تاریخی ہستی کون؟

    انسانوں کی فلاح ،کامیابی، اورامانت کااحساس دلانے کے لیے نبیوں کاسلسلہ جاری فرمایا۔آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے لے کرخاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ تک لاکھوں اللہ کے فرستادہ،پیغمبراوررسول آئے،نمونہ کے طورپراپنی عملی زندگی انھوں نے پیش کی،کچھ لوگوں نے مانااورکچھ نے انکارکردیا۔

May 10, 2023 - 16:44
May 11, 2023 - 17:33
 0  45
تاریخی ہستی کون؟

 

تاریخی ہستی کون؟

                              " خالد انور پورنوی  

 

دنیامیں ہزاروں مخلوقات ہیں۔ہرایک کی صفتیں علیحدہ علیحدہ اورخاصیتیں بھی الگ الگ ہیں۔جمادات ہیں، نباتات ہیں،حیوانات ہیں اوراشرف المخلوقات یعنی انسان ہیں۔کسی میں احساس بھی ہے،ادراک اورارادہ بھی،کسی میں ایک بھی نہیں،کسی میں احساس ہے تو ارادہ نہیں،ارادہ ہے تو ادراک اورعقل وشعورنہیں،مگرسب ہیں اللہ کے بندےاوراللہ کی مخلوقات میں شامل ،خالق صرف اللہ کی ذات ہے،اس کے علاوہ کوئی نہیں۔

دنیاکاسارانظام اسی ذات واحدکے قبضہ قدرت اورتصرف میں ہے۔درخت کاایک پتہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی اجازت کے بغیرنہیں ہلتا۔پہاڑوں کے لعل وگہرکی پرورش بھی وہی کرتاہے،سمندرکی مچھلیوں کووہی پالتاہے،جنگل کے جانوروں کی بیماری ،گرمی وسردی کی دیکھ بھال وہی کرتاہے،بلکہ جن مخلوقات میں احساس،ارادہ اورادراک کی جتنی کمی ہے اتنی ہی قدرت الٰہی نے اس کی پرورش وحفاظت اورنشوونماکابوجھ خوداٹھائے ہوئے ہے،خودہی اس کی کفالت کرتی ہے اورغیب سے سامان رزق فراہم کرتی ہے۔

انسان میں احساس بھی ہے،ارادہ بھی ہے،ادراک اورعقل وشعوربھی ،اسی لئے ذات باری نے انہیں شریعت اسلامی کامکلف بنایاہے،اورامانت کابارگراں انہیں عطافرمایاہے۔اللہ نے ا نھیں دنیامیں یونہی نہیں بھیجا، بلکہ خلافت سے سرفرازفرماکرایک اہم مقصدکے تحت بھیجاہے۔اللہ قرآن کریم میں زمانہ کی قسم کھاکرارشادبھی فرماتا ہے:تمام کے تمام انسان گھاٹے میں ہیں،لیکن وہ لوگ جوایمان لائے اورنیک کام کیے۔

    انسانوں کی فلاح ،کامیابی، اورامانت کااحساس دلانے کے لیے نبیوں کاسلسلہ جاری فرمایا۔آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے لے کرخاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ تک لاکھوں اللہ کے فرستادہ،پیغمبراوررسول آئے،نمونہ کے طورپراپنی عملی زندگی انھوں نے پیش کی،کچھ لوگوں نے مانااورکچھ نے انکارکردیا۔

انبیاء کرام کے علاوہ بھی دنیاکی تاریخ میں ہزاروں شخصیتیں پیداہوئیں اوراپنی اپنی زندگیاں نمونہ کے طورپرپیش کیں۔فاتحین عالم کی پرجلال صفیں ہیں،شعراء کی بزم رنگیں،دولت مندوں کی کھنکھناتی تجوریاں، مقدونیہ کاسکندر،روم کاسیریز،ایران کادارا،یورپ کانپولین،سقراط،افلاطون،اوریونان کے دوسرے مشہور فلسفی، نمرود،فرعون ، ابوجہل، ابولہب اورقارون جیسی شخصیتوں کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔مگرتاریخ عالم گواہ ہے،انھوں نے اپنی طاقت اوراپنی بے پناہ صلاحیت کے ذریعہ دنیاکے طبقے توالٹ دیےلیکن کیا انسانیت کی فلاح وہدایت کے لیے کوئی نمونہ بھی چھوڑا؟روحانی مایوسیوں اورناامیدیوں کاکوئی علاج بتاسکے؟ بالکل نہیں، یہ باتیں صرف اورصرف انبیاء کرام ہی کی عملی زندگی میں ملیں گی۔

بڑے بڑے بادشاہ اورحکمراں دنیاکے اسٹیج پررونماہوئے،جنھوں نے پوری دنیاپرحکومت کی،قوموں کی جان،مال پروہ قابض ہوئے،ایک ملک کو اجاڑا،دوسرے کوبسایا،ایک سے چھینادوسرے کودیا،ان کی تلواروں کی دھاک نے آبادیوں اورمجمعوں کے مجرموں کو روپوش کردیالیکن چورے چھپے مجرموں کوبازنہ رکھ سکے،بازاروں اورراستوں میں تو امن وامان قائم کیا،لیکن دلوں کی بستی میں وہ امن وامان قائم نہ کرسکے، نظام مملکت تو انھوں نے درست کرلیالیکن روحوں کی مملکت کانظام ان سے درست نہ ہوسکا،اگرکسی نے انسانی روحوں اوردلوں پربادشاہت کی ہے تو وہ صرف ابنیاء کرام ہیں۔

سچ تویہ ہے کہ آج جہاں کہیں بھی اچھائی کانوراورنیکی کی روشنی ہے، جہاں کہیں بھی خلوص اورقلب کی صفائی کا اجالاہے،پہاڑوں کے غار،جنگلوں کے جھنڈ،شہروں کی آبادیاں،بلکہ جہاں بھی رحم،انصاف،غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش اورنیکیوں کاسراغ ملتاہے وہ ابنیاء کرام جیسی برگزیدہ جماعت کی دعوت اورپکارکادائمی اثرہے۔

بابل کے سب سے پہلے قانون سازبادشاہ حمورابی کے قانونی دفعات مدت ہوئی مٹی کے ڈھیرمیں دفن ہوگئے، مگرحضرت ابراہیم کی تعلیم آج بھی موجودہے،فرعون کی ندا"اناربکم الاعلیٰ"کتنے دن قائم رہی،مگرحضرت موسیٰ کے اعجازکازمانہ آج بھی معترف ہے،وہ رومن لاء جس نے حضرت عیسی کو عدالت میں گناہ گارٹھہرایاتھا،صدیاں گذرگئیں معدوم ہوچکا،مگرحضرت عیسیٰ کی تعلیم وہدایت آج بھی گنہگاروں کونیک اورمجرموں کوپاک بنانے میں مصروف ہے،مکہ کے ابوجہل،ایران کے کسریٰ ، روم کے قیصرکی حکومتیں مٹ گئیں ؛مگر شہنشاہِ مدینہﷺ کی فرماں روائی بدستورقائم ہے۔

لیکن تمام انبیاء کرام کی سیرت اورتعلیمات ایک خاص قوم اورخاص زمانہ تک کے لیےمحدود تھیں  اور جب وہ زمانہ ختم ہوگیاتوآہستہ آہستہ ان کی تعلیمات دنیاسے مفقودہوگئیں اوراگرموجودہیں بھی تواس کے کئی کئی نسخے ہیں اورزبردست اختلافات اورحذف واضافہ کے ساتھ پائے جاتے ہیں مگراللہ کے رسول ﷺکو جو تعلیمات دی گئیں،اس کاایک ایک حرف جوں کاتوں محفوظ ہےاورقیامت تک اسے باقی رہناہے۔ یہی مذہب اسلام کااعجازہےاوردیگرتمام آسمانی مذاہب کے منسوخ ہونے کی واضح دلیل بھی !!

عالمگیراورآفاقی مذہب صرف اسلام ہےاورمحمدمصطفیٰ ﷺ کی سیرت ہی دائمی نمونہ کاحق دارہے، یعنی کاملیت اورتاریخی ہونے کاشرف صرف نبی اکرم ﷺ کوہے،یہاں تک کہ ایک عیسائی مؤرخ اپنی کتاب The Hundredمیں سب سے پہلانام محمدﷺ کا لکھتاہے اورکہتاہے کہ:کسی کو حیرت اورتعجب نہ ہوکہ میں نے سب سے عظیم آدمی میں سب سے پہلانام ان کاکیوں ذکرکیا،چونکہ یہ واحدتاریخی ہستی ہے جو مذہبی اوردنیاوی دونوں محاذوں پربرابرطورپرکامیاب رہے۔

دنیامیں سب سے قدیم اورپرانے ہونے کادعویٰ ہندؤں کوہے،اگرچہ یہ بات مسلم نہیں ہے  لیکن اگر بغوردیکھیں تو ان کے مذہب میں سیکڑوں کیرکٹروں کے نام ہیں مگران میں سے کسی کو بھی تاریخی ہونے کامقام حاصل نہیں ہے،بلکہ ان میں سے بعضوں کے نام کے سواکسی اورچیزکاذکرتک نہیں ہے،ان میں سے بہت سے کیریکٹروہ ہیں جورامائن اورمہابھارت کے ہیروہیں،مگران کی زندگی کے واقعات کودیکھئے!یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ زمانہ کے کس دور،دورکی کس صدی اورصدی کے کس سال سے متعلق ہیں۔بلکہ یورپ کے محققین میں سے زیادہ ترتوان واقعات کوتسلیم ہی نہیں کرتے کہ یہ فرضی داستانیں کبھی عالم وجودمیں بھی آئی تھیں۔

قدیم ایشیاء کاسب سے وسیع مذہب بودھ ہے،جوکبھی ہندوستان ،چین،افغانستان،ترکستان،اورتمام ایشیائے وسطی تک پھیلاہواتھااوراب بھی برما،سیام،(تھائی لینڈ)چین،جاپان اورتبت میں موجودہے۔ہندوستان میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق0.84 کروڑہیں،مگردیکھیں تواس مذہب کے بانی کو بھی تاریخی مقام حاصل نہیں،اس لیےکہ بدھ کی زندگی چندقصے اورکہانیوں کے سواکچھ بھی نہیں،ہاں صرف یہ پتہ چلتاہے کہ نیپال کی ترائی میں ایک راجہ کالڑکاتھا،جوان ہوا،باپ بننے کے بعدچندمصیبت زدہ انسانوں پراس کی نظر پڑی اوروہ گھربارچھوڑکر چلا گیا۔بنارس،گیا،پاٹلی پتر،راجگیرکے شہروںاورکبھی جنگلوں اورپہاڑوں میں پھرتا رہا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے جا نے عمرکی کتنی منزلیں طے کیں اورپھرگیاکے ایک درخت کے نیچے انکشاف حقیقت کادعویٰ کیا ، بنارس سے پہاڑی علاقوں تک اپنے نئے مذہب کی تبلیغ کرتارہااورپھراس دنیاسے رخصت ہوگیااوربس!

دنیامیں تقریباًایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام آئے،مگران میں سے کتنوں کے نام ہم جانتے ہیں؟ جن کانام جانتے ہیں، ان میں سے کتنوں کے احوال ہمیں معلوم ہیں؟حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ، حضرت صالح،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق ،حضرت یعقوب ،حضرت زکریا،حضرت یحیٰ علیہم السلام کی سیرت کاایک حصہ ہمیں معلوم ہے،اس کے علاوہ کوئی بتاسکتاہے؟قرآن مجیدکوچھوڑکریہودیوں کے جن ا سفارمیں ان کے حالات درج ہیں ہرایک کی نسبت محققین کو مختلف شکوک ہیں اوراگرمان بھی لیں تو بھی ان کی زندگی ایک کامل انسانی زندگی کی تقلیداورپیروی کاسامان نہیں ہوسکتی ہے۔

حضرت موسیٰ کاحال ہمیں تورات سے معلوم ہوتاہے،مگروہ تورات جوآج موجودہے ،مصنفین انسائیکلوپیڈیاپرٹانیکاخودتسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مو سیٰ کے صدہاسال کے بعدعالم وجودمیں آئی ہے اور اگرتسلیم بھی کرلیں تو تورات کی پانچوں کتابوں سے صرف یہی سمجھ میں آتاہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کے گھرپرورش پائی،جوان ہوکرمظالم کے خلاف بنی اسرائیل کی مددکی،مصرسے بھاگ کرمدین آئے، شادی ہوئی،ایک زمانہ کے بعدواپس مصرچلے گئے،راستے میں نبوت سے سرفرازہوئے،فرعون کے پاس پہنچے،معجزات دکھلائے،اپنی قوم کولےکرمصرسے رخصت ہوئے،فرعون نے پیچھاکیا،غرق فرعون کاواقعہ پیش آیا،اپنی قوم کولےکرعرب وشام میں داخل ہوئے،بوڑھے ہوگئےاورایک پہاڑی پران کی وفات ہوگئی اوربس!

سب سے قریب زمانہ حضرت عیسیٰ کاہے،جن کے ماننے والے یورپین مردم شماری کے مطابق دوسرے مذاہب کے متبعین سے زیادہ ہیں،مگرحیرت یہ ہے کہ اسی مذہب کے پیغمبرکی زندگی کے اجزاسب سے کم معلوم ہوتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ کے احوال زندگی ہمیں انجیل سے معلوم ہوتے ہیں،مگرموجودہ انجیلوں کی روایتیں ہی غیرمعتبرہیں اوراگرمان بھی لیں تو ان سے صرف تین سالوں کی زندگی کاعلم ہوتاہے،وہ پیداہوئے،لڑکپن میں ایک دومعجزے دکھلائے،اس کے بعدوہ غائب ہوجاتے ہیں اورپھراچانک ۳۰؍برس کی عمرمیں پہاڑیوں پر اور دریاوں کے کنارے وعظ کے لیے نظرآتے ہیں،چندشاگردپیداہوتے ہیں،یہودیوں سے مناظرے ہوتے ہیں ، یہودی انھیں پکڑوادیتے ہیں،رومی گورنرکی عدالت میں مقدمہ پیش ہوتاہے،سولی دے دی جاتی ہے،(یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے)تیسرے دن ان کی قبران کی لاش سے خالی نظرآتی ہے،پچیس برس کازمانہ کہاں گذرا؟دنیاان سے ناواقف ہے اورتین برسوں کے واقعات میں چندمعجزے،مواعظ ،آخرسولی!اوربس!

توپھرکون ہے وہ عظیم ،کامل،جامع اورتاریخی ہستی جسے آئیڈیل کہاجائے؟مختلف طبقات انسانی کواپنی ہدایت اورروشنی کے لیے جن نمونوں کی ضرورت پڑتی ہے اس میں مل جائے؟ہرفردانسان کواپنے مختلف تعلقات، روابط اورفرائض وواجبات کواداکرنے کے لیے جن مثالوں کی حاجت ہووہ سب اس آئیڈیل زندگی کے آئینہ میں موجودہو؟وہ شخصیت صرف نبی کریم ﷺ کی ہے۔(بقیہ صفحہ 51پر)

اللہ کے حقوق ،بندوں کے حقوق،معاشرت اورسماج کے حقوق اوردیگرتمام حقوق کے بارے میں تفصیلات سوائے پیغمبراسلام کے کہیں نہیں مل سکتی ہیں،بلکہ حقوق العبادکے بارے میں تو محمدمصطفی ﷺ کے علاوہ دیگرتمام بانیان مذاہب کی سیرتیں خالی ہیں،بودھ نے تو اپنے تمام اہل وعیال اورخاندان کو چھوڑکر جنگل کاراستہ لے لیا،اپنی پیاری بیوی،اکلوتے بیٹے سے تعلق تک نہ رکھا،مگراللہ کے رسول سرکاردوعالم ﷺ کی سیرت میں ز ندگی کے تمام مسائل کاحل موجودہے جس کی ضرورت قیامت تک آنے والی انسانیت کورہے گی۔

نبی کریم ﷺ کی بعثت پوری دنیاکے لیے ہوئی،ہرفرد،قوم،جنات،انسان،چرندوپرندبلکہ تمام مخلوقات کے لیے آپ رحمت بن کر آئے۔مظلوموں،مجبوروں اورستائے ہوئے لوگوں کوآپ نے انصاف دیا،بے زبا ن جانوروں کے بارے میں یہاں تک حکم دیاکہ جب ذبح کروتوپہلے چھری کوتیزکرلو۔اگر ہمارے اندر ،ادراک ،احساس،عقل وشعور ہے تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ محمدمصطفی ﷺ کااس دنیامیں تشریف لاناقوم وملت کے لیے احسان عظیم ہے ،ورنہ سسکتی ہوئی انسایت دم توڑدیتی،مگر افسوس!ابھی تک کچھ لوگ ضد،عناد اور ہٹ دھرمی میں حقائق سے نظریں چرارہے ہیں اور سب کچھ جان کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔

 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow