بیواؤں اور مسکینوں کی خبر گیری

دین اسلام میں حقوق وفرائض کی جو تفصیلات ملتی ہیں ،اگر تفہیم کے لیے ان کی تقسیم کی جائے تو تین بڑےحقوق سامنے آتے ہیں:اللہ کے حقوق،بندوں کے حقوق اور انسان کے اپنے ذاتی حقوق۔ان تمام حقوق کی ادائیگی کی تاکید وتلقین کی گئی ہے۔اسی سے زندگی میں اعتدال پیدا ہوتاہے اورہم افراط وتفریط سے محفوظ رہتے ہیں۔دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں ان تینوں قسم کے حقوق کی ادائیگی میں اعتدال وتوازن پایا جاتا ہے

May 10, 2023 - 16:41
Jun 3, 2023 - 17:57
 0  34
بیواؤں  اور مسکینوں کی خبر گیری

 

بیواؤں  اور مسکینوں کی خبر گیری

                   "   رفیق احمد رئیس سلفی 

 

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ " وَأَحْسِبُهُ قَالَ : يَشُكُّ الْقَعْنَبِيُّ " كَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ " (1)

" سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔قعنبی نے کہا کہ میرا گمان ہےکہ مالک نے کہا:بیواؤں اور مساکین کے لیے  محنت اور کوشش کرنے والا اس تہجد گزار کی طرح ہےجو سستی نہیں کرتااور اس روزے دار کی طرح ہےجو مسلسل(نفلی) روزے رکھتا ہے،کبھی بغیر روزے کے نہیں رہتا۔"

دین اسلام میں حقوق وفرائض کی جو تفصیلات ملتی ہیں ،اگر تفہیم کے لیے ان کی تقسیم کی جائے تو تین بڑےحقوق سامنے آتے ہیں:اللہ کے حقوق،بندوں کے حقوق اور انسان کے اپنے ذاتی حقوق۔ان تمام حقوق کی ادائیگی کی تاکید وتلقین کی گئی ہے۔اسی سے زندگی میں اعتدال پیدا ہوتاہے اورہم افراط وتفریط سے محفوظ رہتے ہیں۔دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں ان تینوں قسم کے حقوق کی ادائیگی میں اعتدال وتوازن پایا جاتا ہے۔کہیں اللہ کے حقوق کو غصب کیا گیا ہے ، کہیں بندوں کے حقوق نظر انداز کیے گئے ہیں اور کہیں اپنی ذات کو فراموش کردیا گیا ہے۔اس فکری وعملی انحراف کے پیچھے غیر اسلامی افکار ونظریات اور عجمی تصوف کی کارفرمائی رہی ہے ۔

 آج بھی بہت سے مسلمان ہمیں ایسے مل جائیں گے جن کی زندگی میں اس طرح کے انحرافات موجود ہیں۔بعض حضرات اللہ کے حقوق ادا کرنے میں تو پیش پیش ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ذات پر ظلم کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق کی پروا نہیں کرتے۔اس کے بر عکس بعض لوگ بندوں کے حقوق کے سلسلے میں کافی حساس ہوتے ہیں لیکن وہ اللہ کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کرتے۔جب اصولی اعتبار سے ہم تمام مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کتاب وسنت سے عبارت ہے تو ہمیں یہ دیکھا چاہئے کہ کتاب وسنت کی تعلیمات کون کون سی ہیں اور وہ ہماری زندگی کے کن کن شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔آج سب سے بڑی  کمی اور کوتاہی جو مسلم سماج میں دیکھنے کو مل رہی ہے ،وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے صرف اپنی اپنی پسند کو اپنی دینی ترجیحات میں شامل کرلیا ہے۔اسلام کی جو تعلیم اور اس کا جو قانون ہمیں اپنی خواہش کے مطابق نظر نہیں آتا ہم اس پر نہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی کی گفتگو سننا چاہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم زندگی میں بہت سی باتوں کے بارے میں لا علم رہتے ہیں اور اسی حال میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ہماری نجات اس میں ہے کہ ہم مکمل اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر حسب استطاعت اور حسب توفیق اس پر عمل کریں۔عوامی سطح پر اس کمی کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری دینی مجلسیں اور دینی جلسے بھی بعض متعین موضوعات تک محدود ہوچکے ہیں۔اس غفلت سے ہمیں بیدار ہونا چاہئے اور علمائے اسلام سے درخواست کرکے زندگی میں کم سے کم ایک بار مکمل قرآن مجید اور حدیث شریف کی کوئی ایک مکمل کتاب ضرور سمجھنی چاہئے۔اسی سے مکمل اسلام کی تصویر ہمارے سامنے آسکے گی اور ہم اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر قابو پاسکیں گے۔

زیر مطالعہ حدیث کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔اس صحیح ترین متفق علیہ حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اس مسلمان کے اجروثواب کا تذکرہ فرمایا ہے جو بیواؤں اور مسکینوں کی دنیاوی حاجات وضروریات پوری کرنے میں مصروف رہتا ہے۔حدیث کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی خدمت خلق کا یہ کام کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کار خیر کے لیے آمادہ کرتا ہے۔یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے کیا جاسکتا ہے۔اسلامی حکومتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نیم سرکاری اور دوسرے رفاہی ادارے بھی اس کے مکلف ہیں۔جس آبادی میں یہ کام حکومتی سطح پر نہ ہورہا ہو اور نہ کوئی رفاہی ادارہ کام کررہا ہو ،وہاں انفرادی طور پر یہ کام کیا جانا چاہئے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر ایک ہی شہر میں کئی ایک ادارے بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں بلکہ بعض گھنی آبادیوں میں جہاں عام طور پر چھوٹے چھوٹے مکانات ہوتے ہیں،اگر اس قسم کے کئی ادارے اور افراد ہوں تو آسانی سے ضرورت مندوں کی پہچان کی جاسکتی ہے۔

خدمت خلق کے اس پہلو اور اس پر ملنے والے اجروثواب سے ہم سب واقف ہیں۔ملت کو اس کی ضرورت بھی ہے لیکن عملی طور پر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے جس سے مسلم معاشرے کے غریبوں اور بیواؤں کو سہارا مل سکےاور انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے در در بھٹکنا نہ پڑے۔اس بات سے انکار شاید نہ کیا جاسکے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی بحمداللہ ایسے اصحاب خیر ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنے پاس پڑوس کے غرباء ومساکین کا خیال رکھتے ہیں اور اگر کسی ضرورت مند کا انھیں پتا بتایا جائے تو اس تک مدد پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں۔لیکن یہ کام جس وسیع پیمانے پر ہونا چاہئے اور جس طرح تمام اصحاب خیر کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے،ہمارے سماج میں اس کی مثالیں کم یاب ہیں۔نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث پاک میں اہل اہمان کو ترغیب دی ہے کہ وہ بیواؤں اور مسکینوں کی خبر گیری کریں ،دوسرے اصحاب خیر کو بھی اس کار خیر کے لیے آمادہ کریں۔اپنے اس کام کو وہ کم اہمیت کا حامل نہ سمجھیں بلکہ اللہ انھیں اس کا اجرعظیم عطا فرمائے گا۔یہ اجرعظیم کسی طرح اس آدمی سے کم نہیں ہوگا جو بہ کثرت نفلی روزے رکھتا ہے اور نماز تہجد ادا کرتا ہے۔

آج دنیا میں عیسائیوں کے رفاہی ادارے طرح طرح کی خدمت انجام دیتے ہیں اور اس خدمت کو انھوں نے عیسائیت کی تبلیغ اور اشاعت کا ذریعہ بنادیا ہے۔غریب ملکوں،شہروں اور بستیوں کو وہ بطور خاص نشانہ بناتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے دین سے ناواقف بہت سے مسلمان ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں اور اسلام کو ترک کرکے عیسائیت قبول کرلیتے ہیں۔ظاہر ہے یہ صورت حال امت مسلمہ کے لیے حددرجہ تشویش ناک ہے ۔ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ایسے کمزور طبقات پر نظر رکھے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے۔اپنے ملک میں جس طرح ملت نے دینی تعلیم کے فروغ کے لیے جگہ جگہ مدارس وجامعات قائم کیے ہیں ،اسی طرح غرباء ومساکین کی فلاح وبہبود کے لیے رفاہی اداروں کا قیام بھی ضروری ہے۔یہ ادارے اگر شہروں میں قائم کیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا کیوں کہ شہروں میں تجارت پیشہ اور اصحاب ثروت مسلمان خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور ان سے تعاون آسانی سے مل سکتا ہے۔بلکہ شہروں میں استعمال شدہ کپڑے اور دوسری استعمال شدہ چیزیں کافی مقدار میں جمع کی جاسکتی ہیں جو غریب علاقوں میں ضرورت مندوں کے کام آسکتی ہیں۔لیکن اس کے لیے مخلص اور محنتی افراد کی ضرورت ہے۔ذمہ داران اور سرپرستوں کے علاوہ ایسے رفاہی اداروں میں باتنخواہ افراد رکھیں جائیں جو ادارے کی تمام ذمہ داریاں انجام دیں۔

آج دنیا میں کتنے لوگ ہیں جن کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا ،بیمار ہوجائیں تو علاج معالجے سے محروم رہتے ہیں اور موسم کے مطابق جن کے بدن پر کپڑے نہیں ہوتے۔نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس پہلو سے ملت کے غریبوں ،بیواؤں ،یتیموں اور بیماروں کی خدمت کریں۔ہمیں اللہ تعالیٰ اس کا بے حساب اجروثواب دے گا۔

حاشیہ:

(صحیح البخاری،رقم الحدیث:6007,6006,5353،صحیح مسلم،رقم الحدیث: 2982 )

 

 

 

 

 

 

  

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow