مذاق کا بدلہ مذاق
مسلمانوں پر ہنسنا انکا استہزا کرنا ان کو حقیر سمجھنا اور جب مسلمان ان کے پاس سے گذرے تو ان کو حقیر سمجھتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنا ہر زمانہ میں کافروں کا شیوہ ومشغلہ رہا ہے اور آج بھی ہے مزید براں بعض مسلمان جو اسلامی تعلیمات سے بالکل نا آشنا اور غیر اسلامی اقدار بے حد مرعوب ہیں ان کا بھی یہی شیوہ ہے۔
"… نورالاسلام مدنی
اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ۲۹ۡۖوَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ يَتَغَامَزُوْنَ۳۰ۡۖوَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَہْلِہِمُ انْقَلَبُوْا فَكِہِيْنَ۳۱ۡۖوَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۳۲ۙوَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَيْہِمْ حٰفِظِيْنَ۳۳ۭفَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ۳۴ۙعَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ۰ۙ يَنْظُرُوْنَ۳۵ۭہَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۳۶ۧ"(سورۃ المطففین:29-36)
ترجمہ: بیشک مجرم لوگ (دنیا میں) ایمان والوں سے ہنسا کرتے تھے۔اور جب یہ ان کے پاس سے گزرتے تو وہ آپس میں آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے۔اور جب یہ لوگ لوٹتے اپنے گھروں کو تو وہاں بھی (انہی کی باتوں سے) دل لگیاں کرتے۔اور جب وہ ان کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ تو بالکل ہی بہکے ہوئے لوگ ہیں۔حالانکہ یہ ان پر کوئی نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔پس آج وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ان کفار پر ہنس رہے ہوں گے۔اونچی اونچی مسندوں پر بیٹھے (ان کا حال اپنی آنکھوں سے) دیکھ رہے ہوں گے۔کیا مل گیا کافروں کو بدلہ اپنی ان حرکتوں کا جو وہ کیا کرتے تھے؟
مسلمانوں پر ہنسنا انکا استہزا کرنا ان کو حقیر سمجھنا اور جب مسلمان ان کے پاس سے گذرے تو ان کو حقیر سمجھتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنا ہر زمانہ میں کافروں کا شیوہ ومشغلہ رہا ہے اور آج بھی ہے مزید براں بعض مسلمان جو اسلامی تعلیمات سے بالکل نا آشنا اور غیر اسلامی اقدار بے حد مرعوب ہیں ان کا بھی یہی شیوہ ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالی ایک دوسری جگہ یوں فرمایا ہے :" قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۱۰۸اِنَّہٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ۱۰۹ۚۖفَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِيًّا حَتّٰٓي اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِيْ وَكُنْتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَكُوْنَ۱۱۰اِنِّىْ جَزَيْتُہُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا۰ۙ اَنَّہُمْ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۱۱۱"(سورۃ المؤمنون:108-111)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھٹکارے ہوئے یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو ۔میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔(لیکن) تم انھیں مذاق ہی اڑاتے رہے یہاں تک کہ (اس مشغلے نے) تم کو میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے۔میں نے آج انھیں ان کے اس صبر کا بدلہ دے دیا ہے کہ وہ خاطر خواہ اپنی مراد کو پہنچ چکے ہیں ۔
کافروں کے لیے یہ منظر کتنا تکلیف دہ اور اذیت بخش ہوگا کہ دنیا میں جن لوگوں پر یہ لوگ ہنستے تھے۔ جن کی تحقیر اور تذلیل کے لیے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوتے تھے ، جن لوگوں کو اپنے گھروں میں یہ ہدف طعن وتشنیع بناتے تھے اور جن کو دیکھ پاتے تو بڑی بے باکی اور دلسوزی سے کہتے تھے کہ افسوس یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ یہ بات کہنے کا ان کو کوئی حق نہ تھا اب ان کو دیکھیں گے کہ وہ بلندیوں اور رفعتوں کے مالک ہیں اور مسندوں پر تمکنت اور وقار سے بیٹھے ان کا مضحکہ اڑارہے ہیں ۔ آج ان منکرین اور کفار کو ان کے استہزا اور تمسخر کا پورا پورا بدلہ مل گیا اور آج ان کی آنکھوں سے سارے پردے اور حجاب اٹھ گئے آج ان کو معلوم ہوگیا کہ اللہ کے نزدیک معیار تقرب کیا ہے؟ مال و دولت کی فراوانی یا سیم ورز کے انبار یا اخوان و انصار کی کثرت نہیں بلکہ اعمال صالحہ، پاکبازی دولت ایمان سے بہرہ مندی ، خلوص جاں بازی ایثار اور کلمۃ اللہ کے لیے جدوجہد یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے ان کے دامن ہمیشہ خالی رہے انہوں نے اس بات پر بڑے فخر وغرور کا اظہار کیا کہ ان کو دنیا کی ساری آسائشیں حاصل ہیں اور مسلمان ان سے محروم ہیں ۔ مگر اس بات کو یہ لوگ معلوم نہ کرسکے کہ زندگی کا اصلی وحقیقی نصب العین دنیا نہیں ہے۔ دنیا کی اسودگیاں اور تکلفات نہیں ہیں ۔بلکہ رضاء الہی ہے ۔ اگر وہ خوش ہوگیا تو دارین کی نعمتیں حاصل ہیں اور اگر ہو روٹھ گیا تو چاندی سونے کے محل بھی محض بے کار ہیں۔ یہی وہ راز تھا جس کو مسلمانوں نے سمجھا اور جس کی وجہ سے آج جنت ان کے قدموں میں ہے اور کفار نے نہ سمجھا چنانچہ جہنم کے ایندہن بنے ۔(تفسیر سراج البیان علامہ محمد حنیف ندوی جلد6صفحہ1611)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟