"جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو پانی کے برتن میں ہاتھ نہ ڈالے"
ان فوائد کا ذکر کرنے کا بعد انہوں نے مزید کہا کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہےکہ نیند سے جاگنے کے بعد ہاتھ دھونے سے قبل پانی میں ہاتھ ڈالنا منع ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے ۔ لیکن جمہور متقدمین ومتاخرین علماء کی رائے یہ ہےکہ یہ ممانعت تنزیہی ہے ممانعت تحریمی نہیں ۔ اس لیے اگر کوئی اس حکم کے برعکس اپنا ہاتھا پانی میں ڈال دیتا ہے تو وہ پانی فاسد نہیں ہوجاتا اور نہ ڈالنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ (4)
"جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو پانی کے برتن
میں ہاتھ نہ ڈالے"
"… عبد الرقیب بن رضاء الکریم مدنی
اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے جس میں شعبہ حیات کے تمام گوشوں کے بارے میں ہدایات موجود ہیں ، یہاں تک کہ روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور ان کا حل بھی اس دین رحمت میں بخوبی بتلا یا گیا ہے۔ اسی سلسلہ کا ایک کثیر الحاجت مسئلہ یہ ہےکہ انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو عموما وہ ہاتھ ومنہ صاف کرتا ہے یا قضائے حاجت کے لیے جاتا ہے اور اس وقت اسے پانی کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور وہ پانی یا تو نل وغیرہ سے استعمال کیا جاتا ہے یا کسی بھی برتن سے لیا جاتا ہے۔اگر وہ پانی کسی برتن میں ہو تو نیند سے جاگنے والا انسان یا وہ شخص جس کے ہاتھ میں گندگی لگی ہوئی ہے وہ کس کیفیت سے اس پانی کا استعمال کرے گا، اس کا شرعی طریقہ اور حکم کیا ہے؟ ہم اس مختصرمضمون میں اسی حکم کو ایک صحیح حدیث کی روشنی میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وما توفیقی الا باللہ۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:" إذا استیقظ أحدکم من نومہ، فلا یغمس یدہ فی الإناء حتی یغسلھا ثلاثا فإنہ لا یدری أین باتت یدہ"(1)
ترجمہ: ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین مرتبہ دھو نہ لے ، کیونکہ وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کا ہاتھ کہاں رات بتا یا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے حدیث کی توضیح وتشریح کا آغاز یوں کیا ہےکہ حجاز کے باشندے قضائے حاجت کے بعد عموما استجمار یعنی پتھر وغیرہ سے پاکی حاصل کرتے تھے اور چونکہ ان کا ملک گرم ملک ہے اس لیے جب وہ سوتے تھے تو جسم کاپسینہ پسینہ ہونا معقول تھا بنا بریں سونے والا کا ہاتھ گندگی سے مامون نہیں ہوتا ۔
انہوں نے حدیث کے تحت سب سے پہلے جس مسئلہ کا استنباط فرمایا ہے وہ یہ ہےکہ:
(1) ماء قلیل (تھوڑا پانی) میں اگر نجاست گرجائے تو وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے گرچہ ناپاکی کا مقدار کم ہو اور نجاست گرنے سے اس پانی کے اندر رنگ، بو اور ذائقہ مین فرق نہ آیا ہو کیونکہ رات میں سوتے وقت ہاتھ میں جو کچھ لگنے کا خدشہ ہے وہ بہت ہی معمولی ہے اس کے باوجود اگر ہاتھ دھونے کا حکم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہےکہ ماء قلیل تھوڑی سی نجاست کی بنیاد پر ناپاک ہو جاتا ہے۔
یادر ہےکہ مذکورہ موقف یعنی تھوڑا سا پانی میں اگر تھوڑی سی نجاست گرجاتی ہے اور اس بنیاد پر اس پانی کے رنگ بو اور ذائقہ میں کوئی فرق نہیں آتا ہے تو وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔ مگر امام مالک اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور انکا شاگردابن القیم اور بہت سارے معاصر محققین کے مطابق ماء قلیل میں اگر نجاست قلیلہ گر جائے جس بنیاد پر پانی کے رنگ ، بو اور ذائقہ میں کوئی فرق نہ آئے تو وہ پانی پاک سمجھاجائے گا۔(2)
مناسب معلوم ہوتا ہےاس موقع پر مسئلہ ھذا کے بارے میں لجنہ دائمہ کا فتوی نقل کردیا جائے، انہوں نے کہا : پانی کی اصلی حالت یہ ہےکہ وہ پاک اور طاہر ہوتا ہے ۔ نجاست گرنے سے جب اس کا رنگ مزہ اور بو بدل جاتا ہے تو وہ نجس یعنی ناپاک ہوجاتا ہے چاہے پانی کم ہویا یا زیادہ ۔ اور نجاست گرنے سے اگر اس پانی میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو وہ پانی پاک سمجھا جائے گا۔(3)
(2)نجاست پر پانی ڈالنا اور پانی میں نجاست گرنا دونوں میں فرق ہے۔ جب پانی میں نجاست گرتی ہے تو وہ پانی کو ناپاک کردیتی ہے اور جب نجاست پر پانی ڈالا جاتا ہے تو وہ پانی نجاست کو صاف کردیتا ہے۔
(3) سات مرتبہ دھونے کا حکم ہر نجاست کی طہارت کے لیے عام نہیں ہے بلکہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت ہے جب کتا کسی برتن میں منہ ڈالتا ہے ۔
(4) استنجاء کی جگہ پتھر سے صاف کرنے سے مکمل صاف نہیں ہوتا بلکہ اس میں نجاست رہتی ہے مگر نماز کے لیے وہ نجاست معفوعنہ ہے۔
(5) نجاست کو تین تین بار دھونا مستحب ہے کیونکہ وہمی مسئلہ میں اگر تین بار دھونے کا حکم ہے تو تحقیقی مسئلہ میں بدرجہ اولی تین بار ہونا چاہئے (اشارہ اسی امر کی طرف ہے کہ نیند کے وقت ہاتھ میں گندگی لگنا یقینی نہیں ہے بلکہ لگ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔ چنانچہ معاملہ شک کا ہے یقین کا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر نجاست لگنے میں شک ہے اس کے باوجود بھی اگر اسے تین تین بار دھونے کا حکم ہے تو نجاست لگنے میں اگر یقین ہوجائے تو بدرجۂ اولٰی تین بار دھونا چاہئے۔
(6) وہمی اور مشکوک نجاست کو تین تین بار دھونا چاہئے۔
(7) مشکوک نجاست کی طہارت کے لیےدھوناضروری ہے نہ کہ اس پر پانی چھڑکنا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "جب تک کہ اسے دھونہ لے" یہ نہیں کہا کہ : جب تک کہ اسے دھونہ لے یا اسی پر پانی نہ چھڑک دے۔
(8) عبادت میں احتیاط کرنا مستحب ہے جب تک یہ احتیاط وسوسہ کے حد تک نہ پہنچ جائے۔
(9) جن مواقع میں واضح الفاظ سے اجتناب کرنا مطلوب ہو وہاں اشارہ وکنایہ کے الفاظ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:وہ نہیں جانتا ہے اس کا ہاتھ کہاں رات گذارا ہے" آپ نے یہ نہیں کہا کہ شاید کہ اسکا ہاتھ شرم گاہ پر لگا ہے یا گندگی پر لگا ہے یا اس جیسا اور کوئی جملہ، اس طرح کا اشارہ کنایہ اسی وقت استعمال کیا جانا چاہئے جب سننے والا کنایہ کا مقصد سمجھنے میں قادر ہو ، اور اگر وہ اسکو سمجھنے سے قاصر ہو تو ایسی صورت میں واضح الفاظ اختیار کرنا چاہئے تاکہ سامع التباس میں واقع نہ ہو جائے یا خلاف مقصد کوئی دوسری مراد سمجھ نہ لے۔
ان فوائد کا ذکر کرنے کا بعد انہوں نے مزید کہا کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہےکہ نیند سے جاگنے کے بعد ہاتھ دھونے سے قبل پانی میں ہاتھ ڈالنا منع ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے ۔ لیکن جمہور متقدمین ومتاخرین علماء کی رائے یہ ہےکہ یہ ممانعت تنزیہی ہے ممانعت تحریمی نہیں ۔ اس لیے اگر کوئی اس حکم کے برعکس اپنا ہاتھا پانی میں ڈال دیتا ہے تو وہ پانی فاسد نہیں ہوجاتا اور نہ ڈالنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ (4)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو شخص نیند سے بیدار ہونے کے بعد پانی کا استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ پانی کہاں ہے؟ اگر پانی ڈول، لوٹا، جگ مگ یا اس قسم کے برتن میں ہو تو احتیاطا اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئے کیونکہ ہاتھ میں گندگی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس وجہ سے پانی ناپاک ہونے کا امکان ہے بلکہ اسے پہلے اپنے دونو ں ہتھیلیوں کو باہر سے دھولینا چاہئے پھر اس برتن کے اندر ہاتھ ڈال کر پانی استعمال کرنا چاہئے ۔ہاں اگر پانی ٹیپ نل وغیرہ سے استعمال کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کے حق میں یہ حکم نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں سب مفقود ہے ۔
حواشی:
1۔(صحیح مسلم ، کتاب الطھارۃ ، رقم الحدث:641)
2۔ (ذخیرہ، قرافی 1/272۔ المغنی ابن قدامہ1/39، الشرح الممتع:1/41)
3۔(فتاوی لجنہ دائمہ:5/84)
4۔(دیکھئے شرح مسلم للنوی2/170/172)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟