دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت دعا کا ایک ذریعہ
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فتاوی نور علی الدرب(74/11) میں اور امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع برقم(1757) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت دعا کا ایک ذریعہ
"… محمد اسماعیل مدنی
"عن سلمان رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "ان ربکم حیّ کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردّھا صفرا"
تخریج الحدیث: اخرجہ ابو داود برقم(1488)والترمذی برقم(3556) وابن ماجہ برقم(3865) واحمد(438/5) والحاکم(497/1) وابن عدی فی الکامل (138/2) وابن حبان(242/4) والبزار(495/6) والقضاعی فی مسند الشھاب (191/4) وابو یعلی فی إبطال التاویلات برقم(380) والکلا باذی فی بحر الفوائد (289/1)
درجۃ الحدیث: حدیث مذکور صحیح ہے ۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فتاوی نور علی الدرب(74/11) میں اور امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع برقم(1757) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
تعریف راوی الحدیث: سلمان الفارسی ۔ جلیل القدر صحابی میں سے تھے ۔ ملک فارس کے شہر اصبھان کے رہنے والے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل بیت کی طرف منسوب کیا ۔ صجابہ میں سب سے لمبی عمر پائی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں امت محمدیہ کا لقمان حکیم کہا ۔ اسی نے جنگ خندق میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا ۔ انہوں نے ساٹھ(60) حدیثیں بیان کی ۔
مدائن میں مقیم تھے وہاں علیل ہوئے اور (35) ہجری میں وفات پائی ، اس وقت ان کی عمر مبارک(250)سال تھی۔(1)
ترجمہ حدیث: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" بلا شبہ تمہارا رب حیادار وکرم والا ہے۔ جب اسکا بندہ اس کی جانب اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اپنے بندے سے شرم محسوس کرتا ہےکہ اس کے ہاتھوں کو خالی واپس لوٹادے۔
لغوی توضیح: حیّ۔حیادار۔ کریم:کرم والا۔ صفر: خالی
فقہ الحدیث: مذکور حدیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت دعا کا ایک ذریعہ اور آداب دعا میں سے ایک ادب ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی ۔ (2)
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہےکہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔ (3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے جواز پر ایک باب قائم کیا ہے اور اس کے ثبوت کے لیے چند آثار کو ذکر کیا ہے۔ جو آپ محترم قارئین کے پیش خدمت ہیں۔" باب رفع الایدی فی الدعاء"۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا کر دعا کی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور دعا فرمائي اے اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بری ہوں۔ اسی طرح یحی بن سعید اور شریک بن ابی نمر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے اپنا دست مبارک اتنا اٹھایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی ۔ (4)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام نووی رحھما اللہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر کثرت کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کر ناثابت ھیکہ اس کا شمار محال ومشکل ہے۔ (5)
امام سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا نے سے متعلق احادیث متواترہ منقول ہیں ۔ (6)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نےایک فتوی میں فرمایا کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیت دعا کا ایک سبب ہے ۔(7)
تاہم یہ یاد رہےکہ جس روایت میں ھیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف دعائے استسقاء میں ہی ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اس سے مراد یہ ھیکہ جس خاص کیفیت اور مبالغہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کیفیت اور مبالغہ سے عام دعاؤں میں نہ اٹھاتے تھے۔
لیکن واضح رہے کہ فرض نمازوں کے بعد امام کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور باقی مقتدیوں کا آمین کہنا یعنی اجتماعی دعا سنت سے ثابت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا کہ ۔ بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی ۔
اگر اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتماعی دعا کرتے تو آپ کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور نقل فرماتے ۔ پھر تابعین عظام نقل فرماتے، پھر دیگر علماء دین جیسا کہ انہوں نے اس سے کم درجہ کی اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں ۔ (8)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر اس عمل کو واضح طور پر بدعت قرار دیا ہے ۔(9)
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔ (10)
اور سعودی مستقل فتوی کمیٹی نے بھی بدعت ہی کا فتوی دیا ہے۔ (11)
اللہ تعالی ہمیں صحیح حدیثوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین ۔ وصلی اللہ علی النبی وسلم۔
حواشی:
1۔تھذیب الکمال للمزی رقم الترجمۃ۔(1820)
2۔کتاب المغازی۔ باب غزوۃ اوطاس ، حدیث نمبر(4323)
3۔فتح الباری ، تحت الحدیث(4323)
4۔بخاری، کتاب الدعوات
5۔ مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ(256/5)، شرح مسلم للنووی(191/6)
6۔تدریب الراوی(180/2)
7۔ فتاوی علماء البلد الحرام ص:1702
8۔الفتاوی الکبری(158/1)
9۔مجموع الفتاوی 519/22)
10۔زاد المعاد(257/1)
11۔فتاوی اسلامیہ (290/1)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟