الحاج تسلیم الدین کا سیاسی سفر: ایک جائزہ
اللہ تعالی جس آدمی سے امت کا کام لینا چاہتا ہے۔ اسے جن لیتا ہے الحاج تسلیم الدین رحمہ اللہ ان جنندہ لوگوں میں ے ایک بھے ۔ جن کی پوری زندگی عوام کی خدمت ، فلاح وبہبودی میں گزری وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا نا ممکن ہے ۔ ان کا سیاسی سفر تقریبا ساٹھ سالوں میں محیط ہے ، مشقتوں ، محنتوں امتحانوں سے یہ پوری زندگی کی شروعات پنجایت کے پرپہنچ سے ہوتا ہے اور مرکزی وزیرملکت برائے امور داخلہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کے چند سیاسی پہلؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
…محفوظ الرحمن(اسٹنٹ پروفیسر ،مالدہ کالج،مغربی بنگالی)"
مقدمہ
اللہ تعالی جس آدمی سے امت کا کام لینا چاہتا ہے۔ اسے جن لیتا ہے الحاج تسلیم الدین رحمہ اللہ ان جنندہ لوگوں میں ے ایک بھے ۔ جن کی پوری زندگی عوام کی خدمت ، فلاح وبہبودی میں گزری وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا نا ممکن ہے ۔ ان کا سیاسی سفر تقریبا ساٹھ سالوں میں محیط ہے ، مشقتوں ، محنتوں امتحانوں سے یہ پوری زندگی کی شروعات پنجایت کے پرپہنچ سے ہوتا ہے اور مرکزی وزیرملکت برائے امور داخلہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کے چند سیاسی پہلؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پیدائش وسیاسی سفر کا آغاز: الحاج تسلیم الدین کی پپدائش صوبہ بہار کے سسو نا میں 4/جنوری1943 میں ہوئی۔ چونکہ ان نشو نما گاؤں میں ہوئی اور ان کا گھرانہ زراعت سے منسلک تھا اس لیے ان کے سیاسی سفر کا آغاز گرام پنچایت سے ہوا اور کم ہی کم عمری میں 1959 میں اپنے سسونا گرام پنجایت سے سرپنچ منتخب ہوئے۔ پھر پانچ سالہ مدت میں اپنی ایمانداری ومحبت اور عوام کی خدمت نے انہیں گرام پنچایت کے آگے انتخابات میں سسونا کا مکھیا بنا دیا 1969 میں دہی سیاست سے نکل کر صوبائی اور قومی سیاست پر قدم رکھا اور کبھی پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا ۔ ان کے صوبائی وقومی سیاسی سفر کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے۔
اسمبلی انتخابات/Assembly Elections
|
اور آٹھویں اسمبلی انتخابات کی تفصیل الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ویپ سائٹ سے دستیاب نہ ہوسکی، پر لوک سبھا کے ویب سائٹ کے مطابق وہ آٹھ بار ایم ایل اے بنے۔ اس کے لیے معذرت خواہاں ہوں۔
32 سالہ مدت میں وہ آٹھ بار تین مختلف حلقوں سے پانچ مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے اور کسی بھی الیکشن میں انہیں شکت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
لوک سبھا انتخابات /Lok Sabha Elections
انہوں نے نہ صرف اسمبلی انتخابات میں تاریخی جیت درج کی بلکہ لوک سبھا انتخابات میں بھی انہوں نے پانچ بار جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے ۔
|
26 سال کی مدت میں مرتبہ مختلف لوک سبھا حلقوں کے ممبر بنے۔ ان کی جیت کا تناسب اوسطا ایک لاکھ تیس ہزار سے بھی زائد کارہا ہے۔ 2014ء کی ارریہ لوک سبھا حلقہ سے کامیابی کو سب سے بڑی کامیابی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں الحاج تسلیم الدین کی جیت کا تناسب سب سے بڑا تھا اور جسے نریندر موری کی لہر کا نام دیا گیا ویسے وقت میں بے جی پی کے امیدوار اور موجودہ ایم پی (siting MP)کو2/لاکھ 66ہزار کے بڑے فرق سے ہرانا سب سے بڑی بڑی کامیابی نہیں تو کیا ہے۔
شکست:۔ ویسے الحاج تسلیم الدین رحمہ اللہ نے اپنی سیاسی زندگی میں کل تین الیکشن ہارے ہیں اور تینوں بار پارلیمانی الیکشن ہی تھے اور تینوں بار حلقۂ انتخابات کشن گنج تھا ۔ بہل بار 1991 ء میں بطور آزاد امیدوار کے ہارے اور دوسری بار 1999ء میں سید شاہنواز حسین سے اور 2009 میں مولانا اسرار الحق قاسمی الیکشن ہارے۔
انتظامی عہدے:
الحاج تسلیم الدین رحمہ اللہ صرف کے ہی ممبر نہیں رہے بلکہ مختلف انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ چند عہدوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
ایم ایل اے رہتے ہوئے 80۔1977 میں حکومت بہار کے پارلیمانی سکریٹری رہے جو ایک اعلی سطحی پوسٹ ہوتا ہے ۔ پھر 2000۔2004 میں حکومت بہار کے کابینی وزیر برائے ہاؤنگ رہے۔
ایم پی رہتے ہوئے 1996 میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ رہے اور 2004۔2009ء میں زراعت ، مواصلات اور عومی تقسیم کے مرکزی وزیر مملکت رہے۔
مزید ایک بطور ایم پی پارلیمنٹ کی مختلف اسٹنڈنگ کمیٹیوں کے ممبر رہے جیسا کہ ۔(1)19۔189 میں پبلک اکاؤنئس کے ممبر رہے۔
(2)98۔1996 امور داخلہ کی اسٹنڈنگ کمیٹی کے ممبر ہے اور پارلیمانی کمیٹی برائے وقف بورڈکے ممبر ہے۔
(3)99۔1998 اسٹنڈنگ کمیٹی برائے ریلوے اور مشاورتی کمیٹی برائے وزرات سیاحت کے ممبر رہے ۔
(4) 2004ء مشاورتی کمیٹی برائے دہی ترقی، اور سٹنڈنگ کمیٹی برائے کیمیکل وکھاد کے ممبر رہے۔
ساسی جماعتوں میں عہدے
70 اور 80 کی دہائی میں ہندوستانی سیاست کو انار چڑھاؤ کاسامنا کرناپڑا اندیس نیشنل کانگریس جیسی قومی طاقتور پارٹی کا زمانہ تھا وہی دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اپنا سیاسی وجود کو مستحکم کرنے میں لگی تھیں ۔ بہار کا سر فہرست تھا ۔ اور ایک طرح کا سیاسی بحران تھا اس کی واضح مثال الحاج تسلیم الدین کے مختلف پارٹیوں سے وابستگی ہے۔ ویسے انہوں نے اپنا سیاسی سفر سے شروع کیا اور 1957 سے 64 تک ممبر رہے۔
72۔1964 کانگریس پارٹی کے ممبر رہے ور 1964 میں منڈل صدر بھی منتخب ہوئے۔
1974 میں جئے پرکاش نارائن تحریک سے وابستہ وہئے اور کافی عرصہ تک محرک رہے۔
80۔1977KANRA PARTY کے ممبر رہے۔
85۔1980 لوک دل کے ممبر رہے۔
89۔1985 جنتا پارٹی صوبہ بہار کے نائب صدر رہے۔
1998 میں RJDکے جنرل سکریٹری بنے اور ایک لمبے عرصے تک اس پر ان کے علاوہ مختلف سما جی تنظیموں تعلیمی اداروں کے انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔
الحاج تسلیم الدین اور انوکھے سیاسی ریکارڈ
ویسے آج کرکٹ کا زمانہ ہے جب بھی میچ دیکھتے ہیں تو مختلف کھلاڑیوں کے ریکارڈ دکھائے جاتے ہیں پر سیاست میں ریکارڈ کی بات بہت کم ہی ہوتی ہے اگر ہم ہندوستانی سیاسی لیڈران کے ریکارڈ کی باتکریں تو ہم ضرور دلچسپی کی بات ہوگی ۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہےکہ وہ 8بار ایم ایل اے بنے اور 5بار لوک سبھا کے ممبر بنے تو اگر اسے ریکارڈ کے نظریہ سے دیکھے تو تو دلچسپ ہوگا۔
8Times MLA,5Times MP
66 سالہ پارلیمانی تاریخ میں 6/اکتوبر 2017ء تک 4800 افراد لوک سبھا کے اور 2218 راجیہ سبھا کے ممبر بنے ہیں ۔ لوک سبھا کے ممبران میں سے 255 خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ لوک سبھا کے ممبر بننے کا موقع نصیب ہوا ہے اس میں 75 محفوظ سیٹوں سے اور بقیہ غیر محفوظ سیٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ ویسے جناب اندر جیت گپتا کو گیارہ بار اور اٹل بہاری واجپائی کو 10بار لوک سبھا کے ممبر بننے کا شرف حاصل ہے۔
ان 255ممبران میں سے 55 ممبران صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں۔
لیکن مزہ کی بات یہ ہےکہ 5 بار اس سے زیادہ مرتبہ لوک سبھا ممبر اور 5 یا زیادہ بار اسمبلی کےممبر بننے کا ریکارڈ اب تک ہندوستان میں صرف 9 لوگوں کو حاصل ہوا ہے جن کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے۔
|
Lok Sabha کے ویب سائٹ پر موجود جانکاری کا بغور مطالعہ اور تجزبہ کرنے پر مندرجہ ذیل نتائج سامنے ائے۔
الحاج تسلیم الدین صاحب ہندوستان میں واحد شخص ہیں جو پانچ مرتبہ لوک سبھا کے ممبر اور اسمبلی کے آٹھ بار ممبر منتخب ہوئے ہیں۔
13 مرتبہ بننے کا انوکھا ریکارڈ جناب تسلیم الدین صاحب کے نام ہے (لوک سبھا اور اسمبلی)
مرکز میں وزیر مملکت اور صوبہ میں کابینی وزیر ان میں سے صرف دو شخصیتوں کو کے حاصل ہے ای احمد اور تسلیم صاحب ۔
13 بار جیتنا چھ مختلف پارٹیوں اور ایک بار بطور آزارد امیدوار کے اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔
8بار ایم ایل اے بن کر 5 یا اس سے مرتبہ ایم پی بننے کا ریکارڈ اب تک صرف تین شخصیتوں کو حاصل ہے ، غنی خان چودھری ، ملائم سنگھ یادو اور جنات تسلیم الدین صاحب۔
ان میں سے 3 بار ایم ایل اے رہتے ہوئے الیکشن جیت کر ممبر آف پارلیمنٹ بننا صرف تسلیم الدین صاحب کا کارنامہ ہے۔
تینوں حلقوں کی نوائندگی اسمبلی میں اور تین حلقوں کی نمائندگی لوک سبھا میں یہ بھی اپنے آپ میں انوکھا ریکارڈ ہے۔
ویسے 13 مرتبہ لوک سبھا مقنن بننے کا ریکارڈ اور وں کے نام بھی ہے جیسا کہ تملناڈو کے سابق وزیر اعلی کروناندھی، اورکریلا کے ایک ہی حلقہ سے لگاتار 13 بار جیتنے کا کارنامہ ایم مانی نے کر دکھا یا پر وہ صرف اسمبلی کے ممبر بنے ہیں پر لوک سبھا اور اسمبلی میں ہو بھی پانچ یا اس سے زائد مرتبہ دونوں ایانوں سے یہ ریکارڈ صرف الحاج تسلیم الدین کےپاس ہے۔
راجیہ سبھا/ودھان پریشد کی ممبر شب اور الحاج تسلیم الدین
دستور ہند کے مطابق پارلیمنٹ کے دوایوان ہیں لو ک سبھا اور راجیہ سبھا اور چند صوبوں میں ودھان پریشد ہے جیسا کہ بہار میں بھی ہے۔ان کے ممبران بھی مقنن ہوئے ہیں پر انہیں پچھلا دروازہ مانا جاتا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ سیاست میں کچھ آور لیڈران ان کے ممبر ہیں ، جیسے اروند جیٹلی، امت شاہ، یوگی ادتیہ ناتھ، نتیش کمار جیسے لیڈر ان ان کے ممبر ہیں اور ماضی قریب میں ان کے ممبر رہ کر ملک وصوبہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے جیسے ڈاکٹر منموہن سنگ، ایچ ڈی دیوگوڑا، اکھلیش یادو وغیرہ۔ یہاں تک جو لوگ بطور لوک سبھا ممبر زیادہ جانے جاتے ہیں وہ بھی راجبہ سبھا کے ممبر رہ چکے ہیں جیسے اہل بہاری واجپائی 10 مرتبہ لوک سبھا ممبر اور 2 بار راجیہ سبھا ممبر رہے ہیں۔
لیکن جہاں تک الحاج تسلیم الدین کی بات ہے تو ہ کبھی نہیں چاہے تھے کہ وہ راجیہ سبھا یا ودھان پریشد کے ممبر بنیں ان کا مننا تھا کہ جب عوام انہیں جیتا کر پاریلمینٹ یا اسمبلی بھیجے گی، تب ہی جائیں گے ورنہ نہیں، ویسے 1991، 1999 اور 2009 میں الیکشن ہار گئے تھے اور کسی دستوری عہد پر فائز نہ تھے،اس وقت چاہتے تو ممبر بن سکتے تھے ،انہوں نے اپنی پارٹی کا دھیان کبھی مبذول نہیں کرایا اور خصوصا 1999 میں الیکشن ہار گئے تھے ، ان کی پارٹی کی ریاست میں حکومت تھی ، وہ پارٹی کے جنرل سکریٹری تھے، آگر چاہتے تو سب کچھ ممکن تھا پر ایسا کچھ نہیں نہیں کیا ، بلکہ اگلے الیکشن کا انتظار کیا الیکشن کا وقت یا میدان میں اترے اور 2000 میں جیت کر اسمبلی پہنچے اور بڑی وزارت ملی ۔ 2009 کے ہار کے بعد 5 سال کا فقہ تھا پھر بھی کوئی مطالبہ نہیں پر عوام کی، عوام پر ان کا اعتماد ، لگاؤ، اعتقاد کہ حقیقتا ان کی نمائندگی کرنی تھی کہ جب بھیجیں تھبی جانا ہے ورنہ نہیں وہ عوام کے لیڈر تھے اور عوام کے ذریعہ منتخب ہونا پسند کرتے تھے۔
ہمیشہ عوام کی فالح وبہبود کے بارے میں سوچتے رہتے تھے ، غریب سے غریب اور سماج کے سب سے نچلا طبقہ اپنے حق سے محروم نہ ہو جائے اس باپ کی ہمیشہ ان کو فکر لاحق تھی ۔ در اصل ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہی غریب ومحتاج عوام کی امداد کرنے سے ہوا ۔
غریب سے محبت اس کے لیے مر مٹنے کی امنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی سے قبل اور فورا بعد زمینداری سسٹم رائج تھا۔ زمین ہی اصل ذریعہ معاش تھی پر اس کی ملکیت چند گنے چنے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی اس سسٹم کا خاتمہ ضروری تھا اس لیے دستور ہند کے نفاذ کے محض ساڑے تین ماہ بعد پہلی دستوری ترمیم اس سسٹم کے خاتمہ سے متلعق تھی اس سسٹم کے خلاف جن مخلصان ملت نے جہاد کیا ان میں الحاج تسلیم الدین کا نام سر فہرست ہے۔وہ در اصل غریبوں ، محتاجوں اور پسماندہ طبقات کے لیے مسیحا بن کر ابھرے، وہ شروعاتی دل سالہ مدت علاقائی زمینداری کے خلاف آواز بلند کرنے اور پسماندہ لوگوں کی مدد میں گزری جس سے وہ اتنے عزیز ہوئے کہ 26 سال کی عمر میں اسمبلی الیکشن کے لیے میدان میں اترے اور عوام نے ان پر پورا بھروسہ دکھایا اور اتنی کم عمری ہی میں ایم ایل اے بن گئے۔
اگر ہم ہندوستانی سیاست کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ اگر کوئي 26۔25 سال کا نوجوان لوک سبھا یا اسمبلی کا ممبر بنتا ہے تو ضرور وہ رمیش پائلٹ کا بیٹا، سچن پائلٹ، فاروق عبد اللہ کا بیٹا عمر عبد اللہ ، ملائم سنگھ یادو کا بیٹا اکھلیش یادو، لالو پرساد یادو کا بیٹاتیجسوی یادو ہوسکتا ہے یا پھر کسی حادثہ کی بنا پر لوگوں کی ہمدردی ہو جائے جیسا کہ 1975 کی قومی ایمر جنسی کے مظلوم طلبہ آج کے کنہیا کمار یا کرکٹ فلم اسٹار ہو تو ممکن ہے۔
پر اگر وہ نوجوان ایک غریب کسان کے گھر سے تعلق رکھتا ہو تو ضرور ان کی محنت ایماندری سے 26 سال کی عمر میں ایم ایل اے بن جاتا ہے تو یہ کسی کرشمہ سے کم نہیں ہے ۔انوکھوں میں انوکھا۔
سیاستدانوں کی اقسام اور الحاج تسلیم الدین
عموما ویسے سیاسی لیڈران دو طرح کے ہوتے ہیں عوام کا نمائندہ دوسرا پارٹی کا لیڈر۔
عرام کا نمائندہ یعنی جس کا تعلق ڈائریکٹ عوام سے ہو، عوام ہی اس کے لیے سب کچھ ہے اور پارٹی کا لیڈر کا مطلب وہ عوام کا نہیں پراٹی کا ہوتا ہے وہ اپنی پارٹی کے اندر ہی پاور فل ہوتا ہے عوام تک اس کی پہنچ نہیں ہوتی اس کے لیڈران اکثر بڑی سیاسی پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔
جہاں تک الحاج تسلیم الدین صاحب کا تعلق ہے وہ یقینا عوامی لیڈر تھے ان کے ریکارڈ جیت، عوام پر بھروسہ، راجیہ سبھا، ودھان پریشد کو نظر انداز کرنا ، کم عمری میں مقنن بن جاتا اس بات کی طرف غماز ہے کہ وہ عواما کے نمائند ے تھے۔
عظیم قائد کی خصوصیات اور الحاج تسلیم الدین
ویسے تو عظیم قائد کی خصوصیات کے بارے میں مخلف نظرے ہیں ایک خصوصیات کا ہونا محال ہے پھر بھی یہاں سطح مشہور معروف امریکی میگزینForbes میں مذکور عظیم قائد کی دس خصوصیات ذکر کنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایماانداری، سفیر، مواصلت، اعتماد وبھروسہ ، ذمہ داری، مثبت رویہ، تخلیقی صلاحیت ، انضمام، حوصلہ افزائی اور رسائی۔
جب ہم الحاج تسلیم الدین صاحب کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ صفات ان میں بدرعہ اتم پائی جاتی ہے اور ان کی ذات سے میل کھاتی ہیں ۔
الحاج تسلیم الدین اور عدد3
ویسے تو کسی عدد کو کسی کے ساتھ جوڑنا صحیح نہیں ہے لیکن اگر ہم ان کے سیاسی سفر کو دیکھتے ہیں تو عدد 3 بہت اہم عدد ثابت ہوئی ۔ جیسے : 3 حلقوں سے ایم ایل اسے بنے۔ 3 حلقوں سے ایم پی بنے۔3 باروزیر بنے۔ 3بار الیکشن بارے۔ 3بار کشن گنج سے الیکشن جیتے۔3بار کشن گنج سے ہی الیکشن ہارے۔5بار ایم پی بنے ان میں سے 3 بار ان کی پارٹی یا ان کی حلیف پارٹی کی سرکار بنی ۔8بار ایم ایل اسے بنے ۔ ان میں سے 3بار ان کی پارٹی کی سرکار رہی۔ 3بار جو پارلیمانی الیکشن ہرے تینوں بار ان کی پارٹی یا حلیف کی سرکار بنی ۔ کل 15 الیکشن جیتے ۔ 3 سے منقسم ہوتا ہے 6پارٹی سے الیکشن جیتے 6،3 سے منقسم کل 18 بار الیکشن لڑے۔ 18،3 سے منقسم۔
پاور کا استعمال اور الحاج تسلیم الدین
پاور کہتےہیں دوسرے کے کام کو اس کی خواہش کے بر خلاف کرانے کو سیاست میں پاور کا استعمال مثبت سے زیادہ منفی پہلو میں ہوتا رہا ہے لیکن جب ہم الحاج تسلیم الدین کی بات کرتے ہیں توان میں سب سے اچھی بات پاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی پاور کا بیجا استعمال نہیں ۔ جب اور جہاں عوام کی بہبودی کی بات آئے، وہیں استعمال کرتے ہیں۔ ذاتی مفاد کا شائبہ تک نہیں رہتا ۔ اگر انہیں لگتا کہ یہ کام عوام کو فائدہ پہنچائے گا تو اسے کرو اکر ہی دم لیتے تھے۔عوام کے لیے مر مٹنے کی صلاحیت تھی۔ پارٹی، مذہب، ذات پات اور علاقیت سے اوپر اٹھ کر کام کرتے تھے اور عوام کی بہتری کے لیے ا گر انہیں اپنی سیاسی پارٹی کے خلاف بھی جانا پڑتا تھا تو جاتے تھے اور اگر دشمن سے وہ کام ہوتا تو اس سے گریز نہیں کرتے۔
ان کی نیک نیتی ، محنت وکاوش سے یہ مندرجہ ذیل کام ممکن ہوئے۔
سیمانچل اکسپریس، بہار حج ہاؤس ، بہار مدرسہ ایجو کیشن بورڈ آفس، کشن گنج سے غریب رتھ اکسپریس، کشن گنج فلائیور، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کشن گنج برانچ، مختلف سڑکیں کئی درجنوں اسکول کالج۔
ان کی مقبولیات ، لوگوں کا لگاؤ، پیار ومحبت ، مرمٹنے کی ضد کا ثبوت ان کی موت پر لوگوں کو ہوئے صدمے ، بہتے آنسو اور جنازہ میں5لاکھ سے زائد لوگوں کا ہجوم اور سب کی آنکھوں میں نمی، اس باپ پر دال ہیں اور ان 5 لاکھ لوگوں میں پر مذہب ، فرقہ اور ذات ودھرم کے لوگ شامل تھے دور دراز علاقوں سے لوگ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے جھوم در جھوم آئے۔
ایسی عبقری شخصیت جو اب ہم میں نہیں ہے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہےکہ ان کی غلطیوں کو معاف فرما کر جنت نصیب فرمائیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟