جمہوریت کے 67سال
ہندوستان کسی ایک فرقہ کا ملک نہیں ہے،نہ کسی خاص مذہب اور اس کے ماننےوالوں کی جاگیر ہے،اس کی قومیت صرف ہندؤں سے،یا صرف مسلمانوں سے تشکیل نہیں پائی ہے،بلکہ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے،مختلف مذاہب،اور ملت کے لوگ رہتے ہیں،ان کی زبانیں ،بھاشائیں ،تہذیبیں،ثقافتیں الگ الگ ہیں،لیکن سبھی مل کر ایک ملک کی تشکیل کرتے ہیں،اس کی ترقی ،عروج،اور بلندی کے لئے اپنی جان داؤ پر لگادیتے ہیں،وہی جسے ہم ہندوستان کہتے ہیں ،اور ہمیں فخر ہےکہ ہم ہندوستانی ہیں۔
بصیرت آمیز |
جمہوریت کے 67سال
"… خالد انور المظاہری
26 ؍جنوری 1950میں اس ملک کا دستور بنا،اور آئین کی ترتیب وتدوین کا کام مکمل ہوا،دستور کی روسے اس ملک کو سیکولر اور جمہوری قراردیاگیا،مختلف حالات،تعصبات،اور حکومتی غیر منصفانہ رویوں کے باوجو د جمہوریت کے68؍ویں سال میں ہم داخل ہوگئے،اور یوم جمہوریہ مناکر جمہوریت کی یاد تازہ کررہےہیں۔
ہندوستان ایک خوبصورت ملک ہے ،مختلف تہذیبوں ،ثقافتوں ،اور زبانوں کاگہوارہ ہے،اور یہ آزادی کے بعد سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے ہمارے ملک کےرگ رگ میں اختلاف اور تنوع کا خون موجودہے،کثرت میں وحدت ہی اس کی پہچان
ہے۔ہندوستان کسی ایک فرقہ کا ملک نہیں ہے،نہ کسی خاص مذہب اور اس کے ماننےوالوں کی جاگیر ہے،اس کی قومیت صرف ہندؤں سے،یا صرف مسلمانوں سے تشکیل نہیں پائی ہے،بلکہ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے،مختلف مذاہب،اور ملت کے لوگ رہتے ہیں،ان کی زبانیں ،بھاشائیں ،تہذیبیں،ثقافتیں الگ الگ ہیں،لیکن سبھی مل کر ایک ملک کی تشکیل کرتے ہیں،اس کی ترقی ،عروج،اور بلندی کے لئے اپنی جان داؤ پر لگادیتے ہیں،وہی جسے ہم ہندوستان کہتے ہیں ،اور ہمیں فخر ہےکہ ہم ہندوستانی ہیں۔
1905 میں گورنمینٹ کالج لاہور میں ایک اجلاس عام کاانعقاد ہوتاہے،مشہورشاعرمشرق علامہ اقبال ؒ کو اجلاس کی صدارت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے،تقریرکرنے کے بجائے پورے جوش وخروش کے ساتھ اپنی لکھی ہوئی نظم "سارے جہاں سےاچھا،ہندوستاں ہمارا" پڑھ کر سناتے ہیں ،اور 1950ء کی دہائی میں اندراگاندھی پہلے خلاباز راکیش شرماسے پوچھتی ہے کہ :خلاسے بھارت کیسادکھائی دیتاہے،تو وہ جواب دیتاہے :"سارے جہاں سے اچھا ، ہندوستاں ہمارا"اور ہم بھی صرف یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر نہیں،بلکہ عقیدت کے طور پر ہمیشہ ہی گنگناتے ہیں "سارے جہاں سے اچھا،ہندوستاں ہمارا"اور پوری دنیامیں جہاں بھی جاتے ہیں ہندوستان کی اسی رنگارنگی،اور گنگاجمنی تہذیب کا کھل کر اظہارکرتے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب ہے :عوام کی حکومت ،یعنی حکومت کی چابی عوام کے پاس،عوام ہی ہرپانچ سال میں ملکی اور ریاستی سطح پرپارلیامینٹ اور اسمبلی کےلئے نمائندوں کا انتخاب کرتی ہے ،عوام کے ذریعہ منتخب نمائندے ملک کےمرتب قوانین اور دستور کے مطابق نظم ونسق چلاتے ہیں ۔
جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت عوام ہوتی ہے ،اسی لئے ایک جمہوری ملک میں جوبھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ،جو بھی قوانین مرتب کئے جاتے ہیں ،عوام کی فلاح پیش نظر رہتی ہے ،اگر ایسانہیں ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ جمہوریت اور سیکولرازم کا نعرہ صرف سیاسی اور انتخابی ہتھکنڈہ ہے ،اس سے آگے کچھ بھی نہیں۔
26؍جنوری 1950میں اس ملک کا دستور بنا،اس کی یاد میں ہرسال 26؍جنوری کےموقع پر نہایت ہی دھوم دھام سے یوم جمہوریہ منایاجاتاہے ،اسکولوں،کالجوں،مدرسوں،سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں پرچم کشائی ہوتی ہے ،ترانے گنگنائے جاتے ہیں ،اور ہندوستان کی جمہوریت کا احساس دلایاجاتاہےاور بس!اور یہ سنتے سنتے 67؍سال بیت گئے ،زمینی سطح پر نہ جمہوریت ہے اورنہ جمہوریت کے حامل ہمارے حکمراں۔
جی ہاں !جمہوریت ہمیں اجازت دیتی ہے بولنے کی ،لکھنے کی،کھانے ،پینے کی،رہن سہن کی،اپنے اداروں کے قائم کرنے کی ،اپنے مذہب پر عمل کرنے کی ،مگران سارے حقوق کو چھیننے کی کوششیں تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہیں،کبھی بھوپال انکاؤنٹر کے ذریعہ،کبھی مظفرنگراور گجرات دنگوں کے ذریعہ،کبھی تین طلاق کے بہانے ، اور کبھی دہشت گردی کے الزام کے ذریعہ،کبھی دادری میں اخلاق کا قتل کرکے،اور ہم بے بس ہیں ، نامیدی کفر ہے اسی لئے ایک امیدباقی ہے ،اور جمہوریت کی تلاش میں 67؍سالوں سے ہم ناکئے کی سزاکاٹ رہےہیں ، حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب مسلم مکت کا نعرہ دیاجاتاہے اور جمہوریت کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی نظر آتے ہیں۔
سچرکمیٹی رپورٹ نے حکومت ہندکو آئینہ دکھایاتھا،کہ سیاسی ،تعلیمی،اقتصادی ،اور دیگر تمام شعبوں میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہوگئی ہے،اور اس کے تناظر میں خصوصی ریزرویشن کی بھی سفارش کی گئی تھی ، لیکن مکمل دس سال کاعرصہ گذرگیا،اور جمہوریت کی آواز بلند کرنے والوں نے ذرہ برابر اس پر توجہ نہیں دی ، کیا ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کےحقوق کو نظر انداز کرکے اور ترقی کی رفتار سے انہیں نیچے گراگر جمہوریت کی بحالی ممکن ہے؟
24؍لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والااور دنیاکی سپر طاقتوں کو زیر نگیں کرنے والاشخص زاروقطار رونے لگا،لوگوں نے وجہ پوچھی ؟قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتیں ٹوٹ کرعرب میں شامل ہوگئی ہیں، روم وفارس کوآپ سے ٹکرلینے کی ہمت
نہیں ہے،221030مربع میل علاقوں کوآپ نے فتح کرلیا،آخرکیاوجہ ہے جوآپ رورہے ہیں؟ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہا:فلاں پل سے بھیڑ،بکریوں کاریوڑگزررہاتھا،پل میں ایک سوراخ تھا،اس سوراخ میں ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی،میں اس لئےرورہاہوں کہ کل خدانے پوچھ لیا:بتاتیری حکومت میں بکری کی ٹانگ کیوں ٹوٹی،پل کو مرمت نہیں کرواسکتاتھا،میں اس لئے رورہاہوں۔
جمہوریت کے اصول وآداب کیاہیں؟ان تعصب پسندحکمرانوں کوکیامعلوم؟صرف ووٹ لینے کے داؤپیچ سے واقف ہیں یہ لوگ،اوراقتدارکی کرسی پربیٹھ کراپنی پارٹی اوراپنی پارٹی کی پایسی پرعمل کرکے وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ جمہوریت کوفروغ دے رہے ہیں،اورزمینی سطح پرحالت یہ ہے کہ کھلے عام اقلیتوں اوربالخصوص مسلمانوں کو گالیاں دی جاتی ہیں،ووٹ ڈالنے کے حق کوچھیننے کی کوشش ہوتی ہیں،مختلف ایشوزکے ذریعہ انہیں ٹارچر کیاجاتاہے،اس طرح کے دیگرمسائل اورپریشانی کھڑی کرکے ظلم وستم کے پہاڑتوڑے جاتے ہیں،اس طرف ذرہ برابرتوجہ نہیں دی جاتی ہے،پھربھی ہیں وہ جمہوریت کے حقیقی علمبردار!
امام الہندمولاناابوالکلام آزادؒ نے ایک بارخطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:ہم اپنے ساتھ کچھ ذخیرے لائے تھے، اوریہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالامال تھی،ہم نے اپنی دولت اس کے حوالہ کردی،اوراس نے اپنے خزانو ں کے دروازے
ہم پر کھول دیئے،ہم نے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیزدےدی،جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی،ہم نے اسے جمہوریت اورانسانی مساوات کاپیام پہونچایا،وہ کہتے ہیں:تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعہ
پرگذرچکی ہیں،اب اسلام بھی اس سرزمین پرویساہی دعوی رکھتاہے جیسادعویٰ ہندومذہب کاہے، اگرہندومذہب کئی ہزاربرس سے اس کے باشندوں کامذہب رہاہےتو اسلام بھی ایک ہزاربرس سے اس کے باشندوں کامذہب چلاآتاہے،جس طرح ایک ہندوفخرکے ساتھ کہہ سکتاہے کہ وہ ہندوستانی ہے،اورہندومذہب کاپیروہے،ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخرکے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اورمذہب اسلام کے پیروہیں۔
ہندوستان ہماراملک ہے،ایک ہزارسال ہم نے اس ملک میں حکومت کی ہے،یہاں کےباشندوں کو تہذیب وثفافت سے آشناکیاہے،عدل وانصاف اورحکومت کرنے کاطریقہ سکھایاہے،تاج محل،قطب مینار،لال قلعہ،گول گنبد کی شکل میں فن تعمیرکااعلیٰ نمونہ دیاہے،ثقافت وسیاست،صنعت وحرفت،تجارت وزراعت میں پوری دنیامیں ہندو ستان کاسربلندکیاہے،اوراس سے بڑھ کر یہ کہ آج تم جس جمہوریت کاڈھنڈواراپیٹتے ہو،ہم نے ہی تو سکھایاہے ۔
آج جولوگ مغلیہ دورحکومت کاموازنہ انگریزی حکومت سے کرتے ہیں،اورکہتے ہیں کہ بارہ سوسال تک یہ ملک غلام رہا،انہیں تاریخ کی سچائی کاعلم نہیں ہے،یاوہ حددرجہ متعصب ہیں،انہیں پتہ ہوناچائیے کہ جب تک ہندوستان میں
مغلیہ حکومت رہی،تخت حکومت پربادشاہ مسلمان تو ضرورنظرآتاتھا،لیکن حکومت کانظم جمہوری تھا،آج کل جمہوریت میں عوام کی رائے الیکشن اورانتخابات سےمعلوم ہوتی ہے،اوراس زمانہ میں یہ جدیدطریقہ رائج نہیں تھا،اس لئے
درباریوں،جاسوسوں،عمال اوردیگرذرائع سے عوام کی رائے اوران کی خواہشوں کاعلم بادشاہ کوہوتاتھا،اوروہ ان کی روشنی میں اپنی پالیسی متعین کرتااورعوام کی فلاح کیلئے احکام جاری کرتاتھا۔
اِنگلستان کے مشہورمقرراڈمنڈہرک نے پارلیامنٹ میں ایک بارمسلمانوں کےنظام حکومت کے متعلق تقریرکرتے ہوئے صاف اورواضح لفظوں میں کہاتھا:عیسائی بادشاہوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے قانون میں بدرجہازیادہ مضبوطیاں
ہیں،ان کااپنے قانون کی نسبت یہ عقیدہ ہے کہ وہ خداکی طرف سے ہے،اس لئےبادشاہ سے لیکررعایاتک سب کے سب یکسانیت کے ساتھ قانون اورمذہب کےپابندہیں،قرآن کے قانون کاہرحرف ظالموں کے خلاف گرج رہاہے،اس قانون کی
شرح کرنے والے علماء،یاقاضیوں کاطبقہ موجودہے جو اس کامحافظ قراردیاگیاہے،اورجوبادشاہوں کی ناراضی سے محفوظ ہے،اورجسے بادشاہ بھی ہاتھ نہیں لگاسکتاہے،ان کے بادشاہوں تک کوحقیقی اعلیٰ طاقت حاصل نہیں ہے،بلکہ وہاں کی حکومت ایک حدتک جمہوری ہے۔
مغلیہ حکومت میں علماء کرام کااثرورسوخ تھا،ہندومسلم میں کوئی تفریق نہ تھی،دونوں کے حقوق یکساں طورپرمحفوظ تھے،ہمارے ملک کے مشہورمصنف پنڈت سندرلال الٰہ آبادی لکھتے ہیں:اکبر،جہانگیر،شاہ جہاں، اوران کے
بعداورنگزیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندومسلم یکساں حیثیت رکھتےتھے،دونوں مذاہب کی توقیرکی جاتی تھی،ہربادشاہ کی طرف سے بےشمارہندومندروں کوجاگیریں دی گئیں تھیں۔
سلطان محمدتغلق کے رعب وبدبہ سے کون واقف نہیں،تاریخ کاہرطالب ان کے جاہ وجلال سے واقف ہے، مشہورسیاح ابن بطوطہ ان کے متعلق اپناچشم دیدواقعہ لکھتاہے :ایک مرتبہ سلطان کے خلاف ایک ہندونے عدالت میں مقدمہ دائرکیا،بادشاہ نے اس لڑکےکوبے وجہ ماراہے،قاضی نے بادشاہ کومدعاعلیہ کی حیثیت سے عدالت میں طلب کیا،اورمقدمہ کی سماعت کی،آخرفیصلہ یہ کیاکہ بادشاہ پرجرم ثابت ہے،اوراس سے بدلہ لیاجائے،سلطان محمدتغلق نے بے چوںوچراعدالت کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔ابن بطوطہ لکھتاہے :کہ میں نے دیکھاکہ بادشاہ نے عدالت کے فیصلہ کے مطابق ہندوزادہ کو دربارمیں بلایا،اوراس کے ہاتھ میں چھڑی دے کر کہا:کہ لے مجھ سے بدلہ لے،مزیدبرآں لڑکے کواپنے سرکی قسم دے کرکہاجس طرح میں نے تجھ کو ماراہے،توبھی مجھ کو اسی طرح مار ،ابن بطوطہ کابیان ہے:کہ لڑکانے بادشاہ کواکیس چھڑیاں ماریں،یہاں تک کہ ایک مرتبہ بادشاہ کی ٹوپی سرپرسے گرپڑی۔
یہی وجہ توہے کہ مغل بادشاہوں کے دور اقتدارکیلئے جنگ توہوئی لیکن کبھی بھی فرقہ پرستی کی جنگ نہیں ہوئی،مذہب کی سیاست نہیں ہوئی،اکبر،جہانگیر،شاہ جہاں کوچھوڑئیے،خوداورنگزیب کے عہدحکومت میں راجپوت اورہندوسینکڑوں کی تعدادمیں بڑے بڑے عہدوں اورمناصب پرفائزتھے،اگرکسی نے اعتراض بھی کیاتوجواب دیتے،حکومت کے معاملات کادارومدارقابلیت پرہوتاہے،مذہب کوہرگزدخل نہیں دیاجاناچائیے!
ہندوستان سب کادیش ہے،کسی بھی مذہب کی تفریق کئے بغیرسب کی ترقی میں اس دیش کی ترقی ہے،کسی خاص مذہب کے ساتھ بھیدبھاؤکرکے نہ ملک کی ترقی ممکن ہے اورنہ جمہوریت کی بحالی ممکن ہے،یہ صرف ہماری آواز نہیں، تمام ہندوستانیوں کی آوازہے،اگریہ سوچ ختم ہوجائے تو ملک کی جمہوریت اوریوم جمہوریہ منانے کاکوئی حاصل نہیں ہے!
توآئیے !ہم عہدکریں اورجمہوری اندازمیں جمہوریت کے استحکام اورمضبوطی کیلئے خودبھی کوشش کریں، اپنی زبان،قلم،اورسوشل میڈیاکے ذریعہ ہندوستانی باشندوں ،مرکزی ،ریاستی حکمرانوں ،اورسیاسی آقاؤں کو بیدار کریں، جمہوریت کی حقیقت سے واقف کرائیں،اوربتادیں کہ ہم اس ملک کے کرایہ دارنہیں،برابرکے حصہ دارہیں،وہ ہم ہی تھے جس نے تحریک آزادی کے دوران برطانوی سامراج کے خلاف احتجاج کے طورپریہ نظم گائی تھی ورآج بھی گاتے ہیں ؎
سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
آپ کا ردعمل کیا ہے؟