کیا اللہ تعالی ہر جگہ موجودہے؟
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"ابھی تابعین کی کثیر تعداد موجود تھی تب ہم کہا کرتے تھے کہ اللہ عزوجل اپنے عرش پر ہے اور اللہ عزوجل کی جو صفات سنت میں آئی ہوئی ہیں ان صفات پر ہم ایمان لاتے ہیں" امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ اللہ تعالی آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر جگہ میں ہے کوئی چیز بھی اس کے علم سے خالی اور مخفی نہیں ہے"
کیا اللہ تعالی ہر جگہ موجودہے؟
" … ابو عدنان محمد طیب السلفی
قارئین کرام ! یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے، اور ہر کسی کے ساتھ بذاتہ ہے، یااللہ لامکاں ہے،یا یہ کہ اللہ لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے، یا یہ کہ اللہ ہر چیز میں ہے ،یہ تمام باتیں کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اور اجماع سلف کے عقیدہ کے خلاف ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے [أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ](1) '' کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین جنبش کرنے لگے"
[أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ](2) " کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوکہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسادے؟ پھر تو تمہیں معلوم ہوہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا"
[الرَّحْمَنُ عَلَى العَرْشِ اسْتَوَى](3) "یعنی رحمن عرش پر قائم ہوا"
یہ آیت قرآن کریم میں سات مقامات پر وارد ہوئی ہے۔جس سے اس مسئلہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے
مذکورہ تمام آیتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالی آسمانوں پر اپنےعرش کے اوپر مستوی وبلند ہے۔
اسی طرح اللہ کا یہ فرمان [إِلَيْهِ يَصْعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ](4) '' تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں"
اس آیت میں اللہ کی طرف کلمات کے چڑھنے سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی اوپر کی جانب ہے۔
[يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ](5) ' اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں"
[بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ](6) " بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا "
[إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ](7) " اے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں اورتجھے اپنے جانب اٹھانےوالا ہوں"
ان آیات میں بھی اللہ کے بلند ہونے اور مخلوق سے اوپر اور علیحدہ ہونے کا ذکرآیا ہوا ہے۔
اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی اللہ عزوجل کے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر آیا ہوا ہے :
(۱)صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً } " کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے، میرے پاس صبح وشام آسمانی خبر آتی ہے"(8)
(۲)صحیح مسلم میں حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایک لونڈی سے سوال کیا : « أَيْنَ اللَّهُ ». قَالَتْ فِى السَّمَاءِ.قالَ « مَنْ أَنَا ». قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ. قَالَ « أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ »." اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمان میں ، آپ نے دوبارہ سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ اس نے جواب دیاآپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے فرمایا :اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے "(9)
امام عثمان بن سعید الدارمی متوفی۲۸۰ہجری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں "کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کے ایمان کی نشانی ہی اللہ تعالی سے متعلق اس کی اس معرفت پر قرار دیا کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس میں ان لوگوں کی بات کی تکذیب ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے ، کیوں کہ جو چیز ہر جگہ موجود ہو اسے کہاں سے موصوف نہیں کیا جاسکتا ، جس چیز سے کوئی جگہ خالی نہ ہو اس کے بارے میں یہ پوچھنا محال ہے کہ وہ کہاں ہے؟ کہاں کا سوال اسی چیز کے بارے میں کیا جاتا ہے جوکسی خاص جگہ میں ہو اور دوسری جگہ میں نہ ہو، اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح صحیح راہ سے بھٹکے لوگ دعوی کرتے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس لونڈی کی بات کو غلط قرار دیتے اور اس کو سکھاتے، لیکن چونکہ اس لڑکی نے اس حقیقت کو جان لیا تو اللہ کے رسول نے اس کی تصدیق کی اور اسی وجہ سے آپ نے اس کے ایمان کی گواہی بھی دی، اگر اللہ تعالی آسمانوں کی طرح زمین میں بھی ہوتا تو لونڈی کاایمان اس وقت تک مکمل نہ ہوتا تھا جب تک اللہ کے وجود کو زمین میں بھی نہ جان لیتی، جیسا کہ اس نے اسےآسمانوں پر جاناتھا''(10)
(۳)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ّ نے فرمایا: « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلاَّ كَانَ الَّذِى فِى السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا ».مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلاتا ہے اور وہ انکار کردیتی ہے تو جو آسمان میں ہے اس پر ناراض رہتا ہے حتی کہ خاوند اس سےراضی ہوجائے "(11)
(۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب فرماتے ہوئے کہا : {أَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّى فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ». قَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ. فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ « اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ} '' تم سے [روز قیامت] میرے بارے میں پوچھا جائے گا ، تم کیا جواب دو ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے دین پہنچادیا، اللہ کی امانت کو ادا کردی اور خیر خواہی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: اے اللہ گواہ ہوجا، اے اللہ گواہ ہوجا۔۔۔ ۔ "(12)
اللہ کو گواہ بنانے کے لئے آپ آسمان کی طرف اشارہ کررہے تھے تو ثابت ہوا کہ اللہ اوپر ہے ۔
(۵)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ّ نے فرمایا {الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ} " رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے ،لہذا تم اہل زمین پر رحم کرو تو جو آسمانوں پر ہے وہ تم پر رحم فرمائے گا"(13)
اس مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں جن کاذکر طوالت کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے،مذکورہ احادیث صحیحہ اللہ کے آسمانوں پر اپنے عرش پر مستوی ہو نےپر واضح دلیل ہیں۔
اسی طرح اس سلسلہ میں سلف صالحین کے بہت زیادہ اقوال ہیں جن میں سے چند اقوال ذیل کے سطور میں آپ کے لئے درج کئے جاتے ہیں:
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"ابھی تابعین کی کثیر تعداد موجود تھی تب ہم کہا کرتے تھے کہ اللہ عزوجل اپنے عرش پر ہے اور اللہ عزوجل کی جو صفات سنت میں آئی ہوئی ہیں ان صفات پر ہم ایمان لاتے ہیں"
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ اللہ تعالی آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر جگہ میں ہے کوئی چیز بھی اس کے علم سے خالی اور مخفی نہیں ہے"
علی بن حسن شقیق کا بیان ہے: کہ میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا کہ ہم اپنے رب کو کس طرح جانیں ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی ساتویں آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور جہمیہ کی طرح ہم نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین پر ہے "
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ہمارے نزدیک بھی اللہ تعالی ساتویں آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے"
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سنت سے جو ثابت ہے وہی میرا مسلک وعقیدہ ہے اور اسی پر میں نے سفیان ثوری، امام مالک وغیرہم کو پایا ہے ، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالی اپنےآسمان پر عرش کے اوپر ہے اور جس طرح چاہتا ہے اپنی مخلوق کے بھی قریب ہوجا تاہے اورآسمان دنیا پر بھی نزول فرماتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ (14)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جس نے کہا : میں نہیں جانتا کہ اللہ زمین پر ہے یا آسمان پر ہے تو اس نے کفر کیا ، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے [الرَّحْمَنُ عَلَى العَرْشِ اسْتَوَى](15) "یعنی رحمن عرش پر مستوی ہوا" اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے، اور جو یہ کہے کہ وہ عرش پر تو ہے لیکن نہ جانے اس کا عرش زمین پر ہے یاآسمان پر وہ بھی کافر ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان پر ہونے کا انکار کیا اور جس نے اللہ کے آسمان پر ہونے کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا" دیکھئے{ شرح العقیدۃ الطحاویہ }
حافظ ابو عبد اللہ بن بطہ اپنی کتاب "الابانۃ" میں لکھتے ہیں :(( اجمع المسلمون من الصحابۃ والتابعین، وجمیع اھل العلم من المومنین ان اللہ تبارک وتعالی علی عرشہ فوق سماواتہ بائن من خلقہ)) '' صحابہ وتابعین سے اورجملہ اہل علم مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے ،آسمانوں کےاوپر اور اپنی مخلوق سے جدا ہے''(16)
خلاصہ کلام یہ کہ کلام الہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور تمام اہل علم کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی بلندی میں ، اپنے عرش پر اور اپنے آسمانوں کے اوپر ہے، اور اس بارے میں ان کے دلائل وہی ہیں جوکتاب وسنت کی روشنی میں اوپر ذکر کئےگئے ہیں جب کہ جہمیوں اور ان سے متاثر ین کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہر جگہ ہے ، ان کے اس قول سے اللہ تعالی بہت بلند ہے، دراصل ہم جہاں بھی ہوتے ہیں اللہ تعالی ہمارےساتھ اپنے علم کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اپنی ذات کے ساتھ ۔
اللہ تعالی ہم کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
حواشی:
1۔ {الملك:67/16}
2۔ {الملك:67/17}
3۔ {طه:20/5}
4۔ {فاطر:35/10}
5۔ {النحل:16/50}
6۔ {النساء:4/158}
7۔ {آل عمران:3/55}
8۔ { صحیح بخاری: 4094، صحیح مسلم: 1064}
9۔{ صحیح مسلم :537}
10۔{الرد علی الجہمیۃ للدارمی ص: 46، 47}
11۔{ صحیح مسلم باب تحریم امتناعھا من فراش:1436}
12۔ { صحیح مسلم:1218}
13۔ { سنن ترمذی باب رحمۃ المسلمین :1924، سنن ابوداود باب فی الرحمۃ}
14۔{ماخوذ من کتاب " اخطاء فی العقیدۃ ''للشیخ عبداللہ بن یوسف العجلان }
15۔ {طه:20/5}
16۔{ الابانۃ الکبری لابن بطۃ باب الایمان بان اللہ عزوجل علی عرشہ بائن من خلقہ}
آپ کا ردعمل کیا ہے؟