امام ابن خزیمہ طلبہ کے لیے نشان منزل
علمی زوال وانحطاط کے اس زمانے میں جب کہ ہمارے علماء کی ہمتیں جواب دے رہی ہیں، طلبہ تساہلی کے شکار ہورہے ہیں، مقررات ہی کو علم کا آخری معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے طلبہ مقررات سے اوپر اٹھ کر سوچنا،پڑھنا، مطالعہ کرنا اپنے لئے مصیبت خیال کرتے ہیں۔ کلاس میں استاد نے جتنا کچھ بتادیا، لکھا دیا، ان کی کل کائنات وہی ہوتی ہیں۔
امام ابن خزیمہ طلبہ کے لیے نشان منزل
"… آصف تنویر تیمی
علوم شرعیہ دیگر علوم سے ممتاز ہیں۔ اس لئے کہ ان میں قال اللہ وقال الرسول کے ارد گرد ساری گفتو گھومتی ہے۔ اور علوم شرعیہ میں بھی علوم قرآن وعلوم حدیث کو خاص مقام حاصل ہے۔ شریعت اسلامیہ کا مدار انہیں دونوں مصدر پر ہے۔ اسی لئے سلف کی ایک کثیر جماعت نے کتاب وسنت کی خدمت کی۔ قرآن کریم کے معانی ومفاہیم کو سمجھانے کے لیے آیات کی تفسیر بیان کی۔ اس ترقی یافتہ زمانے میں شاید ہی کوئی زندہ زبان ہو اور اس زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود نہ ہو۔ اسی ہمارے قدیم وجدید علمانے احادیث کی نشر واشاعت کی خاطر علم حدیث پر بھرپور کام کیا۔ بعض نے متن کو جمع کیا۔ بعض نے سند کی تحقیق وتلاش کی،تاکہ صحیح وسقیم میں فرق کیا جاسکے۔بعض محدثین کے نام اور ان کے کارنامے اس قدر مشہور ہیں کہ ان کا تعارف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ جیسے کہ کتب ستہ اور ان کے مؤلفین؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابوداود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ابن ماجہ۔ ان کتابوں اور ان مؤلفین کی شہرت کی ایک اہم وجہ ان کتابوں کا دنیا کے اکثر مدارس وجامعات میں شامل نصاب بھی ہونا ہے۔ جنہیں ہمارے علماء پڑھتے پڑھاتے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں کہ کتب حدیث کی انتہا انہیں کتابوں پر ہوجاتی ہے۔ یا حدیثوں کا ذخیرہ یہیں پر منقطع ہوجاتا ہے۔ بلکہ ان کتابوں کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیث کی کتابیں ہیں، جن میں سے بعض کا تعلق صحاح سے،بعض کا تعلق سنن سے،بعض کاتعلق مسانید سے، بعض کا تعلق مصنفات سے اور بعض کا تعلق طبقات وتراجم سے ۔
علمی زوال وانحطاط کے اس زمانے میں جب کہ ہمارے علماء کی ہمتیں جواب دے رہی ہیں، طلبہ تساہلی کے شکار ہورہے ہیں، مقررات ہی کو علم کا آخری معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے طلبہ مقررات سے اوپر اٹھ کر سوچنا،پڑھنا، مطالعہ کرنا اپنے لئے مصیبت خیال کرتے ہیں۔ کلاس میں استاد نے جتنا کچھ بتادیا، لکھا دیا، ان کی کل کائنات وہی ہوتی ہیں۔
اس مرض کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بہت ساری معلومات جو درس سے جڑی ہوتی ہیں اور استاد وقت کی کمی کی وجہ سے دوران درس نہیں بتاپاتا ہے، صرف اشارہ پر اکتفا کرتا ہے، ہمارے طلبہ بعد کے اوقات میں تفصیل جاننے کی مطلق کوشش نہیں کرتے۔ اس کی ایک بڑی مثال علم حدیث کی وہ عظیم کتابیں ہیں جو کسی وجہ سے شامل نصاب نہیں ہوتیں۔ ان کوپڑھنا تو درکنار،ان کے نام اور مؤلف کے نام سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔
چنانچہ میری خواہش ہوئی کہ طلبہ کے لئے حدیث کی چند ان کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جائے، جو عام طور سے نصاب میں داخل نہیں ہوتیں اور اس مبارک سلسلے کی شروعات معروف محدث امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی زندگی سے کی جارہی ہے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہمارے اس عمل کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ اور اہل علم کے لئے کسبِ فیض کا ذریعہ بنائے۔
نام ونسب: امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "سیر اعلام النبلاء" میں آپ کا مکمل نام ونسب اس طرح بیان کیا ہے:محمد بن اسحاق بن خزیمہ بن مغیرہ بن صالح بن بکرسلمی نیساپوری۔
ولادت: بقول امام ذہبی ہی کے آپ کی پیدائش ۲۲۳ ہجری کو نیساپور میں ہوئی۔
اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ آدمی کی نشو ونما اور تعلیم وتربیت پر ماحول اور حالات کا گہرا اثر ہوتا ہے۔بسا اوقات انسان بہت کچھ چاہنے کے باوجود حوادثِ زمانہ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی تمنائیں اور خواہشات دل ہی دل میں رہ جاتی ہیں۔ لیکن بعض فولادی قسم کی ایسی بھی ہستیاں ہوتی ہیں، جو حالات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں۔ ماحول کی ناسازگاری کے باوجود لوگوں سے اپنے علم وفن کا لوہا منواتی ہیں۔ انہیں لوگوں میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔
سیاسی حالت: آپ نے جس زمانے میں ہوش سنبھالا، وہ خلافت عباسیہ کا آخری زمانہ تھا۔ عباسی خلافت ناگفتہ بہ حالات سے دوچار تھی۔ مصائب ومشکلات سے یہ زمانہ اٹا ہوا تھا۔ خلافت میں بکھراو اور اضمحلال پیدا ہوچکا تھا۔خلافت کے بعض حصوں پر ترک اپنا قبضہ جمانے لگے تھے۔ خلافت کی داخلی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر خارجی حملے بھی شروع ہوگئے تھے۔ رومیوں نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا،ان گنت لوگوں کو قید کیا۔ سب کچھ کے باوجود خلافت اپنے حریفوں کے مقابلہ سے عاجز اور قاصر تھی۔ ایسے ہی خلافت عباسیہ کی داخلی وخارجی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ایک جانب سے شیعوں نے دخل اندازی شروع کردی۔ کئی ایک شہر شیعوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ جو بعد میں چل کر فاطمی حکومت کے نام سے جانی گئی۔ مہدی عبید اللہ نے ان شہروں پر اپنی حکومت کا اعلان کیا۔
اجمالی طور پر دیکھا جاے تو بیک وقت خلافت تین دھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ایک حصے پر عباسی خلفا کا کنٹرول تھا۔ دوسرے پر فاطمی قابض تھے اور تیسری خلافت اندلس میں قائم تھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک ملکوں میں بعض حکمرانوں نے اپنا تسلط قائم کیا ہوا تھا جیسا کہ سیف الدولہ حمدانی نے بنی حمدان کے نام سے ایک حکومت قائم کررکھی تھی حالانکہ کہ اس حکومت نے خارجی اور صلیبی حملوں کی روک تھام میں بڑا اہم کردار کیا۔ اسلامی سرحدوں سے دشمنوں کو پیچھے دھکیلا۔ پورے سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری سیاست کی منڈی میں اتھل پتھل تھی بے چینی تھی،اضطراب تھا۔
اجتماعی ودینی حالت: سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے عام اجتماعی اور سماجی زندگی بھی متاثر تھی۔ عربیت ،عجمیت میں گم ہوچکی تھی۔ زندقیت اور الحاد پرستی کا دور دورہ تھا۔ دینداری اور ایمانداری ختم ہورہی تھی۔ عدل وانصاف کی کلیاں مرجھارہی تھیں۔ اقتصادی طور پر بھی معاشرہ پریشان حال تھا۔ جگہ بہ جگہ بھوک مری کی شکایت تھی۔ لوٹ کھسوٹ عام سی بات رہ گئی تھی۔
علمی حالت: سابقہ تمام تر مشکلات کے باوجود یہ زمانہ علم وفن کا زمانہ رہا جوکہ تعجب خیز امر ہے۔ علومِ اسلامیہ کے جمع وتدوین کا اکثر کام اسی زمانے میں ہوا۔ بحث وتحقیق کی راہ ہموار ہوئی۔ علوم شرعیہ پر ایک سے بڑھ کر ایک کتابیں اسی عہد میں لکھی گئیں۔ چنانچہ زمانے کی تقسیم کے اعتبار سے اس زمانے کو"عصر ذہبی" (سنہری دور)کہا جاتا ہے جو کہ تیسری چوتھی صدی کا زمانہ ہے۔ شیخ المفسرین ابن جریر طبری، ناقد حدیث امام دار قطنی، امام حاکم اور کثیر تعداد میں فقہا اسی عہد میں پیدا ہوئے اور ان کی خدمات منظر عام پر آئیں۔ بلکہ مذاہب اربعہ کی تشکیل اسی زمانے میں ہوئی۔لسانیات پر کام بھی اسی عصر میں ہوااور اسی عصر ذہبی میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی آنکھیں کھولیں اور اپنے فن کا لوہا ہر ایک سے منوایا۔
کم عمری سے ہی آپ نے حدیث وفقہ کی تعلیم شروع کردی تھی یہاں تک کہ لوگ وسعتِ معلومات اور مہارت میں آپ کی مثال دیا کرتے تھے۔ ابوبکر محمد بن جعفر کہتے ہیں کہ ایک بار ان سے دریافت کیا گیا کہ : آپ نے اس قدر علم کیسے حاصل کیا؟ تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث "ماء زمزم لما شرب لہ" (زمزم کا پانی اس کے لیے ہے جس مقصد کی خاطر پیا جائے) اور جب میں نے پیا تو علم نافع کے حصول کے مقصد کی خاطر پیا۔
علمی مقام ومرتبہ: اہل علم آپ کے علمی تفوق ولیاقت سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کا شمار پاے کے محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ نے احادیثِ صحیحہ کے جمع کرنے کا مبارک عمل انجام دیا ہے۔ جو کہ کتابی صورت میں دنیا کے اطراف وجوانب میں موجود ہے۔جس سے شائقین حدیث استفادہ کرتے ہیں۔ابو علی حسین بن محمد حافظ کہتے ہیں : "میں نے محمد بن اسحاق کی طرح کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابن خزیمہ فقہ حدیث کو اس طرح یاد کیا کرتے تھے جیسے کہ قاری قرآن کی سورت یاد کرتا ہے"۔امام ابوحاتم بن حبان تمیمی کہتے ہیں: " میں نے روے زمین پر احادیث کا فنکار، احادیث کے صحیح الفاظ کو یاد کرنے والا محمد بن اسحاق بن خزیمہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔ ایسا لگتا تھا کہ ساری حدیثیں ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں"۔ امام ابو الحسن الدار قطنی کہتے ہیں:" امام ابن خزیمہ قابل بھروسہ اور عدیم المثال تھے"۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "امام ابن خزیمہ کی عظمت، ان کی جلالت، ان کے علم،ان کی دینداری اور اتباع سنت کی وجہ سے دل میں پوشیدہ ہے"۔
آپ حق کے معاملے میں بڑے نڈر تھے۔ بے باکی اور جرات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ کی علمی جرات کے تعلق سے ابوبکر بن بالُویہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن خزیمہ کو کہتے ہوئے سنا : ایک مرتبہ میں امیر اسماعیل بن احمد کے پاس تھا کہ اس نے اپنے والد کی سند سے ایک حدیث بیان کی، اور دوران روایت سند میں وہم کا شکار ہوا۔ میں نے فورا اس سند پر نکیر کی۔ جب میں اس کے پاس سے نکلا تو ابوذر قاضی نے کہا: تقریبا ہم اس غلطی سے بیس سال سے واقف تھے، مگر ہم میں سے کسی میں ردکی جرات نہیں تھی۔ تو میں نے کہا: میرے لئے درست نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں غلطی اور تحریف سنوں اور اس کا رد نہ کروں"۔
عقیدہ: آپ منہجِ سلف کے پاسدار تھے۔ آپ کا عقیدہ وہی تھا جو صحابہ اور دیگر محدثین کا تھا۔ آپ کتاب وسنت کے پابند تھے۔ جو مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوجاتا، اس سے ذرہ برابر انحراف نہیں کرتے ۔ آپ کی نگاہ میں کتاب وسنت کے مقابلے میں کسی کے قول وفعل کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ویسے فقہی اعتبار سے مورخین آپ کوفقہاے شافعیہ میں مانتے ہیں۔ جیسا کہ امام سبکی نے، طبقات شافعیہ میں آپ کی سیر حاصل زندگی قلمبند کی ہے۔
اساتذہ کرام: آپ نے اس وقت کے جید اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ آپ کے شیوخ میں اسحاق بن راہویہ، محمد بن حمید ہیں۔ مگر ان دونوں سے آپ نے حدیثیں روایت نہیں کیں۔ اس لیے کہ آپ نے ان سے بچپنے میں حدیث سنی تھی۔ ان کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں محمود بن غیلان، عتبہ بن عبد اللہ مروزی، علی بن حُجر، احمد بن منیع، بشر بن معاذ، ابو کریب، عبدالجبار بن العلاء، احمد بن ابرہیم دورقی، اسحاق بن شاہین، عمرو بن علی، زیاد بن ایوب، محمد بن مہران جمال، ابوسعید اشج، یوسف بن واضح ہاشمی، محمد بن بشار، محمد بن مثنی، حسین بن حُریث، محمد بن یحیی،احمد بن عبدہ الضبی، اور یحیٰ بن حکیم وغیرہ ہیں۔
علمی اسفار: آپ نے اپنی تعلیم کی ابتدا نیساپور سے کی۔ پچپن یہیں گزرا۔ اس کے بعد دیگر شہروں کا سفر بھی کیا۔ ان شہروں میں رہے، بغداد،بصرہ، کوفہ،شام، جزیرہ العرب، مصر اور واسط شامل ہے۔
شاگردان: آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے محدثین کا نام ملتا ہے۔ جیسے: امام بخاری،امام مسلم،(ان دونوں نے ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے صحیحین کے علاوہ کتابوں میں حدیثیں روایت کی ہیں)محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم، احمد بن مبارک مُستملی، ابراہیم بن ابو طالب، ابو احمد شرقی، ابو العباس دغولی، ابو علی الحسین بن محمد نیساپوری، ابو حاتم بُستی، ابو احمد بن عدی، ابو عمرو بن حمدان، اسحاق بن سعد نًسوی، الحسین بن علی التمیمی حُسین اور ابو نصر احمد بن الحسین مروانی وغیرہ۔
علمِ رجال میں مہارت: اللہ تعالی نے حدیث کے دیگر علوم کے ساتھ علم رجال میں غیر معمولی مہارت عطا کی ہوئی تھی۔ ایک سمندر کی طرح ہزاروں رواتِ حدیث کے حالات زندگی آپ کے ذہن میں محفوظ تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: آپ فن رجال کے نکتہ چیں تھے۔ شہر بن حوشب، حریز بن عثمان کی حدیثوں کو(ان کے باطل عقیدہ کی وجہ سے) قابل احتجاج نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے ہی سوے حفظ کی وجہ سے عبداللہ بن عمرو(مشہور صحابی کے علاوہ راوی ہیں) بقیہ، مقاتل بن حیان، اشعث بن سوار، علی بن جدعان کی روایتوں کو قابل استدلال نہیں مانتے تھے اسی طرح اگر عاصم بن عبید اللہ، ابن عقیل، یزید بن ابو زیاد، مجالد، حجاج بن ارطاۃ صیغہ "عن" سے روایت کریں تو اس کی حدیثیں قابل اعتنا نہیں ہوں گی۔
علم رجال میں پختگی کی واضح مثال معروف محدث امام حاکم رحمہ اللہ محمد بن اسماعیل بکری کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ میں نے ابن خزیمہ کو کہتے ہوئے سنا: ایک مرتبہ میں مشہور فقیہ امام مزنی کی مجلس میں حاضر ہوا۔ اسی مجلس میں ایک عراقی شخص نے امام مُزنی سے سوال کیا کہ قرآن میں صرف دو قسم کے قتل کا ذکر ہے(عمداورخطا)۔ اور آپ لوگ 'شبہِ عمد' کے نام سے ایک تیسری قسم بیان کرتے ہیں۔ اس قسم کی کیا دلیل ہے؟ اس کے جواب میں امام مُزنی نے ایک حدیث بیان کی جس کے سلسلۂ سند میں علی بن زید بن جدعان راوی تھے۔ اس سائل نے فورا اعتراض کیا،کیا آپ اس راوی کو حجب سمجھتے ہیں۔ اس پر امام مزنی نے سکوت اختیار کیا۔ تو میں (ابن خزیمہ) نے اس سائل سے کہا: یہ حدیث علی بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں سے بھی مروی ہے۔جیسے: ایوب سختیانی، خالد حذاء وغیرہ۔ تو اس سائل نے لگے ہاتھوں مجھ سے ایک اور سوال پوچھ لیا۔ عقبہ بن اوس کون ہے؟ میں نے کہا: عقبہ بن اوس بصرہ کا رہنے والا ہے، اور اس سے اپنے علمی مقام ومرتبہ کے باوجود محمد بن سیرین نے حدیثیں روایت کی ہیں۔پھر امام مزنی نے بھی آپ کی علمی پختگی کو سراہا۔ایک بار امیر ابو ابراہیم اسماعیل بن احمد کے سامنے ابوبکر جارودی کے سامنے صرف مال فے اور مال غنیمت سے متعلق ایک سوستر(۱۷۰) سے زائد حدیثیں اپنے حافظہ سے بیان کیں جس پر امیر حیرت زدہ رہ گئے۔
تصیفات وتالیفات: امام حاکم آپ کی تصنیفات کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ کی کل کتابیں ایک سو چالیس(۱۴۰) سے زیادہ ہیں۔ مگر ان میں سے چند ایک ہی ہم تک پہنچ سکی ہیں۔ اکثر حوادث زمانہ کی شکار ہوگئیں۔ آپ کی مطبوع کتابوں میں "التوحید"، "شأن الدعاء وتفسیر الأدعیۃ المأثورۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" اور مشہور زمانہ کتاب "المسند الصحیح المتصل بنقل العدل من غیر قطع فی السند، ولا جرح فی النقلۃ" ہے۔ جسے مختصرا صحیح ابن خزیمہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ شمارہ میں اس کتاب کا تعارف پیش کیا جائے گا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟