مسجد بحیثیت اسلامی پارلیامنٹ
سیرت نبوی سے مسجد نبوی کے مختلف استعمال کو پیش نظر رکھنا ہوگا: ۱۔ مسجد نبوی کی حیثیث ایک یونیورسٹی کی تھی جہاں مسلمان اسلامی تعلیمات کے ساتھ جنگی فنون کا درس لیتے تھے۔ ۲۔مسجد نبوی کی حیثیث صدر مملکت کے مرکزی دفتر کی تھی جہاں سے مدینہ جیسی چھوٹی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا۔ ۳۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک فوجی ہیڈ کواٹر کی تھی جہاں فوجی کمانڈروں کی میٹنگ ہوتی تھیں اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔ ۴۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک اسلامی پارلیامنٹ کی تھی جس میں مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ ۵۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک مہمان خانہ کی تھی، جہاں مسلم وغیر مسلم وفود کا قیام ہوتا تھا۔ ۶۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک سینٹرل جیل کی تھی، جہاں جنگی قیدیوں کے علاوہ عام قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ ۷۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک ہاسپیٹل کی تھی جہاں مریضوں کی رہائش کے ساتھ ان کے علاج کا انتظام تھا۔ ۸۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک سپریم کورٹ کی تھی جہاں قاضی وقت کا اجلاس ہوتا تھا اورہرطرح کے فیصلے کئے جاتے تھے۔ ۹۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک ایسے محفل کی تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد میل محبت سے بیٹھتے تھے اور گفتگو کرتے تھے۔ ۱۰۔مسجد نبوی کی حیثیت پلے گراؤنڈ کی بھی تھی جہاں مختلف قبائل کے لوگ خوشی کے مواقع پر اپنے اپنے قومی کھیل کا مظاہرہ کرتے تھے۔
جائزہ واحتساب |
مسجد بحیثیت اسلامی پارلیامنٹ
"… ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی
الحمدللہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، وبعد:
مذکورہ بالا عنوان میں دو الفاظ ایسے ہیں، جن کی وضاحت سے موضوع کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پہلا لفظ مسجد ہے، یہ خالص عربی لفظ ہے جس کا معنی ہے سجدہ گاہ ۔ اسلامی تعلیم کے اعتبار سے پوری روئے زمین مسجد یعنی سجدہ گاہ ہے، دنیا کی کسی بھی پاک وصاف جگہ پرسجدہ کیا جاسکتا ہے۔ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ عبادت کی جاسکتی ہے البتہ شرعی اصطلاح میں مسجد روئے زمین کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو عبادت کے لئے وقف کردی گئی ہو، اور جس پر بنائے گئے مکان کو عام لوگوں کے لئے کھول دیا گیا ہو۔ ویسے تو پوری زمین اللہ کی حقیقی ملکیت ہے، لیکن عبادت کے لئے خاص کی گئی زمین کو اللہ تعالیٰ نے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔ سورۃ الجن یعنی آیت نمبر ۱۸ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وأن المساجد للہ فلا تدعوا مع اللّٰہ أحدا" مسجد اللہ کی ہیں، لہٰذا تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو، سورہ توبہ( آیت :۱۸) میں اللہ نے فرمایا: "اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ" اللہ کی مساجد کو آباد کرنا اس کا کام ہے جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لایا، نماز پابندی سے پڑھتا رہا، اور زکاۃ ادا کرتا رہا، اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا، امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے، اور سورہ بقرہ (آیت:۱۱۴) میں اللہ نے فرمایا: "وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ" اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اسے ویران کرنے کے درپے ہو، انہیں ہی تو یہ چاہئے تھا کہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔
ان تینوں آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسجد کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے، اور یہ عظیم نسبت مسجد کے مقدس، محترم اور بابرکت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ احادیث نبویہ میں بھی مسجد کی اہمیت کو بڑے ہی دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے، رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: "احب البلاد إلی اللّٰہ مساجدہا، وابغض البلاد إلی اللّٰہ أسواقہا"(1)انسانی آبادی میں اللہ کو سب سے محبوب اس میں پائی جانے والی مسجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ اس میں پائے جانے والے بازار ہیں ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: " من توضأ وجاء إلی المسجد فہو زائراللہ عز وجل، وحق علی المزور أن یکرم الزائر"(2)جو شخص وضو کرے اور مسجد آئے وہ اللہ کا مہمان ہے، اور میزبان (یعنی اللہ) پر یہ حق ہے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے۔مسجد کی تاریخ انسانی تاریخ سے شروع ہوتی ہے، دنیا کے سب سے پہلی مسجد مکہ میں بنائی گئی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْن"(3)سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہی گھر ہے جو مکہ میں ہے، بعض مفسرین کے مطابق اس گھر کی تعمیر کاکام سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے کیا، اور مرور زمانہ کے ساتھ اس عمارت کے ختم ہوجانے کے بعد اسی علامت اور اسی بنیاد پر حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، اسلام کی آمد کے بعد رسول اللہﷺ سب سے پہلے قباء نامی جگہ میں مسجد کی بنیاد رکھی، اور مدینہ پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر کی، اسلام کی اشاعت کے ساتھ مساجد کی تعداد بھی بڑھتی گئی، اور آج دنیا کے چپہ چپہ میں یہی مساجد ملت اسلامیہ کی روحانی اور قومی قوتوں کا سرچشمہ، اوراسلام کی تبلیغ واشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مساجد کی مختلف حیثیات بالخصوص ان کی پارلیامانی حیثیت پر گفتگو سے پہلے عنوان میں وارد دوسرے لفظ یعنی پارلیامنٹ کی وضاحت بھی ضروری ہے، انگریزی زبان کی معتبرترین ڈکشنری (آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری ، مولف شان الحق حقی) کے اندر پارلیامنٹ کو برطانیہ کی انگریزی زبان بتا یاگیا ہے، جو اسم کے طور پر مستعمل ہے اور جس کا معنی ہے"قانون بنانے والی سب سے اعلی مجلس، جس میں بادشاہ اور ملکہ بھی شامل ہوں، نیز اسے دارالامراء اور دارالعوام بھی کہتے ہیں"(ص:۱۱۹۵) ہندوستان جیسے بعض جمہوری ممالک میں پارلیامنٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک میں عوام کے ذریعہ منتخب نمائندے اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرتے ہیں جسے ہندی زبان میں لوک سبھا اور اردو زبان میں ایوان زیریں کہتے ہیں، جبکہ دوسرے میں ریاستی نمائندوں کے ذریعہ منتخب اور حکومت کے ذریعہ نامزد نمائندے کام کرتے ہیں جسے ہندی زبان میں راجیہ سبھا اور اردو زبان میں ایوان بالا سے تعبیر کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں امور مملکت کو طے کرنے ، اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے حاکم وقت کو باہمی مشورہ کا پابند بنایا گیا ہے، اور اس اعلیٰ مشاورتی مجلس کو شوریٰ کانام دیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: "وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ"(4)مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورہ سے طے ہوں گے، مجلس شوریٰ کی اسلام میں تقریبا وہی حیثیت ہے، جو موجودہ جمہوری نظام میں پارلیامنٹ کی ہے، دونوں میں بنیادی فرق ارکان کے طریقہ انتخاب کا ہے، اسلام نے تقویٰ ، دینداری اور امانت داری کو وجہ انتخاب بتایا ہے، اور خلیفہ وقت کو ان اوصاف کی رعایت کرتے ہوئے انتخاب کااختیار دیا ہے، یہ طریقہ جمہوری طریقہ انتخاب کے مقابل میں بدر جہا بہتر اورعدل وانصاف کے قیام کے لئے ناگزیر ہے۔ جمہوری طریقہ انتخاب کے مفاسد اتنے زیادہ اور واضح ہیں کہ اسلامی طریقہ انتخاب سے اس کا تقابل بے سود ہے اور بے معنی ہے۔ اس تناظر میں مجلس شوریٰ کو اسلامی پارلیامنٹ کہنا، تھوڑا اٹ پٹا تو لگتا ہے لیکن پارلیامنٹ کے ساتھ لفظ "اسلامی" لگانے سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ اور اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے۔
مسجد اورپارلیامنٹ کی اس لغوی اور تاریخی وضاحت کے بعد آئیے اب ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ اسلام نے مساجد کو کن کن مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن مجید نے مسجد کے احترام وتقدس کو بیان کرتے ہوئے، اس کےاستعمال کے لئے ایک انتہائی بامعنی لفظ کا استعمال کیا ہے۔اور وہ ہے "تعمیر" یہ لفظ مسجد کی بناوٹ کے ساتھ ساتھ اس کو آباد کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، اور مسجد کی آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ نمازہے، اس کے علاوہ اورکن کن امور سے مسجد آباد ہوتی ہے، اس کو جاننے کے لئے سیرت نبوی سے مسجد نبوی کے مختلف استعمال کو پیش نظر رکھنا ہوگا:
۱۔ مسجد نبوی کی حیثیث ایک یونیورسٹی کی تھی جہاں مسلمان اسلامی تعلیمات کے ساتھ جنگی فنون کا درس لیتے تھے۔
۲۔مسجد نبوی کی حیثیث صدر مملکت کے مرکزی دفتر کی تھی جہاں سے مدینہ جیسی چھوٹی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا۔
۳۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک فوجی ہیڈ کواٹر کی تھی جہاں فوجی کمانڈروں کی میٹنگ ہوتی تھیں اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔
۴۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک اسلامی پارلیامنٹ کی تھی جس میں مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔
۵۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک مہمان خانہ کی تھی، جہاں مسلم وغیر مسلم وفود کا قیام ہوتا تھا۔
۶۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک سینٹرل جیل کی تھی، جہاں جنگی قیدیوں کے علاوہ عام قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔
۷۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک ہاسپیٹل کی تھی جہاں مریضوں کی رہائش کے ساتھ ان کے علاج کا انتظام تھا۔
۸۔ مسجد نبوی کی حیثیت ایک سپریم کورٹ کی تھی جہاں قاضی وقت کا اجلاس ہوتا تھا اورہرطرح کے فیصلے کئے جاتے تھے۔
۹۔مسجد نبوی کی حیثیت ایک ایسے محفل کی تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد میل محبت سے بیٹھتے تھے اور گفتگو کرتے تھے۔
۱۰۔مسجد نبوی کی حیثیت پلے گراؤنڈ کی بھی تھی جہاں مختلف قبائل کے لوگ خوشی کے مواقع پر اپنے اپنے قومی کھیل کا مظاہرہ کرتے تھے۔
مسجد کی ان تمام حیثیتوں کے لئے سیرت نبوی میں دلائل موجود ہیں۔ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، اہل ذوق مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی معروف کتاب "الرحیق المختوم" میں ان دلائل کو دیکھ سکتے ہیں۔
اوراب اخیر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام نے مسجد کو متنوع اغراض ومقاصد کے لئے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد میں کچھ افعال وحرکات سے منع بھی کیا ہے جو بالاختصار یہ ہیں:
۱۔ مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کرنا حرام ہے، رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: "من سمع رجلا ینشدُ ضالّۃ فی المسجد فلیقل: لا ردّہا اللہ علیک، فإن المساجد لم تبن لہذا"(5)جوشخص کسی آدمی کو مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو کہے اللہ تعالیٰ اسے تمہارے پاس نہ لوٹائے، کیونکہ مسجد یں اس لئے نہیں بنائی گئی ہیں۔
۲۔ مسجد میں خرید وفروخت ممنوع ہے، رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "إذا رأیتم من یبیع أو یبتاع فی المسجد فقولوا: لا أربح اللہ تجارتک"(6)وصححہ الالبانی، جب تم مسجد میں کسی کو خرید وفروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں کوئی برکت نہ دے۔
وآخردعوانا إن الحمد للہ رب العالمین!
حواشی:
1۔(صحیح مسلم:971)
2۔ (السلسۃ الصحیحۃ للالبانی: 1196)
3۔(آل عمران:3/96)
4۔ ( الشوری:42/ 38)
5۔ (صحیح مسلم: 568)
6۔ (جامع ترمذی: 1321)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟