عمل کے دھنی؛ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی!

ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن قدوائی صاحب نے ایک بار خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: جو ملت اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں وہ قعر مذلت میں جاگرتی ہے ، آج ہماری ملت کی بربادی کے اسباب اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ اس نے اپنے پیغمبر ں کے کردارکو فراموش کردیاہے اور اپنے اسلاف کے روشن وتابناک کارناموں سے سبق لینابند کردیاہے ‘‘( مرد مومن :خطبہ صدارت،قدوائی صاحب)

May 9, 2023 - 14:47
May 11, 2023 - 17:55
 0  23
عمل کے دھنی؛ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی!

مقالہ

 

عمل کے دھنی؛ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی!

خالد انورپورنوی"                                                                    

 

ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن قدوائی صاحب نے ایک بار خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: جو ملت اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں وہ قعر مذلت میں جاگرتی ہے ، آج ہماری ملت کی بربادی کے اسباب اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ اس نے اپنے پیغمبر ں کے کردارکو فراموش کردیاہے اور اپنے اسلاف کے روشن وتابناک کارناموں سے سبق لینابند کردیاہے ‘‘( مرد مومن :خطبہ صدارت،قدوائی صاحب)

عمل کی دنیاکے بے تاج بادشاہ ؛ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی آج ہمارے بیچ نہیں ہیں ،مگر ان کی خدمات ، ان کی قربانیاں اور قوم و ملت کیلئے ان کے نمایاں کارنامے ہمارے لئے قیمتی اثاثہ ،اورسرمایہ اعزاز و افتخار ہیں ، جب تک دنیا باقی ہے ،چاند، سورج اور ستاروں میں روشنی باقی ہے ،ان کا نام زندہ رہے گا ، ان کی تعلیمات اور عملی اقدامات ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی رہے گی۔

انجینئر مونس اخلاق الرحمٰن قدوائی ،ڈاکٹر انیس بن اخلاق الرحمٰن قدوائی،اور آج کے پروگرام کے کنوینر شیخ مطیع الرحمٰن مدنی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے مختلف ریاستوں کے گورنر رہے، ممتاز ماہر تعلیم ، اور قابل قدر سائنس داں،علم وعمل کے پیکرجناب ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کی حیات و خدمات پر سمینار کاانعقاد کیا، اس لئے کہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو اپنے اکابر اور ان کی خدمات کو حرز جان بنائے رکھتی ہے   ؎

                    فضول سمجھ کر جسے بجھا دیا تو نے     وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی 

دنیا میں بولنے والے بہت ہیں ،مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو وہ میدانِ کارزار میں ہمت ہار جاتے ہیں ،اور قدوائی صاحب کا معاملہ بالکل برعکس ہے، وہ لفظوں کے بادشاہ تو نہیں،ہاں کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، جس شعبہ میں بھی جاتے ہیں، اپنی ذہانت ،قابلیت کا خوب سے خوب استعمال کرتے ہیں، اور محنت و جد و جہد سے اس شعبہ کو بلندیوں تک پہونچاکر ہی دم لیتے ہیں۔

ہندوستان میں برطانوی حکومت تھی ،اوروہی اس ملک کے سیاہ و سفید کی مالک تھی ،جامعہ ملیہ کے ڈگریوں کو سرکار تسلیم نہیں کرتی تھی ،وہ سمجھتی تھی کہ جامعہ ملیہ حکومت کی بغاوت کا مرکز ہے ،اور بات صحیح بھی تھی ، ڈاکٹر قدوائی صاحب جب داخلہ کیلئے جامعہ پہونچے تو ذمہ داروں نے کہا: کہ آپ یہاں کیوآئے ہیں ؟ یہاں کی ڈگری کو سرکاری منظوری بھی حاصل نہیں ہے،بڑے ہی خودداری کے ساتھ انہوں نے جواب دیا : "علم حاصل کرکے ملک و قوم کی میں خدمت کرنا چاہتا ہوں، خواہ میری ڈگریوں کو سرکاری منظوری ملے یا نہ ملے"۔

اور زندگی کے آخری دنوں تک وہ اسی پرکاربند ہے، جس عہدہ کو بھی قبول کیا، عمل کے ذریعہ اسے عزت و وقار بخشا،جہاں کے بھی گورنر بنے، اس ریاست کی تعمیر و ترقی ،اور اقتصادی خوشحالی اپنی ترجیحات میں شامل کیا ، اور عہدوں کے سبکدوشی کے بعد بھی اپنے مقصد سے نہیں ہٹے،ایک بار ایک نوکر شاہ پی این مکھرجی نے ان سے سوال کیا: کہ اپنے عہدہ سے سبکدوشی کے بعدآپ کیا کریں گے ؟ ڈاکٹر صاحب نے جو جواب دیا وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے:"میں نے اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو کام کرنے کیلئے وقف کردیا ہے ،اور میں آخری سانسوں تک ان شاء اللہ ملک و قوم اور انسانیت کی فلاح کا کا م کرتا رہوں گا"( بحوالہ ،مرد مومن: ۱۲۸)

عورتوں کو آئی پی ایس آفیسربننے کے مواقع بھی قدوائی صاحب نے فراہم کیاہے،چنانچہ کرن بیدی جو ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر ہیں نے آئی پی ایس کا امتحان پاس کر لیا ، کمیشن کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا :کہ یہ محکمہ عورتوں کیلئے موزوں نہیں ہے ،یہ معاملہ قدوائی صاحب کے پاس آیا ، کرن بیدی آئی اور کہنے لگی : مجھے عورت ہونے کی وجہ سے آئی پی ایس میں نہیں لیا جارہا ہے ،ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن صاحب نے فوراً کمیشن کے ممبران اور دیگر آفسران سے کہا: ہمارے دستورمیں مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں ہے ،دونوں کو یکساں مواقع حاصل ہیں ، قدوائی صاحب نے اس میں دلچسپی لی ، اس طرح عورتیں بھی اس محکمہ میں آنے لگیں۔

قدوائی صاحب میں خود اعتمادی بہت زیادہ تھی ، وہ باہمت اور پر عزم شخصیت کے مالک تھے ، دنیا کی بڑی سی بڑی طاقت ان کے ارادوں اور کاموں کو نہیں روک سکتی تھی ، ایک مرتبہ جب چند مہینوں کیلئے دہلی کے ایڈ منسٹریٹر بنائے گئے ،اور یہ کانٹوں بھرا تاج اس وقت ملا جب کہ نئی کالو نیوں میں توڑ پھوڑ اور قفل بندی کا سلسہ چل رہا تھا ، چاروں طرف ہنگامے ہو رہے تھے،دہلی کی 1650 غیر منظور شدہ کالونیوں کو منہدم کرنے کی کاروائی سپریم کورٹ کی ہدایت پر شروع کی جا چکی تھی ،ڈاکٹر قدوائی صاحب نے ڈی ڈی اے کے چیرمین سے حالات کی جانکاری لی ، انہوں نے بتایا کہ دہلی میں اب تک 31 ؍سالہ پراناماسٹر پلان لاگو ہے، جب کہ ہر دس سال میں ہر شہر کے ماسٹر پلان کا ریویزن کیا جاتا ہے ، لیکن دہلی کے لینڈ مافیا ایسا نہیں ہونے دے رہے ہیں ،قدوائی صاحب سخت ناراض ہوئے ،ہر ہفتے ڈی ڈی اے کے ممبروں کی میٹنگ بلائی ، چند بااثر شخصیت کی مخالفت کے باوجود دہلی کا ماسٹر پلان 2021 ترتیب دیا اور حکومت کو سونپ دیا ،جس کو حکومت نے تسلیم کیا ، اور اس طرح 1650 غیر منظور شدہ کالونیوں کی منظوری کا راستہ بھی ہموار ہو گیا   ؎

               یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم  جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمسیریں

1989ء میں بہار کے گورنر بنے ، اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی1980ء میں کانگریس بر سر اقتدار آئی ، اور جگن ناتھ مشرا وزیر اعلی بنے،ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن قدوائی کی سر پرستی اور جگن ناتھ مشرا کی سرکار نے مسلمانوں کے حق میں کئی اہم فیصلے کئے جس میں مائناریٹزکمیشن ، مائناریٹز فائنانس کے کارپوریشن ، مولانا مظہر الحق عربی فارسی قابل ذکر ہیں، انجمن ترقی اردو ، بہار اردو اکیڈمی کی سرکاری امدادوں کی رقم بھی انہوں نے بڑھائی،اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں قدوائی صاحب نے اہم رول اداکیا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے کاموں سے ہندو مسلم اتحاد کا جھنڈا بہار میں بلند کردیا ،بلا تفریق مذہب سب کیلئے اخلاق الرحمٰن صاحب محبوب بن گئے ،شاید اسی لئے عید ملن ہو یا ہولی ملن ، درگا پوجا کا تہوار ہو ، یا سکھ کے گرودوارہ میں ان کا کوئی مذہبی جلسہ ؛ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب ضرور مدعو ہوتے، بودھ اور جین دھرم کے ماننے والوں کو بھی آپ نے گلے لگایا ، بودھ گیا کی مندر کو بہترین شکل دی ،بدھ ٹوریسٹ کیلئے بہترین سڑکیں اور بہترین گیسٹ ہاؤس بنوائے ،اور جین دھرم والوں کیلئے پاواپوری اور ویشالی میں مندروں کو نئے رنگ و روغن سے آراستہ کیا ، خدا بخش لائبریری پٹنہ پر بھی خصوصی توجہ دی، جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کیا، نئے مکانات بنوائے ، اور ظاہری خوبصورتی سے مزین کیا ، ان کی کوششوں سے یہ لائبریری اعلی تعلیم و تحقیق کے طالبین کیلئے اہم ریفرینس کا درجہ حاصل کرسکی ، بحیثیت گورنر سبھی یونیورسٹیوں کے وہ چانسلر بھی رہے، اور تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی،اور پڑھنے پڑھانے کا ماحول پیداکیا۔
بہا رمیں کٹیہار کالج قائم ہے ،اس کی وجہ صرف قدوائی صاحب ہیں ،وزیراعلیٰ نہیں چاہتے تھے کہ میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آئے ،اس کیلئے اس کے قائم کرنے والے سپریم کورٹ گئے ،کورٹ نے ثبوت مانگا،تو کالج کمیٹی نے ایک پروگرام کا اہتمام کیا،جس میں کئی ایم پی،ایم ایل اے، بشمول نتیش کماربلائے گئے ، اور اس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی تھے،سپریم کورٹ میں یہ تصویر بھیجی گئی ،عدالت نے اسے ثبوت مان کر کٹیہار میڈیکل کالج کو تسلیم کرلیا۔اور آج وہاں کے ہزاروں فارغین ملک وبیرون ملک میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ 

توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ ایک دینی ،ملی،تعلیمی،اور رفاہی ادارہ ہے ،بہار وبنگال کی گورنرشپ میں قدوائی صاحب نے اس ادارہ کی بھی سرپرستی فرمائی ،اور ہرطرح سے آبیاری کی ،اسے بامقصداور تعلیم وتربیت کے میدان میں بہت ہی عروج حاصل کرنے کیلئے گورنرموصوف نے کئی اہم مفید مشورے دیئے۔

خواتین کو خود کفیل بنانے کیلئے کئی اسکیمیں چلائیں ،چارہزار سے زائد سیلف ،ہیلف گروپ،جس میں 35,000؍ہزار خواتین شامل ہوئیں ،اور مختلف سامانوں کے بنانے کی ٹریننگ حاصل کیں،خواتین کو مرغی پالن،بکری پالن سے جوڑا،اور اسی کے ساتھ ساتھ زیادہ دودھ دینے والی اچھی نسل کی گائے اور بھینس کا انتظام کروایا،اور خواتین کیلئے روزگارکے مواقع فراہم کیا،اچھی قسم کی ملبوسات کی کئی کمپنیوں کو گڑگاؤں ، فریدآباد،امبالہ،لدھیانہ ، امرتسر، چنڈی گڑھ،اور دہلی سے بلواکر خواتین کو اسٹائنڈ کے ساتھ ٹرینینگ دلوائی ، اور انہیں کمپنیوں ،فیکٹریوں میں اجرت پر کام دلوایا۔کسانوں کیلئے بڑی بڑی نرسریوں کا انتظام کیا،پودوں ،کھادووغیرہ تقسیم کئے،اور جدیدسائنسی طریقے سے کھیتوں کی ٹریننگ دی،اس طرح پیاز،سبزی،پھولوں کی کھیتی میں لوگوں کو بڑی کامیابی ملی۔

عام لوگوں کیلئے میٹھے پانی کا انتظام کیا،روایتی دودھ کی تجارت کو ایک خاص سمت دیا،نیشنل مائیناریٹی ڈیولپمینٹ فائنائنس کارپوریشن دلی کی برانچ ایم ڈی اے کھلوائی،اور معقول قرض کی فراہمی کا انتظام کیا، گورنرنے ایک کروڑ سے زائد رقم کا انتظام کرکے غریبوں کے لئے سرکاری فارموں سے چوزے کا انتظام کیا، اور اس طرح میوات کے غریبوں ،پسماندہ اور بدحال لوگوں میں خوداعتمادی پیداکی،قدوائی صاحب وہاں سے الواداع کہہ کر واپس ہوگئے ،مگر اپنی محبت ،عوام وخواص میں چھوڑآئے۔ 
ملک کی آزادی میں میواتیوں نے بھی بڑی قربانی پیش کی ہے ،آزادی وطن کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ انہوں نے پیش کیاہے،مگر نئی نسل ان کے ناموں اور کارناموں سے ناواقف ہے ،ڈاکٹر قدوائی صاحب نے ہریانہ کی گورنری شپ میں جنگ آزادی میں جولوگ شریک تھے ،ان پر کتا بیں چھپوائیں، شہید اسمارک پارک بنوایا، ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کیلئے ان کے گاؤں میں مینارہ شہید تعمیرکرایا،اور اس مینارہ پر ان شہیدوں کے نام کندہ کروائے ۔

ڈاکٹراخلاق الرحمن قدوائی 1920میں ضلع بارہ بنکی کے بڑاگاؤں میں پیداہوئے ،17؍سال تک اے ایم یو میں،17؍سال تک ملک کی مختلف ریاستوں میں،11؍برس تک یوپی ایس سی کے ممبر وچیئرمین، اور چارسال پارلیامینٹ میں ،کل پچاس سالہ خدمات رہیں،مگر آپ کی ایمانداری،سچائی اور دیانت داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا ، چونکہ ان کا ایک ہی مقصد تھاکام اور صرف کام ،اسی لئے 2011 ء میں حکومت کی طرف سے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا گیا  ؎

                عمل کی سوکھتی رگ میں ذرہ سا خون شامل کر میرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا

 

 

 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow