مساجد کو ویران کرنا سنگین جرم
زمین کا وہ ٹکڑا سب سے زیادہ پاکیزہ اور صاف ستھرا سمجھا جاتا ہے جس پر اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کے لیے مسجد تعمیر کی گئی ہو۔اس کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے رکھے جاتے ہیں جو اللہ کے حضور سجدہ کرنا چاہتا ہے،اپنی پیشانی اور ناک رگڑ کر اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہے۔پانچ وقت کی نماز ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر فرض ہے۔مردوں کو حکم ہے کہ وہ اذان سن کر مسجد آئیں اور جماعت میں شامل ہوکر نماز ادا کریں۔مسجد ہر مسلمان بستی کی شناخت اور پہچان ہے۔کوئی بھی نئی آبادی ہو،مسلم معاشرہ اس میں اللہ کی عبادت کے لیے مسجد ضرور تعمیر کرتا ہے۔کلمے کا اقرار واعتراف کرنے والے ہر مسلمان کو حق ہے کہ مسجد میں جائے اور اللہ کی عبادت کرے
مساجد کو ویران کرنا سنگین جرم
"… رفیق احمد رئیس سلفی
"وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ۰ۥۭ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ" (1)
"اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی، تو ڈرتے ہوئے جائیں ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔"
زمین کا وہ ٹکڑا سب سے زیادہ پاکیزہ اور صاف ستھرا سمجھا جاتا ہے جس پر اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کے لیے مسجد تعمیر کی گئی ہو۔اس کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے رکھے جاتے ہیں جو اللہ کے حضور سجدہ کرنا چاہتا ہے،اپنی پیشانی اور ناک رگڑ کر اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہے۔پانچ وقت کی نماز ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر فرض ہے۔مردوں کو حکم ہے کہ وہ اذان سن کر مسجد آئیں اور جماعت میں شامل ہوکر نماز ادا کریں۔مسجد ہر مسلمان بستی کی شناخت اور پہچان ہے۔کوئی بھی نئی آبادی ہو،مسلم معاشرہ اس میں اللہ کی عبادت کے لیے مسجد ضرور تعمیر کرتا ہے۔کلمے کا اقرار واعتراف کرنے والے ہر مسلمان کو حق ہے کہ مسجد میں جائے اور اللہ کی عبادت کرے۔
قرآن کی زیر مطالعہ آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے وہ پس منظرسامنے رکھنا ضروری ہے جس میں یہ نازل ہوئی ہے۔اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
"جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکرکرنے سے روکا،یہ کون ہیں؟ان کے بارے میں مفسرین کی دورائے ہیں:ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں،جنھوں نے بادشاہ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا۔ابن جریر طبری ؒنے اسی رائے کو اختیار کیا ہے لیکن حافظ ابن کثیر ؒ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئےاس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا ہے جنھوں نے ایک تو نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیااور یوں خانۂ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباواجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے حالاں کہ خانۂ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی"۔(2)
آیت کریمہ کے اس پس منظر سے یہ بات خود بخود معلوم ہوجاتی ہے کہ اس میں جو حکم بیان کیا گیا ہے ،وہ عمومی ہے اور دنیا کی تمام مساجد کے سلسلے میں یہی حکم ہے۔کسی صاحب ایمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان پرمساجد کے دروازے بند کرے اور اس میں اسے اللہ کی عبادت نہ کرنے دے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسالک اور مخصوص عقائد رکھنے والے حضرات اپنے مخالف مسلک لوگوں کو اپنی مساجد میں داخل ہونے اور اس میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔مساجد کی دیواروں پر جلی حروف سے لکھی یہ تحریر پڑھنے کو ملتی ہے کہ فلاں فلاں مسلک کے لوگوں کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔ماضی قریب میں بعض مقامات پر یہ صورت حال پائی جاتی تھی کہ مخالف مسلک کا کوئی فرد اگر مسجد میں داخل ہوگیا تو اس کی پٹائی کی جاتی تھی اور اسے مسجد دھونے پر مجبور کیا جاتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام حضرات کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے اور ان کے سلسلے میں عام مسلم معاشرے کو تاکید کی ہے کہ ان پر اس قدر اخلاقی دباؤ بنایا جائے کہ وہ اس مذموم ارادے کے ساتھ مساجد میں داخل نہ ہوسکیں۔دنیا میں بھی ایسے لوگوں کے لیے ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ایسے لوگ بڑے عذاب سے دوچار ہوں گے۔
مساجد میں ایسا ماحول بنانا بھی جائز نہیں ہے کہ کچھ لوگ مسجدوں میں آنا بند کردیں۔مسجد کا امام ایسا مقرر کیا جائے جو اکثریت کی نظر میں مقبول اور پسندیدہ ہو۔اسی طرح مساجد کے منتظمین اپنی عادات واطوار کے لحاظ سے اچھے ہوں تاکہ کسی طرح کی کوئی کراہیت نہ پیدا ہو۔مساجد میں لڑائی جھگڑے اور شوروغل قطعاً ممنوع ہیں۔دوسرے نمازیوں کی نمازوں میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔اگر کچھ لوگ نمازوں میں مصروف ہیں تو بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی نہیں کی جاسکتی ۔درس قرآن وحدیث کا اہتمام بھی تھوڑے وقفے سے کیا جانا چاہئے۔بعض مساجد کے ائمہ کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ فرض نماز سے سلام پھیرتے ہی وعظ ونصیحت یا کتاب خوانی شروع کردیتے ہیں۔ہر نمازی کو مسجد میں یہ حق حاصل ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سکون وطمانیت کے ساتھ اذکار وتسبیحات کا ورد کرسکے۔بسااوقات مساجد کی انتظامیہ کا رویہ عام نمازیوں کے ساتھ منفی ہوتا ہے ۔اگر انتظام وانصرام سے متعلق کوئی بات کہی جارہی ہے تو اسے ہم دردی کے ساتھ سننا چاہئے اور معقول اور مناسب بات ہو تو اس پر عمل کرنا چاہئے۔
حواشی:
1۔(البقرۃ 114/2)
2۔(تفسیر احسن البیان،سورۃ البقرۃ،زیر تفسیرآیت:114)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟