امامُ اہلِ السنَّۃِ والجَماعۃِ احمد بن حنبل (رحمہ اللہ): زندگی اور کارنامے

آپ کی دینداری،امانت داری،ورع وتقوی اور ذہانت وفطانت بچپن ہی سے آپ کے ساتھیوں میں مشہور تھی۔ یہاں تک کے آپ کے بچپن کے ایک استاد ہیثم بن جمیل نے کہا: ’’ان عاش ہذا الفتی، فسیکون حجۃ علی أہل زمانہ‘‘ ’’اگر یہ نوجوان زندہ رہا تو اپنے زمانے میں مستند ہوگا‘‘[تاریخ الاسلام للذہبی]۔

May 9, 2023 - 15:31
May 11, 2023 - 17:47
 0  17
امامُ اہلِ السنَّۃِ والجَماعۃِ احمد بن حنبل (رحمہ اللہ): زندگی اور کارنامے

پیام قرآن

 

امامُ اہلِ السنَّۃِ والجَماعۃِ
احمد بن حنبل (رحمہ اللہ): زندگی اور کارنامے

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            … آصف تنویر تیمی"  

 

 جن ائمہ کرام کی ثقاہت،فہم وفراست،علم ودیانت، تقوی وطہارت اور عزم وحوصلہ پر مسلمانوں کا اتفاق ہے، ان میں امام احمدبن محمد بن حنبل بھی ہیں۔ آپ کی مکمل زندگی جہدمسلسل اور علم وعبادت اور جہاد فی سبیل اللہ سے عبارت ہے۔ دیگر معروف ائمہ کرام کی بہ نسبت آپ نے اسلام کی سربلندی کی خاطر بڑی قربانیاں دیں۔ گوناگوں پریشانیوں اور مشقتوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ مسئلہ خلقِ قرآن میں آپ کی جوانمردی اور بہادری کی کہانی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ مسلسل تین عباسی حکمرانوں کی طرف سے آپ کے اوپر دباؤ ڈالاجاتا رہا کہ کسی طرف قرآن کریم کو مخلوق تسیلم کرلیں، شاہی فرمان اور شاہی عقیدہ کی تائید کردیں،مگر آپ نے کوڑا کھاناپسند کیا،مگر عقیدہ میں آنچ آنے نہ دی۔ آپ کواس مسئلہ میں اتنا مارا گیا کہ اگر ہاتھی کو بھی مارا جاتا تو وہ برداشت نہ کرتا۔ آپ کی نیک نیتی اور عزم واستقلال ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے فتنۂ خلقِ قرآن سے پہلے اور بعد میں وہ مقام عطا کیا کہ اس وقت کے درباری علماء ترستے رہ گئے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی قرآن وحدیث اور فقہ وفتوی کی خدمت میں صرف کردی۔

ذیل کے سطور میں آپ کی زندگی اور خدمات کا سرسری جائزہ لیا جائے گا:

نام ونسب اور جائے پیدائش: آپ کا نام احمد،آپ کے والد کا نام محمد،اور دادا کا نام حنبل ہے۔ 

آپ کی کنیت: ابوعبداللہ ہے۔

آپ کا مکمل نسب اس طرح ہے: ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد الشیبانی المروزی البغدادی۔ آپ کا نسب نزار بن معد بن عدنان تک جاکر آپ ا کے نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ خالص عربی النسل ہیں۔ 

آپ کی جائے پیدائش کے تعلق سے مورخین کا اختلاف ہے۔ پہلا قول یہ ہے کہ آپ کی اماں محترمہ(صفیہ بنت میمونہ) مروسے حالتِ حمل میں بغداد کے لئے نکلیں،جب بغداد پہنچیں تو بغداد ہی میں امام احمدکی پیدائش ہوئی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ مرو ہی میں پیداہوئے۔اور ولادت کے بعد آپ کی والدہ محترمہ آپ کو لے کر بغداد گئیں۔

تاریخِ پیدائش:آپ کی ولادت باسعادت ۲۰؍ربیع الأول ۱۶۴ہجری کو ہوئی۔

آپ کے والدماجد کا انتقال آپ کی ولادت کے تین سال بعد محض تیس سال کی عمرمیں ہوگیا۔آپ کے بچپن کا بقیہ حصہ،آپکی تعلیم وتربیت آپ کی والدہ کے زیر سایہ ہوئی۔ یقیناًآپ کے بنانے سنوارنے میں آپ کی والدہ کا رول اہم رہا، جس کی وجہ آپ نے متعددعلوم وفنون میں کمال حاصل کیا۔چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ والدہ اگر اپنے بچوں اور بچیوں کے تئیں سنجیدہ ہوں،قربانیاں پیش کریں تو بلاشبہ ہماری قوم کے نونہالان ہر قسم کی دنیوی واخروی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ اور والدین کی ادنی کمی وکوتاہی نسلِ نو کی زندگی کو تباہ وبرباد بھی کرسکتی ہے۔ جس کی مثالیں آج ہم اپنے گِردونواح میں دیکھ سکتے ہیں۔ 
پرورش وپرداخت اور آپ کے اساتذہ: آپ نے خلافت عباسیہ کے دارالحکومت بغداد میں آنکھ کھولی۔ حفظِ قرآن سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ قرآن کے حفظ کے بعد عربی زبان میں خوب مہارت حاصل کی۔اس طرح ابتدائی وبنیادی تعلیم سے آپ چودہ سال کی عمر تک فارغ ہوگئے۔

آپ کی دینداری،امانت داری،ورع وتقوی اور ذہانت وفطانت بچپن ہی سے آپ کے ساتھیوں میں مشہور تھی۔ یہاں تک کے آپ کے بچپن کے ایک استاد ہیثم بن جمیل نے کہا: ’’ان عاش ہذا الفتی، فسیکون حجۃ علی أہل زمانہ‘‘ ’’اگر یہ نوجوان زندہ رہا تو اپنے زمانے میں مستند ہوگا‘‘[تاریخ الاسلام للذہبی]۔

آپ نے علمِ حدیث اور علمِ فقہ کی تعلیم کاباضابطہ آغاز ۱۷۹ ہجری میں بغداد کے چیف جسٹس امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد امام ابویوسف سے پندرہ سال کی عمر میں کیا۔امام احمد خود اپنے بارے میں کہتے ہیں: "أول من کتبت عنہ الحدیث أبویوسف"" جن سے میں نے سب سے پہلے حدیثیں لکھیں وہ ابویوسف ہیں" [المناقب لابن الجوزی ص۲۳]۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابویوسف جس طرح بڑے فقیہ تھے اسی طرح عظیم محدث بھی۔ بلکہ تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے امام ابویوسف پر محدثانہ رنگ غالب تھا، آپ کا میلان اور رجحان علمِ حدیث کی طرف تھا، بعد میں آپ کی فکر کے اندر تبدیلی آئی۔ آپ نے فن فقہ کو اپنا اوڑھنا بچونا بنایا۔اور پوری زندگی علمِ فقہ کی خدمت گزار رہے۔ خاص طور سے فقہ حنفی کو آپ کی وجہ سے بڑا فروغ حاصل ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ علم حدیث سے بھی استفادہ کرتے رہے۔ اور کوئی فقیہ بلا قرآن وحدیث سے استفادہ کئے بغیر فقیہ ہوبھی تو نہیں سکتا۔ اس لئے کہ یہی دونوں چیزیں علمِ فقہ کی بنیاد اور اساس ہیں۔

سابقہ قول سے ان لوگوں کے رائے کی بھی تردید بھی ہوتی ہے جو امام احمد کو صرف محدث مانتے ہیں فقیہ نہیں۔ حالانکہ امام احمدکے پہلے استاد امام ابویوسففقیہ ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ جس طرح امام ابویوسف فقیہ اور محدث دونوں تھے،اسی طرح امام احمدبھی فقیہ اور محدث تھے۔ 

علمی اسفار: آپ نے تقریبا ان تمام جگہوں کا سفر کیا جہاں سے آپ کی علمی تشنگی بجھ سکے۔ تمام تر تکالیف اور مصائب کے باوجود آپ کسبِ علم کی خاطر کوفہ،بصرہ،مکہ، مدینہ،یمن، شام اور جزیرۃ العرب کا سفر کیا۔ اور بعض شہروں کا تو کئی کئی بار سفر کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ حدیثیں اورمحدثین سے ملاقات ہوسکے۔ پانچ مرتبہ حج کیا،جس میں تین بار پیدل ہے۔ آپ کی نیت حج کے ساتھ ساتھ طلبِ علم کی بھی ہوتی تھی۔ بعض شہروں میں چھ چھ ماہ رہتے اور وہاں کے علماء سے خوشہ چینی کرتے۔ اور جب علمی پیاس بجھ جاتی تو اپنے وطن لوٹتے یا کسی اور شہر کا ارادہ کرلیتے۔

آپ نے کوفہ کا پہلی بار سن۱۸۳ہجری میں سفر کیا۔ بغداد سے کوفہ قریب ہونے کے باوجود ،کوفہ کی زندگی کوئی آسان نہ تھی۔آپ نے کوفہ کے قیام میں بڑی دقتیں اٹھائیں۔ اکثر راتیں ایسی گزریں جن میں تکیہ کے بدلے اینٹ سرہانے ہوتا۔ اس کے باوجود شوقِ علم میں متعدد مرتبہ آپ نے کوفہ کا سفر کیا۔اور وہاں کے اساطینِ علم وفن سے استفادہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ کے کوفہ کے اساتذہ میں یحیٰ بن آدم، عبدالرحمن بن محمد بن زیاد محاربی اور وکیع بن جراح (رحمہم اللہ) مشہور ہیں۔

بصرہ کا سفر بھی آپ نے کم وبیش پانچ مرتبہ کیا۔ ان اسفار میں بسااوقات آپ کو چھ چھ مہینہ تک بصرہ میں رکنا پڑا۔ یہاں آپ نے جن فقہاء ومحدثین سے ملے،حدیثیں روایت کیں، ان میں اسماعیل بن علیہ، عبدالرحمن بن مہدی، یحیٰ بن سعید قطان اور معتمر بن سلیمان (رحمہم اللہ )قابل ذکر ہیں۔ 

مکہ کا سفر بھی آپ نے ایک سے زائد مرتبہ کیا۔ آپ کے مکی اساتذہ میں سفیان بن عیینہ، اسحاق بن راہویہ اور امام شافعی (رحمہم اللہ) اہم ہیں۔ آپ نے امام شافعی سے مکہ میں بھی علم حاصل کیا اور بغداد میں بھی۔ آپ نے ان سے فقہ ،اصول فقہ اور ناسخ ومنسوخ جیسے اہم موضوعات کا درس لیا۔

آپ کے علمی اسفار میں سفرِ یمن کافی مشہور ہے۔آپ کے اس سفر کی روداد آپ کے بیٹے صالح نے بیان کی ہے،کہتے ہیں: والد محترم حج کے ارادے سے یحیٰ بن معین کی رفاقت میں مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ساتھ ہی یحیٰ بن معین سے کہا کہ: ان شاء اللہ حج کی ادائیگی کے بعد یمن جاکر ہم عبدالرزاق صنعانی سے ان کی مرویات سنیں گے۔

 دونوں مکہ پہنچے،طواف قدوم شروع کیا،دورانِ طواف یحیٰ بن معین کی نگاہ امام عبدالرزاق پر پڑگئی وہ پہلے سے انہیں پہچانتے تھے۔ امام عبدالرزاق اپنا طواف مکمل کرکے مقامِ ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھ کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں امام احمد اور امام یحیٰ بن معین(رحمہما اللہ) بھی اپنا اپنا طواف مکمل کرکے مقامِ ابراہیم کے پاس تشریف لے آئیں۔ اور وہیں یحیٰ بن معین نے امام احمد کا تعارف امام عبدالرزاق نے کرایا۔ نام سن کر فورا امام عبدالرزاق امام احمدکو پہچان گئے۔ خوب دعائیں دیں۔ جب امام عبدالرزاق چلنے لگے تو یحیٰ بن معین نے اپنا مدعا رکھا کہ ہم لوگوں نے آپ سے حدیثیں سننے کا ارادہ کیا ہے،جس کی خاطر کل ہم آپ کے پاس آئیں گے۔ امام عبدالرزاق کے چلے جانے کے بعد امام احمدنے اپنے رفیق اور دوست یحیٰ بن معین سے کہا:آپ نے ان سے یہیں(مکہ میں) مرویات سننے کا وقت کیوں لے لیا؟ ہم دونوں نے تو گھر سے نکلنے وقت ہی حج پورا کرنے کے بعد صنعا جاکر ان کی مرویات سننے کی نیت کی تھی۔ اگر ہم نے یہیں ان سے حدیثیں سن لیں تو پھر ہماری نیت فاسد ہوجائے گی،چنانچہ ہم صنعا(یمن) جاکر ہی ان کی مرویات سنیں گے۔ 

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔دونوں صاحبان حج مکمل کرنے کے بعد یمن گئے۔ حالانکہ راستے میں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے امام احمدکی زاد راہ ختم ہوگئی۔ بھوکے رہنے کی نوبت آگئی۔ جیسے تیسے قلی کا کام کرکے صنعا پہنچے۔ یمن میں جب امام عبدالرزاق کو امام احمد کی حالت کے بارے میں معلوم ہوا تو مالی تعاون کرنا چاہا،مگر آپ نے لینے سے یہ کہہ کر منع کردیا کہ میں جس حال میں ہوں اچھا ہوں۔

اسی مشقت وپریشانی میں دوسال یمن میں رہ کر امام عبدالرزاق سے امام زہری کی وہ تمام حدیثیں سنیں جو عبدالرزاق نے زہری سے،زہری نے سالم سے، سالم نے عبداللہ سے، اور عبداللہ نے اپنے والد(عمر بن الخطاب) سے سنیں تھیں۔ اسی طرح امام احمدنےعبدالرزاق کی وہ مرویات بھی اخذ کیں جو انہوں نے زہری سے،زہری نے سعید بن مسیب سے، اور انہوں نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنی تھیں۔

امام احمد علم کے حریص اور نہایت جفاکش انسان تھے۔ بڑی بڑی پریشانیوں کو طلبِ علم کے لئے انگیز کرجاتے۔ ہمیشہ آپ کے پاس کتابوں کا ایک بوجھ رہا کرتا تھا۔ دورانِ سفر بھی کتابوں کا یہ بوجھ آپ اپنے کاندھے پر اٹھائے رہتے۔ بعض لوگوں نے کثرتِ اسفار کا مذاق بھی یہ کہہ کر اڑانا چاہا کہ جناب! یہ کبھی کوفہ اور کبھی بصرہ کا سفر کب تک کرتے رہیں گے۔ لیکن امام احمد کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ اور ایسا ہرزمانے میں ہوتا رہا ہے کہ عام طور پر بعض ناعاقبت اندیش اہلِ علم کا مذاق اڑانے،انہیں بدنام کرنے،ان کی ذات کو نشانہ بنانے کی ناپاک کوشش کرتے رہے ہیں۔

 آپ روایتِ حدیث کے شیدائی اور متوالے تھے۔ آپ کا یہ شوق امامت کے مقام تک پہنچنے تک باقی رہا۔ آپ کے ایک معاصر نے ایک مرتبہ دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں دوات ہے،اورکچھ لکھ رہے ہیں۔ دیکھ کر اسے رہا نہ گیا کہا: ابوعبداللہ! اب تو آپ اس مقام کو پہنچ چکے ہیں،مسلمانوں کے امام اور مرجع ہیں، یہ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ اس پر برملا آپ نے کہا:"مع المحبرۃ إلی المقبرۃ" یہ قلم ودوات کا ساتھ قبر تک رہے گا۔

آپ کے اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پڑھنے اور سیکھنے کا کوئی خاص وقت نہیں ہوتا۔ آدمی کو ساری زندگی سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور سے مطالعہ اور مراجعہ ہر طالب علم اور عالمِ دین کی ضرورت ہے۔ جولوگ مطالعہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں ان کے علم میں اضافہ ہونا بندہوجاتا ہے۔ بلکہ بہت ساری یاد کی ہوئی چیزیں ذہن سے غائب ہونے لگتی ہیں۔اسی لئے امام احمد کہا کرتے تھے:" أنا أطلب العلم إلی أن ادخل القبر"میں مرتے دم تک علم حاصل کرتا رہوں گا۔

آپ کے علمی مقام ومرتبے اور علمِ حدیث میں پختگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ کے اساتذہ نے بھی بہت ساری حدیثیں آپ سے روایت کی ہیں۔ جن میں عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، اسماعیل بن علیہ، وکیع بن جراح،عبدالرحمن بن مہدی،یحیٰ بن آدم، یزید بن ہارون،محمد بن ادریس شافعی (رحمہم اللہ) وغیرہم ہیں۔ لیکن امام شافعی نے جہاں کہیں بھی حدیث ان سے روایت کی ان کو"الثقۃ"سے موسوم کیابراہ راست نام نہیں لیا ۔

آپ سے حدیث روایت کرنے والوں میں وہ بھی ہیں جو عمر میں آپ سے کہیں بڑے تھے،مگر شوقِ علم نے ان کو امام احمدکی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ان لوگوں میں قتیبہ بن سعید، داود بن عمرو، خلف بن ہشام بزار، ابوسعید عبدالرحمن بن ابراہیم دمشقی (رحمہم اللہ)معروف ہیں۔اور یہی علماء اور اچھے طلبہ کی پہچان ہے کہ علم جہاں کہیں ملے،جس کسی کے پاس ہو چاہے وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا، مالدار ہو یا نادار، خوبصورت ہویا بدصورت، اونچے خاندان کا ہو کمتر گھرانے کا علم حاصل کرنے میں دیر نہیں کرتے،کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔علم جس کے پاس ہے وہی بڑا ہے،وہی اونچا ہے،وہی قابلِ عزت اور قابلِ احترام ہے۔اس لئے کہ علم انسان کو شرف ومنزت عطا کرتا ہے۔مالداری اور خاندانی وجاہت علم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

آپ کے ساتھیوں میں جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں روایت کی ہیں ان میں علی بن مدینی، یحیٰ بن معین (رحمہم اللہ)قابل ذکر ہیں۔مذکورہ علماء ومشائخ کے علاوہ جنہوں نے آپ سے کسبِ فیض کیا،آپ سے حدیثیں روایت کیں،ان کی تعداد بہت ہے۔ جن میں آپ کے صاحب زادے صالح اور عبداللہ سرفہرست ہیں۔ان کے علاوہ آپ کے چچازاد بھائی حنبل بن اسحاق، عبدالملک میمونی، محمد بن یحیٰ ذہلی، ابوزرعہ رازی دمشقی، ابوبکر مروزی، مہنا بن یحیٰ شامی، ابوبکر أثرم، حرب بن اسماعیل کرمانی، ابراہیم بن اسحاق حربی(رحمہم اللہ) ہیں۔ جو امام احمد کے تلامذہ کی تعداد کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں، انہیں امام ابن الجوزی کی کتاب"مناقب الإمام أحمد" ضرور پڑھنی چاہئے۔

اگر ائمہ کتبِ ستہ کی بات کی جائے تو ان میں سے کئی ایک نے اپنی کتابوں میں امام احمد سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ جن امام بخاری سرفہرست ہیں۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ان سے دوحدیث روایت کی ہے۔ ایک کتاب المغازی میں دوسری کتاب النکاح میں۔امام مسلم نے بیس حدیثیں روایت کی ہیں۔ اسی طرح امام ابوداود،امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ امام احمدسے حدیثیں روایت کی ہیں۔

امام احمد سے متعلق ان کے مشائخ کے تعریفی اقوال: امام احمد کی شخصیت سب کے نزدیک معترف تھی۔ آپ کی دینداری اور علمی مقام ومرتبہ مسلم تھا۔ جس کی گواہی بہت ساروں نے دی ہے۔ آپ اپنے اساتذہ اور مشائخ کی موجودگی میں لوگوں کے لئے مرجع خلائق تھے۔ چنانچہ آپ کے اساتذہ نے بھی آپ کے علمی رسوخ کی شہادت دی ہے۔
جن میں سے چندبطورنمونہ ذیل کے سطور میں نقل کئے جاتے ہیں:

 (۱) عبدالرزاق بن ہمام کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے بڑا فقیہ اور پرہیز گار نہیں دیکھا۔

 (۲) وکیع بن جراح کہتے ہیں: احمد بن حنبل کی طرح کوئی نوجوان کوفہ میں داخل نہیں ہوا۔

(۳)عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں: سفیان ثوری کی حدیثوں کے سب سے بڑے عالم احمد بن حنبل ہیں۔

 (۴)یحیٰ بن سعید بن قطان کہتے ہیں: میرے پاس احمدبن حنبل کی طرح کوئی دوسرا نہیں آیا۔

(۵)یحیٰ بن آدم کہتے ہیں: احمد بن حنبل ہمارے امام اور پیشوا ہیں۔

(۶)قتیبہ بن سعید کہتے ہیں: احمدبن حنبل اور اسحاق بن راہویہ ساری دنیا کے امام ہیں۔

امام احمد سے متعلق ان کے ہم عصرعلماء کرام کے تعریفی جملے:

(۱)امام شافعی کہتے ہیں: میں نے اپنے بعد بغداد میں احمدبن حنبل سے بڑھ کر متقی پرہیزگار فقیہ اور عالم کسی کو نہیں چھوڑا۔
(۲) علی بن مدینی کہتے ہیں: میں نے اپنے اور اللہ کے مابین احمد بن حنبل کو امام بنایا ہوا ہے۔ اور ان سے بڑھ کر قوت ارادی کا مالک کون ہوسکتا ہے۔

(۳)ابراہیم بن اسماعیل کہتے ہیں: میرے پاس علی بن مدینی آئے،ہم سب ان کے پاس (روایت حدیث کے لئے)اکٹھا ہوئے۔ تو انہوں نے کہا: میرے آقا(سید) نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں حدیثیں صرف کتاب ہی سے بیان کروں۔
(۴) علی بن مدینی کہتے ہیں: میرے دوستوں میں ابوعبداللہ(احمد بن حنبل ) سے زیادہ قوتِ حافظہ والا کوئی نہیں ہے۔انہوں نے مزید دوسری جگہ فرمایا: اللہ تعالی نے اس دین کو دونوں آدمیوں کے ذریعہ قوت عطاکی، کوئی تیسرا اس میں شامل نہیں ہے۔ ارتدادکے موقع سے ابوبکر صدیق کی بہادری اور جرأت، اور فتنۂ خلقِ قرآن کے موقع پر احمدبن حنبل کی جوانمردی اور صلابت۔

(۵)یحیٰ بن معین کہتے ہیں: تین لوگ پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ حدیثیں روایت کرتے ہیں؛ یعلی بن عبید، قعنبی اور احمد بن حنبل۔

(۶) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: امام احمد کے مقام ومرتبے کو کوئی دوسرا نہیں پاسکتا۔

 (۷)) ابوزرعہ رازی کہتے ہیں: میری آنکھوں نے احمدبن حنبل کی طرح علم وفن،زہدوورع اور فقہ وبصیرت میں کسی دوسرے کو نہیں دیکھا۔

آپ کا حلیہ :احمدبن عباس بن ولید نحوی ہیں: میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا کہ:میں نے احمدبن حنبل کو دیکھا وہ خوبصورت اوردرمیانۂ قد وقامت کے تھے۔بالوں میں مہدی (جو کالی نہ ہو) لگاتے تھے۔ آپ کی داڑھی کے کچھ بال سفید تھے۔سفید موٹا کپڑاپہنتے تھے۔

امام ذہبی کے بقول آپ کی زندگی میں اطمینان وسکون اور ٹھہراو تھا۔ عجلت اور جلد بازی بالکل آپ کے اندر نہ تھی۔ آپ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے تھے۔

عبدالملک بن عبدالحمید میمونی کے بقول آپ نفاست پسندتھے، آپ صاف ستھرا کپڑا زیب تن کرتے، وضع قطع کاخاص خیال رکھتے، مونچھ کے بال،سرکے بال اور بدن کے بالوں میں شرعی احکام کا خیال رکھتے تھے۔

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow