اللہ رب العالمین کے ساتھ حسن ظن
پچھلے چار سالوں سے شام میں خون مسلم کی جتنی بے توقیری ہوئی اتنی بے توقیری اسرائیل میں بھی ساٹھ ستر سالوں میں ہرگز نہیں ہوئی۔ عالم اسلام کے تاریخی شہر حلب میں آج اہل ایمان جس صورت حال سے دو چار ہیں اس پر صدمے کی کیفیت کو قلوب وزبان سے بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔ عمارتوں کے ملبے تلے دبی معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر تو پتھر سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی وہ فریادیں جو ہم تک پہنچ رہی ہیں انہیں سننے کے لیے بھی بڑا گردہ چاہئے ۔
اللہ رب العالمین کے ساتھ حسن ظن
"… کوثر علی المدنی
پچھلے چار سالوں سے شام میں خون مسلم کی جتنی بے توقیری ہوئی اتنی بے توقیری اسرائیل میں بھی ساٹھ ستر سالوں میں ہرگز نہیں ہوئی۔ عالم اسلام کے تاریخی شہر حلب میں آج اہل ایمان جس صورت حال سے دو چار ہیں اس پر صدمے کی کیفیت کو قلوب وزبان سے بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔ عمارتوں کے ملبے تلے دبی معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر تو پتھر سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی وہ فریادیں جو ہم تک پہنچ رہی ہیں انہیں سننے کے لیے بھی بڑا گردہ چاہئے ۔
محترم قارئین کرام!شام کی صورت حال کو دیکھ کر اور وہاں کی دلخراش تصاویر دیکھ کر فکر مند ہوجاتا ہوں اور سوچنے لگتا ہوں کہ جب اللہ تعالی نے فرمایا:" فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا۰ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ"(1)پھر ہم نے گناہگاروں سے انتقام لیا ۔ ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔
جب اللہ تعالی کہتا ہے کہ مجھ پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے، مجرموں کو سزا دینا اور انہیں ان کے جرم کی پاداش میں دبوچنا یہ میری ذمہ داری ہے تو پھر شام میں کب تک خون کی ہولی کھیلی جائيگی؟ کب اہل شام پر مدد آئیگی؟ کب ان کو سکون ملے گا؟ اسی طرح کے دسیوں سوالات ذہن میں جنم لیتے رہتے ہیں ۔ اور ایک طرح سے بے چینی اور گھٹن سی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ ایسے موقع پر جو حدیث میرے لیے باعث اطمینان وسکون اور تسلی کا ذریعہ بنتی ہے وہ ایک حدیث قدسی ہے جس میں بندہ کو ہمیشہ اللہ تعالی سے حسن ظن رکھنے کا سبق ہے،خواہ کتنی بھی خطرناک سے خطرناک صورت حال کا سامنا ہو، بڑی سے بڑی مصیبت آپڑے حسن ظن ہی بندہ کے لیے خیر اور بھلائی کا باعث بنےگا۔
تو میں نے سوچا کہ جو حدیث مجھے اللہ کے تئیں بد ظن ہونے سے روکتی ہے مجھے بے چینی اور گھٹن کے بھنور سے باہر نکالتی ہے اس حدیث کے مقتضیات کو ٹوٹی پھوٹی تحریر کے سہارے ہی سہی قارئین کی خدمت میں کیوں نہ پیش کردوں۔
قارئین کرام! وہ حدیث قدسی ہے۔ "انا عند ظن عبدی بی، ان ظن بی خیرا فلہ وان ظن شرافلہ"(2)
حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کہتا ہے۔ "میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں" جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔ اگر اچھا گمان رکھا تو اس کے لیے اچھا اور اگر برا گمان رکھا تو اس کے لیے برا ہے۔ اب بندے پر ھیکہ وہ اپنے رب اور مالک کے تئیں کیسا گمان رکھے ۔
قارئین کرام! اللہ تعالی پر حسن ظن رکھنا توحید کی بنیاد ہے ۔ حسن ظن واجبات توحید میں سے ہے یہ مطلوب اور محبوب شئی ہے ۔ لیکن جب کسی کو ہمیشہ مصیبت ،بیماری یا مفلسی کا خوف لگا رہتا ہے وہ در اصل اللہ تعالی سے بد ظن ہے اللہ تعالی بھی اسے اس کی نیت کے مطابق عطا کرتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے :" وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوْءِ۰ۭ عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ"(3)اور تاکہ اللہ تعالی ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور شرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالی کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں (در اصل)پر برائی کا پھیرا ہے۔
یہ وہ منافقین ومشرکین تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے بارے میں گمان رکھتے تھے کہ یہ مغلوب یا مقتول ہوجائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہوجائےگا۔
اسی طرح آج بھی اگر کوئی یہ سمجھے کہ اللہ تعالی اپنے دین اور مومنوں کی مدد نہیں کرے گا۔ بلکہ مومن ہمیشہ دنیا میں مجبور ومقہور ہی رہیں گے۔ ان پر عذاب کی تلواریں لٹکی رہیں گی اور مختلف آزمائشوں میں مبتلا رہیں گے تو ایسا شخص اللہ تعالی کی ذات سے بد ظن ہے ایسا گمان رکھنے والوں کے تعلق سے اللہ تعالی نے فرمایا :" مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ ہَلْ يُذْہِبَنَّ كَيْدُہٗ مَا يَغِيْظُ"(4)
جن کا یہ خیال ہوکہ اللہ تعالی اپنے رسول کی مدد دونوں جہاں میں نہ کریگا وہ اونچائی پر ایک رسی باندھ کر (اپنے حلق میں پھندا ڈال کر اپنا گلا گھونٹ لے) پھر دیکھ لے کہ اس کی چالا کیوں سے وہ بات ہٹ جاتی ہے جو اسے تڑپا رہی ہے۔
اور اگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج مسلمان ایک آزمائش سے نکل کر دوسری آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں آج مسلمانوں کا قتل عام ایک شہر میں رکا ہی نہیں کہ دوسرے شہر میں قتل کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے غالب آنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی ۔ یہ اللہ تعالی سے بد ظن ہونے کا ہی ثمرہ ہے۔ کیا اللہ تعالی نے دنیا ہی میں ایسے لوگوں کی مدد کا وعدہ نہیں کیا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہوں۔"كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۰ۭ"(5) اللہ تعالی لکھ چکا ہے (اب کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔
قسم ہے اللہ تعالی کی ! ضرور اللہ کی مدد آئیگی اور شام کی بھی ایک دن صبح ہوگی دشمنان اسلام کی خوشی وہاں چند دنوں کی ہے وہ دن دور نہیں جب شام میں اسلام ایسی طاقت وشوکت کا حامل ہوگا کہ کفر مٹ جائے گا جس کا وجود نہیں رہے گا۔
برادران اسلام! ہر گز ایسا نہ ہوکہ مسلمانوں پر آنے والی آفتوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر آپ مایوس اور نا امید ہوجائیں اور اللہ تعالی سے بد ظن ہوجائیں نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ آپ اللہ تعالی پر حسن ظن رکھیں اور انتظار کریں عنقریب اسلام اور اہل اسلام کے غلبہ کی خبریں یا تو ہماری زندگی میں ہی آجائیں یا پھر ہمارے بعد آنے والی نسل اس خبر سے خوش ہوں۔
لیکن ضرور اللہ کی مد د آکر رہے گی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کافروں کی حکومت آخر تک قائم رہے یہ ناممکن ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہم عمل کریں ، محنت کریں، دعوت الی اللہ کافریضہ انجام دیں اور اللہ کے حقوق کو ادا کریں۔ تو ضرور عنقریب اللہ تعالی اپنے دین کی مدد کرے گا ۔ اللہ تعالی کے بس میں کیا نہیں ہے، ہمیں چاہئے کہ جزع فزع نہ کریں، یقینا اللہ تعالی اپنے دین کی مدد کرے گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
اور معلوم ہو کہ اللہ تعالی کے حساب میں ایک دن ہزار سال کا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :" وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ"(6) اس حساب سے اگر کسی کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک گھنٹہ کی مہلت مل جاتی ہے تو اس کا مطلب کم وبیش چالیس سال کی مہلت ہے۔ اس لیے ہمیں گھبرانا نہیں ہے۔
حواشی:
1۔(الروم:30/47)
2۔(احمد:8833)
3۔(الفتح:48/6)
4۔( الحج:22/15)
5۔(المجادلۃ:58/21)
6۔ (الحج:22/47)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟