مکاتب اسلامیہ:تعلیم کی اہم ترین بنیاد
مکاتب اسلامیہ میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے والدین اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں۔اساتذہ سے ملتے رہیں اور اپنے بچوں کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔گھر میں اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ بچے نے اپنا ہوم ورک کیا ہےیا نہیں؟اگر وہ خود تعلیم یافتہ ہیں تو بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان کے ہوم ورک میں ان کی مدد کریں اور اگر وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو پھر کسی استاذ کی مدد حاصل کریں جو ان کے بچوں کو ٹیوشن دے۔اس مرحلے میں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوجائے گا
مکاتب اسلامیہ:تعلیم کی اہم ترین بنیاد
"… ادارہ
ہمارے ملک میں تعلیم کے فروغ اور اسے عام کرنے کے جو ذرائع ہیں،ان میں ایک اہم ترین ذریعہ مکاتب اسلامیہ ہیں۔نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے گاؤں دیہات اور شہر وقصبات تک سرکاری پرائمری اسکولوں کا بھی جال بچھا ہوا ہے۔مسلمان بچے اور بچیاں دونوں طرح کے اسکولوں اور اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔اب ہر شخص کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ تعلیم ہی ترقی کرنے،عزت حاصل کرنے اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا ذریعہ ہے۔تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ترقی ناممکن ہے۔ہمارے آئین نے چوں کہ ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہم ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرکے ان میں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرسکتے ہیں،اس لیے دیگر مذہبی اقلیتوں کی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ملک میں پرائمری درجات کے لیے جو نظام اور نصاب تعلیم ہے ،کم وبیش وہی مکاتب اسلامیہ کا بھی نظام اور نصاب تعلیم ہے۔مکاتب اسلامیہ میں صرف قرآن مجید ناظرہ اور دینیات کی تعلیم کا امتیاز ہے باقی تمام مضامین جیسے ریاضی،سائنس،تاریخ،معلومات عامہ،انگلش،ہندی اور اردو کی تعلیم وہی دی جاتی ہے جو سرکاری پرائمری اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ایک دوسرا امتیاز وہ ماحول اور فضا ہے جو مکاتب میں پیدا کی جاتی ہے جس میں ایک مسلمان بچے کی نشوونما ایک مسلمان کی حیثیت سے ہو۔صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہے ،اچھے اور عمدہ اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس طرح بچوں کو ایک ذمہ دار شہری بنایا جاتا ہے۔ملک کی جن ریاستوں میں مکاتب اسلامیہ قائم ہیں اور ان میں جو مسلمان بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ،چوں کہ ان میں سے بیشتر اپنے ضلع کے بیسک شکچھا ادھیکاری کے دفتر سے منظور شدہ ہوتے ہیں ، اس لیے پانچویں کلاس کے بعد ان کے بچوں کا داخلہ سرکاری جو نیر ہائی اسکول کی چھٹی کلاس میں ہوجاتا ہے اور پھر اسی سیڑھی سے اوپر کی منزلیں طلبہ وطالبات طے کرتے ہیں۔مکاتب اسلامیہ کے سلسلے میں ان اہم اور بنیادی نکات اور مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ یہ سرکاری نظام کو تقویت پہنچاتے ہیں اور تعلیم کے اس سلسلے کو عام کرتے ہیں جو ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
مسلمان اپنے وسائل کے مطابق ان مکاتب کے لیے عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور اساتذہ کو مشاہرہ دیتے ہیں۔ظاہر ہے سرکاری پرائمری اسکولوں کے وسائل سے ان کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا جہاں ضروری تعمیرات کے لیے مناسب رقوم فراہم کی جاتی ہیں اور اساتذہ کو سرکاری معیار کے مطابق تنخواہیں دی جاتی ہیں۔اگر اس پہلو سے ان مکاتب میں کوئی کمی ہے تو اس کو سرکاری سطح پر بھی کسی انداز میں پورا کیا جاسکتا ہے اور وہ بجا طور پر اس کے مستحق ہیں۔مکاتب اسلامیہ کے ذمہ داران کو بھی چاہئے کہ وہ اس پہلو سے حکومتوں کو متوجہ کریں اور اگر ان کی طرف سے کوئی تعاون ملتا ہے تو اسے لینے میں کسی طرح کا کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے۔یہ ان کا حق ہے جو ان کو ملنا ہی چاہئے۔ملک کے دور دراز گوشوں تک پھیلے ہوئے یہ مکاتب اسلامیہ تعلیم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی مرحلے میں یہ طے ہوجاتا ہے کہ کون سے بچے تعلیم کے میدان میں آگے جائیں گے اور کون سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔مکاتب اسلامیہ کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں،ان پر ہمیں تفصیل سے اور سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔اس تعلق سے چند باتیں عرض کی جارہی ہیں:
مکاتب اسلامیہ کو غیر اہم نہ سمجھا جائے بلکہ یہی وہ منزل ہے جہاں ہمارے بچوں کا مستقبل طے ہوجاتا ہے۔اس کے مالی نظام کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔بچوں کے لیے ہوادارکلاس روم ہوں جہاں بہ سہولت تعلیم دی جاسکے ،ہر کلاس روم بلیک بورڈ سے آراستہ ہو،پانی پینے کا مناسب اور معقول انتظام ہو اور کھیل کا میدان بھی ہو جس میں اساتذہ کی نگرانی میں مختلف کھیل کھیلے جائیں اور اس طرح بچوں کی صحت اور تندرستی کا بھی لحاظ رکھا جائے۔
اہل ثروت کو آمادہ کیا جائے کہ وہ ان مکاتب اسلامیہ کو تعاون دیتے رہیں۔جن علاقوں کے مسلمان خوش حال ہوں،ان کے بچوں سے مناسب فیس لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔اسی طرح غریب بستیوں میں چٹکی یا مٹھی کا نظام مستحکم کیا جائے جس سے ہر ہفتہ چاول اور آٹا مناسب مقدار میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ مکاتب کے مالی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔گھروں میں جو چاول یا آٹا پکتا ہے،اسی میں سے گھر کی خواتین ایک مٹھی چاول یا آٹا نکال کر ایک ڈبے میں رکھ دیتی ہیں اور ہفتے کے آخر میں مکتب کی طرف سے متعین آدمی تمام گھروں سے اسے جمع کرلیتا ہے اور پھر بڑی مقدار میں ہوجانے کے بعد اسے مناسب قیمت میں فروخت کردیا جاتا ہے۔مکاتب اسلامیہ میں یہ نظام گونڈہ،بستی اور سدھارتھ نگر میں قاضی جلیل عباسی اور ان کے مشن میں شریک علمائے کرام نے قائم کیا تھا اور پھر ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں نے اسے اپنایا تھا۔ضرورت ہے کہ اس کو پورے ملک میں عام کیا جائے اور مکاتب کے مالی نظام کو مضبوط بنایا جائے۔
مکاتب اسلامیہ کے لیے بھی ذہین،محنتی اور فرض شناس اساتذہ کا انتخاب کیا جائے۔ویسے بھی بچوں کے ساتھ رہ کر اور ان میں گھل مل کر تدریس کے فرائض وہی اساتذہ انجام دے سکتے ہیں جو اس بات کا احساس رکھتے ہوں کہ اگر اس مرحلے میں بچوں کی تعلیم کمزور ہوگئی تو آگے کے مراحل وہ طے نہیں کرپائیں گے۔استاذ بننا کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ ذہنی لگاؤ ہو تبھی ایک پڑھے لکھے شخص کو استاذ کی کرسی پر بیٹھنا چاہئے۔روزی کمانے کے لیے دنیا میں بہت سے ذرائع ہیں،اگر تعلیم وتعلم سے دل چسپی نہ ہو تو مکاتب اسلامیہ میں ملازمت کے لیے نہیں جانا چاہئے۔ اس سے بچوں کا مستقبل متاثر ہوتا ہے اور ان کی تعلیمی ترقی رک جاتی ہے۔
مکاتب اسلامیہ کی انتظامیہ اور اس کے نظماء وصدور وہی لوگ بنائے جائیں جو قوم وملت کا صحیح درد اپنے سینوں میں رکھتے ہوں۔منصب حاصل کرکے شیخی بگھارنا اور دوسروں پر حکومت کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔یہ مناصب جواب دہی کا تقاضا کرتے ہیں۔ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق ہی اجروثواب ملے گا۔اگر آپ کی نیت درست ہے تو مکاتب اسلامیہ کے نتائج بھی ان شاء اللہ اچھے نکلیں گے لیکن اگر آپ نے اس کے اہم مناصب کو اپنی دنیا بنانے کے لیے استعمال کیا تو نہ صرف آخرت میں جواب دہی کرنا ہوگی بلکہ آپ اس ملت کے بچوں کے ساتھ ناانصافی کریں گے جو آج اس ملک میں اپنی بقا اور تحفظ کے لیے جد وجہد کررہی ہے۔ملت کے یہی بچے جن کے آپ نگراں بنائے گئے ہیں،وہی اس کا روشن مستقبل ہیں۔اگر ان بچوں کے ہاتھ میں علم کا روشن چراغ نہیں آیا تو ملت تاریکیوں میں ڈوب جائے گی جس کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔
مکاتب اسلامیہ میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے والدین اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں۔اساتذہ سے ملتے رہیں اور اپنے بچوں کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔گھر میں اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ بچے نے اپنا ہوم ورک کیا ہےیا نہیں؟اگر وہ خود تعلیم یافتہ ہیں تو بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان کے ہوم ورک میں ان کی مدد کریں اور اگر وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو پھر کسی استاذ کی مدد حاصل کریں جو ان کے بچوں کو ٹیوشن دے۔اس مرحلے میں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوجائے گا،اس مضمون میں بچے کی پریشانی بڑھتی چلی جائے گی اور بعید نہیں کہ اس کی طبیعت تعلیم سے اچاٹ ہوجائے۔ظاہر ہے یہ صورت حال والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟