ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور سائنس اینڈ ٹکنالوجی
جب کوئی شخصیت ممتاز عہدوں پر فائز ہوجاتی ہے تو اس کے بہت سے اہم گوشے پردۂ خفا میں چلے جاتے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی گورنری کی تب وتاب میں ان کے علمی مقام ومرتبے کی جلوہ سامانیاں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔اب کوئی حیرت نہیں کہ کسی کو یہ سن کر بھی حیرانی ہو کہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نہ صرف سائنس کے طالب علم تھے بلکہ ایک سائنس داں بھی تھے۔
مقالہ |
ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور سائنس اینڈ ٹکنالوجی
…ڈاکٹر خالد مبشر"
جب کوئی شخصیت ممتاز عہدوں پر فائز ہوجاتی ہے تو اس کے بہت سے اہم گوشے پردۂ خفا میں چلے جاتے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی گورنری کی تب وتاب میں ان کے علمی مقام ومرتبے کی جلوہ سامانیاں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔اب کوئی حیرت نہیں کہ کسی کو یہ سن کر بھی حیرانی ہو کہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نہ صرف سائنس کے طالب علم تھے بلکہ ایک سائنس داں بھی تھے۔ سائنسی علوم سے متعلق نہ صرف ان کا اپنا ایک نظریہ تھا،بلکہ وہ اپنے ذہن میں روشن ہندوستان کا ایک خاکہ بھی رکھتے تھے۔ ان کے پاس سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ہندوستان کے تابناک مستقبل کا ایک صاف وشفاف وژن بھی تھا ۔ وہ سائنس کے استاد ہی نہیں بلکہ سائنس کی اطلاقی جہات سے بھی براہ راست منسلک تھے۔ انہوں نے صرف سائنس کی اعلی ترین تعلیم دنیا کے اعلی ترین اداروں سے حاصل کی تھی بلکہ سائنس کے ان ترقی یا فتہ ماڈلس کے مطابق ہندوستان میں بھی اس کی نظریں قائم کیں۔
انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی ایس سی کرنےکے بعد نوئس(امریکہ)سے ایم۔ایس سی اور کورینل(امریکہ) سے ایک اینٹی بایوٹک Gliotoxin کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا ۔ اپنے تحقیقی مقالے میں انہوں نے Gliotoxinکے سالموں کی جو ساخت پیش کی وہ ان کے گائڈ کی تجویز سے مختلف تھی ، لیکن کچھ دنوں بعد دنیائے سائنس ڈاکٹر قدوائی کے نقظۂ نظر کو قبول کرتے ہوئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ۔ پھر اس زمانے کی مشہور ترین دواساز کمپنی ریسرچ اینڈ ڈپلوپمنٹ ادویات سپلاممبئی میں ملازمت اختیار کرلی جہاں انہوں نے اسہال کی مجرب دواتیار کی اور ہندوستانی علم الا دویہ میں نئے فارمولوں کا اضافہ بھی کیا ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ ہوئے تو انہوں نے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کو شعبہ کیمسٹری میں بحیثیت ریڈرتدریسی خدمات کی دعوت دی ۔ چنانچہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی 1951سے1964 تک اسی شعبہ سے وابستہ رہے انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کے حکم پر بایوکیمسٹری کا شعبہ قائم کیا اور امریکی یونیورسیٹوں کے طرز پر اس کا معیار بلند کرنےکی بھر پور کوشش کی ۔ کہتے ہیں کہ "ہونہار برواکےہوت چکنے چکنے پات۔" ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی 1938ء میں صرف اٹھارہ سال کی عمر کے تھے اور جامعہ میں بی ایس سی کے طالب علم تھے ۔ اس وقت کے مشہور ومعروف علمی رسالہ "رسالہ جامعہ"اگست/1938ء کے شمارے میں ان کا ایک نہایت ہی پر مغز مقالہ شائع ہوا جس کا عنوان تھا "قومیت کی تعمیر میں سائنس کی اہمیت"۔ یہ مضمون ان کی سائنسی بصیرت،وژن اور مستقبل بینی کا بین ثبوت ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے نہایت مدلل انداز سے یہ باور کرایا ہےکہ دنیا کو وحشت،بربریت،پستی اور غیر متمدن صحرائی زندگی سے نکال کر تہذیب وتمدن،صعنت وحرفت اور ترقی کے آسمان تک پہنچانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا سب سے اہم کردار رہا ہے۔ پھر انہوں نے ہندوستان کے قدرتی وسائل وذرائع او ذخائر ومعدنیات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان تمام توانائیوں سے بھر پور کام لینے اور اس کے امکانات کو بروئے کار لانے پر زوردیا ہے۔ پھر اخیر میں ہندوستان کو صنعتی ملک بنانے کے لیے جو سفارشات پیش کی ہیں وہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی دور اندیشی کی غمازی کرتی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ آج سے 78 سال قبل انہوں نے اس مضمون میں سوتی کپڑے کی صنعت، اونی کپڑے کی صنعت ، الکحل کی صنعت ، دواسازی کی صنعت ، معدنی پیداوار، اسلحہ اور گولہ بارود، جنگلات کی پیداوار، زراعت بجلی کی قوت اور زراعتی سائنس کے فروغ سے متعلق بالتفصیل اپنا منصوبہ اور وژن پیش کیا ہے اور ان کایہ گراں قدر مقالہ آج بھی معنویت سے لبریز ہے۔
انہوں نے سیاست اور معیشت کے بجائے سائنس اور ٹکنالوجی سے عدم توجہی کو ہندوستان کی غلامی کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
"اٹھارویں صدی کے آخرکی ایجادوں یعنیJames Hargreavis کےspining- janny اور Arkwighi کی کاٹنے کی مشینیں اس کے علاوہsamuel cromion کی ایجادMuleاور Powerloom وغیرہ ایجادوں نے صورت ہی بدل دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جتنا مال ہندوستان سے بن کر انگلستان جاتا تھا اس سے کہیں زیادہ انگلستان سے بن کر ہندوستان آنے لگا ۔ بالآخر ہندوستان کو انگلستان کی کثیر پیداوار اور Mass Production اور سائنٹی فک صنعت کے سامنے کس طرح چل سکتی تھی ۔ بالآخر ہندوستان کو انگلستان کی ایجادات کی وجہ سے غلام بننا پڑا ۔ اس کے بعد جیمس واٹ کے دخانی انجن نے تو زمانے کا رخ ہی بدل دیا ۔ جس کی وجہ سے انگلستان دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند ملک اور تہذیب وتمدن کا مرکز بن گیا ۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ خصوصا ہندوستان اور امریکہ اس کی صنعت کے لیے خام پیداوار مہیا کرنے لگے اور خود مفلس ہوگئے، ہندوستان کی تمام صنعت ایک قلیل مدت میں بالکل فنا ہوگئی۔ اور ہندوستان وامریکہ کا خام پیداوار کوڑیوں کے مول انگلستان جانے اور مصنوعی شکل میں آکر سونے کے مول بکنے لگیں۔ لیکن امریکہ نے زمانے کے گرکو سمجھ لیا اور اس نے اپنی قومیت کی بنیاد سائنس پر رکھ کر انگلستان سے آزادی حاصل کی اور وہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ، مہذب ملک ہے اور معاشی لحاظ سے تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے"۔
سوتی کپڑے کی صنعت کے لیے روئی کی پیداوار کیسے بڑھائی جائے ؟اس سلسلے میں ان کا یہ نہایت اختراعی اور انقلابی خیال ملا حظہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
"مرطوب فضا اور مناسب حالات پیدا کرنے کے لیے سائنس کی تحقیقات کرنے کی سخت ضرورت ہے"۔
اس کے علاوہ ارگینک کیمسٹری اور بایوکیمسٹری سے متعلق ان کے چالیس تحقیقی مقالے مؤقرقومی وبین الاقوامی رسائل وجرائد میں شائع ہوئے۔ اور وہ کئی ملکوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں بحیثیت مقالہ نگار اور مقرر شریک ہوئے۔ جون2004ء میں انہوں نے ہل سنکی میں منعقدہ(scientific Internationalisation of (research and developmentکے موضوع پرپوروپین کانفرنس میں کلیدی خطبہ پیش کیا ۔))
سائنسی میدانوں میں ان کی غیر معمولی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین نے انہیں طبیہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے "شعبہ ریسرچ پلانٹ پروڈکٹ" کا ڈائرکٹر بھی مقرر کیا تھا ۔ جہاں انہوں نے ہندوستانی طبی نباتاب پر تحقیقی خدمات کو فروغ دیا ۔ اس کے علاوہ وہ زندگی کی آخری سانس تک سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق مختلف اعلی اور معیاری اداروں کے مختلف عہدوں اور کمیٹیوں سے وابستہ رہے۔ مثلا ڈاکٹر بی آرامبیڈ کر میڈیکل سندر فاربایومیڈیکل ریسرچ دہلی یونیورسٹی کے چیرمین رہے، مشاورتی کمیٹی برائے وزارت سائنس وٹکنالوجی، ماحولیات وجنگلات، نیشنل کمیٹی برائے سائنس وٹکنالوجی، پراسپکٹو سائنس اینڈ ٹکنالوجی ، پلان کمیٹی آف دی ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی ، پلاننگ کمیشن ، کونسل اینڈکورننگ باڈی آف انڈین کونسل برائے زراعتی ریسرچ، بورڈ آف کونسل آف سائنٹی فک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ، انڈسٹریل انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹکنا لوجی حیدر آباد، سنٹرل کونسل آف انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، ریویو کمیٹی آف یونانی مڈیسن وزارت صحت حکومت ہند، سلیکشن بورڈ آف سائنٹسٹ پول، فیلو آف دی امریکن، برٹش اینڈ انڈین کیمیکل سوسائٹیز، اور امریکن ایسوسی ایشن فاردی اڈوانسمنٹ آف سائنس جیسے معتبر اور مؤقر سائنسی اداروں کے چیرمین اور رکن رہے۔ نیز انہوں نے خود بھی ایک سائنسی تنظیم ظہیر سائنس فاؤنڈیشن کے نام سے قائم کی ۔ اور ان تمام اداروں میں شامل رہ کر سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں جو گراں بہا خدمات انجام دی ہیں، ان کے احاطے کے لیے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ ان کی قائم کردہ سائنسی تنظیم ظہیر سائنس فاؤندیشن کو بین الاقوامی سائنسی تنظیم یونیسکو سے منظوری حاصل ہے۔ جس کے تعاون سے ہر دو سال پر جنوب ایشیائی سائنس دانوں کے مابین مستحکم رابطے کے لیے کانفرس کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی گورنری کے زمانے میں ہریانہ میں سائنس وٹکنالوجی کے حوالے سے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا نہ صرف تصور پیش کیا بلکہ ان کو نافذ العمل بھی کیا ، اس کے علاوہ اسکول آف سائنس اینڈ میتھ قائم کیا ، میوات میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ہاروسنٹگ اور واٹر کنزرویشن کے منصوبے چلائے۔ میوات میں آئی ٹی آئی ادارے قائم کئے جہاں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں نے Electrician,Forging,Moulding, Computer,Plumbering. کےٹریننگ کورسزکر کے روز گار حاصل کئے۔ انہوں نے دودھ کی تجارت کو بھی سائنٹی فک اصولوں پرفروغ دیا ۔
میری تمنا ہےکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے سائنسی مزاج اور وژن کی بنیاد پر سائنس اور ٹکنالوجی کی ایک اعلی معیار کی یونیورسٹی قائم کی جائے اور سائنسی ریسرچ کے ادارے وجود میں لائے جائیں۔ صحیح معنوں میں یہی اقدام ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی مرحوم کو سب سے بہترخراج عقیدت ہوگا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟