عرش الہی کا تعارف اور مسجد اقصی کی حالت

مسلمانو! اللہ تعالی صفاتِ جلال اور جمال سے موصوف ہے۔ اس کی ذات، اسما، صفات اور افعال سب ہی کامل ترین ہیں۔ اس کا کوئی ہم نام یا ہم سر نہیں ، اس کی کوئی شبیہ یا اس کا کوئی ثانی نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} اس کی مثل کوئی نہیں ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔[الشورى: 11]

May 10, 2023 - 16:59
May 11, 2023 - 18:31
 0  31
عرش الہی کا تعارف اور مسجد اقصی کی حالت

 

عرش الہی کا تعارف اور مسجد اقصی کی حالت

                  " فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

 عرشِ الہی کا تعارف اور مسجد اقصی کی حالت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کی صفت خالق اللہ تعالی کے معبود حقیقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اگر کسی چیز میں صفت خالق نہ ہو پھر بھی اس کی پرستش کی جائے تو یہ اس کے باطل ہونے کی علامت ہے۔ اللہ تعالی کی سب سے بڑی مخلوق اللہ تعالی کا عرش ہے، اس کی تخلیق آسمان و زمین بلکہ قلم سے بھی پہلے ہوئی، قبے کی مانند عرشِ الہی شروع سے اب تک پانی پر ہے، فرشتے عرش کو پایوں سے اٹھائے ہوئے ہیں جن کی قیامت کے دن تعداد آٹھ ہو گی، عرش اللہ تعالی کے قریب تر اور معزز ترین مخلوق ہے، عرش کا حجم اور وزن سب سے زیادہ ہے، عرش اتنی بڑی اللہ کی مخلوق ہے کہ اس کے خالق ہونے کا ذکر کتاب و سنت میں بار ہا مرتبہ مختلف سیاق و سباق میں آیا ہے، حاملین عرش اور ارد گرد کے فرشتے ہر وقت اللہ تعالی کی تسبیح، حمد اور مومنوں کیلیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں، سورج اپنے مخصوص انداز سے روزانہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر عرش کانپ اٹھا تھا کہ آپ کی وجہ سے آپ کی ساری قوم مسلمان ہوئی تھی، عرش اس وقت بھی فنا نہیں ہو گا جب کل مخلوقات فنا ہو جائیں گی، نبی ﷺ بھی شفاعت کبری کیلیے اسی عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوں گے، اور سات قسم کے خوش نصیب لوگوں کو اسی کا سایہ نصیب ہوگا، عرش سے متصل نیچے جنت الفردوس ہے، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بلند ہے اور اس پر ایک ہزار سے زائد عقلی، نقلی اور فطری دلائل ہیں صحابہ و تابعین کا یہی نظریہ تھا، پھر انہوں نے کہا کہ: مسجد اقصی غاصبوں کے قبضے میں ہے اگر مسلمان حقیقی معنوں میں اللہ کی طرف واپس آ جائیں تو اللہ تعالی بھی انہیں مسجد اقصی واپس کر دے گا، سب سے آخر میں انہوں نے مسجد اقصی کے موجودہ حالات سنوارنے کیلیے سعودی فرمانروا کی کوششوں کو سراہا اور سب کیلیے جامع دعائیں کیں۔

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈور، خلوت اور جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان اور نگران سمجھو۔

مسلمانو!
اللہ تعالی صفاتِ جلال اور جمال سے موصوف ہے۔ اس کی ذات، اسما، صفات اور افعال سب ہی کامل ترین ہیں۔ اس کا کوئی ہم نام یا ہم سر نہیں ، اس کی کوئی شبیہ یا اس کا کوئی ثانی نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} اس کی مثل کوئی نہیں ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔[الشورى: 11]

اللہ تعالی کے خصوصی ناموں میں سے "خالق" اور "الخلّاق" ہیں۔ پیدا کرنا اللہ تعالی کی صفت اور فعل ہے، یہ ایسی صفت ہے جو اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لائق نہیں۔ اللہ تعالی کا خالق ہونا واضح ترین علم ہے۔ اللہ تعالی کا خالق ہونا ہر حقیقت کی بنیاد ہے کیونکہ تمام کی تمام موجودات اسی کے ایجاد اور پیدا کرنے کی وجہ سے ہیں۔ وہی پیدا کرتا ہے اور جانتا ہے، اسی لیے تمام اقوام اس کے خالق ہونے کی قائل رہی ہیں، نیز اللہ تعالی نے شرک و کفر کرنے والوں پر اسی صفت کو حجت بنایا اور فرمایا: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ} کیا انہیں عدم سے وجود دیا گیا ہے یا وہ [اپنے آپ کو]خود ہی پیدا کرنے والے ہیں؟[الطور: 35] سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب میں نے یہ آیات سنی تو قریب تھا کہ میرا دل ہوا ہو جاتا" متفق علیہ

ہمارا پروردگار بلا نمونے کے پیدا کرنے والا ہے اس میں اس کا کوئی ساتھی نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ} کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے!؟[فاطر: 3]

اگر پورے جہان کے لوگ بھی کسی معمولی چیز کو پیدا کرنے کیلیے جمع ہو جائیں تو پیدا نہیں کر پائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ} اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے چاہے سب اس کیلیے جمع ہی کیوں نہ ہو جائیں۔[الحج: 73] وہی بہت زیادہ پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے۔

کسی بھی چیز کا وجود اسی کی تخلیق ہے؛ کیونکہ {اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ} اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔[الزمر: 62] اس کی مخلوقات بہت زیادہ اور لا متناہی ہیں، تخلیق میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، {فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ} اللہ برکتوں والا ہے اور وہ سب سے بہترین خالق ہے۔[المؤمنون: 14[

وہ ازل سے اپنی مرضی کے ساتھ پیدا کرتا چلا آ رہا ہے، جو چاہتا ہے کہ کر گزرتا ہے، جو بھی پیدا کرتا ہے اسے کامل مہارت سے بناتا ہے، {الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (2) وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى} وہی پیدا کرتا ہے اور درست بناتا ہے [2]وہی صحیح تخمینہ لگاتا ہے اور ہدایت دیتا ہے۔[الأعلى: 2، 3]تمام مخلوقات اس کی تدبیر اور تخمینوں کا مظہر ہیں فرمانِ الہی ہے: {وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا} اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا صحیح تخمینہ بھی لگایا۔[الفرقان: 2]

تمام مخلوقات اسی کے تسلط اور اختیار میں ہیں، نیز اللہ تعالی نے ہر مخلوق کی معین مقدار بنائی ، {إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} بیشک ہم نے ہر چیز کو خاص مقدار میں پیدا کیا ہے۔[القمر: 49]

ہر مخلوق کی تخلیق حکمت سے بھری ہوئی اور فضولیات سے مکمل طور پر منزّہ ہے: {أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ} کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف نہیں لوٹایا جائے گا؟![المؤمنون: 115]

اللہ تعالی کی تخلیق میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (38) مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ} ہم نے آسمانوں ،زمین اور ان کے مابین چیزوں کو کھیل کود میں پیدا نہیں کیا[38] ہم نے انہیں حقیقی مصلحت پر پیدا کیا ہے۔[الدخان: 38، 39]

سارا جہاں اللہ تعالی کی ربوبیت کا گواہ ہے، اور ہر چیز اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (6) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (7) تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ} کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی شگاف نہیں اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی پر بہار چیزیں اگائیں [8] یہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بصیرت اور سبق ہے [ق: 6 – 8]

اللہ کی مخلوقات میں بھی اسما و صفات کی بہت سے دلیلیں ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا} اللہ وہ ہے جس نے سات آسمانوں اور انہی کے مثل زمین کو بھی پیدا کیا ۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے ؛ تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالی نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔ [الطلاق: 12]

تمام مخلوقات اجتماعی اور انفرادی ہر اعتبار سے اللہ کے حقیقی معبود ہونے کی دلیل ہیں، اس سے اللہ تعالی اپنی وحدانیت ثابت بھی فرمائی؛ ارشاد باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} لوگو! تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 21]

تمام مخلوقات کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ والہانہ تعلق رکھیں اور اسی کی بندگی کریں: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ} اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلیے ہی پیدا کیا ہے۔[الذاريات: 56]

اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کی پرستش کی جائے تو یہ باطل ہے؛ کیونکہ وہ چیز کسی کو پیدا نہیں کر سکتی، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ} کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے [بلکہ] وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔[الأعراف: 191]

مخلوقات کے بارے میں سوچ و بچار نصیحت اور عبرت کا باعث ہے، اس سے خالق کی تعظیم کیلیے رغبت پیدا ہوتی ہے ، یہ ایمان میں اضافے کا باعث بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں [190] جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں زمین کی تخلیق میں سوچ بچار کرتے(اور پکار اٹھتے) ہیں۔ " ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا تیری ذات اس سے پاک ہے۔ پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[آل عمران: 190، 191]

سب سے عظیم اور بڑی مخلوق رحمن کا عرش ہے، اللہ تعالی نے عظمت کو عرش کی صفت قرار دیا ہے، اور عرش کی لمبائی چوڑائی اس کو بنانے والا ہی جانتا ہے، عرش اللہ تعالی کی مخلوق ہے، {ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ} یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، وہی ہر چیز کا خالق ہے۔[الأنعام: 102]

اللہ تعالی نے اپنے آپ کو عرش کا پروردگار بیان کر کے اپنی تعریف بھی بیان فرمائی ہے: {رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} [اللہ] عرش عظیم کا پروردگار ہے۔[التوبہ: 129] نیز اپنی تعریف میں عرش کی ملکیت کو بھی بیان کیا کہ میں ہی اس کا مالک ہوں اور فرمایا: {رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ} بلند درجوں والا اور عرش والا ہے۔ [غافر: 15] اس کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی عرش عظیم کا مالک ہے جو کہ تمام مخلوقات سے بلند و بالا ہے"

اللہ تعالی نے عرش کا مقام و مرتبہ بڑھانے کیلیے اسے اپنی نسبت بھی عطا کی اور فرمایا: {ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ } [اللہ] عرش والا اور بزرگی والا ہے۔[البروج: 15]

اللہ تعالی نے اسے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے پیدا کیا تھا: {وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا} وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے[هود: 7]

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی موجود تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اللہ کا عرش پانی پر تھا، پھر اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور ذکر [یعنی لوح محفوظ] میں ہر چیز لکھ دی) بخاری

اللہ تعالی نے قلم کو جس وقت پیدا فرمایا تو سب سے پہلے اسے تقدیریں لکھنے کا حکم دیا، عرش اس سے بھی پہلے پیدا ہو چکا تھا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں ، اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا) مسلم

عرش غیبی چیز ہے یعنی ہم اسے دنیا میں نہیں دیکھ سکتے، تاہم اللہ تعالی نے ہمیں اس کی کچھ صفات کے بارے میں بتلایا ہے تا کہ اللہ پر ایمان پختہ ہو اور یہ بات بھی ذہن میں محکم ہو جائے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بلند ہے۔

چنانچہ عرشِ الہی پورے جہان پر قبے کی طرح ہے، نبی ﷺ نے عرش کو ایسے ہی بیان کیا اور فرمایا: (بیشک اللہ کا عرش آسمانوں کے اوپر ایسے ہے) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کے ساتھ قبے کی طرح کا اشارہ فرمایا۔ ابو داود

عرش کے پائے اور پہلو بھی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگ قیامت کے دن مدہوش ہوں گے اور سب سے پہلے مجھ سے زمین پھٹے گی، [لیکن پھر بھی] موسی عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے مجھ سے پہلے کھڑے ہوں گے۔ اب معلوم نہیں کہ وہ بھی مدہوش ہوئے تھے یا پہلے [دنیا میں تجلی کے وقت آنے] والی بیہوشی کی وجہ سے حساب برابر ہو گیا!؟۔) متفق علیہ۔

اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: (موسی عرش کے پہلو کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔) یہ الفاظ صرف بخاری میں ہیں۔

آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے عرش پانی پر تھا، فرمانِ باری تعالی ہے: { وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} اور اس کا عرش پانی پر تھا[هود: 7] اور تخلیق کے بعد سے لے کر اب تک پانی پر ہی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ کا عرش پانی پر ہے، اور اللہ عرش کے اوپر ہے، اس کیلیے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ) ابن خزیمہ

عرش سب سے اعلی اور بلند مخلوق ہے ،وہ تمام مخلوقات کیلیے چھت بھی ہے، اللہ تعالی نے عرش کو اپنا خصوصی قرب دیا، اس سے بڑھ کر کوئی مخلوق اللہ کے قریب نہیں نیز چونکہ اللہ تعالی پاکیزہ ذات ہے لہذا اس کے قریب بھی پاکیزہ چیز ہی ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالی نے عرش کو پیدا فرما کر اسے اپنی تمام مخلوقات سے امتیازی بلندی عطا فرمائی ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عرش تمام مخلوقات کیلیے چھت ہے، تمام آسمان ،زمینیں ، ان کے درمیان اور ان کے اندر کی ہر چیز عرش سے نیچے ہیں، سب کی سب اللہ تعالی کے اختیار ، قدرت اور علم میں گھری ہوئی ہیں، اللہ تعالی کے تخمینے ہر چیز پر درست ثابت ہوتے ہیں اور وہ ہر چیز کا کار ساز ہے"

اللہ تعالی نے آسمان کو بزرگی سے موصوف فرمایا: {ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيد}وہ بزرگی والے عرش کا مالک ہے ([1]) [البروج: 15] عرش کی بزرگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ عرش بہت بڑا ہے، اس کی شان بہت اعلی ہے، بہت ہی معزز ہے، اس میں بہت سی خوبیاں ہیں مخلوقات میں اس سے بڑھ کر کوئی نہیں، اس کا منظر اور شکل و صورت انتہائی لبھانے والی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ} پس بہت بلند ہے اللہ، وہ سچا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، عزت والے عرش کا پروردگار ہے۔ [المؤمنون: 116]

عرش سب سے وزنی مخلوق ہے، ایک بار نبی ﷺ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے صبح سویرے فجر کی نماز کے وقت گزرے تو سیدہ جویریہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھی تھیں، پھر جب آپ ﷺ چاشت کے وقت کے بعد واپس آئے تو تب بھی سیدہ جویریہ وہیں بیٹھیں تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کیا آپ اس وقت سے اسی حالت میں بیٹھی ہیں جس حالت پر میں چھوڑ کر گیا تھا؟) انہوں نے کہا: "جی ہاں" تو نبی ﷺ نے فرمایا: (میں نے تمہارے بعد چار جملے تین بار کہے ہیں اگر انہیں اب تک کے تمہارے کئے ہوئے اذکار سے تولا جائے تو میرے جملے تمہارے اذکار سے وزنی ہو جائیں گے:"سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ ")مسلم

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس سے واضح ہوتا ہے کہ عرش کا وزن سب سے زیادہ ہے۔"

عرش کے سامنے عظمت والی کرسی ہے اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ} اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے بڑی ہے۔[البقرة: 255]کرسی عرش کا زینہ ہے۔ کرسی آسمان و زمین سے بڑی ہونے کے باوجود بھی عرش کے سامنے ایسے ہے کہ جس طرح کوئی لوہے کا کڑا کھلے میدان میں گرا ہوا ہو۔

عرش کو اٹھانے کیلیے اللہ تعالی نے چار بہت بڑے بڑے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے، یہ فرشتے ہر وقت اللہ تعالی کی تسبیح، ثنا اور مومنوں کیلیے استغفار کرتے رہتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ} عرش اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں نیز ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہوئے کہتے ہیں : " ہمارے پروردگار ! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے" [غافر: 7]

عرش کے گرد و پیش موجود فرشتوں کا کام ہی ذکر اور دعا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} اور تو فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں۔ اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ [الزمر: 75]

اللہ تعالی نے اپنے معبود ہونے کیلیے عرش کا پروردگار ہونا دلیل کے طور پر پیش کیا اور فرمایا: {قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} آپ کہہ دیں: ساتوں آسمانوں ،زمین اور عرش عظیم کا پروردگار کون ہے؟[المؤمنون: 86]

اللہ تعالی نے توحید الوہیت بیان کر کے واضح کیا کہ وہ عرش عظیم کا رب ہے، چنانچہ فرمایا: {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے۔[النمل: 26]

جھوٹے لوگوں کے الزاموں کو مسترد کرنے کیلیے بھی بتلایا کہ اللہ تو عظیم ترین مخلوق یعنی عرش کا خالق ہے وہ ان الزام تراشیوں بالکل منزّہ ہے {سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ} پاک ہے آسمانوں اور زمین کا پروردگار اور عرش کا رب ان کی بیان کردہ باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔[الزخرف: 82]

رسول اللہ ﷺ اپنی دعاؤں میں کثرت سے وسیلہ دیتے کہ اللہ عرش کا پروردگار ہے، عرش کی تخلیق پر اللہ کی ثنا بیان کرتے اور مصیبت کے وقت اللہ تعالی کی اس صفت کا واسطہ دیتے ہوئے دعا فرماتے: " لَا إِلَه إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ، لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ العَرْشِ الْعَظِيمِ ، لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَواتِ ، وَرَبُّ الْأَرْضِ ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ " متفق علیہ

حدیث ہے: (رشتہ داری عرش کے ساتھ چمٹ کر کہتی ہے: جو مجھے جوڑے اللہ اسے جوڑ دے اور جو مجھے توڑے اللہ اسے توڑ دے) مسلم

 (جس وقت اللہ تعالی نے مخلوقات کو مکمل کر لیا تو اللہ تعالی نے ایک نوشتہ تحریر فرمایا جو اللہ کے پاس عرش پر ہے کہ: میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے ) متفق علیہ

سورج روزانہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سورج جا کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالی کے فرمان: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ}اور سورج اپنے ٹھکانے کی جانب چلتا ہے، یہ غالب اور علم رکھنے والے کے تخمینے کے مطابق ہوتا ہے۔ [يس: 38]کا یہی مطلب ہے) متفق علیہ

ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے اللہ تعالی کے فرمان: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا} اور سورج اپنے ٹھکانے کی جانب چلتا ہے [يس: 38] کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: (سورج کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے) متفق علیہ

رحمن کا عرش ایک عظیم صحابی کی وفات پر لرز اٹھا تھا جن کو اسلام قبول کئے ہوئے ابھی صرف چھ سال ہی گزرے تھے تاہم ان کی قوم کے تمام افراد ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے تھے، جس وقت وہ فوت ہوئے تو ان کی عمر صرف 37 برس تھی، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سعد بن معاذ کی موت پر رحمن کا عرش بھی کانپ اٹھا ہے) امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ حدیث متواتر ہے، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے"

کل مخلوقات کے فنا ہو جانے پر اللہ تعالی نے عرش کو خصوصیت بخشی کہ وہ باقی ہی رہے گا، چنانچہ عرش ان مخلوقات میں شامل نہیں ہے جنہیں قیامت کے دن مٹھی میں لیا جائے گا یا لپیٹ دیا جائے گا، نیز اہل سنت کا اتفاق ہے کہ عرش فنا نہیں ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عرش اللہ تعالی کی ان مخلوقات میں شامل نہیں جو چھ دن میں پیدا کی گئیں، اللہ تعالی عرش کو شق نہیں فرمائے گا اور نہ ہی اسے ختم کرے گا، بلکہ مشہور احادیث بھی قرآن مجید کی طرح اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ عرش باقی رہے گا"

آخرت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اللہ تعالی مخلوقات کے مابین فیصلے کیلیے آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ} اور تیرے رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے[الحاقہ: 17]

جس وقت لوگ انبیائے کرام سے شفاعت طلب کریں گے تو تمام انبیائے کرام قیامت کی سختی اور ہولناکی کی وجہ سے شفاعت کرنے سے معذرت کر لیں گے، تو پھر لوگ سید الخلق ہمارے نبی ﷺ کے پاس پہنچیں گے، اس بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے: (وہ میرے پاس آئیں گے، پھر میں عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پھر کہا جائے گا: "محمد! سر اٹھائیں، شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو دیا جائے گا") متفق علیہ

جس وقت محشر میں لوگوں کی تکالیف بڑھ جائیں گی، سورج سر کے ایک میل قریب آ جائے گا تو اللہ تعالی اپنے چنیدہ بندوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سات قسم کے افراد کو اللہ تعالی عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا: 1) عادل حکمران، 2) اپنے پروردگار کی عبادت میں پروان چڑھنے والا نوجوان، 3) ایسا آدمی جس کا دل مسجد سے جڑا ہوا ہو 4) دو ایسے آدمی جو اللہ کیلیے آپس میں محبت کرتے ہو اسی پر ملیں اور جدا ہوتے ہوں5) ایسا آدمی جس سے جاہ و جمال والی خاتون بدکاری کا مطالبہ کرے اور وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں 6) ایسا شخص جو صدقہ کرتے ہوئے اتنا خفیہ انداز اپنائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟ 7) ایسا شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے تو اس کی آنکھیں نم ہو جائیں) متفق علیہ

[ایک اور حدیث ہے کہ:] (اللہ کے لیے محبت کرنے والے اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے) احمد

جنت کے مختلف درجے ہیں ان میں سب سے اعلی جنت الفردوس ہے اور اس کی چھت رحمن کا عرش ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب بھی اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگو؛ کیونکہ یہ سب سے بہترین اور بلند ترین جنت ہے، اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے۔) بخاری

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

اگر اللہ کا عرش اتنا عظیم اور بڑا ہے تو پھر اللہ تعالی کی ذات اس سے بھی بڑی اور عظیم ہے، وہ ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، اسے کوئی چیز اپنے گھیرے میں نہیں لے سکتی، وہ ہر چیز پر غالب ہے اس پر کوئی چیز غالب نہیں، وہ اتنا خفیہ ہے کہ مخلوق تک رسائی سے اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ مخلوق کی شان اصل میں اللہ تعالی کی عظمت اور کبریائی کی دلیل ہے، مخلوق کی عظمت اللہ تعالی کی شان و شوکت کی دلیل ہے، ایک مسلمان کیلیے ایمان بالغیب اور یقین شرف کی بات ہے، اسی پر ایمان کا دار و مدار ہے، اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: {يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [البقرة: 3] پھر غیب پر ایمان لانے والوں کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی: {أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔[البقرة: 5]

ایمان بالغیب ، خشیت، عظمتِ الہی کے اقرار اور اطاعت کی وجہ سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے، انسان کی شرح صدر ہوتی ہے، دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل ہوتی ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ} یہ اللہ کی تخلیق ہے، مجھے دکھاؤ کہ اللہ کے علاوہ دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ ظالم تو واضح گمراہی میں ہیں۔ [لقمان: 11]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں،سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو!
ذات باری تعالی کا اپنی مخلوق سے بلند ہونا فطرتی طور پر مسلمہ امر ہے، عقل سلیم بھی اسی کو تسلیم کرتی ہے، کتاب و سنت کے صریح دلائل بھی یہی کہتے ہیں، نیز یہ کمال مطلق کا تقاضا بھی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کے مخلوق سے بلند ہونے کے متعلق ایک ہزار سے زائد دلائل ہیں"

اللہ تعالی اپنی شایان شان کیفیت کے ساتھ عرش پر مستوی ہے، اور یہ عظیم ترین مخلوق [یعنی عرش ]پر خاص علو ہے، {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} رحمن عرش پر مستوی ہے۔[طہ: 5] امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہم اور تابعین تواتر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے عرش پر ہوتے ہوئے یہ فرمایا اور احادیث میں ذکر ہونے والی جلیل القدر صفات پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں"

نبی ﷺ کی شان اور آپ کے عظیم پیغام کی وجہ سے آپ کو مکہ سے مسجد اقصی لے جایا گیا، پھر وہاں سے انہیں ساتویں آسمان تک اوپر لے جایا گیا، آپ نے محرر فرشتوں کے قلموں کے چلنے کی آواز بھی سنی۔

اللہ تعالی نے مسجد اقصی کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کی غرض سے نبی ﷺ کے اسرا کیلیے اسے منتخب فرمایا، وہیں سے آپ کا سفرِ معراج شروع ہوا ، مسجد اقصی کو انبیائے کرام نے بنایا ہے، یہ قبلہ اول اور مسجد الحرام کے بعد بنائی جانے والی دنیا کی دوسری مسجد ہے، نیز مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب ثواب کی نیت سے رخت سفر باندھ سکتے ہیں، یہیں پر نبی ﷺ نے انبیائے کرام اور رسولوں کی امامت کرواتے ہوئے نماز پڑھائی، اللہ تعالی نے اس مسجد میں اور اس کے ارد گرد خطے کو بابرکت بنایا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ} [مسجد اقصی] جس کے آس پاس ہم نے برکت فرمائی۔[الإسراء: 1]

بیت المقدس اور اس کے آس پاس کے علاقے کی جانب لوگ محشر کیلیے جمع ہوں گے۔ مسجد اقصی سے محبت دین اور ایمان کا حصہ ہے، نیز مسجد اقصی کی تعظیم اللہ تعالی کی تعظیم میں بھی شامل ہے، جس وقت سے انبیائے کرام کی یہ مسجد قید میں ہے اس وقت سے وہاں کے حالات مایوس کن ہیں، وہاں سے المناک خبریں آتی ہیں، در ناک مسائل وہاں پر کھڑے کر دئیے گئے ہیں، مسجد اقصی کی عمارت کی بے حرمتی اور اسے جلا دیا جاتا ہے۔ نمازوں اور ذکرِ الہی سے منع کیا جاتا ہے، مسجد کے احاطے میں عبادت گزاروں کا قتل عام اور انہیں تکلیفیں دی جا رہی ہیں، اللہ کے اس پر امن گھر کو دہشت اور وحشت کی جگہ میں بدل دیا گیا ہے۔

اللہ تعالی مسجد اقصی کو دوبارہ مسلمانوں کو لوٹانے پر قادر ہے کہ مسلمان مسجد اقصی کو عبادت گزاری اور ذکر الہی سے آباد کریں ، لیکن اس کیلیے مسلمانوں کو اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے: {إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ} اگر تم اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔[محمد: 7]

اللہ تعالی سعودی حکمرانوں کو جزائے خیر سے نوازے کہ انہوں نے اس مسئلے کے حل کیلیے بھر پور کاوشیں کیں۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر ، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا قوی! یا عزیز! یا اللہ! مسلم خطوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا ذو الجلال والاکرام! یا اللہ! تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر اپنی جانب متوجہ فرما لے۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے فوجیوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! انہیں ثابت قدم بنا، اور انہیں دشمنوں کے خلاف کامیاب فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے ملک کو خوشحال، آسودہ، اور مستحکم بنا، یا قوی! یا عزیز!

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والے بن جائیں گے۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔[النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

 ([1])یعنی جب "الْمَجِيد" کی دال پر زیر پڑھی جائے یہ بھی متواتر قراءت ہے۔ تفصیلات کیلیے اسی آیت کے تحت تفسیر طبری دیکھیں۔ [مترجم]

 

   

 

 

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow