دعوت کے ادوار
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تدریجی دعوتی سلسلہ بہت ہی منطقی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو دعوت دیتے رہے مکہ سے نہیں نکلے یہاں تک کہ اس دین متین کی دعوت کو جاری رکھتے ہوئے مکمل دس سال پورے کئے۔ اس کے بعد طائف میں قبیلہ ثقیف کا رخ کیا جو عرب میں نسبی سسرالی اور پڑوسی کے اعتبار سے قریش کا سب سے قریبی قبیلہ تھا ۔
دعوت کے ادوار
"… محمد عرفان ثناء اللہ مدنی
سیرت نبوی اسلام کی تمام تعلیمات کا مغز اور روح ہے کوئی بھی عالم یا طالب علم اسے نظر انداز کر کے بے نیاز نہیں ہوسکتا ، یہ پھیلے ہوئے اس بڑے درخت کی طرح ہے جسکا ہر پھل پختہ ہے اور ہر کوئی اپنے مناسب سے اس درخت سے توڑتا ہے اسی طرح ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ دنیاوی مسائل کو حل کرنے اور آخرت کی زندگی سدھارنے کے لیے سیرت نبوی کو لازم پکڑے اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا :" يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا"(1)
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آ پہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دی ہے ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر گوشے کے لیے ایک بہترین قدوہ اور نمونہ ہے اللہ تعالی نے فرمایا :" لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ" اس لیے دعوت کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے وہ طریقہ اور منہج اختیار کریں جس پر رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دی جیسے۔
1۔ گھروالوں یعنی بیوی بچوں کو دعوت دینا: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوئی :" يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۱ۙقُـمْ فَاَنْذِرْ۲"(2) اور تبلیغ کا حکم ہوا تو یہ بالکل فطری بات تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ان لوگوں پر اسلام پیش کرتے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے گہرا ربط وتعلق تھا (یعنی اپنے گھر انے کے لوگوں اور دوستوں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے انہیں کو دعوت دی ، اس طرح آپ نے ابتداء میں اپنی جان پہنچان کے لوگوں کو حق کی طرف بلایا ، جن کے چہروں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی دیکھ چکے تھے ، اور یہ جان چکے تھے کہ وہ حق اور خیر کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق وصلاح سے واقف ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنہیں اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک ایسی جماعت نےجسے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ، جلالت نفس اور سچائی پر شبہ نہ گذراتھا۔ آپ کی دعوت قبول کرلی ، یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے وصف سے مشہور ہیں ، ان میں سر فہرست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلد، آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ، آپ کے چچیرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب (جو ابھی آپ کی زیر کفالت تھے )(3)
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں کودعوت دی اور تمام لوگ اسلام لائے ۔ اور اللہ تعالی کا یہی حکم تھا فرمایا :" يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا "(4)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ۔
دوسری جگہ فرمایا :" اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ"(5)
ترجمہ: کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔
نیز اللہ تعالی ایسے لوگوں پر سخت ناراض ہوتا ہے جو خیر کی باتیں کہتے ہیں مگر کرتے نہیں، جو منہ سے نکالتے ہیں اسے پورا نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :" كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ"(6) ترجمہ: تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔
2۔قرابت داروں کو دعوت دینا: انسان جب خود اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لے تو پھر انپے خاندان اور قبیلے میں دعوت دے جیسا کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا "وانذر عشیر تک الاقربین"(7)ترجمہ: اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے۔
اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یا صباحا کہہ کر آواز دی یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے ، تو کیا تم مانوگے ؟ سب نے کہا ہاں ! یقینا ہم تصدیق کریں گے، آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا تیری ہلاکت ہو ، کیا تونے ہمیں اسی لیے بلایا تھا ، اس کے جواب میں سورۃ تبت نازل ہوئی ۔(8)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تدریجی دعوتی سلسلہ بہت ہی منطقی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو دعوت دیتے رہے مکہ سے نہیں نکلے یہاں تک کہ اس دین متین کی دعوت کو جاری رکھتے ہوئے مکمل دس سال پورے کئے۔ اس کے بعد طائف میں قبیلہ ثقیف کا رخ کیا جو عرب میں نسبی سسرالی اور پڑوسی کے اعتبار سے قریش کا سب سے قریبی قبیلہ تھا ۔
3۔ دعوت عامہ: اپنی، اپنے گھر کے لوگوں اور کنبے وقبیلے کی اصلاح کے بعد یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا کے عام لوگوں میں اسلام اور توحید کی دعوت کو عام کرے ۔ آپ ہجرت کے بعد مدینہ میں سکونت پذیر ہوئے اور جہاد فرض ہوا تو اسلام کی نشر واشاعت کے لیے عرب قبائل کی طرف وفد بھیجتے اور کبھی خود نکلتے اس طرح پورے جزیرہ عرب میں اسلام عام ہوا حتی کہ وفات سے قبل شام کے اطراف میں جنگ کے لیے اسامہ بن زید کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا جو شام وعراق کی فتح یابی کی طرف ایک مبارک قدم تھا ۔
حواشی:
1۔(النساء:4/174)
2۔(المدّثر:74/21)
3۔(الرحیق المختوم:115)
4۔(التحریم:66/6)
5۔(البقرۃ:2/44)
6۔(الصف:61/3)
7۔(الشعراء:26/214)
8۔(صحیح البخاری:4801)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟