ہندوستان میں سیاسی سونامی:ایک لمحہ فکریہ۔
نتیش بابو پہلے بی جے پی کا ہی کیڈر اور آر ایس ایس کا ہی لنگوٹ کسنے والا تھا ۔بیچ میں نہ جانے انکو کون سی سیکولزم سوجھی اور کون سا دماغ کام کرگیا کہ وہ بہانہ بناکر بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا ۔بلکہ اب تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے یہ سوچ کر ہی الگ ہوا تھا کہ جب میری آر ایس ایس والوں کو ضرورت پڑیگی میں شاخہ کو فائدہ ہی پہونچاونگا اور ایساہی ہوا۔لیکن سوال یہ ہیکہ اس کے جانے سے کیا ہوا ؟بہار کے عوام کو بلآخر فائدہ ہی توچاہئے تھا وہ تو ملیگا ہی ؟ یا یا یوں کہۂ کہ بہار مین اب اگر سرکار نتیش کی بنی ہے تو اس سے بہار مین کام میں مزید تیز رفتاری آئیگی کیونکہ مرکز اور صوبہ دونوں جگہ بی جے پی کی ہی حکومت بن گئی ہے۔تو آخر یہ سیاسی سونامی کیون کر ہوا۔لوگ کیوں اتنے پریشان ہو رہے ہیں ؟۔
"… فیروزہارونی
آخر کار وہی ہوا جسکا کسی کو امید نہیں تھا۔جی میں بات کر رہا ہوں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی ،انکے بی جے پی میں جانے سے کسکو کیا نقصان ہوا اور کسو فائدہ اسکا مجھے قطعی کوئی اندازہ نہیں ہے اور نہ مجھے اندازہ لگانا ہے لیکن مجھے جو دیکھ رہا ہے وہ ہے ہندوستانی سیاست مین زلزلہ اور سونامی ۔جو نہ صرف کسی ایک خطہ کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے بلکہ اس بھونچال اور میری زبان مین اس سونامی نے تو پورے ملک کو اپنے شکنجہ میں لینے کی ٹھان لیا ہے۔
نتیش بابو پہلے بی جے پی کا ہی کیڈر اور آر ایس ایس کا ہی لنگوٹ کسنے والا تھا ۔بیچ میں نہ جانے انکو کون سی سیکولزم سوجھی اور کون سا دماغ کام کرگیا کہ وہ بہانہ بناکر بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا ۔بلکہ اب تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے یہ سوچ کر ہی الگ ہوا تھا کہ جب میری آر ایس ایس والوں کو ضرورت پڑیگی میں شاخہ کو فائدہ ہی پہونچاونگا اور ایساہی ہوا۔لیکن سوال یہ ہیکہ اس کے جانے سے کیا ہوا ؟بہار کے عوام کو بلآخر فائدہ ہی توچاہئے تھا وہ تو ملیگا ہی ؟ یا یا یوں کہۂ کہ بہار مین اب اگر سرکار نتیش کی بنی ہے تو اس سے بہار مین کام میں مزید تیز رفتاری آئیگی کیونکہ مرکز اور صوبہ دونوں جگہ بی جے پی کی ہی حکومت بن گئی ہے۔تو آخر یہ سیاسی سونامی کیون کر ہوا۔لوگ کیوں اتنے پریشان ہو رہے ہیں ؟۔
تو آں جناب سنئے میں نے جو اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق یقنا انڈیا میں ایک سونامی ہی آنے والی ہے جو نہ صرف بہار میں بلکہ پورے ہندوستان میں آنے والی ہے جس کے زد میں صرف بہار نہیں آئیگا بلکہ یہ سونامی پورے ہندوستان کو برباد کے کے چھوڑے گا۔حالیہ دنوں کی بات دیکھئے ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے ۔ابھی پچھلے چند مہنہ پہلے گوا اور منی پور میں کیا ہوا ۔جہاں اکثریت کسی اور پارٹی کی تھی اور سرکار کسی اور پارٹی کی بن گئی۔یہ عوام کے ساتھ دھوکا نہیں تو اور کیا ہے ۔
خیر آج میں بات ہندوستان میں آنے والی سونامی کی کر رہا ہوں ۔جو یقنا ہندوستان مین اگر آ جاے تو پورے ہندوستان کو برباد کر دیگا جس کا ذمہ دار نتیش کمار جیسے لوگ ہی ہونگے ۔کیونکہ پارٹی اور گٹھ بندھن کو جس طرح سے ان کے بدلنے سے نقصان ہوا ہے ایسا کسی اور کے جانے سے نہیں ہو اتھا اب تو لوگ گٹھ بن دھن بنانے سے پہلے سوبار سوچنگے ۔
اب لگ بھک ہندوستان کے ہر صوبہ میں بی جے پی نے اپنی سرکار بنا لی ہے بس چندایک کو چھوڑ کر جو شائید اگلے سال تک وہ بھی بی جے پی کے قبضے میں آجائے ۔کیونکہ جس رفتاری سے بی جے پی والوں نے پورے ہندوستان میں قدم پسارا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اپنی چپٹ میں ہندوستان کے ہر صوبہ کو لے لیگا ۔اور نہ صرف اپنی من مانی کریگا بلکہ بقول ان کے مہنتوں کے کہ ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنا دیا جائیگا ۔
مستقبل قریب دوہزار انیس کے بارے میں کچھ سننا بھلے لوگ مناسب نہ سمجھے لیکن یہ حقیقت ہیک اگر ایسی ہی صورت حال رہی توسال 2019 تک ہندوستان سے اپوزیشن لگ بھگ ختم ہو جائیگی اور پھر اس سونامی کا دور شروع ہوجائے گی جس کا تذکر ہ میں کر رہا ہوں ۔اپوزیشن کا حکومت وقت اور سرکارمیں کیاکر اہمیت ہے اسکا اس بات سے اندازہ لگائے کہ 2012 میں جب کانگریس کی سرکار تھی کانگریس نے دو بل پارلمنٹ میں بڑے زور و شور سے لایا ایک جی ایس ٹی کی بل اور دوسری آدھار کارڈ کا بل ۔دونوں اچھا تھا یا برا میں ان باتوں کے طرف نہیں جاتابس یہ دیکھانا مقصود ہے کہ دونوں بل کو اپوزیشن پارٹی نے ھنگامہ کر کے واپس کر دیا ۔اس وقت اپوزیشن کی پارلمنٹ میں کیا حیثیت رہی ہوگی آپ اس سے ہی اندازہ لگا لیجئے۔
اور اب تو یہ حال ہیکہ چاہے اپوزیشن لاکھ ناک رگڑلے لیکن کوئی بھی بل پاس ہونے سے نہیں روک سکتاہے جیسا کہ ابھی حالیہ دنوں میں ہم نے جی ایس ٹی بل میں دیکھا۔وجہ یہ ہیکہ اب د ونوں سدنوں راجہ سبھا اور لوک سبھا دونوں جگہ بی جے پی کی اکثریت قائم ہو چکی ہے ۔ہم عوام نے پتہ نہیں کون سے سبز باغ دیکھ رکھے ہیں کہ ہم سمجھ نے کو تیار ہی نہین ہیں کہ ہمارا کہاں اور کس حدتک استعمال ہورہا ہے۔ ہم عوام کو اس طرح سے ان سیاست دانوں نے پاگل بنا رکھا ہے کہ ہم اچھے اور برے سیاست دانو وں کی تمیز تک نہیں کر سکتے وجہ جو بھی رہی ہو ،لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑیگا ۔دوسری بات یہ ہیکہ ہم لوگوں کو مذہب کی جو جھوٹی شراب پلا دی گئی ہے وہ بھی نہایت گھٹیا شراب ہے جو ہمارے عقل کو ماووف کردیا ہے جس سے ہم بری سے بری بات کو بھی مذہب سمجھ بیٹھتے ہیں ۔حالانکہ کوئی بھی مذہب کسی دوسرے مذہب کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ۔اور نہ کسی بے گناہ کو پریشان کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔
خیرمیں بات سیاسی بھونچال کی کر رہا تھا جسطرح سے اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس سے نہ صرف سیاست یا پھر عدلیہ پر فرق پڑیگا بلکہ اس سے عام عوام کے زندگی پر بھی اثر پڑیگا کیونکہ ہندوستان ایک کثیرالمذاہب والا ملک ہے یہان کی تہذیب گنگاجمنی اور ملٹی کلچرل تہذیب ہے اگر کوئی ایک مذہب یا کلچر پورے ہندوستان والوں پر تھوپاجائے تو اسپر کبھی عمل نہیں ہو سکتا۔اسی طرح سے اگر ایک پارٹی ہی قائم ہو جائے تو ہر طرح کے لوگوں کی نمائندگی بھی نہیں ہو سکتی۔اپوزیشن کی اہمت یا نمائندگی جن ممالک میں نہیں ہے ان ممالک کو دیکھ لیجئے وہان جمہوریت برائے نام ہے مثال کے طور پر اپنا پڑوسی ملک چین کو لے لیجئے وہاں صرف ایک ہی پارٹی ہے وہ پارٹی جو چاہے کرتی ہے۔ چاہے وہ عوام کے مفاد مین ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح انگلینڈاور ترکی کا بھی یہی حال ہے ۔ان ممالک میں بھی سرکاریں جب اور جو ریفرنڈم چاہے نکال سکتی ہے اور عوام پر تھوپ سکتی ہے ۔ عوا بے چارے نہ چاہتے ہوئے بھی ا سپر عمل کرتا رہتا ہے۔
بہار کے عظیم اتحاد سے پورے ہندوستان مین ایک مسیج گیاتھا کہ اب ہندوستان مین ایک ہی پارٹی نہیں رہے گی بلکہ اپوزیشن بھی رہے گی ۔ دوسری طرف بی جے پی جس کے بارے مین سبکو پتہ ہیکہ وہ صرف کچھ لوگوں کے لئے کام کرتی ہے اس پارٹی کا کل ابادی کا صرف ۳۳ فیصد لوگوں تک ہی پہنچ ہے جو کسی بھی طرح پورے عوام پر قابض ہونے کا حق نہیں رکھتا۔لیکن ہندوستان میں اچانک سے عظیم اتحاد کے ٹوٹ جانے سے ایک سیاسی سونامی آگئی ہے جس کو اب دوہزار انیس کے لوک سبھا الیکشن میں یہ کمزور اپوزیشن نہیں سنبھال سکتا۔ابھی حالیہ دنوں میں سیاسی سونامی کی لہر ہندوستان میں توڑجوڑ کی بھی راج نیتی کے روپ میں بھی شروع ہوئی ہے۔ اب جو بھی بڑے لیڈر ہو تے ہین جو اپوزیشن میں کھڑے ہونے کے لائق ہیں ان کوپتہ نہین کونسا کلمہ اور کونسا ورد پڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ فورا پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو جا رہا ہے ۔ اوراسطرح سے وہی شخص جو کل تک کانگریس میں مورود الزام تھا لوگ گناہ گار کہ کر پکارا کرتے تھے وہیشخص بی جے پی میں منسٹری تک پہنچ جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ان کارناموں سے نہ صرف سیاست کمزور ہو رہی ہے بلکہ اس سے جمہوریت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو آنے والی نسل کے لئے نہایت ہی بری خبر ہے۔دوسری بات یہ ہیکہ اجکل اس سونامی نے میڈیا کا رخ بھی بدل دیا ہے جس سے نہ صرف سیاست اور جمہوریت کو فرق یا نقصان ہو رہاہے بلکہ پورے ہندوستان کی عالمی پیمانے پر رسوائی ہو رہی ہے ۔ مثال کے طورپر اجکل ہندوستان مین بھیڑ اور ذات پات کا ماحول چلا ہوا ہے نیچ ذات اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بری طرح سے ٹارگٹ کیا جا رہاہے۔ ایسی صورت میں اس سونامی سے بچنے کے لئے ایک مظبوط اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہوجاتا ہے ۔کیونکہ مظلوم کی بھی آواز ایون مین اٹھنی چاہئے اگر ایوان میں آواز نہیں اٹھے گی تو ملک کے اندرنی حصوں پر بہت برا اثر پڑیگا لوگ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہونگے اور عالمی پیمانے پربھی ہندوستان کا شبیہ خراب ہوگا ۔
خیر موجودہ وقت بہت ہی صبر ازمودہ وقت ہے ایسے نازک وقت میں سبکو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور ایسی طاقت سے دور رہنی چاہئے جس سے گنگا جمنی تہذیب پر اثر پڑے ۔ہم بسااوقات سیاسی لیڈروں کے بہکاو میں آکر بہک جاتے ہیں اور اپسی بھائی چارے کو بھول جاتے ہیں جو سراسر غلط ہے اس سے نہ صرف ہمارا آپسی بھائی چارے کی شاخ کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ ہم ایک دوسرے سے لگاتار دور ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انجام کار ہم اپنا قیمتی مینڈٹ کسی غلط ہاتھوں میں دے دیتے ہیں جس کا وہ غلط استعمال کر تارہتا ہے۔
اب اس سیاسی سونامی سے بچنے کیلئے ہندوستان کے سیاست میں کسی ایک ایسی شخص کی ضرورت ہے جو نہ صرف ہندوسان کے عوام کو بیدار کرے بلکہ عوام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی ایک اچھا پلٹ فارم محیا کرے۔اجکل نئے نئے الات اور نئی نئی ایجادات ہو رہے ہیں ایسی صورت میں اگر اپوزیشن کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان چین جیساملک بن جائیگا۔ جہان نہ کسی مذہب کی آزادی ہوگی اور نہ ہی خود انسان آزاد ہوگا بلکہ عوام ساست کا غلا م بن کے رہ جائے گااور یہ سیاسی سونامی پورے ہندوستان کو اپنی چپٹ میں لے لیگا ۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟