مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ؛تیری رہبری کا سوال ہے؟

 آرایس ایس کی کامیابی کے پیچھے دوبڑی سیاسی پارٹی بی جے پی اورشیوسیناکاپوراپوراہاتھ ہے، اور بڑے ہی خوبصورت نعروں کے ذریعہ انگریزوں کے طرزپراِس ملک کوپھرسے غلام بنانے کی پوری پلاننگ چل رہی ہے۔ جہاں مسلمانوں کے انتشارسے اسے فائدہ ہوتاہے،وہیں جذباتی نعروں کے ذریعہ ہندؤں کی طاقت کو یکجا کرنے میں بھی بڑی حدتک کامیابی ملتی ہوئی نظرآرہی ہے۔اگرصورت حال یہی رہی تو پھرآنے والا کل کیاہوگا؟وہ بتانے کی ضروت نہیں ہے۔

May 10, 2023 - 17:25
May 11, 2023 - 18:29
 0  27
مجھے رہزنوں سے  نہیں گلہ؛تیری رہبری کا سوال ہے؟

 

مجھے رہزنوں سے  نہیں گلہ؛تیری رہبری کا سوال ہے؟

                             " خالد انور پورنوی 

انڈین ایکسپریس رپوٹ کے مطابق ملک کے مختلف مقامات پر آرایس ایس کی کل 56,8599 شاخائیں ہیں،ملک کی راجدھانی صرف دہلی میں 1,898 شاخیں ہیں،یوکے اوریوایس ایس سمیت39 مما لک میں اس کی شاخائیں بڑی تیزی سے کام کررہی ہیں۔سوشل سائٹس پرسب سے زیادہ متحرک اورفعال جماعت آرایس ایس ہے،فیس بک پراس کولائک کرنے والے پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ ہیں،ٹوئٹرپراس کے پانچ لاکھ سے زائد فالورس ہیں،واٹس ایپ اوردیگرسوشل نیٹ ورک پراس کی گرفت بہت مضبوط،مستحکم اورمربوط ہے، جہاں یہ فوٹوشاپ کی مددسے جھوٹی تصویریں،پیڈنیوز،پیڈٹوٹیس اوردیگرویڈیوزکے ذریعہ اپنے پروپیگنڈے کوفروغ دینے میں منہمک رہتے ہیں۔

 آرایس ایس کیاہے؟برہمن وادکی طلسماتی تصورکانام جس کاتعلق حقیقت میں کسی بھی مذہب اوردھرم سے نہیں،بلکہ وہ خودایک مذہب ہے،اپنے آپ کوسب سے فائق اوربرترسمجھنے والی قوم ہے،اسی لئے صد یو ں سے شودروں اوردلت ہندؤں کووہ غلام بناکررکھاہواہے۔ہندوستان میں جب مسلمانوں کی آمد ہوئی اوراس نے انسانی مساوات کاپیغام پیش کیاتومسلمان قوم ان کی ازلی دشمن ہوگئی،اسی وجہ سے وقفہ وقفہ سے کبھی مسلم مکت کا نعرہ دیاجاتاہے،توکبھی ہندوراشٹریہ بنانے کااعلان ہوتاہے۔

 آرایس ایس کی کامیابی کے پیچھے دوبڑی سیاسی پارٹی بی جے پی اورشیوسیناکاپوراپوراہاتھ ہے، اور بڑے ہی خوبصورت نعروں کے ذریعہ انگریزوں کے طرزپراِس ملک کوپھرسے غلام بنانے کی پوری پلاننگ چل رہی ہے۔ جہاں مسلمانوں کے انتشارسے اسے فائدہ ہوتاہے،وہیں جذباتی نعروں کے ذریعہ ہندؤں کی طاقت کو یکجا کرنے میں بھی بڑی حدتک کامیابی ملتی ہوئی نظرآرہی ہے۔اگرصورت حال یہی رہی تو پھرآنے والا کل کیاہوگا؟وہ بتانے کی ضروت نہیں ہے۔
 
ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ آرایس ایس کاقیام کیوں؟اورکب عمل میں آیاتھا؟اورنہ ہی ہماری تحریر کا یہ موضوع ہے،ہمیں رہزنوں سے آج نہ کوئی گلہ ہے اورنہ کوئی شکایت،گذشتہ 70سالوں سے یہی روناروتے روتے ہمارے آنسواب خشک ہوچکے ہیں۔ہاں!سوال آپ سے ضرورہے،آپ توخیرامت ہیں، قیادت تو آپ کوکرنی تھی،لیکن دوسروں کے رحم وکرم پرجینازندگی کامقصدکیسے سمجھ لیاآپ نے،حکومت کرنے کیلئے اپنی خلافت کاتاج اللہ نے آپ کوعطاء فرمایاہے،اورآپ محکومانہ زندگی بسرکرنے پرفخرمحسوس کررہے ہیں، ہردن نت نئے حملے ہورہے ہیں ہم پر،ظلم کی چکی میں پسے جارہے ہیں ہم،پھربھی ذرہ برابراحساس نہیں، اورہم میں بیداری پیدانہیں ہورہی ہے۔جوکام کرناچایئے اس سے ہم کوسوں دُورہیں،اورجن سے ہماری قوت کمزورہوتی ہو اسی کے دھن میں ہم لگے ہیں۔

 کیاکبھی آپ نے سوچا؟کہ جن طاقتوں کے سہارے ہم اپنی توانائی حاصل کرناچاہتے ہیں،یہ ہماری کل بھی سب سے بڑی بھول تھی،اورآج بھی یہی بھول دہرارہے ہیں،ہندؤں میں جودلت قوم ہے،وہ بھی بیدار ہوگئی ہے،اورتعلیمی،اقتصادی، سیاسی،سماجی ہرمیدان میں آگے بڑھنے کیلئے نہ صرف کوششیں کررہی ہے بلکہ سیاست کے میدان میں بھی کامیابی کا جھنڈا گاڑچکی ہے،اورایک ہم مسلمان قوم ہیں جن کو سب کچھ ورثے میں ملاتھا،اورہم اس کی حفاظت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

 مذہب اسلام جس کاآغازہی نہ صرف یہ کہ تعلیم سے ہوابلکہ اس مذہب نے تعلیمی ترقی کاایک ایک باب کھول کررکھ دیاکہ دنیا دیکھ کردنگ رہ گئی،وہ شرک وبت پرستی کہ جس نے انسانوں کو کمزور، بزدل، ڈرپوک اورجاہل بنارکھاتھا،تعلیم کی روشنی نے اسے طاقتور،بہادر،جری اورعالم بنادیا،کل تک تو نباتات،حیوانات، معدنیات،چشمے،ندیاں،سمندرپہاڑ،زلزلے،چاند اورسورج سب دیوی،یوتاؤں،مانے جاتے تھے۔ظاہر ہے چاندکومعبودماننے والے اس کے اوپراپناپاؤں رکھنے کی بات کیسے سوچ سکتے تھے؟ دریا کو مقدس سمجھنے والے اور اسے خوش کرنے کیلئے اپنے لڑکے اورلڑکیوں کوزندہ حالت میں اس کے اندرڈالنے والے اسے مسخرکرکے اس سے بجلی پیداکرنے کامنصوبہ کیسے بناسکتے تھے؟گائے کی پوجاکرنے والے اس کی پروٹینی اہمیت کوکیسے اجاگر کرسکتے تھے؟مگرجب اسلام آیا،اورحراء پہاڑکے دامن سے تعلیم کی روشنی پھوٹی تو اس نے انسانوں کو ہمت دلائی کہ یہ ساری چیزیں دیوی اوردیوتانہیں،تمہارے غلام ہیں، تمہارے نفع کیلئے اللہ نے بنائی ہیں،اورآج پوری دنیاان چیزوں سے فائدہ حاصل کررہی ہیں۔

 یہی توافسوس کامقام ہے کہ جس مذہب نے سب سے زیادہ زورتعلیم پردیاتھا،اسی کے ماننے والے مسلمان آج تعلیمی اعتبارسے سب سے پیچھے ہیں،اور کاسہ گدائی لے کر اپنی بحالی اور تقرری کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں،یہی وجہ تو ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں میں ان کی بحالی ناکے برابرہے،اس کے نتیجہ میں ہندؤں میں سے دلتوں بلکہ شودروں کے مسائل بھی بآسانی حل ہوجاتے ہیں،اوربے چارے مسلمانوں کے سارے کے سارے مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، پچھلے 70/سالوں سے ہم اپنے مطالبات منوانے کیلئے دوسروں کا دروازہ تو ضرور کھٹکھٹایاہے؛لیکن خودآگے بڑھ کر نہ علمی کمال پیداکرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی طرف خاطرخواہ دھیان دیتے ہیں۔
 
تجارت اورصنعت وحرفت کے میدان میں بھی ہماراکوئی مقام نہیں ہے،اوراگرگنے چنے افراداس میں ہیں بھی، توتجارت برائے تجارت ہے،کوئی مشن نہیں،کوئی مقصدہی نہیں،جومسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں،یاجوکسی سہارےکے محتاج ہیں ان کے بارے میں مسلم تاجروں اور سرمایہ داروں کو کوئی فکر نہیں ہے۔یہ رپورٹ یقیناقابل تشو ینا ک ہے کہ جس دیش میں 14.2 فیصد مسلمان رہتے ہیں، 25 فیصد بھکاری ہیں،یعنی ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے۔
ہندوستان میں مسلمان 255کروڑہیں،یعنی دوسری بڑی اکثریت،مگراس کے باوجودتاش کے پتے کی طرح یہ بکھرے ہوئے ہیں،نہ ان کاکوئی رہنماہے اورنہ قائد،نہ سیاست میں ان کی کوئی ساجھے داری ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کاامکان نظرآرہاہے،آزادی کے بعدسے ہم نے صرف دوسروں کی قیادت کے پیچھے چلناسیکھاہے،قیادت کرنی نہیں سیکھی،یہی وجہ تو ہے ہمارے ان نام نہادقائدوں،اوران سیاسی آقاؤں نے چندچھوٹے وعدوں اور سنہرے خوابوں کے ذریعہ ہمیں صرف اورصرف ووٹ بینک کے طورپراستعمال کیا ہے، اورجب ہم نے اپنے مطالبے رکھے توہمیں یاتوجیلوں میں سڑادیاگیا،یاپھرمختلف دنگوں کے ذریعہ ہمیں موت کی ابدی نیندسونے پرمجبورکردیا۔

 قلت اورکثرت کبھی بھی کامیابی کامعیارنہیں رہاہے۔ہم یقیناہندوستان میں اقلیت میں ہیں، مگر ہند و ستا ن کی دوسری اقلیتوں کے مقابلے میں ہم دوسری بڑی اکثریت میں ہیں،کیاہم غزوہ بدرکی تاریخ بھول گئے، مسلمانوں کی تعداد صرف 313تھی،دنیاوی سازوسامان سے بالکل خالی،جبکہ دوسری طرف ایک ہزار،بڑے بڑے دولت مند،جو تنہاتمام فوج کی رسد کا سامان کرسکتے تھے،مسلمانوں کی فوج میں صرف دوگھوڑے،اور اُدھر سوسوار،مسلمانوں میں بہت کم سپاہی ہیں جو تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں،جب کہ قریش کا ہرسپاہی لوہے میں غرق تھا،مگر ہاں مشرکین اپنے بل بوتے پرلڑرہے تھے،اورادھر مٹھی بھر فوج کو صرف اور صرف خدا کاسہاراتھا، مگر تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی انہی غریب مسلمانوں کو ہوئی جو اللہ رب العزت کی ذات کے علاوہ ہر ظاہری اسباب سے یکسر خالی تھے،مگر وہ سب شیسہ پلائی دیوار کی مانند باہم مربوط اور متحد تھے۔ اور آج اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ہم بے حیثیت ہیں،ہم میں اتحاد نہیں ہے،باہم مربوط اورمنظم نہیں ہیں، ہماراکوئی امیرنہیں ہے، یاہم کسی امیرکی امارت قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں،ہمیں اپنوں پراعتمادنہیں ہے، مگردوسروں کی ہربات کو آمنا صد قنا قبول کرلیتے ہیں،مسلکی اختلافات ہمارے لئے زیادہ اہم ہیں،مذہبی اختلافات ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے، شایدیہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک نہ ہم نے کسی کو رہنمامانا،اورنہ کسی نے اپنے رہنما ہونے کاہمیں احساس دلایا۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے،ہم منتشر ہو جا تے ہیں،اورکوئی دوسرابازی مار لیتا ہے۔

 ابھی کیاہواسیتامڑھی میں؟مسجدمیں زبردست تنازعہ،مارپیٹ،دوجماعتوں میں سے ہرایک کا دعویٰ، قبضہ کرنے کی کوشش،جبکہ دونوں ہی مسلمان ہیں،دونوں ہی اللہ اوراللہ کے رسول ﷺکے نام لینے والے ہیں، دونوں کی کتاب ایک ہے،دونوں کاقبلہ ایک ہے،دونوں کیلئے اسوہ ایک ہے،آئیڈیل ایک ہے،دونوں کا، مقصدرضائے الٰہی کاحصول ہے،مگرمسجد یعنی خانہ خدا میں جنگ اورلڑائی کی صورت حال دیکھ کر ہم نادم وپشیماں ضرور ہیں،اورسوچنے پرمجبورہیں کہ جن کے پاس آئینی،قانونی اوردستوری کتاب موجودہے،وہ اپنے گھرکے مسائل کوحل کرنے کیلئے اپنے دشمنوں سے تعاون کی بھیک کیوں مانگ رہے ہیں؟

 آرایس ایس اور اس طرح کی دیگر زعفرانی تنظیمیں جھوٹ کا سہارہ لے کر پوری عمارت کھڑی کردیتی ہیں، اپنی یونیٹوں،دوشاخاؤں کے ذریعہ ایک سو پچیس کروڑ ہندوستانیوں کو بے وقوف بناسکتی ہیں،اپنی صنعت وحرفت اور تجارت کوایک مشن کے تحت استعمال کرکے ملک کو بھگوارنگ میں رنگنے کی پلاننگ کرسکتی ہیں،تو کیا اگر ہم اپنی انفرادی طاقتوں کو اجتماعی شکل دے دیں،مسلمانوں اوردیگراقلیتوں ودلتوں کوساتھ لیکرایک نئی حکمت عملی کے ساتھ سیاست وقیادت میں جیت درج نہیں کراسکتے،نہ جانے ایک ایک شادی میں اوردیگرلاحاصل سیروتفریح میں کروڑوں روپئے ہم خرچ کردیتے ہیں،اگراسراف وفضول خرچی کے بجائے عصری،تعلیمی اسکولوں کے قیام کی طرف ہم توجہ دیں،اورغریب بچوں کی تعلیم،اوراعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ آسان بنادیں،کیااس سے مسلما نو ں کے تعلیمی،سماجی،انقلاب میں تعاون کاذریعہ نہیں بنیں گے،یقیناسب کچھ ممکن ہے مگرمحنت وجدوجہداورخاموشی کے ساتھ مربوط اتحاداورمضبوط پلاننگ کی ضرورت ہے   ؎


        اِدھر اُدھر کی بات نہ کر، یہ بتا قافلہ کیوں لٹا

        مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ،تیری رہبری کا سوال ہے

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow