برصغیر میں اسلام کی آمد علم حدیث کی نشر واشاعت
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد پہلی صدی ہجری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ ہندوستان کی سرزمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے صحابۂ کرام تھے، جو بغرض تجارت ہندوستان تشریف لائے۔
علم حدیث کی نشر واشاعت
"… آصف تنویر تیمی
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد پہلی صدی ہجری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ ہندوستان کی سرزمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے صحابۂ کرام تھے، جو بغرض تجارت ہندوستان تشریف لائے۔اور تجارت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا فریضہ بھی انہوں نے انجام دیا۔برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے متعلق معروف مورخ محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے مکمل ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں تفصیل سے انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی آمد پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ رقمطراز ہیں:
’’برصغیر پاک وہند میں انہی(عمرفاروق رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں صحابہ کے قدم پہنچے اور یہاں کے باشندوں کو اسلامی احکام واقدار سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ تاریخ کی کتابوں میں ہمیں بارہ صحابہ کرام کے نام ملتے ہیں جو عصر فاروقی میں بسلسلہ جہاد وارد برصغیر ہوئے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ بہت سے صحابہ ان کے زمانے میں اس ملک میں آئے ہوں گے، مگر افسوس ہے کہ تاریخ نے ان کے نام محفوظ نہیں رکھے‘‘۔(برصغیر میں اہل حدیث کی آمد ،ص:۶۷) واضح رہے کہ یہ سارے صحابہ اہل حدیث اور خالص کتاب وسنت کے شیدائی تھے۔ اس زمانے میں مسلکی تقلید کا کوئی رواج نہ تھا۔ اور انہوں نے جو دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اس کا خالص مصدر کتاب وسنت تھا۔
جو بارہ صحابہ کرام پہلے پہل ہندوستان میں آئے ان کے نام عثمان بن ابوالعاص ثقفی، حکم بن ابوالعاص ثقفی، مغیرہ بن ابوالعاص ثقفی، ربیع بن زیاد حارثی مذحجی، حکم بن عمرو ثعلبی غفاری، عبداللہ بن عبداللہ انصاری، سہل بن عدی خزرجی انصاری، شہاب بن مخارق بن شہاب تمیمی، صحار بن عباس عبدی، عاصم بن عمرو تمیمی،عبداللہ بن عمیر اشجعی، نسیر بن دیسم بن ثور عجلی ہیں۔
عہد فاروقی کے بعد عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں بھی چند صحابہ ہندوستان تشریف لائے جن میں مشہورنام حکیم بن جبلہ عبدی، عبید اللہ بن معمر تیمی، عمیر بن عثمان بن سعد، مجاشع بن مسعود سلمی، عبدالرحمن بن سمرہ قرشی وغیرہ کے ہیں۔
ان کے بعد علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کی خلافت میں بھی برصغیر میں صحابہ کی آمد اور علم حدیث کی نشرواشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ ان دونوں کے زمانہ خلافت میں جو صحابہ آئے ان میں خریت بن راشد ناجی سامی، عبداللہ بن سوید تمیمی، کلیب ابووائل، مہلب بن ابوصفرہ ازدی عتکی، عبداللہ بن سوارعبدی، یاسربن سوار عبدی، سنان بن سلمہ ہذلی وغیرہم قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ تاریخ کی کتابوں میں ہمیں تقریبا اکتالیس (۴۱) تابعین کے نام ملتے ہیں جو کتاب وسنت کی شمع لے کر ہندوستان پہنچے اور پورے ہندوستان کو کتاب وسنت کی روشنی سے منور کیا۔ ان تابعین میں حسن بصری، صیفی بن فسیل شیبانی، ابوسلمہ زطی،مجاعہ بن سعر تمیمی، عطیہ بن سعد عوفی،حباب بن فضالہ ذہلی، سعد بن ہشام انصاری،موسی بن یعقوب ثقفی، قیس بن ثعلبہ، مکحول بن عبداللہ سندھی اور راشد بن عمرو بن قیس ازدی وغیرہم کے نام اہم ہیں۔ان کے علاوہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی قیادت میں سن۹۳ہجری میں جو لشکر سندھ پہنچا وہ سب کے سب اہل حدیث اور کتاب وسنت کے متوالے ودیوانے تھے۔ تبع تابعین میں سے بھی تقریبا اٹھارہ شخصیات ہندوستان آئیں اور علم حدیث کے فروغ میں اپنا رول ادا کیا۔(تفصیل کے ملاحظہ ہو: برصغیر میں اہل حدیث کی آمد)
برصغیر میں پہلے پہل علم حدیث کی نشرواشاعت کے باوجود ایک ایسا بھی وقت آیا کہ سنت کی لَو مدھم پڑنے لگی۔ لوگوں کی رغبت بجائے حدیث کے فقہ کی طرف زیادہ ہوگئی۔یونانی فلسفہ اور حکمت کا زور دکھنے لگا۔ صریح اور صحیح نصوص کو ترک کرکے لوگ موہوم ومتروک روایتوں پر عمل کرنے لگے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالی نے ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی ہستیوں کو پیدا کیا جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو علمِ حدیث سے روشناس کرایا۔ کتب حدیث کی بھرپور خدمت کی۔ مسلمانوں کو سنت سے قریب کرنے کی پوری سعی کی۔ علمِ حدیث کی تدریس وتصنیف کے رواج کو عام کیا۔
ذیل کی سطور میں مشتے نمونہ از خر وارے اختصار کے ساتھ ان أعلام اور علمِ حدیث کے شہسواران کی خدمات کا سرسری جائزہ لیا جائے گا جنہوں نے تدریس وتصنیف کے ذریعہ علم حدیث کی نشرواشاعت کافریضہ انجام دیا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ان کے علاوہ بھی سیکڑوں محدثین نے علمِ حدیث کی برصغیر میں خدمت کی۔ جن سب کے کارناموں کو اس مختصر سے مضمون میں سمویا نہیں جاسکتا۔ ان کی خدمات کو مستقل کتابی صورت میں پیش رو مصنفین نے اجاگر کیا ہے۔ اللہ ان سب کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
برصغیر کے محدثین میں ایک نمایا ں نام شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ کا ہے، جو دہلی میں اپنے والد (سیف الدین ترک) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مکہ مدینہ اور طائف کے مشہور محدثین( عبدالوہاب متقی، حمیدالدین سندھی) سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دہلی لوٹے اور درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کیا۔ فن حدیث کی کئی کتابوں پر کام کیا۔ ’’أشعۃ اللمعات فی شرح المشکاۃ ‘‘ کے نام سے فارسی اور’’لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ کے نام سے عربی میں مشکاۃ(جو احناف کے یہاں حدیث کی سب سے اونچی کتاب تصور کی جاتی ہے)کی شرح کی۔ اس زمانے میں جب کہ کتاب وسنت کا نام لینا(فقہ حنفی کے علاوہ) بھی لوگ جرم سمجھتے تھے ایسے ماحول میں اس طرح کا کام یقیناًقابل ستائش اور مجاہدانہ عمل تھا۔
ان کے بعد ان کے بیٹے شیخ نورالحق نے بھی علم حدیث کی نشرواشاعت کا عمل جاری رکھا۔ شہر آگرہ کی قضا کے ساتھ تدریس وتصنیف سے جڑے رہے۔ آپ کی تصنیفات میںتیسیر القاری شرح صحیح البخاری‘‘(فارسی)، " منبع العلم فی شرح صحیح مسلم” (ناتمام)اور"شرح الشمائل" (فارسی میں) قابل ذکر ہے۔ ان کے علاوہ ان کے تلامذہ میں سے بھی کئی ایک نے کسی نہ کسی طرح علم حدیث کے چراغ کو جلائے رکھا۔
ان کے بعد مرکز العلم والعلماء دہلی ہی میں شیخ ولی اللہ بن عبدالرحیم پیدا ہوئے جن کے خاندان نے علم حدیث کو ثریا تک پہنچایا۔شیخ نے علم حدیث کے فروغ کے لئے اپنا سب کچھ داو پر لگادیا۔ اپنی مجددانہ کوششوں سے شرک وبدعت کے شیش محل کو چکنا چور کردیا۔ انہوں نے علم حدیث کو دیگر علوم پر فوقیت دی۔ ساتھ ہی انہوں نے علم حدیث کی نشر واشاعت میں تحقیقی طریقہ اختیار کیا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے والدماجد شاہ عبدالرحیم بھی بلندپایہ عالم تھے۔ شاہ صاحب نے سب سے پہلے اپنے والد اور پھر شیخ محمد افضل سیالکوٹی سے کسب فیض کیا۔اس کے بعد تدریس کا مسند سنبھالا۔ اور جب ۱۱۴۳ہجری میں حج کرنے گئے تو حرمین کے مشاہیر سے بھی خوب علم حدیث کی تشنگی بجھائی۔ خاص طور سے اپنے استاد شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی سے مدینہ میں حدیث کی اکثر وبیشتر کتابیں پڑھیں۔ سنداجازہ بھی حاصل کیا۔ اور ہندوستان واپس آئے۔اور پورے طور پر حدیث کی تدریس وتعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ آپ نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں"حجۃ اللہ البالغۃ"، "المسوی فی شرح الموطا"،"الانصاف فی بیان سبب الاختلاف"، اور"عقدالجید فی أحکام الاجتہاد والتقلید" وغیرہ مقبول ومطبوع ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد جن افراد نے علم حدیث میں چار چاند لگایا ان میں ان کے چاروں صاحبزادے شاہ عبدالعزیز،شاہ عبدالغنی، شاہ عبدالقادر اورشاہ رفیع الدین سرفہرست ہیں۔ شاہ عبدالعزیز اپنے والد سے جملہ علوم وفنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد محض پندرہ سال کی عمر میں مسند تدریس پر فائز ہوگئے۔ آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے اصحاب فضل وکمال کا نام ملتا ہے۔ آپ کے تینوں بھائی بھی آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ مدرس بھی تھے، مفتی بھی اور صاحب طرز مصنف بھی۔ آپ کی تصنیفات میں" تفسیر فتح العزیز"(فارسی)، "تحفۃ الاثنی عشریۃ فی الرد علی الشیعۃ"(فارسی)، "بستان المحدثین" اور"العجالۃ النافعۃ" کافی مشہور ہیں۔شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کی علمی خدمات میں قرآن کا اردو ترجمہ کافی شہرت رکھتا ہے۔
شاہ ولی اللہ کے دیگر تلامذہ میں علامہ محمد معین بن محمد امین بن طالب اللہ سندھی کے کارنامے بھی قابل ذکر ہیں۔سندھ سے دہلی کا سفر انہوں نے صرف علم حدیث کے شوق میں طے کیا۔ اور شاہ صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے علم حدیث سے اپنے دامن مراد کو بھرا۔ آپ حد درجہ ذہین وفطین تھے۔ علم حدیث،علم کلام اور عربی زبان میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ادبی مذاق کے بھی حامل تھے۔ شعر وشاعری سے بھی دلچسپی تھی۔آپ کی مشہور تصانیف میں’’دراسات اللبیب فی الأسوۃ الحسنۃ بالحبیب‘‘ اپنے فن میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
شاہ صاحب کے شاگردوں میں ایک اہم نام علامہ ثناء اللہ پانی پتی کا بھی ہے۔ آپ اپنے شہر کے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد دہلی پہنچے اور شاہ ولی اللہ اور شیخ جان جاناں دہلوی سے تعلیم پائی۔ شاہ عبدالعزیز نے علمِ حدیث اور علمِ فقہ میں مہارت اور پختگی کی وجہ سے آپ کو" بیہقی وقت"کا لقب دے رکھا تھا۔ آپ کی قلمی خدمات میں "الأخذ بالأقوی"، "التفسیر المظہری" اور شیعوں کے رد میں" السیف المسلول" مشہور ہیں۔
شاہ ولی اللہ کے علاوہ علم حدیث کے فروغ میں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے شاگردوں کا بھی کافی رول رہا ہے، اس لئے کہ والد کے انتقال کے بعد آپ مرجع خلائق ہوگئے تھے۔ آپ کا حلقۂ درس وسیع ہوگیا تھا۔ آپ کے علم تفسیر اور علم حدیث کے درس کا ملک اور بیرون ملک ایسا شہرہ ہوا کہ دور دور سے علما اور طلبہ جوق در جوق آکردرس حاصل کرتے تھے۔
شاہ عبدالعزیز کے شاگردوں میں سب سے بڑا نام مشہور مجاہد اور عالم دین اورتوحید وسنت کے علمبردارشاہ محمد اسماعیل بن عبدالغنی کا ہے۔آپ کے مجاہدانہ کارناموں کے آثار ابھی بھی برصغیر کے طول وعرض میں نظرآتے ہیں۔آپ نے ہندوستان میں صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کا جو مشن سید احمد بن عرفان بریلوی رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا(جو تحریک شہیدین کے نام سے مشہور ہے) اس سے باطل کے دانت کھٹے ہوگئے تھے۔ آپ دونوں کی یہ تحریک بیک وقت کئی محاذوں پر کام کررہی تھی، جس میں اصلاح وتبلیغ بھی شامل تھی۔
شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی علمی خدمات میں "تقویۃ الإیمان" کافی مشہور ہے۔ پتہ نہیں تصنیف سے لے کر اب تک کتنے اڈیشن اس کے شائع ہوچکے ہیں۔ برصغیر کے سینکڑوں مدارس میں یہ کتاب شاملِ نصاب بھی ہے۔ اور خلق کثیر نے اس کتاب سے اپنے عقیدہ کی اصلاح کی ہے،اور کررہے ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں" ردشرک"، "إیضاح الحق الصریح فی أحکام المیت والضریح" اور" تنویر العینین فی إثبات رفع الیدین"اپنے اپنے موضوع پر حرف اخیر کی حیثیت رکھتی ہیں۔(تحریک شہیدین کی تفصیل کے لئے:تراجم علماء ہند،تاریخ اہل حدیث، اہل حدیث اور سیاست اور غلام رسول مہر کی کتاب تحریک شہیدین دیکھی جاسکتی ہیں)
شاہ عبدالعزیز کے شاگروں میں دوسرا بڑا نام شاہ محمد اسحاق بن محمد افضل عمری فاروقی دہلوی کا ہے جو شاہ عبدالعزیز کے نواسے بھی تھے۔شاہ اسحاق کی پوری تعلیم وتربیت شاہ عبدالعزیز کے زیر سایہ ہوئی۔ بلکہ شاہ عبدالعزیز نے شاہ اسحاق کو اپنا جانشیں بنادیا۔ شاہ اسحاق ۱۲۴۶ہجری میں حج کو تشریف لے گئے، واپس آنے کے بعد بھی سولہ سالوں تک علم حدیث کا درس دیتے رہے۔ جب مستقل طور پر مکہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو اپنا خلف رشید اپنے چہیتے شاگرد سیدنذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کو بنادیا۔سیدنذیرحسین رحمہ اللہ کہاکرتے تھے کہ میں نے ان سے بڑا عالم نہیں پایا۔ شاہ اسحاق کی کتابوں میں’’چالیس مسائل" اور "تذکرۃ الصیام"معروف ہیں۔
شاہ عبدالعزیز کے شاگروں میں شاہ مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالحی بڈھانوی(صاحب صراط مستقیم)شیح حسن علی ہاشمی لکھنوی وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ لیکن جو مقام شاہ اسحاق کو حاصل رہا وہ کسی کو نہ مل سکا۔
شاہ اسحاق کے تلامذہ میں سید نذیر حسین دہلوی، شیخ عبدالغنی بن ابوسعید دہلوی، نواب قطب الدین (صاحب ’’مظاہر حق‘‘ جو مشکاۃ کی اردو میں شرح ہے)، شاہ فضل رحمن مرادآبادی، شیخ محمد بن ناصر حازمی یمنی وغیرہ کافی شہرت رکھتے ہیں۔لیکن ان تلامذہ میں میاں صاحب کو جو مقبولیت حاصل رہی، اور جس قدر انہوں نے علم حدیث کی خدمت کی شاید وہ کسی کے حصہ میں نہ آسکی۔ میاں صاحب بلا تفریق تمام متداول علوم وفنون کو تقریبا بارہ سالوں تک پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد قرآن ،حدیث اور فقہ کی تدریس کے لئے اپنے آپ کوص کرلیا۔اور کم وبیش باسٹھ سالوں تک دہلی میں مسندتدریس پر رونق افروز رہے۔اس درمیان جنہوں نے آپ سے کسبِ فیض کیا،ان کا شمار مشکل ہے۔مولاناعزیزالرحمن سلفی نے اپنی کتاب "جماعت اہل حدیث کی تدریسی خدمات"میں میاں صاحب کے ان تلامذہ کی تعداد دس ہزار سے زیادہ بیان کی ہے جنہوں نے مسجد اورنگ آبادی کے بعد پھاٹک حبش خان میں آپ سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے مستفیدین میں برصغیر کے علاوہ حجاز نجد یمن شام حبشہ تونس جزائر کابل سمرقند بلخ بخارا ایران خراسان اور چین وغیرہ کے تلامذہ بھی کافی تعداد میں تھے۔
آپ کے اکثر وبیشتر اوقات درس وتدریس ، پند ونصائح، فتوی نویسی اور عبادت وبندگی میں گزرتے تھے۔اس لئے آپ کو تصنیف وتالیف کا بہت کم وقت ملا۔آپ کا زیادہ تر وقت تعلیم وتعلم میں صرف ہوا۔ باوجود اس کے علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ"غایۃ المقصود فی شرح سنن ابی داود" میں اپنے مقدمہ میں کیا ہے۔ جن میں:"واقعۃ الفتوی دافعۃ البلوی"،" ثبوت الحق لحقیق" ، "رسالۃ فی تحلی النساء بالذہب"، "المسائل الأربعۃ"،" معیار حق" یہ پانچوں کتابیں اردو میں ہیں۔ اور" کلام الولی باتباع النبی" فارسی اور"إبطال عمل المولد" عربی میں دستیاب ہے۔ ان کتابوں میں سے چند کا ذکر مورخ عصر ڈاکٹر بہاء الدین نے بھی اپنی شہرہ آفاق تصنیف"تاریخ اہل حدیث"میں کیا ہے۔آپ کے فتاوے کو بھی بعد میں جمع کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی گئی ہے۔ اے کاش! شروع سے یہ کام کیا گیا ہوتا تو فتاوی کی کئی جلدیں آج ہمارے پاس ہوتیں۔ مگر ایسا نہ کیا جاسکا۔ اور فقہ وفتوی کی شکل میں میاں صاحب کے علم کا کافی حصہ ضائع ہوگیا۔ مطبوع شکل میں میاں صاحب کے فتاوے"فتاوی نذیریہ"کے نام سے اردو میں دوجلدوں میں موجود ہیں۔
سرزمین ہند میں جنہوں نے علم حدیث کی شمع کو روشن کرنے کی کوشش کی ان میں علامہ حسین بن محسن انصاری یمانی بھی ہیں۔ آپ یمن اور بلادِ عرب میں اپنے علم وفن کا لوہا منوانے کے بعد بھوپال کی ملکہ سکندر بیگم کے پاس تشریف لے آئے، جہاں پہلے سے آپ کے بھائی علامہ زین العابدین(قاضی بھوپال) موجود تھے۔ آپ کی ملاقات ملکہ سے ہوئی،ملکہ نے آپ کی خاطر وتواضع کی۔ آپ کو مسند حدیث سونپا گیا۔ملک کے اطراف واکناف میں جیسے آپ کی آمد کی خبر ہوئی،کونے کونے سے شیدائیان علم وفن دیوانہ وار ٹوٹ پڑے۔ علماء کی کثیر تعداد نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ آپ کے کبار شاگردان میں علامہ نواب صدیق حسن خان، علامہ شمس الحق عظیم آبادی،علامہ محمد بشیر سہسوانی، علامہ عبداللہ غازی پوری، علامہ اسحاق بن عبدالرحمن بن حسن نجدی وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
آپ کی تالیفا ت میں"سنن ابوداود" پر تعلیق،اور رسائل کی شکل میں"التحفۃ المرضیۃ فی حل بعض المشکلات الحدیثیۃ"،" البیان المکمل فی تحقیق الشاذ والمعلل"، اور "رسالۃ فی مصطلح الحدیث" وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔
علم حدیث کی نشرواشاعت میں نواب صدیق حسن خان کی خدمات کا ذکر کئے بغیر یہ مضمون مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ انہوں نے حدیث کی نشرواشاعت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا، علماء کو جمع کیا، کتابیں طبع کروائیں، علماء وطلبا کی کفالت کی، کتابیں مفت تقسیم کیں۔ اپنے شاہی خزانے کا دروازہ کھول دیا۔
صدیق حسن خاں رحمہ اللہ۱۲۴۸ہجری میں قنوج میں پیدا ہوئے، آپ کے والدسید احمد بریلوی کی اولاد میں سے تھے۔ علامہ صدیق حسن خان نے اپنے وقت کے چنندہ اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ جن میں شیخ صدرالدین دہلوی، شیخ محمد یقوب دہلوی اور مشہور محدث عبدالحق بنارسی رحمہم اللہ کے نام شامل ہیں۔بعد میں بھوپال جاکر سکونت پذیر ہوگئے، اور وہاں کی ملکہ شاہ جہاں سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد جو مال ومتاع ،اور جاہ وجلال حاصل ہوا سب کو علم حدیث کی نشرواشاعت میں صرف کردیا۔
آپ تصنیف وتالیف کے نہایت شوقین تھے۔ آپ کی کل کتابوں کی تعداد دوسوبائیس(۲۲۲)سے زیادہ ہے۔ "تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں" کے مؤلف فیروز آبادی نے ان میں سے اکثر کے نام اپنی اس کتاب میں ذکر کئے ہیں۔
فن حدیث سے متعلق جو آپ کی تصنیفات ہیں، ان میں امام زبیدی کی" التجرید الصریح" کی شرح" عون الباری لحل ادلۃ البخاری" ، "السراج الوہاج فی کشف مطالب مختصر صحیح مسلم بن الحجاج"،"فتح العلام شرح بلوغ المرام" اور "توفیق الباری فی ترجمۃ الأدب المفرد" ہیں۔ واضح رہے کہ نواب صاحب میاں صاحب کے ہم عصر تھے۔
میاں صاحب کے ہم عصر علماء کرام میں سے جنہوں نے علم حدیث کی خدمت کی ان میں علامہ عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی بھی ہیں۔ جو براہ راست شیخ عبدالقادر بن ولی اللہ دہلوی، شیخ محمداسماعیل بن عبدالغنی دہلوی، شیخ عبد الحی بڈھانوی وغیرہ کے شاگرد ہیں۔ تحریک شہیدین سے بھی آپ جڑے رہے۔ اور جب شاہ اسماعیل اور سیداحمد شہید حج کے لئے روانہ ہوئے تو آپ بھی ساتھ ہوگئے۔ حج مکمل ہونے کے بعد وہیں سے یمن تشریف لے گئے اور امام شوکانی اور شیخ عبداللہ بن محمد بن اسماعیل امیر صنعانی اور شیخ محمد عابد سندھی وغیرہ سے سنداجازت حاصل کی۔
آپ کے تلامذہ میں نواب صدیق حسن خاں، شیخ وحیدالزماں حیدرآبادی، شیخ عبدالعزیز محمد لکھنوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں" الدرالفرید فی المنع عن التقلید" مشہور ہے۔
میاں صاحب کے بعد برصغیر کے جن علماء نے خدمت حدیث کا بیڑا اٹھایا، اور تن من دھن سے حدیث کی نشرواشاعت کی ان میں چند شخصیات سرفہرست ہیں: شیخ عبدالأول غزنوی (متوفی:۱۳۱۲ھ)صاحب"نصرۃ الباری فی ترجمۃ صحیح البخاری" (اردو)، "انعام المنعم بترجمۃ صحیح مسلم"، اور" الرحمۃ المہداۃ الی من یرید ترجمۃ المشکاۃ"۔ شیخ ابومحمد ابرہیم آروی (متوفی:۱۳۱۹ھ) صاحب "طریق النجاۃ فی ترجمۃ أحادیث الفصل الأول من المشکاۃ"۔ شیخ محمدبشیر سہسوانی (متوفی:۱۳۲۶ھ) صاحب "صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان"،"البرہان العجاب فی مسألۃ فرضیۃ أم الکتاب"۔ شیخ ابوالطیب شمس الحق عظیم آبادی (متوفی: ۱۳۲۹ھ) صاحب"’’غایۃ المقصود فی شرح سنن ابی دواد"،"عون المعبود لحل مشکلات سنن ابی داود"، التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی"، "اعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر"۔ شیخ عبدالعزیز رحیم آبادی(متوفی:۱۳۳۶ھ) صاحب"سواء الطریق"، "حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان"۔ شیخ أحمد حسن دہلوی(متوفی:۱۳۳۸ھ) صاحب"أحسنلتفاسیر"، تنقیح الرواۃ فی تخریج أحادیث المشکاۃ"۔ شیخ عبدالسلام مبارکپوری (متوفی:۱۳۴۲ھ) صاحب"سیرۃ الامام البخاری"۔ شیخ ابوالعلی محمد عبدالرحمن بن عبدالرحیم مبارکپوری(متوفی:۱۳۵۳ھ) صاحب "تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی"،"أبکار المنن فی نقد کتاب آثار السنن"اور "تحقیق الکلام فی وجوب قرأۃ الفاتحۃ خلف الامام"۔شیخ ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری(متوفی:۱۳۶۷ھ) جن کو فاتح قادیان کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے۔ اور باطل عقائدوافکار کی بیخ کنی کے لئے ان کی زندگی وقف تھی۔اس موضوع پر ان کی دسیوں کتابیں بھی ہیں۔صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح(ناتمام)، شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارک پوری۔ ان کے بعد برصغیر میں ان کے جیسا محدث پیدا نہیں ہوا۔
جس طرح برصغیر میں متقدمین علماء نے علم حدیث کی خدمت انجام دی، اسی طرح متاخرین نے بھی انتھک کوششیں کیں۔ اور تالیف، ترجمہ،حاشیہ،تعلیق اور متفرق موضوعات پر علم حدیث کے خدام میں اپنا نام درج کرایا۔ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے بعد دونوں ہی ملکوں میں علم حدیث پر کام ہوا ہے۔ لیکن تصنیف وتالیف کے معاملے میں علماء پاکستان کا پلڑا ہندوستانی علماء پر بھاری نظر آتاہے۔ ہندوستان میں انفرادی طور پر کام بہت کم ہوا ہے۔ گنے چنے چند علماء ہیں، جن کی تصنیفات علم حدیث کے موضوع پر نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس بعض اداروں نے اس سمت میں اچھی کوششیں کی ہیں،علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کے دار الداعی،ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالجبار فریوائی کے دار الدعوۃ، جامعہ سلفیہ بنارس،جامعہ محمدیہ مالیگاؤں وغیرہ سے چندکتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ مکتبات اور ناشروں کی بات کی جائے تو ہندوستان میں علم حدیث کے موضوع پر کتابوں کی طباعت میں بڑھ چڑھ کرکام الکتاب انٹرنیشنل دہلی اورمکتبہ ترجمان دہلی نے کیا،فی الحال مکتبہ الفہیم مؤ پیش پیش نظر آرہا ہے۔
عصر حاضر میں جو کتابیں علم حدیث سے متعلق آئی ہیں ان میں سے چند کے نام علماء وطلبہ کے استفادہ کی خاطر ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں،واضح رہے کہ ذکر کی جانے والی کتابوں میں سے اکثر وبیشتر اردوزبان میں ہیں:
۱۔المستدرک علی الصحیحین(اردو) مترجم: شاہ محمد چشتی۔۲۔ تلخیص سبل السلام فی شرح بلوغ المرام(اردو) مترجم: محمدسلیمان کیلانی۔۳۔ تنویر الافہام فی حل عربیۃ بلوغ المرام، تالیف:جاویداقبال سیالکوٹی، تحقیق:عبدالمنان نورپوری. ۴۔حدیث نماز،تالیف: حافظ عبدالمتین میمن جوناگڑھی۔۵۔ سلسلہ احادیث صحیحہ،سلسلہ احادیث ضعیفہ(اردو) ،مترجمین عبدالمنان راسخ وابومیمون محفوظ احمداعوان۔یہ دونوں کتابین چارچار جلدوں میں ہیں۔۶۔ مسندامام احمدبن حنبل(اردو) مترجمین: پروفیسر سعید مجتبی سعیدی،عباس انجم گوندلوی ،ابوالقاسم محمد محفوظ اعوان،یہ کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔۷۔ مکانۃ السنۃفی التشریع الاسلامی(عربی)،تالیف: علامہ ڈاکٹر محمدلقمان سلفی۔۸۔ فتح العلام شرح بلوغ المرام(عربی)، تالیف:علامہ ڈاکٹر محمدلقمان سلفی۔۹۔ تحفۃ الکرام (عربی) تالیف: علامہ ڈاکٹر محمدلقمان سلفی۔۱۰۔ رش البرد شرح الادب المفرد(عربی) تالیف: علامہ ڈاکٹر محمدلقمان سلفی۔۱۱۔صحیح الادب المفرد(اردو) مترجم: عبدالقدوس ہاشمی۔۱۲۔چالیس احادیث، تالیف: عبدالمجید سوہدروی۔ ۱۳۔ صحیح بخاری(اردو) مترجم: مولانا داودراز۔
۱۴۔اللؤلؤوالمرجان فیما اتفق علیہ الشیخان(اردو ترجمہ) مترجم:
محمدداودراز،عبدالرشیدتونسوی۔۱۵۔مختصر صحیح بخاری، ترتیب وترجمہ: ابوعبداللہ آصف۔۱۶۔شروح صحیح بخاری،تالیف: غزالہ حامد۔ ۱۷۔احادیث صحیح بخاری کو داستان بنانے کی ناکام کوشش۔تالیف:ارشادالحق اثری۔ ۱۸۔نصرۃ الباری فی تحقیق جزء القراء ۃ للبخاری(اردو) ترجمہ وتحقیق: حافظ زبیر علی زئی۔ ۱۹۔تدبر حدیث شرح صحیح بخاری(منتخب ابواب) تالیف: مولانا امین احسن اصلاحی۔ ۲۰۔احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت، تالیف: ارشادالحق اثری۔ ۲۱۔اسلام میں سنت کا مقام،تالیف: علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی۔ ۲۲۔اختصار علوم الحدیث،مترجم: حافظ زبیر علی زئی۔ ۲۳۔اصطلاحات المحدثین، تالیف: سلطان محمود محدث جلالپوری۔ ۲۴۔اربعین للنساء من احادیث المصطفی،تالیف: پروفیسر بتول علوی۔ ۲۵۔اربعین ثنائی، تالیف: مولانا ثناء اللہ امرتسری۔۲۶۔اعلام السنن،تالیف: ظفر احمدعثمانی(دس جلدیں)۔ ۲۷۔الأحادیث المختارۃ من الصحیحین، تالیف: محمد مظہر شیرازی۔۲۸۔بیاض الأربعین، تالیف: محمدالوالحسن سیالکوٹی۔۲۹۔ انوار حدیث، تالیف:حافظ عبدالستار حماد۔ ۳۰۔احادیث قدسیہ، مترجم: عبدالرشید تونسوی۔ ۳۱۔ شرح حدیث جبریل، ترجمہ وتحقیق: حافظ زبیر علی زئی۔ ۳۲۔ حجیت حدیث،تالیف: شیخ الحدیث محمداسماعیل سلفی۔ ۳۳۔تیسیرمصطلح الحدیث(اردو ترجمہ) مترجم: عبدالرشید تونسوی۔۳۴۔ جزء القراء ۃ خلف الامام، (اردو) مترجم: احمد شاکر۔۳۵۔ تاریخ اہل حدیث، تالیف: ڈاکٹر غلام جیلانی برق۔ ۳۶۔ علوم الحدیث (اردو) مترجم: غلام احمد حریری۔۳۷۔ التحدیث فی علوم الحدیث، تالیف: پروفیسر عبدالرؤف ظفر۔ ۳۸۔ حدیث رسول کا تشریعی مقام(اردو) مترجم: غلام احمدحریری۔۳۹۔ احادیث ضعیفہ کا مجموعہ(اردو) مترجم: مولانا محمدصادق خلیل۔ ۴۰۔ التنقید المضبوط فی تسوید تحریر الملبوط،تالیف: سید بدیع الدین شاہ راشدی۔۴۱۔ امام بخاری پر اعتراضات کا جائزہ،تالیف: ارشادالحق اثری۔۴۲۔ آپ حدیث کیسے تلاش کریں۔ ۴۳۔ اثبات الدلیل علی توثیق مؤمل بن اسماعیل،تالیف: کفایت اللہ سنابلی۔ وغیرہ
مذکورہ تصنیفات وخدمات کے علاوہ حدیث کی مشہور کتابیں صحیح بخاری،صحیح مسلم، سنن ابوداود،جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مؤطا امام مالک، سنن دارمی،سنن دارقطنی، مشکاۃ المصابیح، ریاض الصالحین، الاربعون للنووی وغیرہ کے ترجمے، شرحیں، حواشی اور تعلیقات متعدد علماء کرام کے موجود ہیں،جن کی سب کا حصر تفصیل کا متقاضی ہے۔ ان کے علاوہ متفرق موضوعات پر بھی برصغیر کے علماء کی خدمات پائی جاتی ہیں۔اور علم حدیث کی نشرواشاعت کا سلسلہ جو عہدرسالت میں شروع ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح تاحال جاری ہے،اور ان شاء اللہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟