حلب کے لیے آسماں بھی رورہا ہے!
مشرقی حلب غیر ملکی جارحین کی مزاحمت کرتا رہا تھا ۔ اب اس کا دمشق اور اس کے غیر ملکی آقاؤں ایرانیوں اور روسیوں کے ہاتھوں چار سال کے بعد سقوط ہوگیا ہے ۔ گذشتہ چند روز کے دوران میں ہم نے حلب میں جنگ سے متاثرہ افراد اور ان کی مدد کو آنے والوں کے نوحے سنے ہیں ۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ "جو کچھ رونما ہوا ہے، مستقبل میں کبھی ایسا نہ ہو"۔
حلب کے لیے آسماں بھی رورہا ہے!
"… صادق الرحمن مدنی
مشرقی حلب کے مکینوں کو اسی ہفتے راحت ملی تھی ۔ وہ گذشتہ برسوں سے سفاکیت اور محاصرے کا شکار ہیں۔ آسمان پر بادلوں نے روسی اور اسدر جیم کی قاتل فضائی افواج کو تباہ کن بیرل بموں ، چھوٹے اور بڑے بموں کو برسانے سے روک دیا تھا۔ پھر تباہ شدہ شہر پر رحمت کی بارش برسی ۔ اس پر ایک مکین یہ کہہ اٹھا:"حلب آنسوؤں سے رورہا ہے"۔
یہ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے آسمان مرتے ہوئے شہر کو آخری غسل دے رہا ہے اور مسلم روایت کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کے بعد تدفین کی تیاری کی جارہی ہے ۔
امریکی لمحے کا خاتمہ:
مشرقی حلب غیر ملکی جارحین کی مزاحمت کرتا رہا تھا ۔ اب اس کا دمشق اور اس کے غیر ملکی آقاؤں ایرانیوں اور روسیوں کے ہاتھوں چار سال کے بعد سقوط ہوگیا ہے ۔ گذشتہ چند روز کے دوران میں ہم نے حلب میں جنگ سے متاثرہ افراد اور ان کی مدد کو آنے والوں کے نوحے سنے ہیں ۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ "جو کچھ رونما ہوا ہے، مستقبل میں کبھی ایسا نہ ہو"۔
سوال یہ ہےکہ کیا شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری کے تصور کا کوئی مفہوم باقی رہ گیا ہے؟ یا شہر یوں کو اجتماعی ہلاکتوں ، نسلی تطہیر اور جنگی جرائم سے بچانے کے لیے کوئی مز عومہ عالمی ذمے داری بھی ہے جبکہ شامی عوام کی اکثریت ان مظالم کا شکار ہے۔
ان سوالوں کی زیادہ اہمیت اس وجہ سے بھی ہےکہ تنازعات ، شہریوں کے خلاف مظالم ، اجتماعی ہلاکتوں ، فرقہ وارانہ اور نسلی تطہیر کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی ایسے نہیں ہوا ہےکہ یہ سب کچھ دنیا کی نظروں کے سامنے اور فیس بک ، ٹویٹر یا یوٹیوب پر حقیقی وقت میں اور براہ راست رونما ہوا ہو۔
گذشتہ صدی میں بھی ہولناک اجتماعی ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن یہ سب غیر جانبدار نظروں یا کیمروں سے اوجھل ہوتا رہا تھا ۔
شام میں جاری خونریزی کی حقیقی وقت اور براہ راست کوریج ہی سب سے بڑا جواز ہے کہ دنیا کو اس نئی صدی میں ہونے والے اس انسانی ساختہ المیے کی مکمل وضاحت ہی نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ یہ سب کچھ بچشم خود ملا حظہ کر رہی ہے۔
یہ درست ہےکہ زیادہ تر جنگجو شامی ہیں۔ تاہم شام میں جاری لڑائی میں غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت جنگ کو بڑاھاوا دینے والا ایک اہم عامل ہے۔ ایران کی فوجی مداخلت ، براہ راست یا لبنان، عراق اور اس سے ماورا شیعہ فرقہ وارانہ ملیشاؤں کے ذریعے اور روس کی سریع الحرکت فورس کی مداخلت ، شام پر فوجی قبضے کی مظہر ہے۔ اسدرجیم کی بقان فورسز کی مرہون منت ہے۔ دوسری جانب اوباما انتظامیہ کی شام کے بارے میں مختلف اور بعض اوقات متنا قض حکمت عملی گذشتہ سال روس کی مداخلت کو جانچنے میں مکمل طور پر ناکام رہی تھی ۔
صدر اوباما روس کو یہ لیکچر دیتے رہے تھے کہ صدر اسد کے دفاع میں فوجی یونٹوں کو بھیجنا اس کے قومی سلامتی کے مفاد کے منافی ہے ۔ انہوں نے روسیوں کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کی معیشت کمزور ہے اور وہ خود کو ایک دلدل میں دھنسا ہوا پائیں گے۔ اس سب سے روسی شام پر مستقل طور پر قبضے پر مجبور ہوگئے۔
صدر اوباما نے گذشتہ جمعے کو اپنی آخری نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ روس کی امریکا کے مقابلے میں معیشت کمزور اور چھوٹی ہے۔ ان کی معیشت تیل ، گیس اور اسلحے کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتی ہے کہ جو کوئی خرید کرسکے۔
دوسری جانب صدرولادی میرپوتین درست طور پر یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ 2016ء شام میں روس کے لیے شاندار سال رہا ہے ۔ حلب کا سقوط ہوا اور اس نے امریکا میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ اس نے امریکا کی سائبرسپیس میں منفرد انداز میں مداخلت کی ہے کہ وہ صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہوا ہے اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوارڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ٹھہرے ہیں ۔
اٹھ سال قبل صدر اوباما کو اپنے پیش رو صدر جارج ڈبلیوبش سے ایک غیر فعال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار عرب دنیا ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے جانشین صدر کو ایک ایسا خط دے کرجارہے ہیں جو سست روی سے منہدم ہورہا ہے اور وہاں امریکا کا اثر ور سوخ کم اور شہرت پڑرہی ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم شاید امریکا کے مشرق وسطی میں تاریخی لمحے کے خاتمے کا آغاز ملاحظہ کررہے ہیں ۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟