قدوائی صاحب سے میری پہلی ملاقات

میری پہلی ملاقات قدوائی صاحب سے اس وقت ہوئی جب میں اسکول میں تھا اور اسکالر شپ کے لیے مجھے فزکس کا پروجیکٹ تیار کرنا تھا اور اس میں کرکٹ میں کس طرح سے بال پھینکی جاتی ہے ،کس طرح سے بال مڑتی ہے ،اسپین ہوتا ہے، بیٹ کو کس طرح سے کلیور کی طرح استعمال کیا جاتا ہے،کیسے مختلف فورسیز کرکٹ میں استعمال کیا جاتا ہے ؟اس پر میں نے ایک پروجیکٹ لکھا تھا ۔میرے والد نے کہاکہ'' جمع کرنے سے پہلے ایک دفع مشورہ کسی ایسے شخص سے لے لیں جس سے فائدہ ہوسکتا ہے"چنانچہ مجھے قدوائی صاحب کے پاس لے گئے ،اور یہ میری پہلی ملاقات قدوائی سے تھی، جب انہوں نے میرا پروجیکٹ دیکھ کر میری ہمت افزائی کی تھی ،اور مجھے اللہ کے فضل سے اسکالرشپ ملی گئی۔

May 9, 2023 - 14:51
 0  23

تاثر

 

قدوائی صاحب سے میری پہلی ملاقات

سلمان خورشید صاحب:سابق وزیر خارجہ حکومت ہند"                                                    

 

 میری پہلی ملاقات قدوائی صاحب سے اس وقت ہوئی جب میں اسکول میں تھا اور اسکالر شپ کے لیے مجھے فزکس کا پروجیکٹ تیار کرنا تھا اور اس میں  کرکٹ میں کس طرح سے بال پھینکی   جاتی ہے ،کس طرح سے بال مڑتی ہے ،اسپین ہوتا ہے، بیٹ کو کس طرح سے کلیور کی طرح استعمال کیا جاتا ہے،کیسے مختلف فورسیز کرکٹ میں استعمال کیا جاتا ہے ؟اس پر میں نے ایک پروجیکٹ لکھا تھا ۔میرے والد نے کہاکہ''  جمع کرنے سے پہلے ایک دفع مشورہ کسی ایسے  شخص سے لے لیں جس سے فائدہ ہوسکتا ہے"چنانچہ مجھے قدوائی صاحب کے پاس لے گئے ،اور یہ میری پہلی ملاقات قدوائی سے تھی، جب انہوں نے میرا پروجیکٹ دیکھ کر میری ہمت افزائی کی تھی ،کہا،اتا ہے۔تعمال کیا جاتا ہے۔ لاور مجھے اللہ کے فضل سے اسکالرشپ ملی گئی۔

دوسری ملاقات بہت دلچسپ رہی۔ اس وقت وہ یوپی ایس سی کے چیرمین  تھے۔ اور مجھےائر فورس جوائن کرنے کا بڑا شوق تھا  ۔لیکن دسویں کلاس کے بعد لوگ این ڈی اے میں جاتے تھے۔ لیکن یہ بھی میرا دل کرتاتھاکہ پورا اسکول کر لوں پھر ائر فورس میں جاؤں۔ اس زمانے میں  بی اے کے پہلے سال کے بعد ائر فورس کے لیے انٹری ہوا کرتی تھی ۔ میں نےاس کا انتظار کیا، آخر میں  اشتہار آیا ۔ اشتہار میں تاریخ پیدائش لکھی تھی جو میری تاریخ پیدائش سے ایک دن پہلے یا بعد کی تھی  میری پیدائش پہلی جنوری 1953 کی ہے۔ اور جس جگہ سے  قدوائی صاحب کا خاص تعلق تھا اور جن لوگوں سے قدوائی صاحب کا خاص لگاؤرہا وہ علیگڑھ یونیورسیٹی ہے، اور اس کے وائس چانسلر کے گھر میں میری پیدائش ہوئی۔ بہر حال میں یوپی ایس سی میں گیا اور سیکریٹری سے کہا کہ میں قدوائی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ ظاہر  ہے انہوں نے اپنےنام سے پہچان لیا اور بلایا اور کہا کہ کیا بات ہے بیٹا؟میں کیا کرسکتا ہوں؟ میں نے بتایا کہ میں ائرفورس میں جانا چاہتا ہوں لیکن تاریخ پیدائش میں ایک دن کا فرق ہے۔ اس میں آپ کچھ مدد کردیتے تواچھا ہوتاتو وہ ہسنے لگے اور کہنے لگے اس  میں کیا مدد کرسکتا ہوں یہ تو قانون ہے۔ شاید اللہ نے چاہا کہ ائر فورس میں نہ جاؤ اور آگے پڑھو لکھو اور اللہ نے دوازہ آخری وقت میں بند کیا  ہے  ،پھر انہوں نے کہا کہ آج کل تم کیا کررہے ہو؟ میں نے کہا"انگلش پڑھ رہا ہوں" پھر انہوں نے انگلش  پوئٹس کے بارے میں انگلش لکھنے والوں کے بارے میں کافی لمبی باتیں کی ۔

بہر حال اس کی ہمدرد ی کے باوجود ائر فورس میں نہیں جاسکتا تھا ۔ اس کے بعد پھر قدوائی صاحب سے جو ملاقات ہوئی تو سیاست میں ہوئی ،شاید ایک الیکشن میں جب قدوائی صاحب لوک سبھا کے لیے الیکشن لڑرہے تھے اسی وقت مجھے بھی  اپنا پہلا الیکشن لڑنے کا موقع ملا ۔ وہاں بھی الیکشن میں کامیابی نہ ملنے کے باوجود ہم لوگ سب ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ ایک شیروپارلیامینٹ بنانے کا منصوبہ تھا ۔ بہر حال دو چار ملاقات ہوتی  رہیں، اس میں آپس میں ہم لوگ بیٹھ کر مشورہ کرتے تھے ۔ آخر آگے کیا کریں گے کیسے کریں، بہت مایوسی چھائی ہوئی تھی حالات دھیرے دھیرے بہتر ہوئے اور ہم پھر واپس اقتدار میں پہنچے اور قدوائی صاحب راج بھون پہنچے اور پھر اس سے راج بھون میں  ملنے کا موقع ملا ۔ لیکن آخر میں ان سے بہت اہم ملاقات رہی جب قدوائی صاحب ان کے بہت سارے دوست دہلی پبلک اسکول میں ممبر  تھے  ان میں یشونت صاحب تھے کرپال صاحب تھے اور قدوائی صاب کو انہوں نے ممبر بنایا اور میری تعلیم بھی دہلی پبلک اسکول میں ہوئی تھی اس لیے میں بھی اس کا ممبر تھا ، توو ہاں بھی قدوائی صاحب جب آتے تو  ملاقات کا موقع ملتا ۔ آخر میں ایک وقت بھی آیا جب ایک کیس چل رہا تھا جس میں جج نے کہاکہ اس کیس کو کون حل کرسکتا ہے؟کیونکہ قدوائی صاحب گورنر تھے  تو پھر یہ طئے ہوا کہ یہ کیس صرف قدوائی صاحب حل کرسکتے ہیں ۔ دونوں فریق سے کہا گیا کہ آپ قدوائی صاحب کے سامنے پیش ہوں تو میں وہاں بھی گیا تھا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔

جب قدوائی صاحب  کو ہم یاد کرتے ہیں تو پوری زندگی کی  تصویر سامنے آجاتی  ہے، بہر حال آج خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے، آج صرف خراج عقیدت تک محدود رہنے کا موقع نہیں ہے۔ بلکہ ان کی جو خدمات ہیں ان کا جو کام رہا ہے، جس طرح سے ان کا اس ملک کے  کئی شعبوں میں  خدمات رہیں ہیں ان پر آپ لوگ روشنی ڈال رہے ہیں تو میں اس وقت صرف اتنا کہہ دوں کہ انکو خراج عقیدت پیش  کرنے کے لیے آج کے ماحول میں آج کے ہندوستان میں، دنیا کے جو حالات ہیں، ان میں غور  فرمائیں کہ ہمارے لیے آج کیا ہیں؟ کیا ہمارے لیے چیلینجز ہیں؟  ایک طرف قدوائی صاحب کا انتقال ہوا اور پھر ہمارے پرانے قائدین ایک ایک کر کے انتقال  ہوتے رہے، آج ایسا کچھ لگتا ہےکہ  کہیں ہم یتیم تو نہیں ہوگئے کہیں ایسا تو نہیں ہےکہ ہمارے آگے کے جو لیڈر شپ کی لائن ہیں اس میں بہت کم لوگ بچے ہیں وہ بھی اس وقت جب ا یک بہت بڑا چیلنچ ملک میں ہے۔جب آج  مغربی کلچر سے بڑھ کر ایک چنوتی ہمارے سامنے ہے یہ  ہےکہ ہماری انٹلیکچول فیڈر یعنی ہماری ذہنیت کسی کے قبضے میں نہ آجائے ہمارا ذہین آزاد رہے ۔

 جب یہ مسئلہ سامنے آتا ہے تو یقینا یہ بات یاد آتی ہےکہ ان کےنقش قدم پر چلنے والے اور لوگ آگے ۔ میں خاص طور پر کہنا چاہوں گا کہ شکیل صاحب اور حیدر صاحب کے دل پر دستک کروں کہ آپ لوگوں پر بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ ان کی بھی بڑی خدمات رہی ہیں۔ جب میں سلمان حیدر صاحب کی بات کرتا ہوں تو میرے سامنے پوری تصویر کشمیر کی آجاتی ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ان کے  کیا رشتے رہیں ہیں اور کس طرح سے ٹوٹے ہوئے  ٹکڑے کو جوڑنے کی کوشش کی تھی اور  انہوں نے کتنی بڑی کامیابی پائی تھی آج وہ پھر سے بکھررہے ہیں۔

جس طرح کشمیر کے نوجوانوں  اور بچوں پر آج  جو کیفیت ہے۔ آج ان کے جوحالات ہیں ہم یہاں ایک بڑے تعلیمی ادراے  کے اندر سکون سے بیٹھ کر ہم یہ گفتگو کر رہے ہیں اور کشمیر میں بچوں کو کلاس روم تک  حاصل نہیں ہے، اسکول نہیں جاسکتے ہیں پڑھ نہیں سکتے ہیں، امتحان نہیں دے سکتے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی میں ایک زیرو ائیر نہ  آجائے، چار مہینے نکل چکے ہیں امتحان کا وقت آنے والا ہے کہیں ان کا یہ سال ضا‏ ئع نہ جائے اور ایک zero year نہ کہلائے17-2016ء اس پر ہم تھوڑا سا غور کریں کہ یہ تعلیم جو بچوں کی بہبودی اور بہترقومی یکجہتی ہے اور ہم سب کی خوشحالی پر اخلاق صاحب  کی زندگی  کا کتنا فوکس رہا ہے، آج اس پر کچھ غور ہی کرلیں اور ذھن میں ایک بار پھر سے اجاگرکر لیں تو یقینا بہت بڑی خراج عقیدت ہم بھائی صاحب کو پیش کریں گے۔شکریہ۔

 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow