عصر حاضر میں شراب بندی کا خمار

خوف خدا ،توکل علی اللہ کے مضبوط قلعوں میں دنیا کی محبت ،جاہ و منصب کی چاہت نے اپنا بسیرا بنایا۔رفتار زمانہ کے ساتھ ایمان و عقیدے کی باتیں محض منبر و محراب میں سمٹ کر رہ گئیں۔جہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں صرف حصول دولت اور دنیا کی عیش و عشرت کی گفت و شنید جاری ہے۔ایک دوسرے کے خلاف غیبت و تہمت کی گرم بازاری ہے۔ الغرض دنیا پرستی ،جاہ طلبی لوگوں کا اولین فریضہ بن چکا ہے۔     

May 10, 2023 - 13:58
May 11, 2023 - 17:28
 0  33
عصر حاضر میں شراب بندی کا خمار

 

عصر حاضر میں شراب بندی کا خمار

                            "  مطیع الرحمن عبد المتین     

 

جنوری 2017کا دن شراب بندی کی حمایت میں تاریخ ساز دن کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ، جس دن کہ ریاست بہار کو نشہ سے آزاد کرنے کے لیے 11292 کلو میٹر طویل انسانی زنجیر میں دو کروڑ سے زائد اہل ریاست نے 45 منٹ تک ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر عظیم الشان تاریخ رقم کی۔ اس انسانی زنجیر کی کامیابی پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعلی نتیش کمار نے کہا تھا کہ میں نشہ سے پاک مہم میں شامل اس عوامی سیلاب کے لیے ریاست کی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اتنی عظیم الشان عوامی حمایت دیکر اہل بہار نے نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں نشہ سے پاک سماج کے حق میں مضبوط پیغام دیا ہے۔ وزیر اعلی نے کہا تھا کہ آج لوگوں نے دکھا دیا ہے کہ ریاست میں سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ بہار نے عظیم الشان انسانی زنجیر کے ذریعہ شراب بندی اور نشہ سے پاک سماج کے حق میں عزم محکم کا ثبوت دیا ہے۔ انہیں مکمل یقین ہے کہ یہی اتحاد اور جوش آئندہ بھی برقرار رہے گا ۔ ریاست کے 38 اضلاع میں پھیلے 3007 کلو میٹر طویل قومی شاہراہوں اور ریاستی شاہرا ہ کے علاوہ 8285 کلو میٹر طویل ذیلی شاہراہوں سمیت کل 11292 ہزار کلو میٹر را ستے پر دو کروڑ سے زیادہ لوگوں نے انسانی زنجیر بنا کر شراب بندی اور نشہ سے پاک سماج کے حق میں غیر معمولی عہد بندی کا مظاہرہ کیا ۔ شراب بندی کی خاطر اس طرح کی غیر معمولی توجہ اور معیاری نظم و نسق کی جانب وزیر اعلی سمیت اہل بہار کو جس چیز نے آمادہ کیا ہے وہ شراب کی نحوست سے ریاست میں پھیلنے والی جملہ برائی کے ساتھ ساتھ ہلاکت و بربادی کے دل دہلا دینے والے واقعات ہیں۔ جس کے برے اثرات کو بھانپتے ہوئے وزیر اعلی نے نہایت ہی ٹھو س اور مضبوط قدم اٹھا کر اپنی ریاست کے لوگوں کومزید تباہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا ، وزیر اعلی کی نبض شناسی سوچ اور مثبت قدم نے اس جانب پہل کر کے صرف صالح معاشرہ اور نشہ سے پاک ریاست بنا نے کا عزم ہی نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ تعلیمات اسلامی کی اشاعت کا آغاز بھلے ہی آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل ہوئی تھی۔ لیکن جو اثر آفرینی اس میں موجود ہے وہ ہر زمانہ اور ہر دور کے لیے لائق عمل اور قابل نمونہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب اسلام سے متنفر لوگ اسے دو سری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ شراب کی حرمت و خباثت پہ مذہب اسلام کے ابتداء ہی سے روشنی ڈالی جارہی ہے ، قلم کار اپنے قلم کے ذریعہ ،خطباء حضرات اپنے خطبات کے ذریعہ ،واعظ و ناصح اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ گاہے بگاہے لوگوں کو باخبر کراتے رہتے ہیں۔ جس کے دل میں خوف خدا کا معمولی سا احساس ہے وہ اس خبیثانہ حرکت و رذیلانہ عادت سے پرہیز کرتا ہے ، ایسے لوگوں کے لیے آج بھی قرآنی تعلیمات و احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم من و عن آئڈیل ہیں اورر رہتی دنیا تک نمونہ بن کر رہیں گی،۔ شراب ہی نہیں بلکہ شریعت کی جتنی بھی حرام کردہ چیزیں ہیں ان سے اجتناب کرنے کے لیے خوف خدا ہی کافی ہے۔

 اگر شراب بندی کی بات کریں تو آج سے کئی سال قبل ؍6؍مئی ؍2012 ؍ میں مشہورہندستانی فلم اداکار نے (ستیہ میہ جیتے ) ٹی وی پروگرام کا آغاز کرکے لوگوں کو شراب کی بد ترین خرابیوں سے آگاہ کرا رہے تھے ، یہ پروگرام بے حد کامیاب رہا انہوں نے اس پروگرام میں ہزاروں سیکڑوں شرابیوں کو لاکر سوال جواب کے ذریعہ شراب کے نشے سے ہونے والی تباہی و بربادی کی دکھ بھری کہانی لوگوں کو بتایا۔ کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوا جس میں ناظرین کی آنکھیں شرابیوں کی حالات زار سن کر اشک بار نہیں ہوئیں۔ ایسے پروگرام سے لاکھوں لوگوں نے جہاں درس عبرت حاصل کیا اور شراب پی کر ہونے والی تباہی سے باخبر ہوئے وہیں آئندہ شراب نہ پی نے کا عزم مصمم کیا۔

ستیہ میہ جیتے کے پروگرام کو وجود میں لانے کے پیچھے یہی سبب تھا کہ ملک ہندستان میں اکثر لوگ جتنی رقم کماتے ہیں اس کا زیادہ تر حصہ شراب کی گندی نالیوں میں بہا دیتے ہیں۔رہی بات اولاد کی تعلیم و تربیت، گھر کی دیکھ ریکھ ،اور یومیہ اخراجات کی تکمیل کی تو اس کے لیے اتنی رقم ہی میسرنہیں ہوتی جس سے انہیں پوری کی جاسکے۔ ایسے لوگوں کے یہاں روزانہ شام کے وقت بیگم صاحبہ کو شرابی خاوند کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا سکھ چین آہ وبکا ،رنج و غم میں بدل جاتا ہے ، اس المناک صورتحال کی اصلاح کے لیے اس پروگرام کی کوشش بے حد مقبول رہی، لیکن چونکہ یہ صرف شراب کے مضر اثرات و نقصانات سے بیداری کی ایک مہم تھی۔ کوئی سرکاری یا حکومتی قانون نہیں تھا۔ اس لئے وحشیانہ مزاج رکھنے والون کے لیے یہ پروگرام سامان عبرت نہیں بن سکا۔ لیکن اسکا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کے مابین شراب کی تباہی و بربادی کے قصے ضرور سنا دئے گئے۔ 

اگر بات کی جائے وزیر اعلی نتیش کمار کے شراب بندی قانون اور اس کے نفاذ کے لیے پورے بہار میں بنائی گئی انسانی زنجیر کی تو یہ قدم نہایت ہی موثر و ٹھوس قدم ہے۔ انہوں نے صرف شراب کی قباحت ہی کو بیان نہیں کیا بلکہ اس پر پابندی عائد کرنے کے لیے شراب بندی قانون بھی نافذ کیا ۔ اب کسی کی مجال نہیں کہ شراب کے قریب جاسکے ۔ یا شراب کی لین دین خرید و فرخت میں شامل ہوسکے ، البتہ جو لوگ چوری چھپے پینا چاہے تو ایسے چوروں کی کوئی پکڑ نہیں جو قانون کی نظر سے روپوش ہو۔یا پھر قانون کے نگہبان پولس ہی اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتے، کیونکہ یہ انسانی قانون ہے خیانت تو ہوگی ہی۔ رنگے ہاتھوں پکڑ ا گیا تو اس کی خیر نہیں ، لیکن جو نظر ہی نہیں آئے اس کا کوئی شمار نہیں ۔ لیکن خدا کا قانون ہر جگہ نافذ ہے،چاہے رات کی تاریکی میں چھپ کر شراب نوشی کرے یا پھر دن کے اجالے میں بہر صورت شرابی کی گرفت ہونے والی ہے۔ اسی چیزکا اعتراف کرتے ہوئے مرزا غالب نے کہا تھا ’’ زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر ،یا وہ جگہ بتا جہاں خدا نہیں ہے۔ 

شراب کی حرمت و لعنت کے سلسلہ میں تقریبا آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل خالق کائنات نے اپنے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا تھا کہ"ائے ایمان والو بلا شبہ شراب ،جوا ،تھان اور فال نکالنے کے پانسے کی تیر یہ سب گندی حرکتیں ہیں ۔ان سے گریز کرو"شراب جیسی نشیلی اشیاء بہت ہی پرانی اور قدیم ہیں۔ آیات قرآنی جس زمانہ میں شراب کی حرمت اور نجاست کا اعلان کر رہی ہے اس زمانہ میں تہذیب و ثقافت ،کلچر و تمدن کا آغاز تعلیمات اسلامی کے ذریعہ ہورہا تھا، اس وقت موجودہ زمانہ کی طرح تحقیق و ریسرچ کا کوئی نظم و نسق نہیں تھا، جس سے کسی چیز کی خرابی و افادیت کے بارے میں پتہ لگایا جاتا۔ اس غیر ترقی یافتہ زمانہ میں جب کہ نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجاد ہوئی تھی ،نہ ہی ماہر و حاذق طبیب پائے جاتے تھے جو لوگوں کو صحت و تندرستی کا نسخۂ کیمیہ بتاتے اور صحت و تندرستی کا پاس و لحاظ رکھنے کے لئے حکیمانہ تدابیر فراہم کراتے۔ بس یونہی لوگ اپنی زندگی بلا کسی مقصد کے گزار رہے تھے، جس کے من میں جو آتا کرتا تھا، اچھائی اور برائی میں تمیزپیدا کرنے کا کوئی سلیقہ نہیں تھا۔مردار خوری، زنا کاری،جوابازی،شراب نوشی جیسی تمام برائیاں رگ و ریشہ میں رچ بس تھیں۔

لیکن جیسے ہی رشد و ہدایت کا چراغ طلو ع ہوا ویسے ہی اس کی ضیاء پاش کرنیں جسمانی وروحانی تندرستی کی غذا اور ادویہ تجاویز کرنے میں مدد پہنچانی شروع کردیں۔یہ امتیاز صرف اور صرف مذہب اسلام اور شارع اسلام کو حاصل ہے کہ ان کے بدولت دنیا میں امن و آمان کا ماحول قائم ہوا۔ہر طرح کی گندگی و آلائش سے پاک و صاف کرکے ایک صالح معاشرہ و سماج کی بنیاد ڈالی۔ لوگوں کے جسم کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ روح و قلب کا تزکیہ کیا۔ نہایت ہی قیمتی اور مفید نسخے بتائے جن پر عمل درآمد کرکے لوگوں نے خوشگوار و سلیقہ مند زندگی گزارنے کا گڑھ حاصل کیا۔تعلیمات اسلامی کی پیروی کرنے میں مخلص و پاک باز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلا چوں چراں کہ سر تسلیم خم کر لیا۔انہوں نے نہ تو یہ پوچھا کہ شراب جیسی نشیلی چیزوں سے کیوں کر منع کیا جا رہا ہے، نہ انہوں نے یہ سوال کیا کہ سود کے مضر اثرات کیا ہیں۔ نہ اس بابت دریافت کی کہ مردار خوری سے صحت پہ کیا اثر پڑے گا،بلکہ جیسے ہی رب قدیر نے قرآنی آیات کا نزول شروع کیا ویسے ہی صحابہ کرام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کی تلاوت سن کر پابند عمل ہوگئے، رفتہ رفتہ تعلیمات اسلامی کا ایسا اثر ہوا کہ پوری دینا میں امن و شانتی کی فضا قائم ہوگئی، لوگوں میں بری چیزوں سے نفرت اور اچھی چیزوں سے رغبت پیدا ہوگئی ۔ وہ صرف شراب و جوا ،رشوت و جھوٹ سے پرہیز ہی نہیں بلکہ انہیں نہایت ہی رذیل و حقیر عمل سمجھنے لگے۔ سمع و طاعت کا ایسا نرالہ انداز قائم ہواکہ ہر طرف شریعت مطہرہ کے عمل کے پیکر و خوگر نظر آنے لگے۔

اس سلسلہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی وہ شاندار و بلیغانہ تقریر کو ذکر مناسب ہے جس میں انہوں نے شاہ نجاشی کے سامنے پیش کی تھی،"اے" منصف بادشاہ! ہم جہالت کے دریا میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہم لوگ بتوں کو پوجتے تھے، مردارکھاتے تھے، جھوٹ بولتے تھے، زنا اور فسق و فجور کو اچھا سمجھتے تھے۔ انسانیت سے ناواقف تھے۔ مسافروں کی مہمان نوازی سے آگاہ نہیں تھے۔ بدکار تھے اور بے رحم تھے۔ پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہم میں جو طاقتور ہوتا تھا کمزور کا حق دبا لیتا تھا۔ ہم لوگ ظلم کے سوا کوئی دوسرا قانون نہیں جانتے تھے کہ یکایک ہمارے مہربان پرودگار نے ہماری قوم میں ایک ہر دلعزیز شخص کو منصب رسالت عطا فرمایا۔ جس کے خاندان اور حسب و نسب سے ہم خوب واقف ہیں۔ جس کی امانتداری اورصداقت ضرب المثل ہے۔ ہم اس کی نیک چلنی سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس پر اللہ کا کلام نازل ہوا اور اس نے اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی۔ شرک سے روکا، بت پرستی"امانت میں خیانت اور پڑوسیوں پر ظلم کرنے سے منع کیا۔ سچ بولنے کی تلقین کی اللہ کے کمزور بندوں پر رحم کرنا سکھایا، مروت اور انسانی ہمدردی سے آگاہ کیا اور ہمیں ہدایت کی کہ ہم کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں۔ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائیں۔ گناہوں سے بچیں، صلٰوۃقائم کریں، صدقہ اور خیرات سے مساکین کو نوازیں، روزہ رکھیں، جھوٹ نہ بولیں، کسی کی غیبت نہ کریں اور ہمیشہ اللہ وحدہ لا شریک پر یقین رکھیں 133ہم نے اس کو اللہ کا سچا پیغمبر تسلیم کرلیا اور اس پر ایمان لے آئے۔ اس کی تمام ہدایتوں کو مان لیا اور شرک سے کنارہ کش ہوگئے"۔حضرت جعفرطیار کی تقریر سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہی کہ بعثت رسالت ہی سے ایک پاکیزہ تہذیب و ثقافت کا آغاز ہوا تھا، شراب بندی کا ایسا ابدی قانون نافذ ہوچکا تھا جس کا انکار صرف اپنی دنیا خراب کرنا نہیں بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کرنا تھا،شراب بندی کے بعد اگر کسی نے اسے لبوں سے لگا لیا تو اس کا نشہ اتارنے کے لئے ۸۰؍ ۸۰؍ کوڑے مارنے کا حکم دیا ،تاکہ اگر کچھ لوگوں کو اس کی معمولی سی چاہت لگی رہے تو سرعام بھری عدالت میں ایسا شرم سار کیا جائے جسے دیکھ کر پھر کسی شخص کو ایسا گھناونہ قدم اٹھانے کی جرئت نہ ہوسکے۔

جس طرح خیر القرون کا زمانہ دور ہوتا چلا گیااسی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں دین بیزاری کا مزاج پیدا ہوتا چلا گیا۔لوگوں نے اپنی راحت و سکون گاہ صرف اسی دنیا کو سمجھنا شروع کیا ، اور نت نئے طریقوں سے اپنی دنیا حسین بنا نے لگے۔دولت و ثروت کی حرص و طمع نے ایمانی طاقتوں کو کمزور کرنا شروع کردیا،ہوا وہوس پرستی نے عقیدے و اسلام کی دیواریں مسمار کرنا شروع کیں۔خوف خدا ،توکل علی اللہ کے مضبوط قلعوں میں دنیا کی محبت ،جاہ و منصب کی چاہت نے اپنا بسیرا بنایا۔رفتار زمانہ کے ساتھ ایمان و عقیدے کی باتیں محض منبر و محراب میں سمٹ کر رہ گئیں۔جہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں صرف حصول دولت اور دنیا کی عیش و عشرت کی گفت و شنید جاری ہے۔ایک دوسرے کے خلاف غیبت و تہمت کی گرم بازاری ہے۔ الغرض دنیا پرستی ،جاہ طلبی لوگوں کا اولین فریضہ بن چکا ہے۔ 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow