پیام حدیث
ارئین کرام! بڑی تکلیف ہوتی ہے آج سماج کے متمول حضرات کی جانب سے سماج کے لاچارو نادار لوگوں کے حالات سے نظر پھیر لینے اور ان کے حالات پر سر جوڑ کر نہ بیٹھنے پرکہ یہ لاچار ومجبور لوگ کیسے اس لائق ہوں کہ ان کےبچے کھانے کو نہ ترسے پہنے کو نہ للچائے اور رہنے کو چھت کی آس لگائے موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔
"… ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم ، اما بعد:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :"الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ"(متفق علیہ، بخاری:5353)
قارئین کرام! بڑی تکلیف ہوتی ہے آج سماج کے متمول حضرات کی جانب سے سماج کے لاچارو نادار لوگوں کے حالات سے نظر پھیر لینے اور ان کے حالات پر سر جوڑ کر نہ بیٹھنے پرکہ یہ لاچار ومجبور لوگ کیسے اس لائق ہوں کہ ان کےبچے کھانے کو نہ ترسے پہنے کو نہ للچائے اور رہنے کو چھت کی آس لگائے موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔
قارئین کرام! ایک ایسا وقت تھا جب صحابہ کرام اپنے نادار بھائیوں کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ آسمان والے نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:"ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ" اور (یہ انصار) خود اپنے اوپر انہیں (مہاجرین) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔
صاحب تفسیر احسن البیان شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : یعنی اپنے مقابلے میں (انصار) مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ھیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ تھا ، چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گئے گھر جاکر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں کے اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائےبغیر سو جائیں گےالبتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھارہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے (ویؤثرون)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ھیکہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نےایک بیوی کو محض اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔
اور یہ بات یاد رکھیں کہ جس طرح صدقہ وخیرات کرنے والے اللہ رب العالمین کے محبوب ہوتے ہیں اور ہر صبح فرشتہ ان کے مال میں برکت کی دعا کرتا ہے"اللھم اعط منفقا خلفا" اور اللہ تعالی نے فرمایا :" ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون"(البقرہ:262) قیامت کے روز نہ ان کو کسی طرح کا خوف لاحق ہوگا نہ کسی طرح کا غم۔ وہیں اللہ کی راہ میں خرج نہ کرنے والوں کی مذمت میں ڈھیر ساری نصوص آئی ہوئی ہیں انہیں میں سے ایک حدیث میری نظر سے گزری اس درس حدیث کو لکھنے کے دوران جو کہ میری نظر میں نہایت سخت ہےاللہ کی راہ میں خرچ نا کرنے والوں کے حق میں ۔ حدیث ہے " اللھم اعطا ممسکا تلفا" یعنی فرشتےاللہ رب العالمین سے درخواست کرتے ہیں کہ اے اللہ تو خرچ کرنے والوں کے مال کو تلف وبرباد کردے۔ غور کرنے کا مقام ہے کس قدر سخت وعید ھیکہ مال کی بربادی کی درخواست وہ بھی ایسی ذات کی طر ف سے جس کے تعلق سے قرآن کہتا ہے : "لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون"( التحریم:6)
ایک مقام پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص مومن بھی ہو اور بخیل بھی ہو۔ حدیث کے الفاظ ہیں " ولا یجتمعان فی قلب عبد الایمان والشح"(صحیح الترغیب الرقم:1271 ، حسنہ الالبانی)
اور الحمد للہ آج کے دور میں اکثر گھرانوں میں کھانے یپنے رہنے سہنے اور گزر بسر کرنے میں جو خرچ آتا ہےاس میں سے اگر بہت معمولی بھی ہم ان محتاجوں کے لیے مختص کردیں تو فرق نہیں پڑے گا۔ آج وہ زمانہ نہیں کہ سرور کائنات کے گھر میں بھی تین تین روز جولہے پر ہانڈی نہ چڑھے، ایک مہمان آجائے تو کھلانے کو کچھ بھی نہ ہو دوسرے صحابی اپنے گھر لے جائیں تو وہاں بھی بچوں کے لائق ہی کھانا ہو۔(اللہ تعالی مزید خوشحالی لائے امین) تو پھر آیئے ہم عہد کریں کہ ہم سے جتنا ہو سماج کے لوگوں کی مدد کر میدان میں اتر آئیں ، اگر کوئی غریب اپنے بچے کو اسکول یا مدرسہ میں داخلہ نہیں کراپارہا ہو تو ہم تعاون کریں، کوئي بیوہ بیمار رہتی ہے دوا کے لیے پیسے نہ ہو ں تو آپ دوا کا انتظام کر دیں غرض کہ جب کوئی خلوص نیت کے ساتھ لوگوں کی مدد کو آئے گا تو خود بخود اس کو سمجھ میں آنے لگے گا کہ کون مستحق ہے کون نہیں اگر ہم اپنے آس پاس کے ضرورت مند کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حقیقی ضرورتمندوں اور پیشہ ور فقیروں کے درمیان بڑی آسانی سے فرق ہوجائےگا اور آپ کا صدقہ وخیرات کا مال حقیقی محتاجوں تک پہنچ پائےگا۔
بس ضرورت اس بات کی ھیکہ ہم آئیں اور غریبوں کی مدد کو ٹھان لیں اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کروڑپتی ہوں یا بہت مالدار ہوں بس ضرورت ہے دل کی تو نگر ی کی تو پھر بات بن پائیگی ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :"لیس الغنی عن کثرۃ العرض،انما الغنی غنی النفس" (متفق علیہ البخاری:6446)
متاع دنیا کی کثرت مالداری نہیں ہے بلکہ حقیقی مالداری دل کی مالداری ہے ۔
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العالمین ہمیں خوشحال رکھے اور ہم میں سے جو لاچار ومحبور ہوں ہم ان کی مدد کرسکیں۔آمین وما توفیقی الا باللہ۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟