روزہ خوری کا بڑھتا ہوا رجحان
ایسے مسلمانوں کو جو روزہ نماز کی پابندی نہیں کرتے اور انسانیت،حقوق انسانیت،مساوات اور عدل وانصاف پر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں ،ان کو ایک آزاد خیال آئیڈیل مسلمان بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔سیکولر حکومتوں میں انھیں پذیرائی ملتی ہے اور بڑے بڑے منصب بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ظاہری وضع قطع اسلامی ہو اور نماز روزے کا خیال رکھا جائے تو ایسے مسلمانوں کو قدامت پسند خیال کیا جاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے اسی قسم کے لوگوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ جو بے چارے اپنی انفرادی زندگی میں اسلام کو نہ نافذ کرسکے ،وہ اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا کیا بھلا کرسکیں گے۔
رمضان نامہ |
…رفیق احمد رئیس سلفی"
روزہ اسلام کا چوتھا ستون،اس کا ایک اہم رکن اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالانے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔روزہ ایسے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر فرض ہے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں،جو حالت سفر میں نہ ہوں اور نہ بیمار ہوں۔حیض کے مخصوص ایام میں عورتیں روزہ نہیں رکھیں گی بلکہ اس کی وجہ سے ان کی اپنی عادت کے مطابق جتنے روزے چھوٹ جائیں گے ،ان کی تکمیل رمضان کے بعد کریں گی۔یہی حال مسافروں اور مریضوں کا بھی ہے ۔سفر اور مرض کی وجہ سے جس قدر روزے چھوٹ جائیں گے ،ان کو رمضان کے بعد مکمل کیا جائے گا۔روزے کے مسائل واحکام قرآن وحدیث میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں،علمائے اسلام بھی اپنی تحریر وتقریر کے ذریعے ان کو برابر واضح کرتے رہتے ہیں۔اپنے دروس وخطبات میں وہ روزے کی فضیلت واہمیت بھی بیان کرتے ہیں ،اس کے فائدے بتاتے ہیں اور ان وعیدوں کا بھی تذکرہ کرتے رہتے ہیں جو روزہ نہ رکھنے والوں کے سلسلے میں آئی ہیں۔
ان تمام کوششوں کے باوجود مسلم معاشرے کی صورت حال تبدیل نہیں ہورہی ہے بلکہ روزہ نہ رکھنے کا رجحان نئی نسل میں بڑھتا جارہا ہے اور بعض لوگ تو واقعی اسے نعوذ باللہ ایک فضول چیز سمجھتے ہیں ۔بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے یہاں بھی یہ بیماری عام ہوچلی ہے ،وہ اسلام کے فکر وفلسفہ پر بڑی عالمانہ تقریر فرماتے نظر آئیں گے لیکن روزہ نمازسے انھیں کوئی مطلب نہیں ہے۔مسلمانوں میں جدید تعلیم یافتہ ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو پوری امانت داری سے یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کی یہ ظاہری عبادات ایک خاص فکر وعمل کے سانچے میں ڈھالنے کا ذریعہ ہیں،جب ہم اپنے مطالعہ وتحقیق کے نتیجے میں اس سانچے میں پہلے ہی ڈھل چکے ہوں تو پھر ان ظاہری عبادات کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہتی۔یہ نتیجہ ہے اس معصوم سی غلطی کا جو دور جدید کے بعض مسلم مفکرین کی تحریروں میں درآئی تھی کہ اسلامی عبادات بذات خود مقصد نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔شرعی احکام کی عقلی معنویت سمجھنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ ہمارے ایمان ویقین میں مزید اضافہ ہوگا لیکن یہاں تو معاملہ بالکل الٹ گیا کہ اب احکام اسلام کی خود ساختہ عقلی معنویت اور علت ظاہری شریعت کو معطل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔یہ الحاد وارتداد کی بالکل ایک نئی شکل ہے جو مسلم معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے۔
ایسے مسلمانوں کو جو روزہ نماز کی پابندی نہیں کرتے اور انسانیت،حقوق انسانیت،مساوات اور عدل وانصاف پر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں ،ان کو ایک آزاد خیال آئیڈیل مسلمان بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔سیکولر حکومتوں میں انھیں پذیرائی ملتی ہے اور بڑے بڑے منصب بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ظاہری وضع قطع اسلامی ہو اور نماز روزے کا خیال رکھا جائے تو ایسے مسلمانوں کو قدامت پسند خیال کیا جاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے اسی قسم کے لوگوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ جو بے چارے اپنی انفرادی زندگی میں اسلام کو نہ نافذ کرسکے ،وہ اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا کیا بھلا کرسکیں گے۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے اولین اراکین معاشرے کے دبے کچلے لوگ ہوا کرتے تھے ،غریبوں اور مفلسوں کو اسلام کی تعلیمات کچھ زیادہ اپیل کرتی تھیں اور وہ سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوتے تھے ۔ایک غریب شخص اللہ کو ہمیشہ یادرکھتا تھا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز رہا کرتا تھا۔خوش حالی سے عیش وعشرت کے رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان دنیا میں اس قدر کھوجاتا ہے کہ اسے آخرت کی یاد ہی نہیں آتی۔لیکن غریب مسلمانوں میں اب صورت حال دوسری بن گئی ہے۔دین اور دنیا کا کوئی علم تو انھیں حاصل نہیں ہے ،نہ اس کے لیے کوئی کوشش ان کی طرف سے کی جارہی ہے بلکہ غریب مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ملت کے درمیان کئی ایک تعلیمی ادارے اور یتیم خانے موجود ہیں لیکن مسلمانوں کے اس غریب طبقے کو نہ اپنی دنیا کی فکر ہے اور نہ آخرت کی۔شہروں میں غریب بستیوں اور جھگیوں کا سروے کرکے دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں برائیوں کو عام کرنے اور پھیلانے والے تمام ذرائع موجود ہیں۔عفت وعصمت شرم سار ہے،جوا اور شراب زندگی کے معمولات کا ناگزیر حصہ ہیں۔شہروں میں چوں کہ روزانہ کی کمائی اچھی ہے ،اس لیے کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہے؛لیکن ان غریب مسلمان بستیوں میں بطور خاص نوجوانوں میں روزہ خوری کی وبا عام ہورہی ہے۔والدین کو چوں کہ دینی شعور نہیں تھا،انھوں نے بچپن میں ان کی کوئی تربیت نہیں کی اور نہ ان کو اسکول ومدرسے میں بھیجا گیا بلکہ نودس سال کی عمر میں ان کو کمائی کرنے کےلیے دکانوں،چائے خانوں اور کارخانوں میں محنت ومزدوری کرنے کے لیے بھیج دیا گیا ۔اب ان کا مقصد زندگی صرف کھانا کمانا ہے اور فرصت کے اوقات میں موج مستی ہے ۔دین اور دین کے شعائر سےتعلق ہوتا تو یہ نہ صرف روزہ نماز کے پابند ہوتے بلکہ بہت سے گناہوں اور جرائم سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے۔ہمارے یہی بچے ہیں جن کا استحصال کیا جاتا ہے اور جن کو گناہوں کے دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ایسی غریب بستیوں پر ہماری دینی تنظیموں اور اداروں کی نظر ہو،ان بستیوں میں آ مد ورفت رہے اور ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی جائے۔موسم کیسا بھی ہو،کام کی نوعیت کچھ بھی ہو ،نوجوانوں کو روزہ ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔بہت سے اللہ کے بندے جو سخت دھوپ میں محنت کا کام کرتے ہیں لیکن وہ اپنے روزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اللہ انھیں صبر وبرداشت کی طاقت دیتا ہے۔کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ سال میں ایک بار آنے والی اس عبادت سے ایک مسلمان محروم رہ جائے ،اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراسکے اور پورا مہینہ لہو ولعب اور کھیل تماشے میں گزار دے۔موت کا کوئی بھروسہ نہیں،آیندہ رمضان کا مہینہ کون پائے گا اور کون نہیں پائے گا ،یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا ۔لہذا قبل اس کے کہ موت کا فرشتہ ہمارے پاس آئے ،ہم فرصت کے ماہ وسال کو اللہ کی عبادت میں گزاریں۔
روزہ خوری کے موجودہ طوفان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کی فکر کریں۔انھیں اوائل عمر سے ہی روزے کا عادی بنائیں ۔بلوغت سے ذرا پہلے اگر وہ دوچار روزے رکھیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خوشی کا اظہار کیا جائے۔اسی طرح والدہ کی ذمہ داری ہے کہ روزہ نہ رکھنے والے بالغ بچوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے،انھیں تازہ کھانا بناکر نہ دے ،روزہ نہ رکھنے پر اپنی بے چینی اور الجھن کا اظہار کرے۔بچے والدہ سے ذہنی اعتبار سے قریب ہوتے ہیں،اپنی ماں کی یہ پریشانی دیکھ کر وہ اپنے رویے پر ضرور نظر ثانی کریں گے۔
مسلم معاشرے کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ایسے روزوں خوروں سے فاصلہ بنائے،انھیں ڈرائے اور اخلاقی دباؤ ڈال کر روزہ رکھنے پر مجبور کرے ۔دوستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر ان کا کوئی دوست روزہ نہیں رکھتا تو اسے ترغیب دیں اور شوق دلائیں کہ وہ روزہ رکھنے لگے۔آج ہمارے بزرگوں اور علماء کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کبھی اپنی زبان نہیں کھولتے ۔ڈرتے ہیں کہ ایک روزہ خور کہیں بد تمیزی نہ کردے ۔پہلے سے ہر ایک کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جن کو کسی بزرگ نے اور کسی عالم دین نے بٹھا کر سمجھایا تو وہ اپنی حرکتوں سے باز آگئے اور انھوں نے روزے نماز کی پابندی شروع کردی۔یہی تو وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جس کا فریضہ ہر مسلمان کو انجام دینا ہے ۔کسی کی بدتمیزی یا بدکلامی سے ڈر کر اگر ذمہ دار لوگوں نے اس فریضے سےمنہ موڑ لیا تو سماج کا کیا ہوگا۔دین کی تبلیغ کون کرے گا اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح اور سچے راستے پر کون لائے گا؟
آپ کا ردعمل کیا ہے؟