سجدہ سہو کے اسباب
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو قبل از سلام اس وقت ہوگا ، جب نمازی واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کردے یا نماز کی رکعت کی تعداد میں اسے شک ہو اور کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ اور جب نمازمیں اضافہ ہوجائے یا شک کی صورت میں کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح ہو تو پھر سجدہ سہو بعد از سلام ہوگا ۔
سجدہ سہو کے اسباب
ترتیب: محمد اسماعیل خوش محمد مدنی دار الافتاء:جامعۃ الامام البخاری
سوال: سجدہ سہو کس اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے ؟
جواب: نماز میں سجدہ سہو کے عموما درج ذیل تین اسباب ہیں : (1)نماز میں اضافہ ہوجانا(2) کمی ہوجانا (3) شک میں مبتلا ہوجانا۔ اضافے کی مثال یہ ہےکہ انسان نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کردے۔ اور کمی کی مثال یہ ہےکہ نماز کے کسی رکن کو کم کردے یا واجبات میں کسی واجب کو کم کردے۔ اور شک کی مثال یہ ہےکہ اسے یہ شک ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار؟ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کردے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی کیونکہ اس نے نماز کو اس طرح ادا نہیں کیا جس طرح اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : "من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد"(1)
" جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر (حکم) نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔"
اگر بھول کر اضافہ ہوجائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی ، البتہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا اور اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ظہر یا عصر کی نماز میں ایک بار دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے باقی ماندہ نماز پڑھائی ، پھر سلام پھیر دیا اور سلام پھیر نے کے بعد دو سجدے کیے۔(2) اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہےکہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھادی اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو عرض کیا گیا : کیا نماز میں اضافہ کردیا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : "وہ کیسے ؟" صحابۂکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، آپ نے اپنے دونوں پاؤں کو موڑا، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے۔(3)
اگر کمی کا تعلق نماز کے ارکان میں سےکسی رکن سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :(1) اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے سے پہلے یا د آئے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ وہ اس رکن کو ادا کرنے کے بعد باقی نماز کو ادا کرے۔ (2)اگر اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے کے وقت یاد آئے تو یہ رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوگی جس میں اس نے رکن کو ترک کردیا تھا اور اس دوسری رکعت کے بدلے میں اور رکعت پڑھنی چاہئے، اور ان دونوں حالتوں میں اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے۔ پہلی صورت اس کی مثال یہ ہےکہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلے سجدہ کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ بیٹھا ہو اور نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہو اور جب اس نے قرائت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا اور نہ وہ دوسجدوں کے درمیان بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوٹ کر دو سجدوں کی درمیان بیٹھے، پھر سجدہ کرے اور پھرکھڑے ہو کر باقی نماز ادا کرے اور سلام کے بعد سجدۂ سہو کرے ۔
دوسری صورت کی مثال یہ ہےکہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلا سجدہ کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور اس نے دوسرا سجدہ نہ کیا ہو اور نہ وہ دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھا ہو اور پھر اسے یہ بات یاد بھی اس وقت آئی ہو۔ جب وہ دوسری رکعت میں دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا ہو، اس حال میں اس کی یہ دوسری رکعت پہلی رکعت ہوگی اور اسے ایک رکعت اور پڑھنا ہوگی اور پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا ۔
جب کسی واجب میں کمی رہ جائے اور وہ اسکی جگہ دوسری جگہ منتقل ہوجائے مثلا:وہ سجدہ میں "سبحان ربی الاعلی" پڑھنا بھول گیا اور سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اسے یا دآیا کہ اس نے اسے نہیں پڑھا۔ اس نے بھول کر واجبات نماز میں سے ایک واجب کو ترک کردیا ہے تو اسے نماز کو جاری رکھنا چاہیے اور سلام سے قبل سجدہ سہو کر لینا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد اول کو بھول گئے تھے تو آپ نے نماز کو جاری رکھا تھا ،واپس نہیں آئے تھے اور آپ نے سلام سے پہلے سجدہ سہو کرلیا تھا ۔
شک کی صورت یہ ہوتی ہےکہ آدمی کو کمی اور بیشی میں ترددہوتا ہے مثلا: یہ کہ اسے تردد ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اس کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:(1) کمی یا بیشی میں سے کوئی ایک صورت اس کے نزدیک راجح ہو تو جو صورت راجح ہو اسے اختیار کر کے نماز پوری کر لے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے۔اور اگر کوئی ایک صورت راجح نہ ہو تو پھر یقین پر انحصار کرے اور وہ کم تعداد ہے، اس کے بعد باقی نماز کو پورا کرنے کے بعد سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے ۔ اس کی مثال یہ ہےکہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ وہ اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ وہ تیسری رکعت پڑھ رہا ہے یا چوتھی؟ اسے یہ بات راجح معلوم ہوئی کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے، اس صورت میں وہ ایک رکعت اور پڑھ کر سلام پھیردے اور پھر سجدہ سہو کرلے۔
دونوں صورتوں میں برابری کی مثال یہ ہےکہ ایک شخص کو نماز ظہر ادا کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے یا چوتھی اور اس کے نزدیک یہ بات راجح نہ تھی کہ یہ تیسری رکعت ہے اور نہ ہی یہ بات راجح تھی کہ یہ چوتھی رکعت ہے تو اس صورت میں اسے یقین پر انحصار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ کم تعداد ہے، لہذا وہ اسے تیسری رکعت قراردے، پھر ایک رکعت اور پڑھے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو قبل از سلام اس وقت ہوگا ، جب نمازی واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کردے یا نماز کی رکعت کی تعداد میں اسے شک ہو اور کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ اور جب نمازمیں اضافہ ہوجائے یا شک کی صورت میں کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح ہو تو پھر سجدہ سہو بعد از سلام ہوگا ۔
حواشی:
1۔(صحیح البخاری معلقا، البیوع باب النجش۔۔۔قبل ، ح:2142 وصحیح مسلم ، الأقصیۃ ، باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثاب الأمور ح:1718(18)
2۔(صحیح البخاری ، الصلاۃ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ، حدیث:482)
3۔(صحیح البخاری، الصلاۃ، باب ماجاء فی القبلۃ ومن لم برالاعادۃ۔۔۔حدیث:404)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟