بڑے بوڑھوں کے حقوق

عزت وتکریم کا یہ معاملہ اس وقت مزید موکد ہوجاتا ہے جب بڑا بوڑھا اپنا باپ،دادا،ماموں،کوئی قریبی عزیز یا اپنا پڑوسی ہو۔اس میں قرابت مندی،صلہ رحمی اور پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی مزید شامل ہوجاتی ہے۔ایک شخص جیسا برتاؤ دوسروں کے ساتھ کرے گا،اس کے ساتھ بھی اسی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔جو شخص اپنی جوانی،صحت اور چستی ونشاط کے دور میں ان بڑے بوڑھوں کے حقوق کی رعایت کرتا رہے گا اور ان کے واجبات کی حفاظت کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اپنے بڑھاپے میں بھی ایسے افراد لاکھڑا کرے گا جو اس کے حقوق ادا کریں گے۔

May 10, 2023 - 16:40
May 11, 2023 - 18:12
 0  29
بڑے بوڑھوں کے حقوق

 

بڑے بوڑھوں کے حقوق

                           "  ڈاکٹر عبد الرزاق البدر   

 

 دین اسلام دین حنیف ہے یعنی ہر طرف سے رشتہ کاٹ کر صرف اللہ سے رشتہ استوارکرنے کی تعلیم دیتا ہے۔روئے زمین پر اس کا ظہور اس لیے ہوا ہے تاکہ انسان کو اس کے آداب وسلوک،اخلاق وکردار اور حقوق ومعاملات میں مکمل کردے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ [1].

"میری بعثت اچھے اور عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے۔"

دین اسلام نے جن عمدہ اخلاق اور اچھی عادات سے مزین ہونے کی تعلیم دی ہے ،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بڑے بوڑھوں کی عزت کی جائے،ان کے حقوق کی رعایت کی جائے اور ان کے سلسلے کے واجبات ادا کیے جائیں۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ عمردراز شخص کا اکرام کیا جائے،اس کی عزت کی جائے اور اس کا احترام کیا جائے خاص طور پر ان ماہ وسال میں جب درازیٔ عمر کی وجہ سے اس میں عام کمزوری پیدا ہوچکی ہو اور وہ جسمانی ،سماجی اور نفسیاتی مدد کا محتاج بن چکا ہو۔بڑھے بوڑھوں کی فضیلت اور ان کی عزت وتکریم کے سلسلے میں بہ کثرت نصوص موجود ہیں جن میں ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی عزت وتکریم پر ابھارا گیا ہے۔چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

 مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا [2].

"جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے بوڑھوں کا حق نہ پہچانے ،وہ ہم میں سے نہیں۔"

                اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے وعید ہے جو بڑے بوڑھوں کے حقوق نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے تعلق سے واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں۔ایسے حضرات نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی ہدایت پر نہیں ہیں اور نہ آپ کے طریقے پر کاربند ہیں۔سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ [3].

        : "بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو وتقصیر سے بچتا ہو اور اسی طرح حاکم عادل کی عزت کرنا،اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے۔"سیدنا ابویحی انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ساتھ ساتھ خیبر کی طرف گئے۔ان دنوں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح تھی ۔دونوں الگ الگ سمت چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد جب محیصہ لوٹ کر عبداللہ بن سہل کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہوچکا ہے اور وہ خون میں لت پت پڑے ہیں۔انھوں نے ان کو وہیں دفن کردیا اور مدینہ لوٹ آئے۔مدینہ پہنچ کر عبدالرحمن بن سہل اور مسعودکے دونوں بیٹے محیصہ اور حویصہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔عبدالرحمن نے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

 كَبِّرْ كَبِّرْ ، وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا فَقَالَ: تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ ؟ وذكر تمام الحديث[4].

"بڑے کو بات کرنے دو ،چوں کہ وہ سب سے چھوٹے تھے ،اس لیے خاموش ہوگئے۔پھر دونوں یعنی محیصہ اور حویصہ نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے بات رکھی۔آپ نے فرمایا:تم قسم اٹھاکرقاتل یا اپنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرسکوگے؟(آگے راوی نے تفصیلی روایت بیان کی)۔

"سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَرَانِي فِي الْمَنَامِ أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ فَجَذَبَنِي رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ الْآخَرِ ، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الْأَصْغَرَ مِنْهُمَا فَقِيلَ لِي كَبِّرْ ، فَدَفَعْتُهُ إِلَى الْأَكْبَرِ [5].

" میں نے خواب  میں خود کو دیکھا کہ میں مسواک کررہا ہوں۔اس وقت دو آدمیوں نے مجھ سے مسواک حاصل کرنے کے لیے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ مسواک بڑے کو دیں،پجر میں نے مسواک بڑے کو دی۔"

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ مسواک کررہے ہیں۔پھر آپ نے مسواک اسے دی جو موجود حضرات میں سب سے بڑا تھااور یہ فرمایا:

إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي أَنْ أُكَبِّرَ [6] .

"جبریل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں کوئی چیز پہلے بڑے کو دیا کروں۔"

ان کے علاوہ بھی کئی ایک نصوص اور دلائل ہیں جن سے نبی اکرم ﷺ کی سنت اور آپ کے اسوہ حسنہ کی نشان دہی ہوتی ہے۔یہ اور ان جیسی دیگر احادیث سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ بڑے بوڑھوں کا احترام کریں،بزرگوں کے حقوق پہچانیں اور ان کے ساتھ ادب سے پیش آئیں۔ اس سنت نبوی پر عمل کرنے کی صورت یہ ہوگی کہ چھوٹے اپنے بڑوں کا احترام بجالائیں،ان کی عزت وتکریم کریں،ان کی قدرومنزلت اور حقوق پہچانیں،ہر معاملے میں ان کی بزرگی اور کبر سنی کی رعایت کریں ،ان کے ضعف اور جسمانی کمزوریوں کو پیش نظر رکھیں،ان کے جذبات واحساسات کا خیال رکھیں ،بات چیت،کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں انھیں مقدم رکھیں ۔اسی طرح بعض دوسرے آداب واخلاق کا مظاہرہ بھی ان کے ساتھ کرتے رہیں۔

عزت وتکریم کا یہ معاملہ اس وقت مزید موکد ہوجاتا ہے جب بڑا بوڑھا اپنا باپ،دادا،ماموں،کوئی قریبی عزیز یا اپنا پڑوسی ہو۔اس میں قرابت مندی،صلہ رحمی اور پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی مزید شامل ہوجاتی ہے۔ایک شخص جیسا برتاؤ دوسروں کے ساتھ کرے گا،اس کے ساتھ بھی اسی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔جو شخص اپنی جوانی،صحت اور چستی ونشاط کے دور میں ان بڑے بوڑھوں کے حقوق کی رعایت کرتا رہے گا اور ان کے واجبات کی حفاظت کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اپنے بڑھاپے میں بھی ایسے افراد لاکھڑا کرے گا جو اس کے حقوق ادا کریں گے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ [7].

"جب کوئی نوجوان کسی بڑے بوڑھے کی اس کی عمر کی وجہ سے تکریم کرتا ہے تو اللہ اس کی اس نیکی کی وجہ سے اس کے لیے ایک ایسا شخص تیار کردے گا جو اس کے اپنے بڑھاپے میں اس کی تکریم کرے گا۔"

اسی مفہوم کی وہ روایت بھی ہے جسے یحی بن سعید مدنی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ جس نے کسی بڑے بوڑھےکی توہین کی تو وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اللہ اس پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہ کردے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی توہین کرے۔" [8].

        بڑے بوڑھے اور عمر دراز حضرات اپنی زندگی کے اس مرحلے میں ہوتے ہیں جس میں دوسروں کے مقابلے میں ان کے اندر آخرت کا خیال اور موت کے قریب آنے کا احساس زیادہ ہوا کرتا ہے ۔اسی لیے ان کے اندر اللہ کی اطاعت کا جذبہ بڑھ جاتا ہے ،وہ نیکیوں کے کام زیادہ کرتے ہیں اوران کے اندر وقار وتمکنت کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔

ابن ابی الدنیا نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن سلیمان بن عبدالملک مسجد میں داخل ہوا۔ایک بزرگ پر نظر پڑی،انھیں بلایا اورپوچھا:اے شیخ!کیا آپ موت کو پسند کرتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا:نہیں۔پوچھا:کیوں ؟جواب دیا:جوانی رخصت ہوگئی اور عہد شباب کی برائیاں بھی ،بڑھاپا آگیا اور اس عہد کی نیکیاں بھی۔اب جب کھڑا ہوتا ہوں تو اللہ کے نام سے کھڑا ہوتا ہوں،بیٹھتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔اب چاہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دراز ہوجائے۔ [9]

سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ!سب سے بہتر انسان کون ہے؟اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ [10].

        "وہ شخص جسے طویل عمر ملے اور جس کے اعمال اچھے ہوں۔"

مسلم نوجوانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ جل وعلا کا تقوی اختیار کریں اور معاشرہ وسماج کے ان بڑے بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھیں جو ایک نمونہ ہیں،نیک اور صالح ہیں،اصحاب فضیلت اور نیکوکار ہیں،اللہ کے لیے مخلص،اس کی اطاعت کرنے والے،بھلائی کرنے والے اور عبادت گزار ہیں اور جن کے روز وشب رکوع وسجود،صیام وقیام،تسبیح وتہلیل اور حمد الٰہی اور اطاعت باری تعالیٰ میں گزرتے ہیں۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کے بہت سے نوجوان جوانی کے جوش میں اور غفلت ولاپروائی میں مبتلا ہوکران بڑے بوڑھوں کے حقوق پامال کررہے ہیں ،وہ نہ اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں،نہ ان کے دلوں میں اپنے بزرگوں کا کوئی احترام ہے اور نہ وہ ان کی قدر ومنزلت پہچانتے ہیں ، ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کھڑے نہیں ہوتے اور نہ ان کی کوئی رعایت کرتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی سے بھی نہیں ڈرتے۔بعض نادان اور کم عقل نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان بڑے بوڑھوں پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برے انداز میں پیش آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ رویہ بے شرمی کی دلیل ہے،اخلاق نام کی کوئی چیز ان کے اندر موجود نہیں ہے ،وہ مروت اور اسلامی اخلاق واقدار سے عاری ہیں ۔اپنی سرکشی میں مست ہیں عن قریب ایسے ظالموں کو پتا چل جائے گا کہ وہ کن وادیوں میں بھٹک رہے تھے۔

نوجوانو!ہوشیار ہوجاؤ،اللہ سے ڈرو،اپنے والدین اور اپنے بزرگوں کے حقوق پہچانو،ان کا احترام کرو اور ان کے جو واجبات ہیں ،ان کی حفاظت کرو ۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلم نوجوانوں کو صحیح راہ دکھائے اور انھیں حق کی طرف واپس آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہماری دعا یہ بھی ہے کہ اللہ ہمارے بڑے بوڑھوں کو صحت وعافیت سے رکھے ،ان کی آل واولاد کو صالح بنائے اور ان کا انجام اچھا بنائے اوران کے ساتھ ساتھ ہم سب کا بھی خاتمہ بھلائی اور ایمان پر ہو۔   (ترجمہ:رفیق احمد رئیس سلفی)

 حواشی:

[1]  الأدب المفرد للامام البخاری، رقم الحدیث:273 ، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ملاحظہ کریں: صحيح الأدب المفرد، رقم الحدیث: 207 .

[2] سنن أبی داود، رقم الحدیث: 4943 ، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ملاحظہ کریں: صحيح سنن أبي داود، رقم الحدیث:4134.

[3] سنن أبی داود، رقم الحدیث: 4843 ، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ملاحظہ کریں: صحيح سنن أبي داود، رقم الحدیث:4053 .

[4] صحیح البخاري، رقم الحدیث: 3173 ، وصحیح مسلم، رقم الحدیث: 1669 .

[5] صحیح البخاري، رقم الحدیث:246،امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو معلقاً ذکر کیا ہے  ، صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2271، امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو موصولاً ذکر کیا ہے ،الفاظ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔

[6] مسند احمد: 2/138 ، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ملاحظہ کریں: الصحيحة،رقم الحدیث: 1555.

[7] سنن الترمذي، رقم الحدیث:2022 ، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ملاحظہ کریں: ضعيف سنن الترمذي، رقم الحدیث: 348.

[8] العمر والشیب لابن ابی الدنیا، رقم الروایۃ:15،تحقیق وتعلیق:ڈاکٹر نجم عبدالرحمن خلف

[9]  العمر والشیب لابن ابی الدنیا، رقم الروایۃ:29،تحقیق وتعلیق:ڈاکٹر نجم عبدالرحمن خلف

[10] سنن الترمذي، رقم الحدیث: 2329، امام الباني رحمه الله نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ملاحظہ کریں: صحيح سنن الترمذي،  رقم الحدیث: 1898.

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow