ایک سماج سیوک؛سماج کی نظر میں
ایم پی تسلیم الدین صاحب سیمانچل گاندھی سے مشہورتھے،غریبوں مزدوروں ،کسانوں اوردبے کچلے لوگوں نے اس خطاب سے انہیں نوازاتھا،اورواقعۃً وہ اسی لائق تھے،وہ بھلے ہی8؍بارممبراسمبلی اور5؍بار ممبر پارلیا منٹ رہے، ایک لمبے عرصہ تک سیاست میں اورسیاسی قدآورشخصیت کے روپ میں جانے پہچانے جاتے رہے، مگر سماجی اعتبارسے وہ بے زبانوں کی آواز،اورغریبوں کے مسیحاتھے،کوئی فخروغرورنہیں،ارریہ ہو،یاپھرپٹنہ یا پھر دہلی؛ ان کے گھرمیں ضرورت مندوں کاہجوم رہتااورسب کی ضروریات پوری کرناوہ اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔
ایک سماج سیوک؛سماج کی نظر میں
" … خالد انور پورنوی
سیمانچل گاندھی سے مشہور،سیمانچل کے بے تاج بادشاہ ،اورغریبوں کے مسیحا؛جناب الحاج تسلیم الدین صاحب ؒ آج ہمارے بیچ نہیں ہیں ، مگر ان کی خدمات ، ان کی قربانیاں اور قوم و ملت کیلئے ان کے نمایاں کارنامے سیمانچل والوں کیلئے قیمتی اثاثہ ،اورسرمایہ اعزاز و افتخار ہیں ، جب تک دنیا باقی ہے ،چاند، سورج اور ستاروں میں روشنی باقی ہے ،ان کا نام زندہ رہے گا ، سماج اوربالخصوص سماج کے کمزور طبقات کیلئے کئے گئے ان کے عملی اقدامات ہم سب کیلئے نشان راہ ثابت ہوتے رہیں گے۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیئرمین فضیلۃالشیخ مطیع الرحمٰن مدنی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے غریبوں کے مسیحا،اور ایک لمبے عرصہ تک سماج کی خدمات کرنے والے ،سیاسی قدآورلیڈر جناب جناب الحاج تسلیم الدین صاحب ؒ کی حیات و خدمات پر سمینار کاانعقاد کیا، اس لئے کہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو اپنے اکابر اور ان کی خدمات کو حرزِ جان بنائے رکھتی ہے۔
فضول سمجھ کر جسے بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
الیکشن 2014ء کابگل بج چکاتھا،ہرطرف گہماگہمی تھی،الیکشن جیتنے کی تیاریوں میں تمام دعویدار مصروفِ عمل تھے،انہی دنوں بذریعہ آٹورکشہ رانی گنج سے ارریہ کیلئے ہم روانہ ہوگئے،ٹیمپومیں بیٹھے سبھی لوگ الیکشن اوراس کے نتائج کاتذکرہ کرنے لگے،نہ ہماری ان سے شناسائی تھی،اورنہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی،سبھی لوگ راہ چلتے مسافرتھے،ان میں کئی لوگ جودیکھنے میں مسلمان نہیں لگ رہے تھے،اوران کی شکل وصورت یادؤں جیسی لگ رہی تھی، اپنے آپس میں کہنے لگے:’’ارریہ میں اس بارتوبوڑھواکوہی ووٹ دیں گے، چاہے اس کیلئے جوہوجائے‘‘۔جب اپنے کسی دوست سے پوچھاکہ’’ بڑھوا‘‘سے کون مرادہیں ؟تو کہنے لگے: ایم پی تسلیم الدین صاحب!
یہی تھی ان کی شخصیت کہ وہ ہردل کی دھڑکن تھے،عوام وخواص میں بیحد مقبول اور پسندیدہ شخصیت کے مالک تھے،بلاتفریق مذہب اورمسلک تمام طبقوں اورقبیلوں میں و ہ محبت کی نظرسے دیکھے جاتے تھے،سماجی کارکن کی حیثیت سے سرپنچ سے اپنے سیاسی کیرئیرکی انہوں نے شروعات کی،اورآخری دم تک سماجی کارکن،سماجی خدمت گذارکی حیثیت سے ہی جانے جاتے رہے۔
ایم پی تسلیم الدین صاحب سیمانچل گاندھی سے مشہورتھے،غریبوں مزدوروں ،کسانوں اوردبے کچلے لوگوں نے اس خطاب سے انہیں نوازاتھا،اورواقعۃً وہ اسی لائق تھے،وہ بھلے ہی8؍بارممبراسمبلی اور5؍بار ممبر پارلیا منٹ رہے، ایک لمبے عرصہ تک سیاست میں اورسیاسی قدآورشخصیت کے روپ میں جانے پہچانے جاتے رہے، مگر سماجی اعتبارسے وہ بے زبانوں کی آواز،اورغریبوں کے مسیحاتھے،کوئی فخروغرورنہیں،ارریہ ہو،یاپھرپٹنہ یا پھر دہلی؛ ان کے گھرمیں ضرورت مندوں کاہجوم رہتااورسب کی ضروریات پوری کرناوہ اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا دردہمارے جگر میں ہے
عام طورپرکوئی ایم ایل اے، یاایم پی اپنے حلقہ انتخاب تک ہی سمٹاہوارہتاہے،تعمیراتی اورترقیاتی کام ہو، یاپھر عوام کے دیگرمسائل سے وابستگی اپنے ہی علاقہ تک محدودرہتی ہے؛مگرایم پی تسلیم الدین صاحب مرحوم کا معاملہ ہی بالکل الگ تھا،لوگوں کویہ سمجھ پانامشکل تھاکہ وہ ارریہ کے ایم پی ہیں ، یاکشن گنج،پورنیہ یادوسرے اضلاع کے۔وہ سبھوں کے لئے اپنے تھے،یہی خوبی تھی ان کے اندرجودوسرے لوگوں سے ممتازکردیتی تھی، اسی لئے تووہ سیمانچل گاندھی سے مشہورہوئے،اور آخری وقت تک اسی صفات سے متصف رہے۔
سرپنچ اورمکھیاکے بعدکانگریس پارٹی سے سیاسی کریئرکی انہوں نے شروعات کی،جتناپارٹی،لوک دَل جتنادل،راشٹریہ جنتادل،سماج وادی، جیسی پارٹیوں میں وہ رہے،مگرپارٹی سے اوپراٹھ کر غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کیلئے انہوں نے آوازاٹھائی،نہایت ہی بے باک اوربے خوف قوم کا خادم بن کررہے، عوامی فلاح،اورقومی حقوق کیلئے دنیاکی کسی چیزکوانہوں نے رکاوٹ بننے نہیں دیا،جوبھی سامنے آیا، ان سے لڑپڑے،ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہویاایس ڈی او،بی ڈی اوہویاداروغہ یادوسرے سرکاری افسران؛سبھی کے سامنے حق تلفی وناانصافی اور ظلم و تشدداورسرکاری غنڈہ گردی کے خلاف آوازاٹھاتے رہے ، وہ عوام کیلئے جیتے تھے،اورسماج سیوک ان کا پیشہ تھا ، یہی وجہ ہے کہ سب نے انہیں محبت دی،وہ ہمیشہ ہندومسلم اتحاداوربھائی چارہ کی علامت بنے رہے، اور انہیں تمام فرقوں کی حمایت حاصل رہی،عوامی مقبولیت کی وجہ سے ہی 1991ء،1999 ء اور 2009ء کے پارلیمانی انتخاب کے علاوہ کسی بھی انتخاب میں انہیں ہارکاسامنانہیں کرناپڑا۔ جس پارٹی سے بھی انتخابی میدان میں اترے کامیابی نے ان کا قدم چوما،چونکہ عوام کو اس سے مطلب نہیں تھاکہ وہ کس پارٹی سے ہیں ،وہ صرف تسلیم الدین کو جانتے تھے، اور ان کی سماجی کارکردگی سے بیحد متاثر تھے۔
کسانوں کے حقوق اور ان کے مسائل حل کرکے لئے بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ خاص کر پورنیہ خطہ کے کسانوں کے لئے جن کا خاص پیدادوار جوٹ ہے، جن کا استحصال کئی دہائیوں سے ہورہا تھا، باہر کے تاجر اور ماڑواڑی بنئے کسانوں سے اونے پونے قیمت پر پاٹ سن کسانوں سے خریدتے تھے اور دونے تین گنے داموں پر بیچ ڈالتے تھے، سرکاری مشینری پوری طرح بدعنوانی میں ڈوبی رہتی تھی۔ ان بنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی تھی ، اس کے خلاف تسلیم الدین صاحب نے زبردست تحریک چلائی، انہوں نے پورے علاقے میں کاشت کاروں کے استحصال کے خلاف زوردارآواز اٹھائی، کشن گنج سے لیکر ارریہ اور فاربس گنج سے جوگبنی تک احتجاجی تحریک چلائی ،جگہ جگہ جلسے جلوس مظاہرے کئے، استحصال کے خلاف جدوجہدنے انہیں اعلی سرکاری افسران کا دشمن بنادیا ۔ کیوں کہ رشوت خوری، کالابازاری بند ہورہی تھی30 سے40 فیصد رشوت کھانے والے افسران آپے سے باہر ہوگئے۔ ایم پی تسلیم الدین کے خلاف کارروائی اور جھوٹے کیس میں پھنسانے کا بہانہ ڈھونڈنے لگے اور سازشوں کا جال پھیلا یاگیا۔ ان پر کئی کیس درج کرائے گئے ، حیرت کی بات ہے کہ بیک وقت مجسٹریٹ، ایس ڈی او اور پولیس چیف نے اپنے ساتھ کی گئی مار پیٹ کی شکایت درج کرائی۔تسلیم الدین صاحب کے خلاف شوٹ وارنٹ جاری کرایا گیا، ان کے مکان کو قرق کرکے منہدم کردیا گیا۔ کیوں کہ اس وقت بہار میں کانگریس کی حکومت تھی اور یہ اپوزیشن میں تھے؛ لیکن وہ اس سیاسی انتقامی کارروائی سے قطعی خوفزدہ نہیں ہوئے۔چونکہ وہ عوامی زندگی کا حصہ تھے اورعوام کی طاقت ان کے ساتھ تھی،شاید اسی لئے اسمبلی کی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی، جس نے پولیس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، ریاست کی کانگریسی سرکارکو مکان کی تعمیر کے لئے ایک لاکھ 85 ہزار معاوضہ دینے کا حکم دیا ۔
1982میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افسران کی بدعنوانی کے خلاف ایم پی تسلیم الدین صاحب نے علم احتجاج بلندکیا، جس میں ان کی گرفتاری ہوگئی اورپھر ضمانت پررہا ہوگئے،اسی طرح1982میں ہی ارریہ کے پلاسی بلاک کے ایک گاؤں پیرواخوری میں ،وہاں کے ایک زمین دار کے اشارے پر معمولی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اقلیتوں کی پوری بستی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جس میں بے گناہ ہندووں کو پھنسیایا گیا، اصل مجرموں کو پکڑنے اور بے گناہوں کو بری کرنے کے لئے متحدہ محاذ کے زیر اہتمام ایم اپی تسلیم الدین صاحب نے اپنی قیادت میں احتجاجی تحریک چلائی، جس میں کئی لیڈروں کے علاوہ سی پی ایم کے اس وقت کے ایم ایل اے ا جیت سرکار، نچھتر مالاکار، سی پی آئی کے لال چند ساہنی، لوک دل کے ادے بھانو رائے بھی شامل تھے۔ تسلیم ا لدین صاحب نے پولیس مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال اوردھرنا شروع کردیا، جس میں دفعہ 309کے تحت انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، ان کے علاوہ کئی اورلوگ اسامی تھے،اسی طرح 1985میں تسلیم الدین جب جوکی ہاٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، ان زمینداروں کے خلاف ایک مہم چھیڑی جو سیلنگ ایکٹ نافذ ہونے کے باوجود ہزاروں ایکڑ زمین پر قابض تھے، اس وقت کے ایس ڈی او نے کارروائی کرتے ہوئے ان زمین داروں کی ہزاروں ایکڑ زمین پکڑی، جس کی وجہ سے اس کا تبادلہ کردیا گیا، ان کی جگہ لینے والے ایس ڈی او نے آتے ہی مسٹر تسلیم الدین کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور عوامی احتجاج دبا نے کے لئے کئی فرضی مقدمے قائم کئے۔ اسی طرح بجلی محکموں کے رشوت خور افسران کے خلاف ایک مہم چلائی اور اسسٹنٹ بجلی انجنئر کا گھیراؤ کیا ،جس کا بہانہ بناکر اسسٹنٹ اننجینئر نے دفعہ 307 کے تحت تسلیم الدین صاحب پر مقدمہ قائم کردیا،اس طرح کے نہ جانے کتنے فرضی مقدمات سرکاری افسروں نے تسلیم الدین صاحب پر قائم کئے ،جرم صرف یہ تھاکہ عوام پر ہورہے ظلم وتعدی کے خلاف ہمیشہ عوام کے ساتھ آپ کھڑے نظر آرہے تھے۔
1986میں انتظامیہ اور پولیس کے ذریعہ اس وقت کی ریاستی حکومت کے اشارے پر ایم پی تسلیم الدین صاحب کو بے عزت کرنے اور شبیہہ کوداغدار کرنے کی کوشش کی گئی،ایم پی تسلیم الدین صاحبؒ کی عوامی مقبولیت سے لرزاں سیاسی لیڈروں نے ان کی شبیہہ کو سبوتاز کرنے کی سازشیں کیں ، سرکاری مشینری،میڈیااور اعلی افسران ایم پی تسلیم الدین صاحب ؒ کو مجرم بنانے کے لئے اپنی توانائی صرف کرنے لگے؛مگر عوام نے ایم پی صاحب مرحوم کا پور ا، پورا ساتھ دیا،ان کی بھرپورحمایت کی،اور پولیس مظالم کے خلاف اسمبلی اور سڑکوں پر زبردست احتجاج کیا ، اس وقت کمیونسٹ ایم ایل اے اجیت سرکار نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ این ڈی اے کے سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز اور سبودھ کانت سہائے اور سابق بہار اسمبلی اسپیکر ترپورار ی پرساد کے علاوہ کئی سیاست دانوں نے ارریہ پہنچ کر پولیس مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ، ایم پی تسلیم الدین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسائے جانے کے خلاف زبردست احتجاج کیا،اور تسلیم الدین صاحب کی عوامی مقبولیت نے دنیاکو بتادیاکہ مجرم ایم پی تسلیم الدین نہیں،وہ لوگ ہیں جو سرکاری مشینری کا ناجائزاستعمال کرتے ہیں۔
کشن گنج پارلیمانی حلقہ مسلم اکثریت ہونے کے ساتھ سرحدی علاقہ بھی ہے جس پر عرصہ سے بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کی نگاہ لگی ہوئی تھی جو بنگلہ دیشی دراندازوں کا غیر ضروری معاملہ اٹھاتی رہی ہے اور ایک خاص فرقہ میں ہمدردی کی لہرپیداکرکے ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتی رہی ہے،1996کے الیکشن میں بی جے پی اپنی فتح کے تئیں بہت ہی پرامیدتھی کہ سہ رخی مقابلہ میں وہ آسانی سے میدان مارلے گی ؛لیکن تسلیم الدین صاحب کی عوامی مقبولیت نے بی جے پی کی ساری سازشوں کو ناکام کردیا اور ان کے غبارے کی ہوا نکال دی۔ 1996کے لوک سبھاکے عام انتخابات میں ایم پی تسلیم الدین صاحب جنتا دل کے ٹکٹ پر کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے انتخابی میدان میں اترے اور سہ رخی سخت مقابلہ میں ایک لاکھ 68 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی،ان کی اس جیت سے فرقہ پرستوں کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں،اور نہ ہی انہیں اپنے ناپاک ارادوں میں کامیابی مل سکی،اس لئے کہ قوم کا مسیحابازی مارچکاتھا۔
2004سے 2009کے دوران ایم پی تسلیم الدین صاحبؒ نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کئے ، کشن گنج کوترقی کے نقشے پر لاکھڑا کردیا ، اور اس کے بلاک کوچادھامن میں سڑکوں کا جال بچھا دیا تھا۔ اس کے لئے کئی ندیوں پر پل اور کئی ترقیاتی کام کئے۔ ان کا سب سے بڑا پروجیکٹ ارریہ سے کشن گنج کو ریلوے لائن کو جوڑنا تھا ،گرچہ یہ منصوبہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا،اور انہیں کامیابی نہیں ملی،اس دور کو یقینی طور پر ترقی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مگر2009 کے پارلیمانی انتخابات میں کشن گنج کے عوام نے انہیں تیسرے نمبر پر لا کھڑا کردیا ،اور وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ عوامی مقبولیت میں کوئی کمی ہوگئی ؛اس لئے کہ اے ایم یوسے لے کر دیگرپیش آمدہ مسائل میں کشن گنج کے عوام نے ہمیشہ ایم پی تسلیم الدین کو یادکرتے تھے،لوگ کہتے تھے؛آج اگر وہ کشن گنج کاایم پی رہتے یہ کام آسانی سے حل ہوجاتا۔ 2014میں تسلیم الدین صاحب نے پھرواپسی کی اور ارریہ پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوئے اور اس وقت منتخب ہوئے جب پورے ملک میں مودی لہر چل رہی تھی۔
ایم پی تسلیم الدین صاحب نے یقیناًسیمانچل میں بدحال مسلمانوں کے لئے ایک لمبی لڑائی لڑی ہے ، دبے کچلے لوگوں کو انہوں نے سہارہ دیا ہے ، جب بنگلہ دیشی درنادازی کے نام پر مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو تنگ وتباہ کرنے کیاجارہاتھاوہ ایم پی تسلیم الدین صاحب ہی تھے جنہوں نے نہ صرف مورچہ سنبھالا،بلکہ دوسرے درجہ کی شہریت کا الزام جھیل رہے شہریوں اور بنیادی سہولیات سے محروم طبقات کو انہوں نے پہچان دلائی،تسلیم الدین کی تحریک سے مسلمانوں اور دبے کچلے لوگوں کو طاقت ملی،اس لئے کہ وہ زمینی لیڈرتھے،جدوجہد کے قائل ہی نہیں وہ کرتے بھی تھے،خود کو سیمانچل کی بقااور تحفظ کے لئے انہوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی،وہ سماج میں میں ترقی اوروکاس چاہتے تھے ،کاش حکومت کی نیت صاف ہوتی،توآج سیمانچل کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
ارریہ سے فتحیاب ہونے کے بعد وہ ترقیاتی کاموں اور خاص طور پر کشن گنج کے لئے بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے،مگر عمر نے وفانہ کی،اور وہ وہیں چلے گئے جہاں ہم سب کو جاناہے۔سماج کے سچے خادم ایم پی تسلیم الدین صاحب ؒ کے آج بھی ملک وبیرون ملک میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ چاہنے والے ہیں ،آج ان سبھوں کی آنکھیں نم ہیں،عزم وحوصلہ ،اور قوت ارادی آج انہیں جھک کر سلام کرتی ہے۔
کیالوگ تھے جو راہ وفاسے گذرگئے
جی چاہتاہے نقش قدم چومتے چلیں
آپ کا ردعمل کیا ہے؟