیکہ روزہ سے روزہ دار کے اخلاص کا بھی ظہور ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جوبندہ اور اس کے رب کے درمیان راز اور بھید کی حیثیت رکھتا ہے ۔
"… کوثر علی المدنی
فقد جاء فی الحدیث القدسی الذی یرویہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن ربہ تبارک وتعالی۔ کما جاء من حدیث ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال" قال اللہ : کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی وانا اجزی بہ "والصیام جنۃ واذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب فان سابہ احد او قاتلہ فلیقل: انی صائم"
حدیث قدسی میں آیا ھیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : بنی آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہوتے ہیں سوائے روزے کے کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکا بدلہ دونگا ۔
اور روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو فحش کلامی وشور شرابے سے بچے روزہ دار سے کوئی اگر گالی گلوج کرے یا اس سے کوئی جھگڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار شخص ہوں۔(البخاری:1904 ،ومسلم:1151)
مذکورہ حدیث سے مستنبط ہونے والے روزے کے فضائل نیز بعض دوسرے فوائد ۔
1۔سارے اعمال کے مابین سے اللہ رب العالمین نے روزہ کو اپنے لیے مختص کرلیا اس سے اللہ کے نزدیک روزے کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوتی اور روزے سے اللہ تعالی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
بات در اصل یہ ھیکہ روزہ سے روزہ دار کے اخلاص کا بھی ظہور ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جوبندہ اور اس کے رب کے درمیان راز اور بھید کی حیثیت رکھتا ہے ۔
بسا اوقات روزہ دار اسی جگہ ہوتا ہے جہاں کوئی انسان نہیں ہوتا اگر وہ چاہے تو روزہ کی حالت میں حرام کردہ چیز لے سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا ، کیونکہ اسے اس بات پر کامل یقین ہوتا ھیکہ اسکا رب جس نے اس پر یہ چیز حرام کیا ہے وہ خلوت وتاریکی میں بھی ہر چیز سے باخبر ہے ۔ اللہ تعالی کی سزا کا خوف اور اس کے ثواب کی رغبت اسے ان ساری چیزوں سے باز رکھتی ہے۔
یہی وجہ ھیکہ اللہ تعالی بندہ کے اس اخلاص کی قدر کرتے ہوئے سارے اعمال میں سے صرف روزہ کو اپنے لیے خاص کرلیا ۔ اور اللہ تعالی نے کہا:"یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی" اپنی شہوت اور کھانا پینا میری وجہ سے ترک کردیتا ہے۔
اور آپ کو معلوم ہوناچاہئے کہ اس اختصاص کا فائدہ قیامت کے روز بھی ملے گا ۔ جیسا کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اذا کان یوم القیامۃ یحاسب اللہ عبدہ ویؤدی ما علیہ من المظالم من سائر عملہ حتی لم یبق الا الصوم یتحمل اللہ عنہ ما بقی من المظالم ویدخلہ الجنۃ بالصوم"
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالی بندہ کا حساب لے گا ، بندہ اگر ظلم کیا ہوگا تو اس کے سارے اچھے اعمال ظلم کی پاداش میں مظلوموں کو بانٹ دیئے جائینگے یہاں تک کہ اس کے اعمال میں سے صرف روزہ ہی بچا ہوگا اس کے بعد اللہ تعالی اس کے بقیہ مظالم کو درگزر کر دے گا اور اسے روزہ کے سہارے جنت میں داخل کردےگا۔
2۔ اللہ تعالی نے روزہ کے سلسلہ میں فرمایا : "وانا اجزی بہ" روزہ کا بدلہ میں ہی دونگا ۔ اللہ تعالی نے جزا اور صلہ کی نسبت اپنی پاک نفس کی طرف کی ہے۔ اس سے روزہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسے ہی تو اعمال صالحہ کا اجر کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے دس سے سات سوگنا اور اس سے بھی زیادہ گنا تک۔ اس کے باوجود روزہ کی جزا وبدلہ دینے کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اپنے پاس رکھی اجر وثواب میں بغیر کسی قید وتحدید کے اور جیسا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ تعالی سب کریموں پر کریم اور سب سخیوں پر سخی ہے۔ اور عطیہ عطیہ دینے والے کی شان کے مطابق ہی ہوا کرتا ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں روزہ داروں کو عظیم اور بلا حساب اجر ملنے والا ہے۔
3۔ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ ڈھال ہے یعنی اپنی حفاظت اور بچاؤ کا آلہ ہے۔ روزہ روزہ دار کو لغو اور فحش کلامی سے بچاتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : :"فاذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب" کہ جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو بد کلامی وشورشرابے سے استہزاءنہ کرے۔
اسی طرح روزہ بندہ کو جہنم سے بھی بچاتا ہے ۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" الصیام جنۃ یستجن بھا العبد من النار"(راوہ احمد وقال الالبانی حسن لغیرہ کما فی صحیح الترغیب والترھیب رقم981)
4۔اسی طرح اس حدیث میں روزہ دار کو یہ رہنمائی ملتی ھیکہ جب کوئی اس سے گالی گلوج کرے یا جھگڑے تو وہ بھی گالی گلوج اور جھگڑ ے پر نا اتر آئے کیونکہ ایسا کرنے پر گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے میں شدت آجائے گی ۔ بلکہ ایسے موقع پر روزہ دار کہہ دے "انی صائم" کہ میں روزے میں ہوں۔ انی صائم کہنے میں یہ حکمت عیاں ہوتی ھیکہ ایسا نہ ہو کہ خاموش اور چپ چاپ رہ جانے پر گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے پر آمادہ شخص اسکو کمزور سمجھ بیٹھے اس لیے وہ خاموش بھی نہ رہ کر بول دے کہ میں رووہ سے ہوں اس میں اس بات کا اشارہ ھیکہ اسکا مقابلہ وہ صرف اس لیے نہیں کررہا ھیکہ وہ روزہ سے ہے نہ کہ بے بس اور عاجز آکر۔ نیز اس میں یہ بھی فائدہ ھیکہ اس طرح گالی گلوج اور جھگڑے کا خاتمہ ہو جائیگا۔
اے اللہ تو ہمیں حوشی عطا کر صیام وقیام کی تکمیل کی توفیق دیکر گناہوں اور بدیوں کو پوچھ کر سلامتی کے گھر تیری جنت میں ہمیں داخل کر ۔ آمین۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟