ہماری جمہوریت

ہمارا ملک جو ہمارا وطن عزیز بھی ہے،صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے۔کئی ایک مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے بستے رہے ہیں۔ایک تکثیری سماج میں جو رواداری ،برداشت اور صبروتحمل درکار ہے،

May 10, 2023 - 16:37
Jun 3, 2023 - 18:19
 0  26
ہماری جمہوریت

Rounded Rectangle: اداریہ 

ہماری جمہوریت

                         " ادارہ    

 

ہمارا ملک جو ہمارا وطن عزیز بھی ہے،صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے۔کئی ایک مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے بستے رہے ہیں۔ایک تکثیری سماج میں جو رواداری ،برداشت اور صبروتحمل درکار ہے،ہمارا ملک اس کی نمایاں مثال رہا ہے۔کثرت میں وحدت کی زندہ تصویر دیکھنی ہو تو اس ملک کو دیکھیں جو اپنی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ایک عظیم جمہوریت اس کی شناخت ہے اور اس کا آئین تمام مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کو جس طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے ،اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔

ایک جمہوری نظام حکومت میں جس طرح عدلیہ اور میڈیا آزاد اور بے باک ہوتی ہیں،ان کی اپنی افادیت ہے۔ملک کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سوچے اور ملک اور اہل ملک کے لیے جو کچھ مفید ہو،اسے صفائی کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کرے۔کسی کو اس بات پر اصرار بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اس نے جو کچھ سوچا ہے،صرف وہی درست ہے باقی سب غلط ہے اور پھر وہ اپنی بات کو منوانے کے لیے طاقت یا تشدد کا راستہ اختیار کرے۔اگر ایسا کیا جائے گا یا کرنے کی اجازت دی جائے گی تو جمہوریت کی آزادی اور رواداری ختم ہوجائے گی اور ہم پتھر کے دور میں واپس چلے جائیں گے۔ڈکٹیٹر شپ کے لیے اب دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہمارے ملک کے اولین رہنماؤں نے ملک کے لیے جو دستور مرتب کیا ہے ،وہ ہر شہری کے حقوق وفرائض کی ایک ایک کرکے نشان دہی کرتا ہے۔ہر شخص کو مذہب کی آزادی حاصل ہے ،وہ جس مذہب کو اختیار کرنا چاہے،اسے اختیار کرسکتا ہے۔کسی کو زبردستی کوئی مذہب قبول کرانا قانونی اعتبار سے جرم ہے ۔اسی طرح یہ بھی جرم ہے کہ زور زبردستی کرکے یا لالچ دے کر کسی کو مذہب تبدیل کرنا بھی جرائم کی فہرست میں آتا ہے۔قانون کے محافظ ہمارے اداروں کو اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے سماج میں انتشار نہ پیدا کرنے پائے ۔اگر کوئی شخص یا کوئی تنظیم ایسا کرتی ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے،اس کا محاسبہ کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح ہر قوم اور مذہب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اقدار اورمظاہر تمدن وثقافت کی حفاظت کرے،اپنی نسلوں کو ان سے روشناس کرائے اور ان کی بقا اور استحکام کے لیے اپنے تعلیمی ادارے اور سوسائٹیز قائم کرے۔حکومت کے اداروں سے رجوع کرکے ان کا رجسٹریشن  کرائے اور جن حدود وقیود کی نشان دہی آئین ودستور میں کی گئی ہے،ان کی پابندی کرتے ہوئے اپنی زبان اور تہذیب کی حفاظت کرے ۔کسی خاص ثقافت اور تہذیب کو ہر شخص کے سر پر تھوپنا اور زبردستی کسی کو کوئی خاص کلچر اپنانے پر مجبور کرنا دستوری لحاظ سے غلط ہے۔

میڈیا کو جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔میڈیا کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنائے۔اہل وطن کے سامنے وطن کی صحیح تصویر پیش کرے۔وہ نہ صرف برسر اقتدار سیاسی جماعت کی کارکردگی پر نظر رکھے بلکہ اپوزیشن کی کارکردگی پر بھی نگاہ رکھے۔عوام کے مسائل اور مشکلات کو حکومتوں کے سامنے پیش کرے۔زندگی کی بنیادی سہولیات سے ملک کے جو عوام محروم ہیں،ان کی آواز ایوان حکومت تک پہنچائے۔ملک کا انتظامی اور تعلیمی ڈھانچہ کہاں کہاں اپنے فرائض میں کوتاہی کررہا ہے،اس کی نشان دہی کرے۔میڈیا اگر اپنے فرائض بھول کر حکومتوں کی خواہشات کی ترجمانی کرنے لگے تو جمہوریت کی روح تڑپنے لگتی ہے اور عوام فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔میڈیا کو پولیس اور جج کا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ابھی کوئی معاملہ زیر تفتیش ہے اور اس کا نتیجہ سامنے آنے سے پہلے اگر میڈیا اپنا فیصلہ سنانے لگے تو تفتیش کے راستوں میں مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں اور تفتیش کے ذمہ دار افراد کا ذہن صحیح سمت میں کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔کسی جرم کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جتنے پہلووں پر غور کرنا ہوتا ہے اور اصل مجرمین تک پہنچنے کے لیے جس باریکی سے کسی واقعہ کی جانچ پڑتال کرنی ہوتی ہے،اس میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔صحافی کو غیر جانب دار اور ایمان دار ہونا چاہئے ،وہ ضرور کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتا ہےلیکن اس کی پیشہ ورانہ مہارت اس سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ کسی خاص حکومت یا لابی کی ترجمانی نہ کرے۔بدقسمتی سے حالیہ دنوں کے بعض واقعات میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی ایک صحافی اپنے پیشے کے ساتھ ابصاف نہیں کرسکے اور انھوں نے وہ کام کیا جو ملک کی پولیس اور عدلیہ کا ہے۔اس سے ہمارے ملک کی شبیہ دنیا میں خراب ہوگی اور ہم اپنے ہی عوام کو انصاف دلانے میں ناکام ہوں گے۔

ہمارے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔جب ہمارے ملک نے آزادی کے بعدایک آئین کے تحت اپنے سفر کا آغاز کیا ہے تو یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ آزادی سے پہلے کس نے کیا کیا اور کون کس طرح تھا۔مسلم دور حکومت کے کسی کام سے آزاد ہندوستان کے مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ماضی کو کریدیں گے تو پھر یہ سوال ضرور ہوگا کہ اس ملک میں جین دھرم اور بدھ دھرم کے ساتھ کیا ہوا۔ماضی کے الٹے سیدھے اور غیر مصدقہ واقعات کو بنیاد بناکر موجودہ مسلمانوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔جس مسلمان کو یہاں کی شہریت حاصل ہے ،وہ اس ملک کا ایک ذمہ دار اور عزت دار شہری ہے ،اسے کسی دوسرے کے کاموں کی بناپر نشانہ بنانا آئینی اور اخلاقی لحاظ سے غلط ہے۔

ملک سے وفاداری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندو دھرم اور اس کے ثقافتی مظاہر کو اپنایا جائے۔گھر واپسی وغیرہ کی باتیں ملک کے دستور کے خلاف ہیں۔اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت آج بھی مذہبی رواداری کے راستے پر گامزن ہے اور ہر مذہب،اس کے شعائر اور اس کی مقدس شخصیات کا احترام کرتی ہے ۔مذہبی دل آزاری کے لیے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرے،ہر مذہب کے شعائر اور اس کی مقدس شخصیات کی عزت کرے۔مسلمانوں نے اس پہلو سے اس ملک میں روشن مثال قائم کی ہے۔کوئی نہیں بتاسکتا کہ  کسی مسلمان نے سیدنا عیسی علیہ السلام،گوتم بدھ،رام،کرشن یا لکشمن کی شان میں گستاخی کی ہو یا ان کے تعلق سے کوئی نامناسب لفظ زبان سے نکالا ہو۔کیوں کہ ان کے مذہب میں خاص طور پر اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری برتی جائے۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ،اسلام کا کوئی داعی داروغہ یا خدائی فوجدار نہیں ہے۔اسی لیے مسلمان بجا طور پر دوسروں سے امید رکھتے ہیں کہ ان کے مذہب کا بھی احترام کیا جائے گا،ان کے دینی شعائر کی تضحیک نہیں کی جائے گی اور نہ ان کی مقدس شخصیات کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جائیں گے۔

ہمارے ملک میں مسلمانوں کی تصویر یہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان دہشت گرد یا شدت پسند ہیں ،وہ اپنے مذہب کے مخالفین کو برداشت نہیں کرتے اور ملک میں آئے دن کو دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،ان کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ملک میں ایک خاص نظریہ رکھنے والے لوگ مسلمانوں کے تعلق سے یہ تمام باتیں پھیلاتے رہتے ہیں اور بعض صحافی بھی اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ نہایت سنگین الزامات ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔کسی فرد کے کسی اقدام کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈالنا انصاف کے خلاف ہے۔بڑی تعداد میں مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزامات سے ملک کی عدالتوں سے باعزت بری ہوئے ہیں۔اکثریتی طبقے کے کئی لوگ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ماخوذ ہیں اور سلاخوں کے پیچھے ہیں۔کیا یہ تمام باتیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ دہشت گردی کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ایک دہشت گرد پہلے دہشت گرد ہوتا ہے اور بعد میں کچھ اور۔مسلمان ہمیشہ سے اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اور وہ خود دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔کسی کمیونٹی کو آئے دن دھمکانا اور اس کے کھانے پینے کی اشیاء کی کھوج لگانا کچھ کم دہشت گردی ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ ایک مسئلہ ان کے پرسنل لا کا ہے ،جس میں نکاح،طلاق،وراثت،وصیت،وقف اور ہبہ وغیرہ کے مسائل آتے ہیں۔ہمارے ملک کے دستور میں ایک سفارش یہ کی گئی ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔اس سفارش کو بعض حضرات زبردستی تھوپنا چاہتے ہیں۔جب کہ یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ ملک کی اکثریت کے رسوم ورواج کو اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔مسلمانوں کے پرسنل لا کو دستوری تحفظ حاصل ہے۔آئین کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے پرسنل لا پر سوالات نہ کھڑے کیے جائیں۔علمی طور پر اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے کہ نکاح،طلاق وغیرہ کے اسلامی قوانین انسانی فطرت سے زیادہ ہم آہنگ ہیں یا دوسرے قوانین۔مسلمانوں نے اس طرح کے مباحث کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔اگر ان اسلامی قوانین کے مقابلے میں دوسرے قوانین انسانی فطرت سے قریب ہیں تو ان کو سامنے لایا جائے ۔مسلمانوں کی زندگی کی بعض کوتاہیوں یا مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والے بعض مظالم کو اسلام کی طرف منسوب کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔قرآن مجید میں وراثت کا مکمل قانون موجود ہے،جس میں ماں،بیٹی اور بیوی کو کسی بھی حال میں اپنی بیٹے،باپ اور شوہر کی جائیداد سے محروم نہیں کیا گیا ہے۔کثرت ازدواج کے مسئلے پر بھی بڑی لمبی چوڑی بحث ہوتی ہے جب کہ مسلمانوں کے یہاں کثرت ازدواج دوسروں کی بہ نسبت کم ہے۔کسی انسان کی طبعی ضرورت ہوسکتی ہے کہ وہ دوسری شادی کرے لیکن پہلی بیوی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے۔کیا یہ کوئی معقول اور اخلاقی اصولوں کے مطابق بات ہوگی کہ ایک شخص کو قحبہ خانے میں کھلے عام جانے کی اجازت ہو لیکن دوسری شادی کرکے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا اور دوسری بیوی کی بھی ذمہ داری اٹھانا غیر اخلاقی حرکت کہی جاسکتی ہے۔ان تمام مسائل پر کھلے منچ پر گفتگو کرنے کے لیے مسلمان تیار ہیں۔مسلمانوں کو اس بات پر شرح صدر حاصل ہے کہ جس اللہ نے انسان کی فطرت بنائی ہے ، اسی اللہ نے یہ قوانین دیے ہیں،یہ کسی انسان کے وضع کردہ نہیں ہیں۔ان قوانین اور انسانی فطرت کے تقاضوں میں تضاد ہوہی نہیں سکتا۔کسی قانون کا غلط استعمال ہورہا ہو تو اسے روکا جانا ضروری ہے لیکن اس قانون ہی پر سوالیہ مشان کھڑے کرنا کوئی معقول بات نہیں ہے۔ہمیں فخر ہے اپنی جمہوریت پر اور اپنی دستور پر جس میں ہمیں اپنی خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی بھی ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی بھی۔

 

 

 

 

 

 

 

  

 

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow