ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی
اپنی زندگی میں برتنا چاہئے اور ملک وقوم کے لیے اسے کس طرح مفید بنانا چاہئے ہم تمام مسلم اقوام کے لیے نہیں تمام ہندوستانیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے ، ایک سفارش کروں گا کہ جن دنوں وہ امریکہ میں تھے تو ہندوستان میں خطوط بھیجا کرتے تھے اور یہاں کے حالات اور وہاں کے حالات پر جو تبادلہ خیال کیا ہے وہ اس لائق ہےکہ اسے شائع کیا جائے مختلف زبانوں کے اندر اور اس کے ذریعہ بہت کچھ حاصل کیا جائے۔
مقالہ |
ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی
… جنید حارث"
پہلا مرحلہ:
پہلے مرحلہ کے بیشتر اوقات حصول علم کا ہے۔یہ وقت ہندوستان کی غلامی کا تھا۔آزادی کے متوالے تن من دھن کی بازی لگاکر ملک کو آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کو تیار تھے۔اخلاق الرحمٰن قدوئی کا پورا خاندا ن اسی جذبے سے سر شار تھا۔ لہذا 1920میں قائم تحریک آزادی کی پیداوار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 1928عیسوی میں ان کا داخلہ کرا دیا گیا۔یہاں سے انہوں نے کیمسڑی میں گریجویشن کیا ۔جامعہ کی تعلیم و تربیت نے انہیں ملک و قوم کے لیے ایک گوہر نایاب بنادیا۔ جامعہ سے نکلنے والے( رسالہ جامعہ) اگست 1938 عیسوی کے شمارہ میں طالب علمی کے زمانے میں اردو زبان میں قومیت کی تعمیر میں سائنس کی اہمیت پر شایع مضمون میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جو پندرہ نکات پیش کیے تھے وہ ان کی فاضلانہ صلاحیت کی غماض ہیں اورترقی پذیرو تیز رفتار دنیا میں بھی ان کی معنویت برقرار ہے۔جامعہ کی ڈگری کو انگریز حکومت تسلیم نہیں کرتی تھی اس لیے گریجویشن کے بعدقومی دھارے سے جڑی ہوئی دوا کی کمپنی Ciplaمیں ملازمت کر لی۔واضح رہے کہ 1930 عیسوی سے آزادی تک گاندھی جی کی جملہ تحریکات میں حصہ لیا۔
دوسرا مرحلہ:
آزادی کے بعد حکومت ہندنے انہیں اعلی تعلیم کے لئے امریکہ بھیج دیا ۔وہاں سے انہوں نے Ph.Dکی ڈگری حاصل کی۔1951میں AMUمیں بحیثیت Readerبلا لیا گیا۔ علی گڑھ میں استاد کی حیثیت سے 1967 تک رہے۔شمالی ہند میں پہلی بار علی گڑھ میں ڈپارٹمنٹ آف کیمسٹری کھولا گیا جو ڈاکڑ اخلاق الرحمٰن قدوئی ہی کی دین ہے۔کیمیسٹری میں پچاس ریسرچ پیپرز ان کی خالص علمی رویہ کا بین ثبوت ہے۔
تیسرا مرحلہ:
1967 عیسوی سے ان کی پوری زندگی عملی ہے۔ ملک کے مختلف شعبہ جات میں ان کی خدمات رہیں۔ اس دوران انہوں نے ملک کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکڑاخلاق الرحمٰن قدوئی کی Education,Science ,Administrationاور Social Welfareمیں نا قابل فراموش خدمات ہیں۔ہر جگہ ایمانداری،خلوص، انسان دوستی اور بہترین کار کردگی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک بن کر رہی۔
Positions held:
1-Research and Development Chemist, Cipla Labs, Bombay (1941-1945)
2-Professor and Head, Departemt of Chemistry, Dean Faculty of Science, Aligarh Muslim University,Aligarh (1951-1967)
3-Direcotor Department of Research Plant Products, Tibbiya Collage, Aligarh Muslim University (1951-1967)4
4-Chairman and Member, Union Public Service Commission of India (1967-1969).
5-Governer of Bihar (First term) 1969-1985)
6- Chancellor, Aligarh Muslim University, (1983 -1990).
7-President, Vaocational Education Society for Women, New Delhi, (1985 till death 2016.)
8-Governer of Bihar (Second term 1993-1998)
9- Governer of West Bengal, (1998 -1999)
10- Chairmain, Dr. B.R. Ambedkar Centre for Bio-medical Research, Delhi University (1998-2003)
11-Chairman, Bombay Marcentile Co-operative Bank, Mumbai (1999-2003)
12-National Chairman, Institute of Marketing and Management, Delhi ( 2000 till death 2016)
13-Member of Rajay Sabha,( January 2000 - July 2004) and also member of the following parliamentary commities.
(a) Consultative Committee for the Ministries of Science and technology, Environtment and forest (2000-2004)
(b) Standing Committee on Agriculture, Water Resorces and Food Processing Industries (15th March 2000-2004)
(c) Committee on Sub-ordinate Legislation (2000-2004)
14-He assumed the charge as the Governer of Haryana on 7th July, 2004.
پوری زندگی میں ان کی کچھ چیزیں نمایاں ہیں جیسے مسلکی طور پر اگر دیکھا جائے تو تمام مسالک کے لوگوں سے ملنا اور مسلکی سطح پر دیکھا جائے تو تمام قوموں سے ملنا اور برابری کےنظر سے دیکھتے ہوئے سب کی ترقی کے لیے فکر مند ہونا ان کی فکر کا نہایت عجیب ساحصہ ہے ان کی زندگی میں انسان دوستی کا جذبہ ایسا گھل مل گیا تھا آپ یہ دیکھیں گے کہ جب ان کے گھر بچوں کی پیدائش ہوتی ہے تو انسان دوستی کے حوالہ سے لڑکوں کےنام انیس ومونیس اوربچیوں کے نام زیبا، تزین اس طرح سے ہیں ایسا لگتاہےکہ ان کی زندگی میں جو ایک توازن ہے سب کے لیے قابل مثال ہے ۔
ڈاکڑاخلاق الرحمٰن قدوئی کی زندگی کے تین تدریجی مراحل ہیں۔
(۱) پیدائش 1920عیسوی سے لیکر آزادی ہند1947 تک۔(۲) 1947عیسوی سے 1967 تک ۔
(۳) 1967عیسوی سے وفات 2016تک۔
پہلے مرحلہ کا بیشتر حصہ حصول علم کا ہے۔ طلب علم کے زمانے میں انہوں نے اپنے مضمون "قومیت کی تعمیر میں سائنس کی اہمیت" میں پندرہ نکات پیش کئے ہیں اس میں سائنس کے تناظر میں ملک کی صنعتی ترقی کو کس طرح فکر انگیزی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(1)ہندوستان میں کاغذ سازی کی صنعت کو ترقی دینے کے بہت زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ جنگلات سے بہترین قسم کی لکڑی ، بانس، گھاس اور بھوسہ وغیرہ بکثرت اور کم قیمت میں حاصل کرنے ،مختلف کیمیاوی طریقے سے کاغذ کی بہت اچھی لبدی تیار کی جاسکتی ہے لیکن آج کل صرف معمولی کاغذ کے لیے لبدی ہندوستان میں تیار کی جاتی ہے اور اچھا کاغذ یورپ کی لکڑی سے بنتا ہے حالانکہ تھوڑی سی محنت اور تحقیق وتجربات کے بعد بہت اچھے نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔
(2) سائنس کی معلومات کی کمی اور بے توجہی کی وجہ سے روزانہ لاکھوں جانوروں کے سنگ، ہڈیاں،کھر اور خون بے کار ہوتے ہیں حالانکہ انہی اشیاء کی مصنوعات یورپ سے لاکھوں روپئے خرچ کرکے منگائی جاتی ہیں، ان چیزوں کی صنعت بہت ہی آسان اور نفع بخش ہونے کی وجہ سے بہت آسانی سے زائد کئے جاسکتے ہیں، تین اور مختلف قسم کی چربیاں ہندوستان میں غیر محدود مقدار میں پیدا ہوتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ پیدا کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس سےخاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا یا جارہا ہے حالانکہ تیل کی بنی ہوئی چیزیں ہرسال کروڑوں روپئے کی یورپ سے آتی ہیں، ہندوستان میں بہترین قسم کے شکر تیار کی جاتی ہےاور اس کا چند سالوں سے صنعت کی طرف کافی توجہ کی جارہی ہے لیکن صنعت کو ترقی دینے کے لیے سائنس کی تحقیقات کی سخت ضرورت ہے گنے کے رس سے صرف پچاس فیصد شکر حاصل کی جاتی ہے اور باقی شکر شریں کے شکل میں بالکل ضائع ہوجاتی ہے جس کا کوئی مصرف نہیں حالانکہ اس فضول اور بےکار چیز سے بہت ہی سستا الکحل تیار کیا جاسکتا ہے جو موٹر اور دوسری مشینوں میں امریکہ اور ہندوستان کے کمپنیوں کے قیمتی پٹرول کے بجائے استعمال کیا جاسکتا ہے یہ معلوم رہے کہ ان دنوں گلف سے پیٹرول نہیں آیا تھا اور اس طرح سے ہندوستان میں پیٹرول کی تلافی نہایت ہی سستے الکحل سے کی جاسکتی ہے لیکن شاید حکومت ہند اپنے اغراض ومقاصد کی خاطر اسے تیار کرنے کی اجازت نہ دے۔
ان کی ذاتی زندگی سے ہمیں ایک سبق لینا چاہئے کہ کس طرح صلاحیت کے بغیر کسی چاپلوسی کئے پوچھ ہوتی ہے پھر اسے کس طرح اپنی زندگی میں برتنا چاہئے اور ملک وقوم کے لیے اسے کس طرح مفید بنانا چاہئے ہم تمام مسلم اقوام کے لیے نہیں تمام ہندوستانیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے ، ایک سفارش کروں گا کہ جن دنوں وہ امریکہ میں تھے تو ہندوستان میں خطوط بھیجا کرتے تھے اور یہاں کے حالات اور وہاں کے حالات پر جو تبادلہ خیال کیا ہے وہ اس لائق ہےکہ اسے شائع کیا جائے مختلف زبانوں کے اندر اور اس کے ذریعہ بہت کچھ حاصل کیا جائے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟