صحیح ابن خزیمہ ایک مختصر تعارف
جن محدثین نے صحیح احادیث کے جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے،ان میں ایک اہم نام امام ابن خریمہ رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ان سے قبل امام مالک ،امام بخاری، امام مسلم۔اور ان کے بعد امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہم اللہ نے بھی صحیح حدیثوں کے اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا۔ اللہ تعالی نے ان محدثین کرام کے اخلاص وللہیت کی وجہ سے ان کی کتابوں کو باقی رکھا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ ایک مختصر تعارف
"…آصف تنویر تیمی
جن محدثین نے صحیح احادیث کے جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے،ان میں ایک اہم نام امام ابن خریمہ رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ان سے قبل امام مالک ،امام بخاری، امام مسلم۔اور ان کے بعد امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہم اللہ نے بھی صحیح حدیثوں کے اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا۔ اللہ تعالی نے ان محدثین کرام کے اخلاص وللہیت کی وجہ سے ان کی کتابوں کو باقی رکھا ہے۔ صدیوں سے ارباب علم وفن ،اور شائقین حدیث ان کتابوں سے استفادہ کرتے آرہے ہیں۔ اور ان شاء اللہ قیامت تک مستفید ہوتے رہیں گے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور اسی طرح موطا امام مالک سے متعلق کافی کچھ لکھا گیا ہے۔ اور مدارس وجامعات میں باضابطہ ان کتابوں کو پڑھایا بھی جاتا ہے، جس سے علماء وطلبا ان کتابوں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کے علاوہ جو صحیح حدیثوں پر مشتمل سلف کی کتابیں ہیں،ان سے بہت کم طلبہ متعارف ہوپاتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتابیں بھی اہم ہیں، ان کی بھی حیثیت مرجع اور مصدر کی ہے،اگرچہ مقام اور درجے کے اعتبار سے صحیحین کے مثل نہیں ہیں۔
میری ایک کوشش ہے کہ علماء اور طلبہ کو سلف کے ان کتابوں سے متعارف کرایا جائے، جو عام طور پر شامل نصاب نہیں ہوتیں۔ چنانچہ ذیل کے سطور میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی کتاب سے متعلق چند اہم معلومات پیش کی جاتی ہیں۔
کتاب کا نام: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی مشہور تصنیف"النکت الظراف" میں لکھتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ نے خود اپنی صحیح کا نام"المسند الصحیح المتصل بنقل العدل عن العدل من غیر قطع فی السند، ولا جرح فی النقلۃ" رکھا ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے چونکہ اپنی اس کتاب میں 'صحیح' کی شرط لگائی ہے۔ اس لئے اختصار کے ساتھ اسے"صحیح ابن خزیمہ" کہا جاتا ہے۔
کتاب کی تالیف میں آپ کا منہج: احادیث کی کتابوں کی تالیف میں آپ کا ایک خاص طریقہ یہ نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنی اکثر کتابیں طلبہ کو املا کرائی ہیں۔ جس کی وضاحت خود آپ نے اپنی کتابوں میں جابجا کی ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں بھی متعدد مقامات پر’’قد املیتہ‘‘(میں نے املا کرایا ہے) جیسے جملے موجود ہیں۔
صحیح ابن خزیمہ کا علمی مقام ومرتبہ: "شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان اور مستدرک علی الصحیحین یہ تینوں کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بعد اہمیت کی حامل ہیں"۔(1)گویا صحیح ابن خزیمہ کا مقام صحیحین کے بعد ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:"صحیح حدیثیں صحیحین کے علاوہ ان کتابوں میں بھی ہیں،جن کے مؤلفین نے اپنی کتاب میں صحت کا التزام کیا ہے،جیسے:ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمہ اللہ کی کتاب"۔
ایسے ہی امام سیوطی رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمہ کی تعریف کرتے ہوئے اسے صحیح ابن حبان پر فوقیت دی ہے۔ حالانکہ معروف محقق شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ نے اس پر امام سیوطی کی گرفت کی، اور کہا کہ صحیح ابن خزیمہ میں بہت ساری ضعیف اسناد بھی موجود ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اپنی کتاب میں صحت کا اہتمام کیاہے۔اور یہ دونوں کتابیں مستدرک حاکم سے کئی گنا سند اور متن کے اعتبارسے بہتر ہیں۔ اس کے بعد ان کتابوں پر غور وفکر اور تحقیق وجستجو کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ بہت ساری حدیثیں جن پر ان کے مصنفین نے صحت کا حکم لگایا ہے حسن کے درجے سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔
خلاصے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صحیح ابن خزیمہ صحیحین کے مقام اور مرتبہ تک ہرگز نہیں پہنچتی اور نہ ہی اس کی ساری حدیثیں صحیح ہیں، بلکہ اس صحیح اور غیر صحیح دونوں طرح کی حدیثیں ہیں۔
امام ابن خزیمہ کی علمی باریکی: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ حدیث کے جمع کرنے،حدیث پر حکم لگانے،راوی پر کلام کرنے میں بڑے محتاط تھے۔ پوری تحقیق اور تلاش کے بعد کسی راوی یا کسی حدیث پر حکم لگاتے تھے۔ اگر کسی راوی سے متعلق معمولی شک اور شبہ ہوتا تو حدیث پر حکم لگانے سے گریز کرتے۔ جس کی بہت ساری مثالیں صحیح کے اندر موجود ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف کتاب کے محقق ڈاکٹر مصطفی اعظمی اور ان سے پہلے امام سیوطی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے۔ ایک جگہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ محض اس وجہ سے حدیث پر صحت کا حکم لگانے سے خاموش رہے کہ ہوسکتا ہے کہ راوی محمد بن اسحاق نے محمد بن مسلم سے براہ راست نہ سنا ہے، اور محمد بن اسحاق نے تدلیس سے کام لیاہو۔(2)ایک جگہ لکھتے ہیں:" میں کسی کے لئے جائز نہیں قرار دیتا کہ وہ میری سند سے اس صیغہ کے علاوہ کسی صیغہ سے روایت کرے، یہ سند مقلوب ہے"۔(3)
صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں فرق: اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ دونوں کتابیں مستقل ہیں۔ کوئی کسی سے ماخوذ نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ کتابیں ایک ہی زمانے میں لکھی گئیں، دونوں کے مؤلف معاصر تھے، لیکن دونوں نے اپنی اپنی کتابیں الگ الگ لکھیں۔ اسی قول کی تائید علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے کی ہے۔
لیکن بعض محدثین کا یہ بھی ماننا ہے کہ صحیح ابن حبان کا اکثر وبیشتر حصہ امام ابن خزیمہ کی کتاب'صحیح ابن خزیمہ' سے ماخوذ ہے۔ حالانکہ یہ قول مبنی برانصاف نہیں ہے۔ بلکہ کئی اعتبار سے صحیح ابن حبان کا پلڑا صحیح ابن خزیمہ پر بھاری لگتا ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ امام ابن خزیمہ امام ابن حبان کے استاد ہیں۔ ابن حبان کے بنانے سنوارنے میں ابن خزیمہ کا کافی ہاتھ ہے۔ لیکن حقائق کے اعتراف میں کسی تعصب اور جانبداری سے کام نہیں لیا جاسکتا۔
'صحیح' کی شرط کے اعتبارسے بھی ابن حبان کی شرط ابن خزیمہ کے مقابلے میں زیادہ باریک اور جامع ہے۔علم حدیث کے میدان میں بھی ابن حبان کا رتبہ ابن خزیمہ سے بڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ رواۃ(ثقات،ضعفا) پر ایک سے زائد ان کی تصنیفات ہیں۔ صحیح ابن حبان میں کُل حدیثوں کی تعداد(۷۴۹۵) ہے۔ جس میں سے(۳۰۱) حدیثوں کی روایت ابن حبان نے اپنے استاد ابن خزیمہ سے کی ہے۔ اور بقیہ احادیث کے راوی اور سند الگ ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کتاب صحیح ابن خزیمہ سے ماخوذ ہے۔
صحیح ابن خزیمہ سے متعلق کتابیں: صحیح ابن خزیمہ سے متعلق مستخرج(وہ کتاب جس میں مولف کسی کتاب کی احادیث کی تخریج کرتا ہے لیکن اپنی سندوں کے ساتھ، اس کے مصنف کی سندوں کو چھوڑ کر۔اور بسا اوقات یہ اس کے شیخ یا اوپر کسی طبقہ میں اس سے مل جاتا ہے ) کے طور پر۔ایسے ہی ابن المقلن نے صحیح ابن خزیمہ کے رجال کو بھی مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم، سنن الدارقطنی اور بیہقی کے رجال کی طرح اپنی کتاب' مختصر تہذیب الکمال' میں ذکر کیا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ کے اطراف (ہر وہ کتاب جس میں مولف ہر حدیث کی طرف(ایک حصہ) ذکر کردیتا ہے جو باقی حدیث پر دلالت کرتا ہے پھر ہر ایک متن کی سند بیان کرتا ہے یا تو مکمل استیعاب کے ساتھ یا ایک کتاب سے مقید کرکے)کو بھی اپنی مشہور کتاب'اتحاف المھرۃ بأطراف العشرہ' میں بیان کیا ہے۔ اور جن دس کتابوں کے اطراف حدیث اس میں ذکر کئے گئے ہیں ان میں موطا، مسند شافعی، مسند احمد، دارمی، ابن خزیمہ، منتقی ابن جارود، صحیح ابن حبان، مستخرج ابو عوانہ، مستدرک حاکم، شرح معانی آثار اور سنن الدارقطنی ہے۔
صحیح ابن خزیمہ کے رواۃ: پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کن لوگوں نے یہ کتاب امام ابن خزیمہ سے سنیں اور روایت کیں۔ لیکن بعض شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صحیح ابن خزیمہ کے مشہور راوی خود امام ابن خزیمہ کے پوتے ابوطاہر بن الفضل ہیں۔ اور پھر ابوطاہر سے متعدد افراد نے روایت کی ہے جن میں ابوسعید کنجروذی، ابوسعید مقری، محمد بن محمد بن عیسی وراق، ابومظفر قشیری، ابوالقاسم غازی، اسماعیل صابونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اخیر میں اس سچائی کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ صحیح ابن خزیمہ کا اکثر حصہ ایک زمانے سے مفقود ہے۔ اس کا جو حصہ یا جو نسخہ دستیاب ہے اس کی تحقیق اور اس پر تعلیق معروف ہندوستانی محدث ڈاکٹر مصطفی اعظمی رحمہ اللہ نے لگائی ہے۔ موجودہ نسخہ میں کُل احادیث کی تعداد ۳۰۷۹ ہے۔ جو چار جلدوں میں شائع ہے۔ اور آخری جلد میں فہرست بیان کی گئی ہے۔
حواشی:
1۔(مقدمہ صحیح ابن حبان ص6۔7)
2۔(صحیح ابن خزیمہ1/17)
3۔(صحیح ابن خزیمہ 1/922)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟