ماہ مبارک رمضان کی تجلیاں
اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندے پر بے انتہا رحم وکرم کی بارش برسانے اپنے انعامات کو نچھاور کرنے کے لیے ماہ مبارک رمضان عطا کیا ہے۔ اگر لفظ رمضان کی بات کریں تو اسکا مادہ رمض ہے جس کے معنی جلانے اور خاکستر کرنے کے آتے ہیں ، اسی مہینہ میں بندہ اللہ تبارک وتعالی کی عبادت میں اس طرح مصروف ومنہمک ہوجاتا ہےکہ بے شمار ثواب ونیکیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے جس کی وجہ سے بندے کے گناہ کم ہوجاتے ہیں یا بالفاظ دیگر بندےکے گناہ جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں۔
"…محمد شاہنوازندوی
اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندے پر بے انتہا رحم وکرم کی بارش برسانے اپنے انعامات کو نچھاور کرنے کے لیے ماہ مبارک رمضان عطا کیا ہے۔ اگر لفظ رمضان کی بات کریں تو اسکا مادہ رمض ہے جس کے معنی جلانے اور خاکستر کرنے کے آتے ہیں ، اسی مہینہ میں بندہ اللہ تبارک وتعالی کی عبادت میں اس طرح مصروف ومنہمک ہوجاتا ہےکہ بے شمار ثواب ونیکیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے جس کی وجہ سے بندے کے گناہ کم ہوجاتے ہیں یا بالفاظ دیگر بندےکے گناہ جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ بند گان رحمانی کے لیے عبادتوں کا موسم بہار ہے۔ اس میں حصول نیکی کے تمام تر دروازے کھل جاتے ہیں ،بشری تقاضے یعنی بھوک و پیاس اور جماع وہمبستری جیسی ضرورتوں سے بری ہو کر صرف یاد خدا میں مگن رہنے سے فطری طور پر عبادات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ اس لیے کہ غیر رمضان میں انسان صرف اپنی کھان پان جیسی دیگر ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اپنے قیمتی سے قیمتی وقت گنواں دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل بہت ہی کم اطاعت رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ یا پھر صرف ان ضروری ولازمی عبادتوں کی ادائیگی ہوتی ہے جن کے نہ کرنے پر اللہ تعالی کی طرف سے حد سے زیادہ لعنت وپھٹکار ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ جب فرائض کی ادائیگی میں بندہ کوتاہی اور تساہلی سے کام لیتا ہے تو پھر جو نوافل ومستحب امور ہیں ان کی طرف کیسے بندے کادل مائل ہوگا؟۔ حالانکہ ماہ مبارک رمضان میں ذات باری تعالی کی طرف سے ایسا ٹائم ٹیبل نافذ کیا جاتا ہے جس کے ا ثر سے تمام کے تمام لوگ ایک ہی وقت سے اپنے کام کاج کو جوڑ دیتے ہیں۔ عبادت ایک وقت میں ادا ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی سونا جاگنا کھانا پینا ایک ساتھ ہونے لگتے ہیں۔ نمازیوں کے معمولات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہونے لگتا ہے ۔ وہیں جو لوگ عام دنوں میں نماز کے زیادہ پابند نہیں ہوتے تھے وہ بھی ہر نماز کے وقت مسجد میں حاضر رہتے ہیں اپنے خدا کو یاد کرتے ہیں۔ اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں اور عبادت کے تسلسل کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہےکہ ماہ مبارک رمضان میں بندے کے دلوں میں خوف الہی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ گناہ کرتے ہوئے شرم وعار محسوس ہوتی ہے۔ دن دہاڑے کھانے پینے سے بے حد شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ نمازوں کے اہتمام نہ کرنے سے دل میں خدا کا خوف جاگ اٹھتا ہے۔ اگر اس مہینہ میں بھی کسی مسلمان کادل عبادتوں سے وابستہ نہ ہو تو اس کے مسلمان ہونے پر شبہ ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص ذات باری تعالی کے فرمان واحکام سے منھ موڑتا ہے اس کے حکم کا مذاق اڑاتا ہے۔ عبادتوں سے پہلو تہی کرتاہے ایسے لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان موجود نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگ صرف اسلام وایمان کا ڈھونگ رچتے ہیں۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں کیا بوڑھے کیا بچے کیا جوان کیا مرد کیا عورت سب کے سب اسلامی وایمانی ماحول میں رچ بس جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنی عمر کے ضعف سالی میں پہنچ جاتے ہیں وہ مسجد کے گوشے کو لازم پکڑ لیتے ہیں، ذکر واذکار، تسبیح وتہلیل، قرآن کریم کی تلاوت اورنوافل کا اہتمام کرنے میں ہی مگن رہتے ہیں ، جو لوگ گھر بار کے ذمہ دار ہیں وہ بھی اپنے کام کاج کو ترتیب دے کر تقدیم وتاخیر کر کے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت حکم خداوندی کےساتھ ساتھ نوافل وسنن اور دیگر مستحبات کی جانب رغبت دکھا تے ہیں۔ وہیں خواتین حضرات روزہ سے حد درجہ انسیت کی وجہ سے اپنےسارے امور کو نہایت تیزی وتندہی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرتی ہیں ساتھ ہی نمازوں کا اہتمام اور قرآن کریم کی تلاوت میں بھی مشغول رہتی ہیں۔ رہی بات اس امت کے نونہالوں اور نوخیزوں کی تو وہ بھی رمضان کی رحمتوں سے فیضاب ہوتے رہتے ہیں بلکہ رمضان کے مہینہ کو حد سے زیادہ خوبصورت بنانے میں ان کا بھی دخل ہے۔ جو وقت پر اپنے آباء واجداد کی انگلیاں پکڑ کر مسجد میں آتے ہیں ۔ کچھ دیر پہلے اپنے سامان افطار کو لیے مسجدوں کی جانب قصد کرتے ہیں اور نہایت ہی ادب وسلیقہ کے ساتھ اپنا دستر خوان بچھا کر ایک دوسرے سے پیار ومحبت اور حسن سلوک کا جوہر دکھاتے ہوئے افطار کے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
ماہ مبارک رمضان میں رب دوجہاں کی طرف سے تجلیات کا نزول اس طرح ہوتا ہے کہ جن کے اثرات سے کائنات کی ہر چیز روشن ومنور نظر آتی ہے ۔ پورے مہینہ میں اخوت ومحبت کی فضا قائم ہوجاتی ہے آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے غرباء ومساکین کی دلجوئی کی جاتی ہے ۔ غیظ وغضب پر قابو پایا جاتا ہے لڑائی جھگڑے سے گریز کیا جاتا ہے ہر لمحہ ذکر خدا کی فکر لگی رہتی ہے ۔ لوگ اپنے حقوق کو فراموش کر کے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی سوچتے ہیں ۔مدارس ومساجد میں روزے کی اہمیت کے پیش نظر ایک نرالہ ماحول قائم رہتا ہے۔ خاص طور سے آمد رمضان کی وجہ سے مسجدوں کی رونق میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے دن ورات لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے،
مذکورہ بالا تحریروں میں ماہ مبارک رمضان کے مثبت پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اللہ تبارک وتعالی کے مخلص بندوں کے اعمال وافعال سے پیدا ہوتا ہے ۔ جن کی اللہ تبارک وتعالی سے حد درجہ محبت شریعت الہی سے بے حد انسیت اور اطاعت خداوندگی سے کافی رغبت و چاہت ہوتی ہے ۔جو اس مہینہ کی ایک ایک ساعت کو انمول سمجھتے ہیں اپنی زندگی کی سب سے قیمتی گھڑی سمجھتے ہیں جنہیں وہ کسی بھی حالت میں نہیں کھونا چاہتے ہیں وہ جس حالت میں ہیں کھڑے بیٹھے یا پھر لیٹے ہوئے ذکر الہی میں کھوئے ہوئے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالی کی قربت اور اس کی محبت انہیں زیادہ ستاتی ہے انہیں جتنازیادہ اللہ سے پیار ہوتا ہے اتنا ہی اللہ سے ڈر بھی رہتا ہے۔ ان کی ساری حرکات وسکنات رب دوجہاں کی مرضی کے مطابق جاری رہتے ہیں۔ اپنی پوری زندگی اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں نچھاور کردیتے ہیں ایسا نہیں کہ دنیوی حاجت وضرورت سے کٹ کر صرف عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ بلکہ انہیں ہر جائز کام میں خدا کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ اہل وعیال کی خبر گیری ، رشتہ دار واحباب کی ملنساری بھی انہیں عزیز رہتی ہے۔ گویا کہ شریعت الہی کی تابعداری میں اپنی پوری زندگی گذاراتے ہیں۔
در حقیقت روزہ کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر اس کی قدر کرنے والوں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ییاری حدیث رہتی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز جمعہ کا خطبہ دینے کے لئے ممبر کی پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو آمین کہا پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو آپ نے آمین کہا پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو آپ نے آمین کہا ۔ آپ کے اس عمل سے صحابہ کرام میں ایک طرح سے کھلبلی مچ گئی کہ آخر بات کیا ہے کس دعا پر آپ نے آمین کہا؟۔
جب آپ سے اس بابت دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ آج جبریل علیہ السلام آکرتین آدمیوں کے بارے میں بد دعا کی اوراس پر میں نے آمین کہا ۔ (1) وہ شخص رسوا ہوا جس کے سامنے میرا ذکر آیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا۔دوسرا وہ شخص رسوا ہو جو رمضان کے مہینہ میں داخل ہوا پھر گذرگیا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی ۔ تیسرا وہ شخص رسوا ہو جس نے اپنے والدین میں سے دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے میں پایا اور وہ دونوں اسے جنت میں نہیں داخل کئے۔ حدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جس نے رمضان المبارک کے حقوق کو ادا کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی مغفرت نہیں کرائی اس سے بدتر اور کون ہوسکتا ہے۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہےکہ تمام فرشتوں میں سب سے افضل فرشتے حضرت جبریل علیہ اسلام ان لوگوں کے بارے میں بدعا کررہے ہیں جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کے امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے آمین کہا جارہا ہے۔ ایسی بدعا کے قبول ہونے میں کیا شک ہے؟۔
بہر حال بندگان رحمانی ایک ایک دن کی قدر کرتے ہوئے ماہ مبارک رمضان سے گذرتے جاتے ہیں جب اس مہینہ کے آخری ایام ہوتے ہیں جن میں پانچ ایسی راتیں بھی ہیں جن میں جاگ کر نوافل کا حد سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن پانچ راتوں کو شب قدر کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی قدر کی رات ان پانچ دنوں میں سے کسی ایک رات کو آتی ہے تاریخ کی تعین کا نہ ہونا اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ اس کی کوئی اہمیت وحیثیت باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہی وجہ ہےکہ لوگ ان راتوں کو شب بیداری میں گذار دیتے ہیں ،محض اس وجہ سے کہ ان راتوں میں ایک گھڑی وساعت ضرورآتی ہے۔ جس میں خدا کو یاد کرلینے یا عبادت کرلینے سے ہزاروں مہینوں سے زیادہ عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ جس کے بارے میں آیت قرآنی صراحت کے ساتھ اعلان کرتی ہیں ۔ سورہ القدر اسی بات کی واضح اور بین دلیل ہے۔ اب اتنی وضاحت ہو جانے کے بعد کون نہیں چاہےگا کہ اس قیمتی پل کو عبادت میں گذاریں اس کا ثواب اتنا ہے کہ پوری زندگی بھی عبادت میں گذاریں تو اس کے برابری کو نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
بلاشبہ ماہ مبارک رمضان اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ بندگان رحمانی پر طرح طرح کی نعمتوں کا فیضان کرتا ہے۔ اب یہ بندے کی ذمہ داری ہےکہ اپنے دامن میں نیکیوں کو کس طرح سے بھرتا ہے اور کتنی مقدار میں لیتا ہے۔ بظاہر رمضان کے روزے سے انسان سہما ہوا نظر آتا ہے کہ مہینہ کے تیس دن کیسے صبح تا شام بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کیا جائے مئی جون کی گرمی ہے جس میں گرم ہوائیں چلتی ہیں ۔ صبح سےشام کا وقفہ 15سے16 گھنٹہ کاہے اس طویل مدت میں بنا کچھ کھائے پیئے رہنے میں بے حد پریشانی ہے ۔ یہ عذر کسی کمزور ایمان والے کا ہوسکتا ہے لیکن جن کے دل ایمان ویقین سے شرسار ہیں ان کے لیے حکم خداوندی کے سامنے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے۔ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو ذات باری تعالی کے سامنے کھرا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوشش ہی نہیں بلکہ عزم مصمم کرتا ہےکہ جان چلی جائے تو جائے لیکن خدا کے فرمان سےسرمو انحراف نہیں ہوسکتے۔ ایسے آدمی کے لیے پھر روزے کی تھکاوٹ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، بلکہ اسے ہر پریشانی کے بدلے میں اندورونی طور پر لذت محسوس ہوتی ہے۔
در حقیقت مضبوط ایمان و یقین ہی بندے کو مشکل سے مشکل کام کو آسان بنادیتا ہے ،یہ کامل ایمان ہی کی دین ہےکہ بندہ اپنے رب حقیقی کو خوش کرنے کے لیے اپنی تمام راحتوں اور چاہتوں کو بھلا کر صرف انہی کاموں کی طرف اپنی توجہ کرتا ہے جس سے رب راضی ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجئے شدت کی گرمی میں دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر نماز عشاء کے بعد تراویح کے لیے تیار ہوناکتنا مشکل امر ہے لیکن قوت ایمانی اسے اندر سے اکساتی ہےکہ جو لذت قرآن کریم کو سماعت کرنے میں ہیں اللہ کے حضور رکوع وسجود میں ہے وہ نرم نرم بستر میں خراٹے مارنے میں کہاں ؟ اس لیے کہ جب بندہ آیات قرآنی کی سماعت میں لگا ہوتا ہے تو پھر کافی دیر تک نمازوں میں کھڑے رہنے کی تھکان کو بھول جاتا ہے ۔ اسی پر بس نہیں ، نماز تراویح سے فارغ ہونے کے بعدکچھ بشری تقاضے بھی رہتے ہیں ان سے فارغ ہو کر ابھی محو خواب ہوتے ہی ہیں کہ سحری کا وقت آن پڑتا ہے جس وقت نیند کا شدید غلبہ ہوتا ہے اس کے باوجود بندہ اپنے کو سحری کے لیے تیار کرتا ہے یہ سب اسی لیے ممکن ہےکہ بندہ کا ایمان اللہ تبارک و تعالی پر نہایت ہی مضبوط اور ٹھوس ہے۔ اس کے دل میں جنت کی حصولیابی کی شدید خواہش ہے ، اسے معلوم ہے کہ یہ دنیا صرف چند دن کی ہے اصل زندگی تو آخرت کی ہے جہاں کی زندگی لافانی ہے، یہاں بھلے ہی عیش و عشرت کے محل تعمیر کر سکوں یا نہ کرسکوں لیکن میرے پاس ایمان و یقین کی ایسی دولت ہے جس کے ذریعہ میں جنت کی نہایت ہی خوبصورت اور آرام دہ محلات و باغات کو خرید سکتا ہوں ، کیونکہ اس دنیا میں راحت و سکون کی عمارت کھڑی کرنے کے لئے اس دنیا کی موجودہ کرنسی کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ ہر کسی کے پاس نہیں ہے ، لیکن جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنے وہاں کی زندگی آباد کرنے کے لئے جس کرنسی کی ضرورت ہے وہ کوئی دنیاوی مال و دولت نہیں بلکہ فرمان خداوندی پر سو فیصد عمل در آمد ہے ، اس کے تمام احکام کو بجالانے ہی میں آخرت کی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی خوشحالیوں کا حاصل کرنا ممکن ہے۔
رمضان المبارک کا یہ مہینہ قدردانوں کے لئے بہت ہی انمول ہے ، جس کی روحانی اور پر نورفضاؤں سے وہ ہمہ وقت معطر رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے دلوں میں یہ تمنا بار بار جنم لیتی ہے کہ کاش ہماری عمریں طویل ہوتیں تاکہ بار بار اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہونے کے مواقع ملتے رہیں۔ اس لئے کہ یہ زندگی کی مثال مانند پانی کے بلبلہ ہے جس کے بننے اور ٹوٹنے میں کوئی زیادہ وقت کی ضروت نہیں پڑتی ہے۔ یہ جیتا جاگتا انسان کی آخری سانس کب موت کی آغوش میں جاکر تھم جائے یہ کسے معلوم ہے؟۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟