والدین کے متعلقین کے ساتھ حسن سلوک
کتاب وسنت میں والدین کے حقوق کی ادائیگی پر کافی زور دیا گیا ہے اور کئی پہلووں سے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان حقوق میں ان کی عزت اور ان کا احترام بھی شامل ہے اور ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی،ان سے نرمی سے گفتگو کرنی ہے اور ضعیفی کی وجہ سے اگر ان کے مزاج میں سختی اور چڑچڑاپن پیدا ہوجائے تو اسے برداشت بھی کرنا ہے۔آج کی مادی دنیا میں جب کہ ہر شخص اپنی ذات میں محصور ہوکر رہ گیا ہے،
والدین کے متعلقین کے ساتھ حسن سلوک
"… رفیق احمد رئیس سلفی
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَعْرَابِ لَقِيَهٗ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللّٰهِ , وَحَمَلَهٗ عَلٰى حِمَارٍ كَانَ يَرْكَبُهٗ ، وَأَعْطَاهُ عِمَامَةً كَانَتْ عَلٰى رَأْسِهِ ، فَقَالَ ابْنُ دِينَارٍ : فَقُلْنَا لَهٗ : أَصْلَحَكَ اللّٰهُ، إِنَّهُمُ الأَعْرَابُ يَرْضَوْنَ بِالْيَسِيرِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰهِ : إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ : " إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ۔(1)
"عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کرتے ہیں کہ مکہ کے راستے میں ایک دیہاتی ان سے ملا،سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے سلام کیا اور خود جس گدھے پر سوار تھے،اسے بھی بٹھالیا۔مزید یہ کہ اپنے سر پر جو عمامہ باندھے ہوئے تھے،اتار کر اسے دے دیا۔ابن دینار کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر ہم نے ان سے عرض کیا:اللہ آپ کو خوش رکھے ،یہ دیہاتی لوگ ہیں ،بہت کم چیزوں میں راضی ہوجاتے ہیں۔اس کے جواب میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اس شخص کا باپ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دوست تھااور میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اولاد اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرے"۔
کتاب وسنت میں والدین کے حقوق کی ادائیگی پر کافی زور دیا گیا ہے اور کئی پہلووں سے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان حقوق میں ان کی عزت اور ان کا احترام بھی شامل ہے اور ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی،ان سے نرمی سے گفتگو کرنی ہے اور ضعیفی کی وجہ سے اگر ان کے مزاج میں سختی اور چڑچڑاپن پیدا ہوجائے تو اسے برداشت بھی کرنا ہے۔آج کی مادی دنیا میں جب کہ ہر شخص اپنی ذات میں محصور ہوکر رہ گیا ہے،والدین کی خدمت واطاعت کا معاملہ بہت کمزور پڑگیا ہے۔مغرب کی آزاد خیالی اور اس کے مادی افکار نے بھی والدین کی خدمت کے معاملے میں بے راہ روی پیدا کی ہے۔اب ہمارے بہت سےمسلم نوجوان بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں ۔والدین کس حال میں ہیں،کس طرح اذیتیں برداشت کررہے ہیں اور اپنی اولاد کو ایک نظر دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں ،اس کی انھیں کوئی فکر نہیں ہے۔قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی تعلیمات ان کے سامنے ہیں ،لیکن ان پر عمل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ہم نے اپنی دین داری اور ترجیحات کو اپنی خواہشات کا پابند بنالیا ہے۔بعض علماء اور فضلاء کے تعلق سے جب یہ بات سننے میں آتی ہے کہ وہ بھی اپنے والدین کے معاملے میں کتاب وسنت سے ناواقف حضرات کی طرح بے حسی کا شکار ہیں تو تکلیف دوچند ہوجاتی ہے کہ پھر معاشرے کو روشنی کون دکھائے گا اور مسلم عوام کی صحیح رہنمائی کیوں کر ہوسکے گی۔
زیر مطالعہ حدیث میں والدین کی خدمت کے مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے دکھایا گیا ہے۔دنیا کے کسی بھی مذہب میں شاید یہ تعلیم اس قدر واضح نہ ہو جس قدر اسلام نے واضح کی ہے اور وہ یہ ہےکہ سعادت مند اولاد کو نہ صرف اپنے والدین کی خدمت واطاعت کرنی چاہئے بلکہ والدین کے متعلقین اور دوستوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ ہم دردانہ اور حسن سلوک کا ہونا چاہئے۔خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے لیے دنیا میں زندہ نہ ہوں۔اپنی زندگی میں اپنے متعلقین کے ساتھ جو حسن سلوک وہ کررہے تھے،ان کی وفات کے بعد اس کا تسلسل ان کی اولاد کے ذریعے باقی رہنا چاہئے۔
زیر مطالعہ حدیث میں خلیفۂ ثانی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا واقعہ بیان ہوا ہے۔واقعہ کے عینی شاہد کا بیان ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ کے کسی راستے پر اپنے گدھے پر سوار ہوکر جارہے تھے۔راستے میں انھیں ایک بدوی ملا جسے پہلے تو انھوں نے سلام کیا جو اسلام کا ایک عظیم شعار ہے۔وہ پیدل تھا،اسے اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنا عمامہ بھی اسے پہنادیا۔عینی مشاہد نے جب اس پر یہ کہہ کر اظہار تعجب کیا کہ اس بدوی کے ساتھ اتنا کچھ کرنے کی ضرورت کیا تھی ،یہ تو بہت معمولی چیز دینے پر بھی خوش ہوجاتا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جانتے ہو یہ کون ہے؟یہ میرے والد محترم کے دوست کا بیٹا ہے ۔میرے والد ہوتے تو وہ بھی اس کے ساتھ یہی کرتے جومیں نے کیا ہے اور ہمارے نبی ﷺ کی تعلیم بھی یہی ہے کہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہےکہ والدین کے متعلقین کے ساتھ سعادت مند اولاد کو اچھا برتاؤ کرنا چاہئے،وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث رسول پر صحابۂ کرام کس طرح عمل کرتے تھے اور اس سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر کس قدر صاف اور واضح تھا۔اس معاملے میں ویسے بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت بڑی بے مثال ہے۔اگر کتب احادیث سے ان کے اس طرح کے واقعات جمع کیے جائیں تو خاصی کتاب بن جائے گی۔سنت وحدیث کے معاملے میں یہی فکر وعمل مطلوب ہے۔ہمارے یہاں بعض فقہی مکاتب فکر میں احادیث سے ثابت شدہ اعمال وافعال کی درجہ بندی کرکے جس طرح کسی کو اہم اور کسی کو غیر اہم بنادیا گیا ہے،وہ عملی زندگی کے لیے بہت زیادہ مفید نہیں ہے بلکہ اس سے ایک مسلمان کا جذبۂ اتباع سنت کمزور پڑجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کی زندگی سے بہت سی سنتیں رخصت ہوجاتی ہیں۔صحابہ کرام کا جذبۂ اتباع سنت ہمارے لیے ایک نمایاں مثال ہے۔صبح وشام کی زندگی میں کئی ایک مسائل ایسے سامنے آتے ہیں جن میں ہمیں نبی اکرم ﷺ کے اسوے سے روشنی ملتی ہے لیکن ہم اس کا خیال بہت کم رکھ پاتے ہیں۔اٹھنے بیٹھنے،کھانے پینے اور سونے جاگنےکی کتنی سنتیں ہیں جو ہمیں یاد بھی نہیں رہتیں۔ان سنتوں کے بارے میں اس طرح کا سوال بے معنی ہے کہ کیا ایسا کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے سے ہم گنہ گار بن جائیں گے۔
حدیث میں جو واقعہ مذکور ہے،اسی کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے اس بدوی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا ضروری تھا،ہماری فقہی موشگافیاں ہمیں یہ بتائیں گی کہ نہیں ،اگر کرلیا تو ٹھیک ہے ،نہیں کیا تب بھی کوئی حرج نہیں۔صحابہ کرام کی سیرت اور ان کے آثار واقوال سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے نسبت رکھنے والی کوئی بھی چیز ہو چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی،بظاہر اہم معلوم ہوتی ہو یا غیر اہم،ایک مسلمان کے لیے قابل ترجیح ہے۔اسے لپک کر ایسے کاموں کو انجام دینا چاہئے جو نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے صادر ہوئے ہیں۔آج بہت سے لوگ نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ اپنے مقابلے میں دوسروں کی محبت رسول کو کم تر سمجھتے ہیں۔لیکن ان "معصوم "لوگوں سے اگر یہ معلوم کریں کہ پھر محبوب کی ایک ایک ادا پر جان کیوں نہیں دیتے ،محبوب کی ایک ایک سنت کی اتباع کیوں نہیں کرتے،تمھاری عبادات نبیﷺ کی بعض سنتوں سے کیوں خالی ہیں،تم معاملات زندگی میں اسوۂ رسول ﷺ کی تلاش کیوں نہیں کرتے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جس قرآن مجید کو ہمارے نبی ﷺ نے دین کی اساس اور بنیاد بنایا ہے ،اس کا ترجمہ اور تفسیر کیوں نہیں عام کرتے؟ظاہر ہے کہ ان باتوں کا ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ وہ یہی کہیں گے کہ ہم دین کو ائمہ وفقہاء کی نظر سے دیکھتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی تقلید کرتے ہیں۔کیا یہ جواب محبت رسول ﷺ کی میزان پر پورا اترتا ہے؟
حاشیہ:
1۔ (صحیح مسلم:2554,2553،سنن الترمذی:1903،سنن أبی داود:5143)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟