سال نو کی آمد پر مبارکبادی دینا۔شرعی حکم
مبارکبادی اصل میں تب دی جاتی ہے جب کسی شخص کو خاص خوشی، نئی قسم کی خوشی لاحق ہوتی ہے یا وہ کسی بلاء مصیبت یا پریشانی سے نجات پاتا ہے ۔خوش خبری دینا بھی اسی ضمن میں ہے مگر خوش خبری اور مبارکبادی میں فرق یہ ھیکہ خوش خبری اسے کہا جاتا ہے جو سب سے پہلے بشارت سناتا ہے اور مبارکبادی میں اولیت کا شر ط نہیں ہے۔
سال نو کی آمد پر مبارکبادی دینا۔شرعی حکم
" … عبد الرقیب رضاء الکریم مدنی
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد:
انسان کی زندگی میں کچھ ایسے مواقع آتے ہیں جب انہیں خاص قسم کی خوشی ملتی ہے یا انہیں کبھی نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوجاتی ہے اور وہ پھولے نہیں سماتا ہے اور اس طرح کے موقع پران کے دوست واحباب انہیں مبارکبادی دیتے ہیں ، ان کے لیے دعاء دیتے ہیں ، حقیقت یہ ھیکہ یہ ایک فطری تقاضہ ہے اور عادت بھی ۔
عام طور پر اسلام میں بھی مبارکبادی دینے کا رواج ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (كُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِيْۗــــًٔۢـــا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ)(1) یعنی (تم مزے سے کھاتے پیتے رہو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کعب بن مالک کو اس کی توبہ قبولیت کے موقع پر اس طرح سے بشارت پیش فرمایا :" ابشر بخیر یوم مرّ علیک منذ ولدتک امک" تمہاری ولادت کے بعد سب سے بہتر دن کی خوش خبری قبول کرو "(2) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی آپس میں خاص خاص مناسبت سے ایک دوسرے کو مبارکبادی دیا کرتے تھے ، روایت مذکورہ میں ہی اسطرح کی مبارکبادی موجود ہے ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "لوگ جوق در جوق توبہ قبولیت کے موقع پر مجھے مبارکبادی دیتے ہوئے مجھ سے ملاقات کرتے رہے"۔
اس بنیاد پرہم کہہ سکتے ہیں کہ بالجملہ مبارکبادی دینا مشروع وجائز ہے کیونکہ اس میں ایک مسلم بھائی دوسرے مسلم بھائی کے لیے دعاء کرتا ہے اسکا خیر خواہ بنتا ہے اور اسے خوش کرنا چاہتا ہے جو فعل اسلامی شریعت کا ہی ایک حصہ ہے اور اسلام اسے پسند فرمایا ہے۔
مبارکبادی اصل میں تب دی جاتی ہے جب کسی شخص کو خاص خوشی، نئی قسم کی خوشی لاحق ہوتی ہے یا وہ کسی بلاء مصیبت یا پریشانی سے نجات پاتا ہے ۔خوش خبری دینا بھی اسی ضمن میں ہے مگر خوش خبری اور مبارکبادی میں فرق یہ ھیکہ خوش خبری اسے کہا جاتا ہے جو سب سے پہلے بشارت سناتا ہے اور مبارکبادی میں اولیت کا شر ط نہیں ہے۔
مبارک بادی کا معنی ومفہوم:
مبارکباد کو عربی میں تہنئۃ کہتے ہیں اور تہنئۃ تعزیت کا ضد ہے ، تعزیت کا مقصد ہوتا ہے غمزدہ کو تسلی دینا اور تہنئت کا مقصد ہوتا ہے خوشی کے موقع پر اس کے لیے دعاء کرنا ، اسے دعاء دینا ۔ سبکی رحمہ اللہ نے فرمایا ؛" مبارکبادی کا مطلب ہے جو شخص کسی دینی معاملہ میں کامیابی حاصل کرتا ہے یا دنیاوی معاملہ میں کامیاب ہوتا ہے جو اس کے دین کو مخدوش نہیں کرتا تو ایسا شخص کی خوشی وبہتری کے لیے دعاء کرنا ۔(3)
یہ بھی کہا گیا ھیکہ : مبارکبادی یہ ھیکہ صاحب نعمت کی نعمت قائم ودائم رہے اس غرض سے اس کے لیے دعاء کرنا ۔
مبارکبادی کے ہم معنی الفاظ: (1) تبریک: یعنی برکت کی دعاء کرنا (2) تبشیر:یعنی خوش خبری دینا (3) ترفۂ: یعنی شادی کی مناسبت سے دعاء دینا۔
مبارکبادی کے اقسام:
اول: مشروع اور جائز مبارکبادی ۔ اس سے مراد وہ تمام مبارکبادی ہیں جن کے حق میں شریعت کی دلیل موجود ہے یا پھر ان دلیلوں کی روشنی میں اس کے لیے جواز کی صورت نکلتی ہے۔
ثانی: ممنوع مبارکبادی: اس سے مراد وہ مبارکبادی ہے جس کے حق میں دلیل شرعیہ ثابت نہیں ہے اور نہ کسی دلیل پر قیاس کرتے ہوئے اسے جائز ٹہراسکتے ہیں کیونکہ اس کی اصل نہیں ہے۔
جائز مبارکبادی کی مثال:
(1)دینی منقبت اور علمی فضیلت کی حصولیابی پر مبارکبادی دینا۔(4)
(2) توبہ قبول ہونے پر مبارکبادی دینا۔(5)
(3) علم کی حصولیابی پر مبارکبادی دینا ۔(6)
(4) نیا لباس پہننے پر مبارک بادی دینا ۔(7)
(5) بیماری سے عافیت اور شفایابی پر مبارک بادی دینا ۔(8)
(6) فریضہ حج سے واپسی پر مبارک بادی دینا۔(9)
(7) اللہ کے راہ میں کامیابی ملنے کے بعد واپسی پر مبارک بادی دینا ۔(10)
(8) سفر سے لوٹنے پر مبارک بادی دینا ۔(11)
(9) شادی کے موقع پر مبارک بادی دنیا ۔(12)
(10) مولود جدید کے موقع پر مبارک بادی دینا ۔(13)
(11) دینی نعمت کی تجدید کے موقع پر مبارک بادی دینا (حدیث کعب بن مالک) اور اس پرقیاس کرتے ہوئے اگر دنیاوی جائز نعمت کی تجدید ہو تو ایسی صورت میں بھی مبارک بادی دی جاسکتی ہے۔
(12) ماہ رمضان کی آمد پر مبارک بادی دینا۔(14)
(13) عیدین کی مناسبت سے مبارکبادی دینا ۔ (15)
اسی جائز مبارک بادی کے ضمن میں عرفی مبارک بادی شامل ہونگے، عرفی مبارک بادی کا مطلب یہ ھیکہ جو عام معاشرہ میں مختلف مواقع ومناسبات سے مبارک بادی دیجاتی ہے جس کے حق میں کوئی دلیل شرعی نہیں ہے بلکہ وہ لوگوں کی عادت وفطرت ہوتی ہے اور وہ خلاف شرع بھی نہیں ہوتی ہے اور جب مبارک بادی عادات میں شامل ہوجائے تو عادات وتقالید کا حکم شریعت میں جواز واباحت کا ہوتا ہے نیز حدیث کعب بن مالک اسی مسئلہ کی اصل ہوگی جو جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
عرفی مبارک بادی کی مثال: امتحان میں کامیابی کی وجہ سے یا نوکری وغیرہ ملنے کی مناسبت سے مبارک بادی دینا۔
ناجائز مبارک بادی کی مثال: بدعتی عید جیسا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت پر مبارک بادی دینا ، کریسمس اور جنم اشٹمی کے موقع پر یا پوجا پارون کے موقع پر مبارک بادی دینا ۔
علاوہ ازیں ایک قسم کی مبارک بادی ایسی بھی ہےکہ وہ غیر مسلم کا دینی شعار تو نہیں لیکن وہ اسکا موحد ضرور ہے اور ماڈرن زمانہ کے غیر مسلم خصوصا اسے بڑے زور وشور سے مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک بادی دیتے ہیں جیسا کہ مادرس ڈے، فادرس ڈے، ٹیچرس ڈے، برتھ ڈے وغیرہ وغیرہ اس طرح کے ڈے اور دیوس کا اسلام میں تصور نہیں ہے بنا بریں اس مناسبت سے مبارک بادی بھی جائز نہیں ہے۔
سعودی افتاء بورڈ کو ٹیچرس ڈے کے متعلق سوال کرنے پر انہوں نے جواب میں فرمایا :
" بدعتی عیدیں قائم کرنا ، اسے منانا، منانے والوں کے ساتھ شریک ہونا اور اسی طرح کی مناسبت سے انہیں مبارک بادی دینا جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ گناہ اور حد سے تجاوز کرنے کے معاملہ میں ان کی مدد کرنا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے عبد الرحمن کے اوصاف میں ذکر فرمایا ھیکہ (لایشھدون الزور) الفرقان/یعنی مؤ منین جھوٹ میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور اس کا مفہوم وہ کفار کے عیدوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوا ہے، چاہے اس کا نام عید رکھا جائے یا دیوس یا مناسبت کیونکہ محض نام رکھنے کی بنیاد پر حقیقت نہیں بدل جاتی اور مسلمانوں کے لیے سوائے دو عید کے اور تیسری کوئی عید نہیں ہے ، عید الفطر اور عبد الاضحی۔
اس لیے ہم پر واجب ھیکہ ہم ان بدعتوں کو اور جاہلی عیدوںکو ترک کریں ۔ اس ضمن میں ٹیچرس ڈے وغیرہ شامل ہے۔ اللہ تعالی ہم تمام کو اس کی کتاب اور نبی کی سنت پر عمل کرنے کی اور بدعت کو ترک کرنے کی توفیق دے، وہی توفیق دینے والا ہے، وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔(16)
عیسوی سال جدید کی مناسبت سے غیر مسلموں کو مبارکبادی دینے کے مسئلہ پر سعودی افتاء بورڈ کو مزید پوچھا گیا :
کیا عیسوی نیال سال کی آم د پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دینا اور مولد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے مبارک بادی پیش کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
انہوں نے جواب میں کہا: ان مناسبات سے مبارک بادی دینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ مشروع یعنی شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ وباللہ التوفیق وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔
حواشی:
1۔[اطور:52/19)
2۔[بخاری:4156، مسلم 2769]
3۔ [الدین الخالص ، محمود سبکی1/343]
4۔(مجمع الزوائد 9/230۔ الترغیب والترھیب2/2066)
5۔ (بخاری4156 مسلم 2769)
6۔(احمد 5/141۔مسلم (810)
7۔(احمد2/88۔ ابن ماجہ (3558)بخاری (2906)
8۔(الزھد 252)
9۔(سنن الکبری للبیھقی (9617)
10۔(ابو داؤد4153)
11۔(سنن الکبری للبیھقی9617)
12۔ (بخاری 4515 ترمذی 1091)
13۔(الحجر15/53)
14۔(احمد ونسائی )
15۔(عمل صحابہ ، فتح الباری /464)
16۔ (فتاوی الجنۃ الدائمۃ2/291(21609)
17۔(فتاوی الجنۃ الدائمۃ1/454۔فتاوی نمبر(20795)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟