عصمت دری کے بڑھتے واقعات ذمہ دارکون؟
اسلام کی آمد سے قبل بچیاں زندہ درگور کردی جاتی تھی ۔ لیکن اسلام کی آمد نے عورتوں کو تحفظ بخشا جس بنا پر یہ ناسور ختم ہوگیا ۔ جبکہ آج کہا جاتا ھیکہ اسلام نے عورتوں کو چہار دیواری کے اندر قید کردیا ۔ یہ متضاد باتیں ہیں۔ جس مذہب نے عورتوں کو تحفظ بخشا وہ عورتوں کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے۔ در اصل نسوانیت اپنی ناز کی کے ساتھ ناقص العقل بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے مردوں کو عورتوں کا سردار بنایا ہے
بزم خواتین |
… ترنم بنت عبدالہادی"
موجودہ دور میں پوری دنیا سے مغربی تہذیب اور تمدن کی بالادستی کے زیر اثر ہے۔ یہی وجہ ھیکہ اہل مغرب مختلف حیلوں سے اپنی ملحدانہ افکار اور نظریات کو اسلامی معاشروں میں فروغ دنیا اپنا فرض اولین سمجھنے ہیں ۔ اور میڈیا کے ذریعے لعن طعن کی کوشش کررہے ہیں ۔ آج اہل مغرب کی جانب سے اسلام پر عورت کے حوالے سے بے شمار اعتراضات کئے جاہے ہیں ۔ ان کا دعوی ھیکہ کسی دور میں اسلام نے عورت کو واقعی حقوق دئے تھے مگر وہ ثواب فرسودہ بات بن چکی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں عورت کو چہار دیواری سے نکالنا ہوگا اور گھر داری کی روایتی کردار کے بجائے معاشی وسیاسی میدانوں میں اپنا برابر ی کا حصہ لینا ہوگا۔ غرض مغربی تہذیب وکلچر سے لیس ہر جگہ ہر پلیٹ فارم پر عورت پانے بنیادی فرائض اور خانگی امور کو چھوڑ کر مردوں کے پہلو بہ پہلو اپنی معاش خود کمانے میں مشغول ہوگئے۔ اور گھر سے باہر نکل آئیں۔ اور ایسا ہی ہوا عورتیں اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں اور بازاروں ، دفاتر اور ہوٹلوں کی زینت بن گئیں۔ یہاں تک کہ اپنے جسم کو ہم مرد بنادیا اور مٹکتی مٹکتی گھومنے لگیں۔
اسلام کی آمد سے قبل بچیاں زندہ درگور کردی جاتی تھی ۔ لیکن اسلام کی آمد نے عورتوں کو تحفظ بخشا جس بنا پر یہ ناسور ختم ہوگیا ۔ جبکہ آج کہا جاتا ھیکہ اسلام نے عورتوں کو چہار دیواری کے اندر قید کردیا ۔ یہ متضاد باتیں ہیں۔ جس مذہب نے عورتوں کو تحفظ بخشا وہ عورتوں کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے۔ در اصل نسوانیت اپنی ناز کی کے ساتھ ناقص العقل بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے مردوں کو عورتوں کا سردار بنایا ہے۔ قرآن کہتا ہے۔"اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ "(سورۃ النساء:34)
لیکن غیر مسلم مردوں نے ایک میٹنگ کی جس میں عورتوں کو باہر نکلنے کی ترغیب دی اور ایسا نعرہ اور فلسفہ تراشا کہ اسلام نے عورتوں پر ظلم کیا ۔اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کردیا ۔ بلکہ یہ بات بھی کہی کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دئے جائے۔ عورت مرد کی طرح باہر جاکر بازاروں میں کام کرسکتی ہے۔ جب عورتوں نے یہ نعرہ سنا تو وہ گھروں سے باہر نکل گئیں اور اللہ رب العالمین کے اسلام کلام کو بھول گئیں۔ "وقرن فی بیوتکن ولا تبر جن تبرج الجاھلیۃ الاولی"
اور یہ بھی بھول گئی کہ وہ ایک پھول کے مانند جو صرف اپنی جگہ میں ہی محفوظ رہ سکتی اگر وہ اپنی جگہ سے نکل ائے تو کسی کے قدموں تلے کچل جانے کا اندیشہ ہے۔
اور ایسا ہی ہوا۔ آج کل جو عصمت دری اور چھیڑ خانی کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں خاص کر بچیوں کے ساتھ ظلم تو انتہا عروج کو پہنچ گیا ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ھیکہ عورت گھروں سے باہر نکل آئی ہے ۔ جب وہ گھروں کے اندر تھی تو ایسے واقعات کھبی کھبار سننے کو ملتے تھے مگر اب تو یہ ایک معمول سا بن گیا ہے۔ ہر روز ٹی،وی، اخبار، ریڈیو میں یہ خبر ملنا ضروری ھیکہ فلاں جگہ فلاں کی بیٹی کی عصمت دری کی گئی ہے۔ اور قانون بھی اسے روکنے کا کوئی حل نکال نہیں پارہے ۔ نتیجتا مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔ اور مجرمین کے حوصلے مزید بلند ہوجاتے ہیں۔ عورت اور مرد کا ایک دوسرے کی طرف راغب ہونا فطری ہے اسی لیے اسلام نے عورت اور مرد کے مابین ایک دائرہ اور ایک حد قائم کیا ہے۔ لیکن آج کی نئی نسل آزادی نسواں اور اسلام کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ گئی ہے ۔ یہ خطرے کا بادل ان کی عزت پر ہر وقت منڈلارہا ہے۔ اس کے باوجود لڑکیوں کا بے وقت اکیلے اورتنگ وتاریک راستوں میں سفر کرنا خطرے کو دعوت دیتا ہے۔ فیشن کے نام پر فحاشی کو عروج بخشنے والی لڑکیاں نہیں جانتی کہ برہنہ جسم رہنا عریانیت کو ترویج دینا ماضی قدیم میں غیر تہذیب یافتہ کے دور میں جسے اعلی دور کہا جاتا ہے لڑکیاں پھر سے کپڑے اتارنے لگی اور پرانے وقتوں کے انسان کی طرح ہوگئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کی نئی نسل کوآزادی نسواں کا اصل مطلب سمجھا جائے ۔ اسلام نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے اس سے بڑھ کر کوئی آزادی نہیں ہے اگر عصمت دری کو روکنی ہے ۔ تو عورتوں کو گھروں میں رکھئے۔ عصمت دری کو روکنے کا یہی واحد علاج ہے ۔ اور قانون ایسا نہیں کریگی کیونکہ یہ اسلام کی موافقت ہے۔ اور انہیں اسلام کی مخالفت کرنی ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟