مولانا ابوبکر ہارونی رحمہ اللہ۔۔ایک عہد ساز شخصیت

سیمانچل کی سرزمین میں مولانا عبد المتین صاحب سلفی رحمہ اللہ کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا، جس کی رہ نمائی سعودی جامعات کے فارغین کر رہے ہیں۔ اس دور کی ایک خاص بات یہ ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ تعداد میں لڑکیوں کے لیے بھی درس گاہیں وجود میں آئیں۔ بلکہ پچھلے کچھ سالوں میں CBSE نصاب تعلیم پر مشتمل ادارے بھی کھلنے لگے ہیں، جن سے بڑی تعداد میں نونہالان قوم مستفید ہو رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ان حضرات کی کوششیں اور زیادہ ثمر آور اور قوم و ملت کے حق میں سود مند ثابت ہوں۔ لیکن اس دور سے پہلے سیمانچل کے اندر جو تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں، ان کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں ایک ادارہ ایسا نظر آتا ہے، جو بیس ویں صدی کی چالیس کی دہائی سے لے کر ستر کی دہائی تک، روشنی کا مینار بن کر، پورے علاقے کو منور کرتا رہا۔ موجودہ بہار کے کٹیہار، پورنیہ، ارریہ، کشن گنج، سپول اور بھاگل پور نیز جھارکھنڈ کے صاحب گنج، پاکوڑ اور گڈا تک کے وسیع و عریض علاقے میں، بڑے پیمانے پر علم کی روشنی بانٹتا رہا۔ ہر طرف اس کی دھوم تھی۔ تعلیمی گہما گہمی کے چرچے تھے۔ دور دراز علاقوں سے طلبہ کشاں کشاں چلے آ رہے تھے۔ آس پاس کی نصف درجن سے زائد بستیاں اس کے طلبہ کے دم قدم دے گلزار بنی ہوئی تھیں اور پورے علاقے میں تعلیمی جوش و خروش کا عجیب منظر تھا۔

May 9, 2023 - 15:48
 0  14

 

مولانا ابوبکر ہارونی رحمہ اللہ۔۔ایک عہد ساز شخصیت

                            "مشتاق احمد ندوی   

سیمانچل کی سرزمین میں مولانا عبد المتین صاحب سلفی رحمہ اللہ کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا، جس کی رہ نمائی سعودی جامعات کے فارغین کر رہے ہیں۔ اس دور کی ایک خاص بات یہ ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ تعداد میں لڑکیوں کے لیے بھی درس گاہیں وجود میں آئیں۔ بلکہ پچھلے کچھ سالوں میں CBSE نصاب تعلیم پر مشتمل ادارے بھی کھلنے لگے ہیں، جن سے بڑی تعداد میں نونہالان قوم مستفید ہو رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ان حضرات کی کوششیں اور زیادہ ثمر آور اور قوم و ملت کے حق میں سود مند ثابت ہوں۔

لیکن اس دور سے پہلے سیمانچل کے اندر جو تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں، ان کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں ایک ادارہ ایسا نظر آتا ہے، جو بیس ویں صدی کی چالیس کی دہائی سے لے کر ستر کی دہائی تک، روشنی کا مینار بن کر، پورے علاقے کو منور کرتا رہا۔ موجودہ بہار کے کٹیہار، پورنیہ، ارریہ، کشن گنج، سپول اور بھاگل پور نیز جھارکھنڈ کے صاحب گنج، پاکوڑ اور گڈا تک کے وسیع و عریض علاقے میں، بڑے پیمانے پر علم کی روشنی بانٹتا رہا۔ ہر طرف اس کی دھوم تھی۔ تعلیمی گہما گہمی کے چرچے تھے۔ دور دراز علاقوں سے طلبہ کشاں کشاں چلے آ رہے تھے۔ آس پاس کی نصف درجن سے زائد بستیاں اس کے طلبہ کے دم قدم دے گلزار بنی ہوئی تھیں اور پورے علاقے میں تعلیمی جوش و خروش کا عجیب منظر تھا۔

آپ نے صحیح انداذہ لگایا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں سیمانچل کی عظیم درس گاہ اور تاریخ ساز تعلیمی ادارہ مدرسہ اصلاحیہ سیماپور کی۔ اصلاحیہ کی بنیاد 1938 میں پڑی۔ اس ادارے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ 1942 ہی میں مدرسہ ایکزامینیشن بورڈ پٹنہ سے ملحق ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نصاب تعلیم میں دینی و عصری علوم کا حسین امتزاج تھا۔ اس کا ایک اہم فائدہ بھی ہوا۔ اس ادارے کے فارغین جس کثرت سے سرکاری نوکریاں حاصل کرنے میں کام یاب رہے، سیمانچل بھر میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بات صرف سرکاری نوکریوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہندوستان کے پہلے مدنی عالم، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے سابق ناظم اور مفتی عام مولانا عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ بھی یہاں خوشہ چینی کر چکے ہیں۔ اہل حدیثان سیمانچل کے پہلے ایم ایل اے مولانا عبد الشکور صاحب سلفی، اکلوتے ریاستی وزیر مولانا منصور عالم صاحب سلفی اور ڈی ایس کالج کٹیہار کے سابق صدر شعبہ اردو و فارسی ڈاکٹر عبد اللطیف حیدری حفظھم اللہ جیسی شخصیات بھی یہیں کی روشنی سمیٹ کر اپنے اپنے میدان میں آفتاب و ماہ تاب بن کر چمکیں۔

لیکن جیسے ہی اصلاحیہ کی ان زریں خدمات اور روشن کارناموں کا ذکر آتا ہے، ذہن و دماغ میں اس عظیم شخصیت کی یادوں کے نقوش ابھر آتے ہیں، جس کا نام اصلاحیہ سے ویسے ہی جڑا ہوا ہے، جیسے پھول سے خوش بو، دھرتی سے گگن اور سورج سے شعاعیں۔ آپ کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی ہوگی کہ میری مراد کس سے ہے؟؟ مولانا ابو بکر ہارونی رحمہ اللہ کو بھلا کون نہیں جانتا؟؟ مولانا ابو بکر ہارونی مطلب مدرسہ اصلاحیہ اور مدرسہ اصلاحیہ مطلب مولانا ابو بکر ہارونی۔ اصلاحیہ کے قیام میں حاجی اسحاق علی دیوان کے دست راست رہے۔ 32 سال اس کے پرنسپل رہے۔ رات دن اس کی تعمیر و ترقی کے بارے میں سوچتے رہے۔ اسے ذرہ سے آفتاب بنایا اور جان بھی دی، تو گھر سے اسی کی جانب آتے ہوئے ٹرین میں!!

مولانا ابو بکر ہارونی یعنی شیروانی میں ملبوس ایک وضع دار شخصیت۔ لمبا قد۔ سانولہ رنگ۔ دیکھنے میں صحت مند۔ چہرے پہ گھنی، لمبی اور سفید داڑھی۔ بڑی بڑی آنکھیں اور ان کے اوپر چشمہ۔ ہاتھ میں چھڑی۔ زبان میں ہلکی سی لکنت، لیکن صاف شفاف اور سلیس اردو میں گفتگو۔ با رعب شخصیت۔ اصول پسندی نشان امتیاز۔ باکمال مدرس۔ ماہر تعلیم۔ زبردست منتظم۔ دھن کے پکے اور ارادے کے مضبوط۔ الغرض ایک جامع الکمالات شخصیت۔

پروفیسر ڈاکٹر عبد اللطیف حیدری انھیں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: میری آنکھوں نے آج تک اس طرح کی شخصیت نہیں دیکھی۔ وہ اصول پسندی،  وقت کی پابندی، شان و شوکت اور رعب و دبدبہ کہیں نظر نہیں آیا۔ مسلم و غیر مسلم، سب لوگ انھیں یکساں طور پر عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔

ابو بکر بن حاجی عبدالعزیز بن ہارون ملا۔ یہ آپ کا مختصر سلسلہء نسب ہے۔ مولانا اپنے دادا ہارون ملا کی جانب نسبت کر کے خود کو ہارونی لکھتے تھے۔ گوا گاچھی مسلم ٹولہ منیہاری میں پیدا ہوئے، جو اس زمانے میں متحدہ پورنیہ کا حصہ تھا۔ کب پیدا ہوئے اس کا کوئی جواب نہ مل سکا، لیکن قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 1902 کے آس پاس کا زمانہ رہا ہوگا۔

مولانا کے دادا ہارون ملا اپنے چار بیٹوں حاجی عبدالعزیز، حاجی عبدالمجید، حاجی عمیداللہ اور فضل حق ملا کے ساتھ مرشد آباد سے آئے تھے۔ ایک دو سال بیلائے ماری میں رہے۔ پھر گواگاچھی مسلم ٹولہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

ہارونی صاحب کے والد حاجی عبدالعزیز صاحب معاشی اعتبار سے خوش حال آدمی تھے۔ ان کے پانچ بیٹے تھے۔ عبدالسلام، سجیرالدین، اسیرالدین، ابوبکر اور ریاض الدین۔ حاجی عبدالعزیز صاحب کی چھوٹی بیٹی کا نام حلیمہ تھا۔ انہی کے بطن سے حضرت مولانا عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ پیدا ہوئے، جن کا ذکر پیچھے آ چکا ہے۔

ہارونی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی چھوٹے چچا فضل حق ملا کے پاس ہوئی۔ گھر کے سبھی بچے ابتدائی تعلیم انھیں سے لیتے تھے۔ فضل حق ملا فقہ محمدی تک کی تعلیم بڑی خوش اسلوبی سے دیتے تھے۔ لیکن، ہارونی صاحب اس کے بعد علمی تشنگی کی تکمیل کے لیے کب،کہاں گئے، اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے ان اعلام کے بارے میں بنیادی معلومات تک محفوظ نہ رکھ سکے، جن سے مستفید ہونے والے آج بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ کبھی اس ناحیے سے سوچتا ہوں، تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ خیر، ان کے تعلیمی سفر کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوبسکا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ دن 'ہیم کنج اسکول' (موجودہ کشن پور ہائی اسکول) آنا جانا رہا۔ بعد ازاں اعلی تعلیم کے لیے شمس الھدی پٹنہ گئے۔ یہاں فاضل تک کی تعلیم حاصل کی۔ شمس الھدی میں آپ کے ساتھیوں میں غلام سرور بھی شامل تھے۔ غلام سرور صاحب کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ ایک اعلی درجے کے خطیب اور صحافی تھے۔ روز نامہ سنگم کے ایڈیٹر تھے۔ بہار سرکار میں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ غلام سرور کے ساتھ مولانا کے تعلقات ہمیشہ شگفتہ رہے۔ وہ کئی بار مولانا کے گھر گواگاچھی بھی آئے۔ غلام سرور ہمارے علاقے کے جلسوں میں بہ کثرت آیا کرتے تھے اور شاید یہ مولانا کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات ہی کا نتیجہ تھا۔

مدرسہ شمس الہدی پٹنہ کے بعد مولانا علوم اسلامیہ میں مزید دست رس پیدا کرنے کے لیے جامعہ رحمانیہ دہلی گئے۔ جامعہ رحمانیہ یعنی اہل حدیثان ہند کا وہ مایہء ناز ادارہ، جس نے مختصر وقت میں اتنے ماہرین علم و فن اور عبقری شخصیات عطا کیں کہ تاریخ میں اس کی مثالیں کہیں کہیں ہی ملتی ہیں۔ ہارونی صاحب وہاں دو تین سال رہے ہوں گے۔ اس طرح آپ کا تعلیمی سفر اختتام پذیر ہوا۔

اس کے بعد تدریسی سفر کا آغاز ہوا، جو نہایت شان دار رہا۔  ویسے تو دہلی سے واپسی کے بعد دو سال بن منکھی کے پاس ایک گاوں میں بھی رہے، جہاں ایک ادارے کی بنیاد رکھ کر اسے مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ پٹنہ سے ملحق کرایا اور کچھ دن ہیم کنج اسکول (موجودہ کشن پور ہائی اسکول) میں بطور مدرس کام کیے، لیکن ان کا اصل کارنامہ، جس کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، مدرسہ اصلاحیہ سیماپور کے قیام سے لے کر اس کی تعمیر و ترقی میں ناقابل فراموش حصے داری ہے۔ مدرسہ اصلاحیہ سیماپور کی بنیاد حاجی اسحاق علی دیوان نے علاقے کے اہل خیر اور ارباب دانش کے تعاون سے 1938 میں رکھی تھی۔ حاجی اسحاق علی دیوان ایک زمین دار، سماجی اثر و رسوخ کے مالک اور درد مند دل کے حامل انسان تھے۔ انھیں علما اور طلبہ سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ وہ ادارے کے قیام بعد ہی ہارونی صاحب کی خدمات حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔ البتہ ہارونی صاحب اصلاحیہ کب آئے، اس کے جواب میں میں کسی فیصلہ کن نتیتجے پر نہ پہنچ سکا۔ ہم آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ ہارونی صاحب اصلاحیہ کے بنیاد گزار پرنسپل تھے اور ان کے بیٹوں کے بیان کے مطابق مولانا اصلاحیہ میں 32 سال خدمت انجام دے چکے ہیں۔ چوں کہ مولانا کا انتقال 1969میں ہوا تھا، اس لیے 32 سال اسی وقت پورے ہوں گے، جب مولانا 1938 میں یہاں آئے ہوں۔ لیکن مدرسے کے ریکارڈ میں ان کی جوائننگ کی تاریخ 19/03 1942 درج ہے۔ اس تضاد کی وجہ کیا ہے، مجھے نہیں معلوم، لیکن بظاہر مجھے بھی لگتا ہے کہ 1938 ہی میں آئے ہوں گے۔

 ہارونی صاحب کے طعام و قیام کا انتظام حاجی صاحب مرحوم کے بھتیجے منشی عابد حسین کے یہاں تھا۔

ہارونی صاحب اصلاحیہ میں 1938 سے 1969 یعنی زندگی کے آخری دن تک رہے۔ اس 32 سالہ مدت میں صرف ایک بار ایک آدھ سال کے لیے ادارہ چھوڑا، لیکن دوبارہ واپس آ گئے۔ یہ ان کی دور اندیشی تھی کہ ادارے کے قیام کے چوتھے ہی سال یعنی 1942 میں اصلاحیہ کو، مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ پٹنہ سے ملحق کرا لیا۔ پہلے یہ الحاق وسطانیہ معیار تک کے لیے تھا۔ دھیرے دھیرے معیار بڑھتا گیا، یہاں تک کہ ہارونی صاحب کی زندگی ہی میں فاضل تک پہنچ گیا۔ ان کے اخیر دور میں درجہء عالم تک باضابطہ کلاس ہوتی تھی۔

ہارونی صاحب کی جس بات کو سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، وہ تھی ان کی اصول پسندی۔ انھیں بے اصولے پن سے سخت نفرت تھی۔ ان کے شاگردوں سے ہم نے ان کی اصول پسندی کے بہت سے واقعات سن رکھے ہیں۔ ایک واقعہ جناب منصور عالم صاحب سلفی، سابق وزیر مملکت حکومت بہار سے وابستہ ہے۔ منصور صاحب نے فوقانیہ تک کی تعلیم اصلاحیہ سے حاصل کی تھی۔ وہ بہت ہی ذہین و فطین اور زیرک طالب علم تھے۔ البتہ ایک بار حاضری فی صد کم ہونے کی وجہ سے ان کے سینٹ اپ ہونے کا مسئلہ پھنس گیا۔ ایسے میں منصور صاحب کے ماما جناب عبدالرحمن صاحب (کٹھوتیہ)، حاجی پتانی صاحب (تتواری) اور منشی عابد حسین صاحب (ہارونی صاحب کے جاگیر) وغیرہ جیسی شخصیات، جن کا مدرسے کی منتظمہ کمیٹی میں ایک خاص مقام تھا، مولانا کے پاس سفارش کے ارادے سے پہنچ گئیں۔ کچھ دیر تک نشست چلی اور ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اصل مدعا سامنے نہیں آ پا رہا تھا۔ بالآخر خود مولانا نے انھیں ٹٹولنے کی کوشش کی، تو مدعا سامنے آیا۔ مولانا نے ان کی بات سنی، لیکن کوئی جواب نہ دیا۔ وہاں سے اٹھے۔ سیدھے اپنے کمرے میں گئے اور چند لحظوں کے بعد باہر نکلے۔ کندھے پہ شیروانی، ایک ہاتھ میں چھڑی، ایک ہاتھ میں کچھ رجسٹر اور چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے۔  ان حضرات کے پاس آتے ہی رجسٹر سامنے رکھ دیے اور بولے: یہ رہے رجسٹر۔ جسے سینٹ اپ کرنا ہو، کیجیے اور مدرسہ چلاتے رہیے۔ میں چلا!! ان حضرات کو یہ امید نہیں تھی کہ مولانا کی اصول پسندی انھیں اس حد تک لے جا سکتی ہے۔ وہ ہکے بکے رہ گئے۔ بالآخر بڑی دیر تک منت سماجت کے بعد انھیں منانے میں کام یاب ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان حضرات کا بھی بڑپن تھا کہ انھوں نے مولانا کی اصول پسندی کا احترام کیا۔ ورنہ آج کے لوگ ہوتے، تو اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے۔

ہارونی صاحب وقت کے بہت پابند تھے۔ ان کا قیام منشی عابد حسین صاحب کے یہاں تھا۔ لیکن روزانہ مدرسہ کھلتے وقت مقررہ وقت پر اس طرح مدرسے میں داخل ہوتے کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ ان کی آمد کو دیکھ کر گھڑی کا وقت ملایا جا سکتا ہے۔ ان کی اس پابندی کی جھلک اصلاحیہ کی فضاؤں میں بڑی آسانی سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ اصلاحیہ کے ہاسٹل میں طلبہ کے قیام کی گنجائش کم تھی اور داخلے کے لیے طلبہ کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ اس لیے عام طور سے طلبہ آس پاس کی بستیوں میں رہتے تھے۔ بنکا، کجرا، سکریلی، بریٹا، جنجرا دھار، تتواری، گیروا اور کٹھوتیہ تک سے طلبہ صبح صبح آتے اور تدریسی اوقات کے بعد واپس ہو جاتے۔ یکے دکےسائیکل سے ورنہ لوگ پیدل ہی آتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود کیا مجال کہ کسی سے پہنچنے میں ذرا دیر ہو جائے یا کوئی وقت سے پہلے نکل جائے! طلبہ تو دور کی بات خود اساتذہ بھی مولانا کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان کے یہاں ایک منٹ کی دیر کو بھی دیر سمجھا جاتا تھا۔ گھنٹی گول کرنے کا تو تصور تک نہ تھا۔

مولانا کی حق گوئی بھی کافی مشہورتھی۔ وہ غلط ہوتا ہوا دیکھ کر برداشت کر لیں، ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی ان کے سامنے کچھ بولتے یا کرتے ہوئے سو بار سوچتا تھا کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ 

انھوں نے ایک رعب دار اور پر شکوہ شخصیت پائی تھی۔ یہ رعب بناوٹی نہیں تھا، بلکہ قدرت کی جانب سے عطا ہوا تھا، جو ان کی جسمانی ساخت، وضع قطع، رکھ رکھاؤ، چال ڈھال، بات چیت اور کردار و عمل، الغرض ان کے وجود کے ذرے ذرے ٹپکتا تھا۔ اللہ نے انھیں بنایا ہی ایسا تھا کہ دیکھتے ہی ان کے تئیں احترام و عقیدت کے جذبات دل میں نقش ہو جائیں۔

ادارتی امور کے ماہر تھے۔ ایک مردم شناس اور فطرت انسانی سے واقف انسان تھے۔ لوگوں سے کام کروانا جانتے تھے۔ خود بھی محنت کرتے اور لوگوں کو محنت کرواتے۔ عام طور سے پرنسپل کی آفس میں تنہا کام کرنا پسند کرتے۔ بلا ضرورت وہاں کوئی داخل نہ ہوتا۔ کام کرتے کرتے تھک جاتے، تو سستانے کے لیے آرام کرسی کا سہارا لیتے۔

گوناگوں ادارتی ذمے داریوں کی وجہ سے پڑھانے کا موقع کم ملتا تھا۔ عام طور سے عربی گرامر، فارسی ادب، عربی ادب اور اردو ادب کی کتابیں پڑھاتے اور تشفی بخش انداز میں پڑھاتے تھے۔ مولانا کی ایک عادت اور بھی تھی۔ تدریسی اوقات میں جب فرصت ملتی، کسی کلاس میں جاکر بیٹھ جاتے، بڑی باریکی سے مدرس کے تدریسی عمل کا مشاہدہ کرتے اور کلاس ختم ہونے کے بعد ان کو اپنے تاثرات و تحفظات سے باخبر کر دیتے تھے۔ اس سے مدرسین کو ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع ملتا تھا۔

ہارونی صاحب کی صدر مدرسی کے عہد کو اس لحاظ سے بھی یاد کیا جائے گا کہ اس دور میں اصلاحیہ میں نہایت باصلاحیت، فرض شناس اور مخلص علما و عصری علوم کے ماہرین کی ایک مضبوط ٹیم تدریسی فریضے کی انجام دہی پر مامور تھی، جس میں مولانا ابو بکر صاحب رحمانی، (کرامت پور مرگھیا)، مولانا اسحاق صاحب سلفی، مولانا علی اصغر صاحب قاسمی، مولانا عبدالستار سلفی، (ڈنگرا گھاٹ)، مولانا محب الحق صاحب مرگھیاوی، مولانا محی الدین صاحب فیصی، مولانا مصلح الدین صاحب سلفی، مولانا سلیمان صاحب (گیروا)، مولانا نذیر احمد صاحب، مولانا عبدالمؤمن صاحب، مولانا شمس الدین صاحب (ہاشم پور)، مولانا عبد اللطیف صاحب (ہاشم پور)، مولانا عبالرحمن صاحب سلفی (کرامت پور)، مولانا جمال الدین صاحب (بنکا)، ماسٹر مصطفی صاحب (ہاشم پور)، ماسٹر ابوالقاسم صاحب (ہاشم پور) وغیرہ جیسے لوگ شامل تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کو اصلاحیہ لانے میں بھی ہارونی صاحب کا اہم کردار رہا ہوگا، جو ادارے کے حق میں تعلیمی اعتبار سے خوش آئند ثابت ہوا۔

ہارونی صاحب کی زندگی حرکت و برکت، جہد مسلسل اور ہمیشہ چلتے رہنے کا نام تھی۔ یہ سلسلہ زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ مدرسے میں بورڈ کے امتحانات جاری تھے۔ جمعے کا دن تھا۔ مولانا کسی ضرورت کے تحت گھر کے لیے نکل پڑے۔ گھر کی ضروریات سے فارغ ہوکر اسی دن شام کو واپسں ہو رہے تھے۔ عام معمول یہ تھا کہ گھر سے وضو کر کے نکلتے۔ تیج ناراین پور اسٹیشن میں مغرب کی نماز ادا کرتے۔ بعد ازاں ٹرین پر سوار ہوکر کٹیہار آتے اور کٹیہار سے سیماپور۔ اس دن بھی مغرب کی نماز تیج ناراین پور اسٹیشن ہی میں ادا کی اور ٹرین میں سوار ہو گئے۔ گاڑی میہارپور اسٹیشن سے کھلی، تو اچانک غشی طاری ہو گئی۔ جلدی جلدی سیٹ پر لٹایا گیا، لیکن اللہ کے عطا کیے ہوئے دن ختم ہو گئے تھے۔ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ چند منٹوں کے اندر ہی روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔ اگلے اسٹیشن، منشاہی میں نعش کو اتار کر جے نگر، مولانا عبداللہ صاحب کے گھر لایا گیا، جو ان کے داماد ہیں اور صبح بیل گاڑی سے گوا گاچھی پہنچایا گیا، جہاں تدفین عمل میں آئی اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے انھیں نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا۔ یہ1969 کی بات ہے۔ صحیح تاریخ وفات معلوم نہ ہو سکی۔

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow