اسرائیل اور حقوق انسانی کی پامالی
"اسرائیل اور حقوقِ انسانی کی پامالی" ایک ایسا موضوع اور عنوان ہے جس پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے قلم حیران، زبان پریشان اور بیان ششدر وعاجز ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اورحقوقِ انسانی کی پامالی کا چولی دامن کا رشتہ ہے۔ وہ ملک جس کی بنیاد ہی انسانی حقوق کی پامالی پررکھی گئی ہو، جس کے چپے چپے ، گوشے گوشے اور ذرے ذرے پر انسانی خون کے پھوارے پھوٹ رہے ہوں اورجس نے حقیقت میں، حقوقِ انسانی کی قدر ومنزلت کو ہمیشہ اپنے پیروں تلے روندا ہو، جس نے پوری دنیا کی آواز کو صدا بہ دیوار سمجھ رکھا ہو، اس ملک کے ذریعہ کی گئی حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی داستانِ ہوش ربا رقم کرتے ہوئے قلم کیوں نہیں تھرائے گا اور زبان وبیان کو انہیں بیان کرنے کا یارا آئے گا بھی تو کہاں سے اور کیسے آئے گا؟
اسرائیل اور حقوق انسانی کی پامالی
"… ابراہیم سجاد تیمی
"اسرائیل اور حقوقِ انسانی کی پامالی" ایک ایسا موضوع اور عنوان ہے جس پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے قلم حیران، زبان پریشان اور بیان ششدر وعاجز ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اورحقوقِ انسانی کی پامالی کا چولی دامن کا رشتہ ہے۔ وہ ملک جس کی بنیاد ہی انسانی حقوق کی پامالی پررکھی گئی ہو، جس کے چپے چپے ، گوشے گوشے اور ذرے ذرے پر انسانی خون کے پھوارے پھوٹ رہے ہوں اورجس نے حقیقت میں، حقوقِ انسانی کی قدر ومنزلت کو ہمیشہ اپنے پیروں تلے روندا ہو، جس نے پوری دنیا کی آواز کو صدا بہ دیوار سمجھ رکھا ہو، اس ملک کے ذریعہ کی گئی حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی داستانِ ہوش ربا رقم کرتے ہوئے قلم کیوں نہیں تھرائے گا اور زبان وبیان کو انہیں بیان کرنے کا یارا آئے گا بھی تو کہاں سے اور کیسے آئے گا؟
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ جس چیز کا سلسلہ دراز تر نہ ہو، اسے توحیطۂ قلم وزبان میں لانے کا امکان بھی ہے لیکن جس شبِ دیجور کا سلسلہ انتہائی تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ پوری ایک صدی تک پھیلا ہوا ہو، اس سلسلے کا آخری سرا تلاش کرنا، اسے حیطۂ قلم وزبان میں لانا اور پھر اسے بیان کرنا میری رائے سے ناممکن ہے: ؎
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
تاہم زیر نظر سطور میں اسرائیل کے ذریعہ کی گئی حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی چند ایک تصویریں اور جھلکیاں پیش کرنے کی جرأت کررہا ہوں: ؎
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات
اس بات سے پوری دنیا آگاہ وآشنا ہے کہ ملکِ اسرائیل کا وجود ہی عدل وانصاف اورامانت ودیانت داری کے مدفن پر ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کو عمل میں آیا تھا اور بقول ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیر:
''Injustice anywhere is a threat to justice every where''
"کہیں پر بھی ہونے والی ناانصافی ، ہرجگہ کے عدل وانصاف کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے" چنانچہ اسرائیل کو وجود میں لانے کے لئے مغربی اقوام نے حقوقِ انسانی کی پامالی کا جو مدفن تیار کیاتھا، اس کے استخواں پر تب سے لے کر آج تک اسرائیل اوراس کے درندہ صفت حکمراں حیوانی رقص کررہے ہیں اور اس رقص پر حقوقِ انسانی کی پامالی کے سازِ شیطانی پر آخری تال کب لگے گی، کچھ کہا نہیں جاسکتا ، ویسے مستقبل قریب میں اس کا اثر ونشان دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اپنے وجود سے لے کر اب تک اسرائیل نے فلسطین کےمغربی کنارہ، غزہ پٹی اور خود اندرونِ اسرائیل ، حقوقِ انسانی کی پامالی کاجو شیطانی اور بہیمانہ مظاہرہ کیا ہے، وہ تاریخ انسانی کی جبیں پر ایسا بدنما داغ ہے جو کسی بھی طور رہتی دنیا تک صاف ہونے والااور مٹنے والا نہیں ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ نے قراداد نمبر ۱۹۴ پاس کیا تھا جس کی رو سے ان فلسطینی شہریوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت ملی تھی جو جنگوں کی تاب نہ لاکر مختلف ملکوں کے پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہے تھے۔ ان کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ تھی جو اب تک بڑھتے ہوئے ساٹھ (۶۰) لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر آج تک عمل نہیں کیا۔ پوری دنیا کو یہ بات بھی ضرور یاد ہوگی کہ ۱۹۴۸ء میں فلسطین -اسرائیل کی جنگوں میں ملک بدر ہوکر خانماں بربادی کی زندگی گزارنے والوں کے دو پناہ گزیں کیمپوں -صابرہ اور شتیلہ-پر اسرائیل کی فوج نے رات کے سناٹے میں حملہ کیا اور تمام لوگوں کو بلا امتیاز مرد وعورت اور اطفال قتل کردیا اور جو لوگ اپنی بد نصیبی کی داستان دنیا والوں کو سنانے کے لئے زندہ بچے، وہ اس قدر زخمی تھے کہ موت زندگی سے بہتر تھی۔
اسرائیل-حقوقِ انسانی کی پامالی کے میدان میں کس قدر جری اور بے باک ہے، اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پریس فریڈم انڈیکس نے اسے ان ۱۷۹ ملکوں کی فہرست میں ۱۱۲ ویں مقام پر رکھا جہاں حقوقِ انسانی کی پامالی عام بات ہے۔
اسرائیل میں حقوقِ انسانی کی پامالی کا دوسرا منظرنامہ، فلسطینی زمین پرمسلسل بسائی جانے والی یہودی بستیاں اور کالونیاں ہیں۔ ظاہر ہے یہ ساری کالونیاں فلسطینی مسلمانوں کی ان زمینوں پر زبردستی بسائی جارہی ہیں، جن کے وہ ۱۶ ہجری سے لے کراب تک مالک ہیں۔ ۱۹۴۹ء میں جینیوا میں منعقد ہوئے کنونشن میں اسرائیل سے اقوامِ عالم نے مطالبہ کیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ مزید بستیاں اور کالونیاں نہ بسائی جائیں بلکہ جن مسلم کالونیوں پر زبردستی غاصبانہ قبضہ کرکے یہودی بستیاں بسادی گئی ہیں، انہیں منہدم کرکے فلسطینیوں کو ان کی زمینیں واپس کردی جائیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ اس کے برخلاف یہودی آبادکاری میں مزید تیزی آگئی۔کچھ دنوں پہلے آنے والا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا ۱۴ مزید نئی یہودی بستیاں بسانے کا اعلان، واضح کررہا ہے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مستقبل میں کیا کیا گل کھلانے والے ہیں۔
اسرائیل کی درندگی اور شیطنت کاکھلا مظاہرہ دیکھنا اور سننا ہوتو سنئے کہ اسرائیل کے آباد کار اس انداز سے یہودی بستیاں بساتے ہیں کہ وہاں کے سارے قدرتی وسائل پر یہودیوں کا قبضہ ہوجائے اور خاص کر پانی کے تمام ذرائع فلسطینیوں پر بند ہوجائیں۔ کیا اس سے بڑا حقوقِ انسانی کی پامالی کا مظہر وآئینہ دار ہوسکتا ہے کہ انسانوں کو پینے کے پانی تک سے محروم کردیاجائے؟
اسرائیل ، اپنے فوجی چیک پوائنٹس کے ذریعہ بھی حقوقِ انسانی کی پامالی کا دھڑلے سے ارتکاب کررہا ہے اورعالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ چیک پوائنٹس کے ذریعہ وہ فلسطینی مسلمانوں کو کس طرح پریشان کرتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینی کام گار صبح چار بجے چیک پوسٹ پر جمع ہوجاتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم لوگ ہی اپنے کام پر وقت پر پہنچ پاتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر کو بسااوقات اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
ادارتی ناانصافی کے معاملے میں تو پوری دنیا میں اسرائیل اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ بغیر کسی قصور کے لوگوں کو پکڑ کر باز پرس کرنا، ایذائیں دینا اور طرح طرح کی ذہنی الجھنوں میں پھنسا کر ان کی زندگی برباد کرنا، اسرائیل اپنا پیدائشی حق تصور کرتا ہے۔ جو فلسطینی مسلمان اسرئیل کی جیلوں میں مقیدہیں، ان کی بدترین زندگی پر آنے والی رپورٹیں پڑھنے سے پتھردل انسان بھی پگھل کر موم ہوجاتا ہے لیکن اسرائیلی درندوں کے بدن یا دماغ پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا۔
اسرائیل کے ذریعہ حقوقِ انسانی کی پامالی کی سب سے بدترمثال ، فلسطینی بچوں کی قید وبند، ٹرائل اور ان کی ایذارسانی ہے۔
Save the Children Foundation, The East Jerusalem YMCA Rehabilition Programme
اور Defence for Children International (۲۰۱۲) کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل ہرسال کم از کم ۷۰۰ فلسطینی بچوں کو قید وگرفتار کرتا ہے اور جیلوں میں انہیں ایسی اذیتیں دیتا ہے جس سے وہ ذہنی طور پر دیوالیہ ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی حالت مسلسل جنگ کے حالات میں رہنے والے فوجیوں جیسی ہوجاتی ہے۔ بروقت ۸۰۰۰ سے زیادہ فلسطینی بچے جیلوں میں ہیں جن کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں اوراس ضمن میں عالمی حقوقِ اطفال کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی جاتی ۔
حقوقِ اطفال کی اسرئیل کے ذریعہ پامالی کی انتہا یہ ہے کہ کئی جنگوں میں اس نے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو سپر بنایا تاکہ حماس کے جنگجووں سے اسرائیلی فوج اپنی حفاظت کرسکے۔ ذرا سوچئے کہ عالمی قوانینِ جنگ کہاں تو نوجوانوں اور نابالغوں کو فوج میں بھرتی کرنے پر پابندی لگاتے ہیں اوراسرائیل انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے! عالمی ضمیر کبھی کبھی چیختا بھی ہے تو اسے عالمی طاقتیں یہ کہہ کردبا دیتی ہیں کہ اسرائیل کو اپنی حفاظت کرنے کا پورا حق ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی ہی طرف سے غیر مسلح فلسطین پر تھوپی ہوئی جنگ میں بچوں کو بھی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے اور جو بچے اس میں مارے جاتے یا زخمی ہوتے ہیں، ان کا حق یہی ہے کہ وہ مریں یازخمی ہوں۔ ۲۰۰۸ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان چلنے والی ۲۲روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ انسانی لاشوں کے صحیح وسالم اعضاء کو اسپتالوں میں بیچ کر پیسے حاصل کرنے کا معاملہ کون بھول سکتا ہے؟ اس سے بڑی حقوقِ انسانی کی پامالی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟
۲۰۱۴ء کے ماہِ اگست میں چلنے و الی حماس -اسرائیل جنگ میں کس قدر حقوقِ انسانی کی پامالی ہوئی تھی، اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی درندگی محض فلسطین تک محدود نہیں بلکہ سارے عرب ممالک اس کے ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور دنیا تماشائی بن کر محض دیکھ رہی ہے۔
اسرائیل نے اب تک اقوامِ متحدہ کی جن اہم ترین قراردادوں کو اپنے پیروں تلے کچل دیا ہے، ان میں اہم ترین قراردادیں درج ذیل ہیں:
57،89،93،100،101،111،119،171،228،242،248،250،251،252،256،259،262
265،267،270،280،285
یہاں تو محض 26قراردادوں کا ذکر کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے آج تک کسی ایک بھی قرارداد پر عمل کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔
اپنی بات اب میں دو ایک غیرمسلم مشاہدین کی شہادتوں پر ختم کرنا چاہتا ہوں۔Alice walkکہتے ہیں کہ "فلسطینیوں کی وہی حالت کردی گئی ہے، جو نصف صدی پہلے افریقی ممالک کے کالے لوگوں کی تھی"
مہاتماگاندھی نے 1938ء میں کہا تھا: "فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جس طرح انگلینڈ انگریزوں کا اورفرانس ، فرانسسیوں کا ہے"۔
نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: "جب فلسطین آزاد ہوجائے گا، تب ہمارا مشن بھی مکمل ہوجائے گا"۔
کیا دنیا والے ان حق پسند افراد کی بات سنیں گے اور فلسطین کبھی صبحِ آزادی کا نظارہ کرسکے گا؟ کیا اسرائیل کے ذریعہ وہاں حقوقِ انسانی کی پامالی ختم ہوگی اورانہیں ان کا حق دیا جائے گا؟ یہ سوالات ہم عالمی برادری کے سامنے رکھتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟