ایک مجلس کی تین طلاقیں
قرآن وحدیث میں طلاق دینے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت طہر میں طلاق دے اور صرف ایک طلاق دے۔حالت حیض میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے ،اسی طرح ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بھی ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ نے زوجین کو اپنے معاملے میں غور وفکر کرنے کی مہلت عطا فرمائی ہے ۔کوئی ایسا طریقہ نہیں اپنایا جاسکتا جو اس مہلت کو ختم کردے۔یہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے جو ولی کی اجازت ،ایجاب وقبول اور گواہوں کی موجودگی میں وجود میں آتا ہے
ایک مجلس کی تین طلاقیں
ترتیب: محمد اسماعیل خوش محمد مدنی دار الافتاء:جامعۃ الامام البخاری
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دے تو کیا ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی یا نہیں ؟ نیز کسی شخص کواپنی بیوی کو تین طہر میں تین طلاق کیوں دینا چاہئے ؟
اس کا جواب درج ذیل ہے:
قرآن وحدیث میں طلاق دینے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت طہر میں طلاق دے اور صرف ایک طلاق دے۔حالت حیض میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے ،اسی طرح ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بھی ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ نے زوجین کو اپنے معاملے میں غور وفکر کرنے کی مہلت عطا فرمائی ہے ۔کوئی ایسا طریقہ نہیں اپنایا جاسکتا جو اس مہلت کو ختم کردے۔یہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے جو ولی کی اجازت ،ایجاب وقبول اور گواہوں کی موجودگی میں وجود میں آتا ہے۔فقہی مسالک کی فروعات اور مسلکی تعصبات کے نتیجے میں آج بہت سے مسلمان الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب بعض حضرات ایک نادان اور شرعی مسائل سے ناواقف مسلمان کی غلطی کی سزا اس حلالہ کی صورت میں دیتے ہیں جو شریعت میں ایک لعنتی فعل ہے ۔بہر حال سوال کا مختصر جواب پیش خدمت ہے۔
ایک مجلس کی تین طلاقیں قرآن وصحیح حدیث کی روشنی میں تین واقع نہیں ہوتیں بلکہ صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،انھوں نے کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی ۔(1)
ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنے والے بہت سےحضرات ہیں جن میں سات صحابہ، پانچ تابعی اور چھ تبع تابعی ہیں اور بعد کے لوگوں میں امام ابن تیمیہ ؛ ابن قیم الجوزیہ اور امام شوکانی کے ساتھ ساتھ اہل ظاہر اور حنفی وحنبلی مسلک کے بہت سارے علماء کرام بھی اسی کے قائل ہیں۔ یعنی ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ (2)
بلکہ رکانہ رضی اللہ عنہ کی تین طلاق پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د ہی فیصلہ دیا ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
طلَّقَ ركانةُ بنُ عبدِ يزيدٍ أخو بني مطلبٍ امرأتَهُ ثلاثًا في مجلسٍ واحدٍ فحزن عليها حزنًا شديدًا قال : فسألَهُ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : كيف طلَّقتها قال : طلَّقتُها ثلاثًا قال : فقال : في مجلسٍ واحدٍ قال : نعم قال : فإنما تلك واحدةً فارْجِعْها إن شئتَ قال : فرجعها فكان ابنُ عباسٍ يرى أنما الطلاقُ عند كلِّ طُهْرٍ
"رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ بنومطلب کے بھائی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی تھی اس پر وہ غمگین ہو گئے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو اس صحابی سے دریافت کیا کہ تم نے اپنی بیوی کو کس طرح طلاق دی ہے۔ رکانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے تین طلاقیں دی ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے ایک ہی مجلس میں یہ طلاقیں دی ہیں ؟رکانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جی ہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ہی طلاق ہوئی ۔ پس اگر تم چاہو تو اپنی بیوی سے رجوع کرسکتے ہو ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو لوٹالیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق دی جانی چاہئے۔ (3)
تین طہر(ماہ)میں تین طلاق اس لیے دینا چاہئے کہ طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہی ہے۔ بلکہ ایک ہی طلاق سے بیوی جدا ہوجائے گی۔تین ماہ کے اندر اگر شوہر رجوع نہیں کرتاتو بیوی دوسرا نکاح کرنے کے لیے آزاد ہے۔
حواشی:
1۔(صحیح مسلم: کتاب الطلاق: باب طلاق الثلاث حدیث نمبر:1472)
2۔(دیکھئے مجموع فتاوی ابن تیمیہ 33/77، اعلام الموقعین3/33 واغاثۃ اللہفان1/933/331)۔
3۔( مسند احمد4/123 ،مسنداحمد کے محقق احمد شاکر نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟