توتیرآزما ہم جگر آزمائیں!
اے مسلمانو!اے اللہ کے بندو!ایران اورروافض کے ساتھ ہماری لڑائی اس وقت تک ہے جب تک ان کی حکومت باقی ہے،جب تک ہماری سانسیں ہیں،اورہماری پلکیں جھپک رہی ہیں،یہ لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک روئے زمین سے یاتوان کاخاتمہ ہوجائے ،یاہم جان ہارجائیں،یہ وہ لڑائی ہے جس کے لیےہمیں متحدہوجاناچاہئے!!
توتیرآزما ہم جگر آزمائیں!
"… خالد انور پورنوی
ایران کے ساتھ ہماری جنگ شیعہ،سنی کی جنگ ہے،دینی،مذہبی،ایمانی اورتوحیدوسنت کی جنگ ہے۔ بلاشبہ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کی جائے،صحابہ کی تکفیرکی جائے، اماں عائشہ رضی اللہ عنہاکی عفت مآبی پرانگلی اٹھائی جائے۔بلاشبہ ایران سے ہماری لڑائی شیعہ ،سنی کی بنیادپرہے،عسکری سطح پر بھی ایران سے ہماری لڑائی اسی بنیادپرہے،آپ عالمی میڈیامیں آنے والی باتوں ،خبروں اورتجزیوں پرتوجہ نہ دیں،یہ سب بکواس ہیں،اورمیڈیاوالے محض اپنی دنیا بنانے، اور اپنے مفادات کے تحت کچھ بھی بولتے اورلکھتے ہیں،مگرہمارے دلوں میں خوفِ خداہے۔
یہ شعلہ بیاں تقریرہے خانہ کعبہ کے امام معالی عبدالرحمن السدیس کی ،جنھوں نے ایران اورسعودیہ کے بیچ حالات کشیدہ ہونے کے بعداپنے پرزورخطاب میں کہیں،انھوں نے کہا:لوگ فرقہ پرستی کی بات کرتے ہیں ، انھیں معلوم ہوناچائیے کہ ان لوگوں نے ہمارے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کی،شام میں سنیوں کی زندگیاں تباہ کیں،یمن میں جوکچھ کررہے ہیں سب کے سامنے ہے،بحرین میں سازشوں کاجال بچھایا اور سعودی عرب کو بھی نرغے میں لیناچاہتے ہیں۔کیاایران کی یہ سرگرمیاں سیاسی برتری کےلیے ہیں؟ محض جغرافیائی اور قومی بالادستی کامعاملہ ہے؟نہیں ہرگزنہیں۔یہ لڑائی شیعہ،سنی کی لڑائی ہے۔
اے مسلمانو!اے اللہ کے بندو!ایران اورروافض کے ساتھ ہماری لڑائی اس وقت تک ہے جب تک ان کی حکومت باقی ہے،جب تک ہماری سانسیں ہیں،اورہماری پلکیں جھپک رہی ہیں،یہ لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک روئے زمین سے یاتوان کاخاتمہ ہوجائے ،یاہم جان ہارجائیں،یہ وہ لڑائی ہے جس کے لیےہمیں متحدہوجاناچاہئے!!
بات یہاں سے شروع ہوئی کہ سعودی عرب میں مختلف قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں اورحکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے بہت ہی چھان بین،اورعدالتی کارروائیوں کے بعد 47/ لوگوں کو پھانسی کی سزادے دی گئی،سعودی عرب کے مفتی اعظم کے بیان کے مطابق ان تمام کوپھانسی کی سزا قرآن وحدیث کے مطابق دی گئی،اورشرعی اصولوں کی مکمل پاسداری برتی گئی،اوراس میں کسی طرح کا تعصبانہ رویہ اختیارنہیں کیاگیا۔تمام مجرموں کواپنی بے گناہی ثابت کرنے کے مواقع فراہم کیےگئے،لیکن ان کے جرم اورسیاہ کارناموں کی داستان اتنی طویل تھی کہ ان کی لغزشوں سےصرف نظرنہیں کیا جا سکتا تھا، اس کے باوجوداگران کے ساتھ ہمدردی اوررحم دلی کی جاتی تو یہ بے گناہ عرب عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوتا ،اس لئے سعودیہ حکومت نے 47لوگوں کوپھانسی کے پھندے پرلٹکادیا۔
دہشت گردی کاکوئی مذہب نہیں ہوتا،وہ دنیاکے کسی خطہ اورکسی بھی سرزمین سے تعلق رکھتاہو،بے گنا ہو ں کا خون بہانااس کامقصدہوتاہے،جس ملک میں بھی دہشت گردی جنم لیتی ہے ، مسلک،مشرب،مذہب سے اوپر اٹھ کر ایسی طا قتو ں کا مقابلہ کیاجاتاہے ،اور سعودی عرب نے بھی ایساہی کیا،اور اس سے قبل بھی اس نے دہشت گردی کو کچلنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں ،اسی لیے عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کردارکوسراہاہے اوراس کو اس جنگ میں اہم اتحادی قراردیاہے۔
تاریخ میں یہ ریکارڈ محفوظ ہے کہ خواہ وہ القاعدہ ہو،یاداعش،یا دوسری کوئی بھی دہشت گردتنظیم،سعودی عرب کے جوبھی شہری ان گروپوں میں شمولیت اختیارکرتے ہیں، ہمیشہ ان کے خلاف سخت کاروائیاں کی گئی ہیں ، اور 47؍ دہشت گردوں کو حکومت سعودیہ عربیہ کی جانب سے پھانسی کی سزااسی لیے دی گئی تھی کہ وہ لوگ نہ صرف حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے،بلکہ ان میں سے بعض شدت پسندالقاعدہ میں بھی شامل تھے۔
ان 47؍لوگوں میں 43 ؍سنی تھے،اورصرف تین شیعہ ،اورجس میں غیرملکی مداخلت کودعوت دینے، سعودی عرب میں منافرت پھیلانے والے شیعہ سرکردہ رہنماشیخ نمرالنمربھی تھے،،مختلف الزامات کے تحت ان پر فرد جرم عائدکی گئی تھی،اورعدالت نے انھیں قصوروارقراردے کرسزائے موت سنائی تھی،جس کی وجہ سے انھیں پھانسی کی سزادے دی گئی۔
مگرایرانی میڈیانے اس مسئلہ کوشیعہ اورسنی کے رنگ میں رنگ دیا،اوریہ بتانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب ایک سنی ریاست ہے،شیخ النمر کواس لیے پھانسی دی گئی کہ وہ شیعہ تھے،اوریہ بتانابھول گئے یاجان کریہ بیان دینے سے بچتے رہے ، کہ ان میں صرف 3؍ شیعہ تھے،اوربقیہ43؍ سنی!!!
شیخ النمرکی پھانسی کے بعدایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابرانصاری نے اپنی ساری ذمہ داریوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ سعودی حکومت خودتوانتہاپسندوں اوردہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتی ہے؛ لیکن ملک کے اندرہی اندرکی جانے والی تنقیدکاجواب موت کی سزاؤں سے دیا جاتا ہے ۔ ایران کے سرکردہ مذہبی رہنماآیت اللہ خامنہ ای نے مذمت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاکہ نمرکی موت سعودی حکومت کے زوال کی وجہ بنے گی۔
ایرانی میڈیاجواس سے قبل النمرپرکفرکاالزام عائدکرچکاتھااس کے د نیاسے چلے جانے کے بعدآیت اللہ کالقب دے رہا ہے،جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ النمرکی علمی خدمات کاعلم تو دنیاکونہیں ہے،ہاں حکومت کے خلاف ان کی تقاریرکی ویڈیواورمقالے ا ن کی قدرومنزلت کاپتہ دیتے ہیں۔
یہ پھانسی دیناسعودی حکومت کاایک حکومتی فیصلہ تھا،ملک کےداخلی اورسیکوریٹی کے لیےاس کے قوانین کی دھجیاں اڑانے کے لیے دی گئی تھی،ایرانی حکومت کوتعاون کرناچاہئے تھا،مگراس کے برخلاف تہران میں سعودی پرچم کونشانہ بنایا گیا،مشہدمیں سعودی قونصلیٹ کوآگ لگادی گئی،ایرانی صوبے کردستان سے تعلق رکھنے والے 27؍سنی مبلغین اوردینی علوم حاصل کرنے والے طلبہ کو موت کی سزادے دی گئی۔ جب کہ احتجاج اور مظاہرے بہت زیادہ ہوئے اور میڈیامیں اپنی کمزوریوں ،ظلم وبربریت کی داستانوں پر پردہ ڈالتے ہوئے خود کو مظلوم اور مظلوم کا سچاہمدردبناکر پیش کرتے رہے۔
ایران کے روحانی پیشواآیت اللہ خامنہ ای نے سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام کودولت اسلامیہ کے اقدامات سے موازنہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ جب کہ سچائی اس کے برعکس ہے ۔امریکی وزارت خارجہ نے 2014میں جاری کی گئی دہشت گردی سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتایاتھاکہ ایران حزب اللہ کو اسلحہ فراہم کرنے کے لیےشام کو ایک اہم راستے کے طورپر دیکھتاہے۔رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالہ سے بتایاگیاہے کہ ایران نےشام کے بشارالاسد کی حکومت کو اسلحہ ، مالی سپورٹ اور تربیت فراہم کی تھی ،جس کا مقصد شامی حکومت کے اس وحشیانہ کریک ڈاؤن میں مددفراہم کرناتھا،جس کے دوران ایک لاکھ 91ہزار افراد موت کے گھاٹ اتاردیے گئے ۔
پوری دنیامیں پھانسی کی سزادی جاتی ہےاورہرملک اپنے دستوراورآئین کی روشنی میں مختلف سزائیں نافذ کرنے میں خودمختارہوتاہے،وہ اس ملک کااپنااورداخلی معاملہ ہوتاہے،اس میں اگرکسی کو اعتراض ہو، یا حکومت کارویہ مشکوک دکھائی دیتاہوتوقانون کے دائرہ میں رہ کر اس ملک یاحکمراں جماعت کے خلاف اپنا احتجاج درج کراسکتاہے؛مگرایران کایہ رویہ دانشمندوں کے لیے یقیناقابل قبول نہیں ہےاورہرکوئی سمجھ سکتاہے کہ ایرانی حکومت نہ صرف غلطی کررہی ہے بلکہ دونوں ملکوں کے بیچ حالات کے خراب کرنے میں بھی اہم رول اداکررہی ہے۔
یہ معاملہ مسلکی تھا ہی نہیں،مگراسے مسلکی رنگ میں رنگنے کی ایران نے پرزورکوششیں کیں،چونکہ معاملہ صرف شیعہ رہنماشیخ النمرکا نہیں تھا،47؍لوگوں کاتھا،اوراس میں صرف تین شیعہ تھے،43؍سنی تھے۔ اگر انسانیت کے حقوق کی آوازبلندکی جاتی تو سب کے لیےہونی چاہئے تھی،صرف شیخ النمرکے لیےکیوں؟اس کا مطلب ہے کہ کوئی معشوق ضرورہے اس پردہ زنگاری میں!
ذرائع کے مطابق شیخ النمرکے جیل رسیدہونے کے بعدسے اب تک ان کے خاندان والوں کی سعودی حکومت کی جانب سے کفالت ہورہی ہے،ان کالڑکاباہراعلیٰ تعلیم حاصل کررہاہے،اورسعودی حکومت اس کے تعلیمی اخراجات کوبرداشت کررہی ہے۔
اورشایدیہ پہلی حکومت ہے جواس ملزم اورمجرم شخص کے گھروالوں کی کفالت اوراس کے بچہ کے تعلیمی اخراجات کوبرداشت کرتی ہے،ورنہ توآج کہاں ایساہوتاہے ؟اگرشک کی بنیادپربھی کسی کی گرفتاری عمل میں آتی ہے ،اوراسے جیل رسیدکردیاجاتاہے تومجرم صرف گرفتارشخص نہیں ہوتابلکہ اس کی اولااوراس کے گھروالے بھی مجرم ہوتے ہیں،ملزم توجیل کی سلاخوں میں اپنی زندگی کے آخری دن گنتاہے اورملزم کے گھروالے اپنے گھرمیں صعوبتوں کی زندگی گزارنےپرمجبورہوتے ہیں،ایک ایک دانہ کوترستے ہیں،دنیابھی ان سے نظریں پھیرلیتی ہے،رشتہ دار بھی ان سب سے نظریں چرالیتے ہیں،اس لیے کہ وہ اس ملزم اورمجرم کی فیملی اوربچے ہیں،اوراس لیے بھی کہ اگران کو کچھ دے بھی دیاتو سودسمیت ان سے ملنے کی توقع بھی نہیں ہے۔
دوسرے ملک کی بات چھوڑئیے!ہمارے ہندوستان میں رات ،دن اس کا مشاہدہ ہورہاہے، ابھی تین شخص عزیزالرحمن ،شیخ مختارحسین،اورعلی اکبرکودہشت گردی کے الزام سے بری کیاگیاہے۔ان تینوں کے واقعات انتہائی دلدوزاورروح فرساہیں۔ان کے بے گناہ ثابت ہونے میں ساڑھے آٹھ سال لگ گئے۔اس بیچ ان پر جومظالم ڈھائے گئے،وہ تاریخ کے سیاہ باب کاایک حصہ ہیں۔شیخ مختارنے پریس کانفرنس میں بتاتے ہوئے کہا:میں درزی کاکام کرتاتھا،اورمحنت ومزدوری کرکے اپنے بچوں کوتعلیم دلاتاتھا،مگرمیں جیل کی سلاخوں میں بندہوگیا،اس کے نتیجہ میں میرے بچوں نے تعلیم چھوڑدی اوروہ کسی طرح پیٹ پالنے پرمجبورہوگئے۔
مسلمان ہونے کی وجہ سے ملزمین کو جوسزاملی وہ الگ ہے،ان کی زندگی کے قیمتی آٹھ سال برباد ہوگئے، وہ الگ ہے،اکبرعلی حافظ قرآن تھا،ان کادماغی توازن بگڑگیا،وہ الگ ہے،ان کے ساتھ جسمانی اذیت رسانی کی گئی وہ ایک مستقل موضوع ہے؛مگرافسوس تو یہ ہے کہ ان کے گھروالوں کی زندگی اجیرن بن گئی،بچوں نے تعلیم چھوڑدی،اب وہ کس راستہ پرچلیں گے ؟اس کاذمہ دارکون ہے؟
چلئے! شک کی بنیادپرانھیں پکڑاگیا،مگرگھروالوں کاکیاقصورتھا،ان پرتوشک بھی نہیں تھا،اس لیے ہم قانون کی بات تو نہیں کرتے؛ مگرہاں یہ ضرورکہیں گے، کہ ایساہوناچاہئےجوسعودیہ حکومت نے کیاکہ اس کے گھروالوں کی کفالت کی ذمہ داری لے لی جاتی! ابھی گزشتہ دنوں ایران کی راجدھانی تہران میں واقع سنیوں کی اکلوتی مسجد کو جس طرح شہید کردیا گیا،کیااس سے ایران کی سنیوں کے خلاف مجرمانہ اور ظالمانہ پالیسی واضح نہیں ہوتی،کیااس سے نہیں سمجھاجاسکتاہے کہ ایرانی حکومت صرف سعودی حکومت کا دشمن نہیں ہے ؛بلکہ تمام سنیوں کا دشمن ہے ۔
یہ بات ایران کے بارے میں بہت ہی واضح ہے کہ اگر آپ سرکار کے مسلک کے مطابق زندگی نہیں گزارتے تو آپ کو مکمل سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوسکتیں!آخر کوئی تو بات ہے کہ جہاں 20سے 25فی صد سنی رہتے ہیں ،لیکن کسی بڑے عہدے پر کوئی بھی سنی مسلمان براجمان نہیں ہوسکتاہے،اور تماشہ یہ کہ ایرانی حکومت کا دعویٰ بھی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتی ہے۔
شیخ النمر کی پھانسی کو مسلکی رنگ میں رنگنے والے لوگ یہ بھول گئے کہ ایران میں سنیوں کے خلا ف مظالم کی داستان تو بہت طویل ہے ،سنی مسلک کی ترویج واشاعت کے جرم میں ان گنت علماء کو تختہ دار پہ لٹکایا جا چکاہے ، اور ان کا شمار بھی ان چند ممالک میں ہوتاہے جہاں بکثرت پھانسی کی سزاسنائی جاتی ہے ۔
2012میں ’’اللہ کے خلاف جنگ‘‘اور ’’زمین میں فساد پھیلانے ‘‘کے الزام میں حامداحمدی،کمال ملائی ، جمشید دہقانی ، جہانگیردہقانی ،صدیق محمدی،اور ہادی حسینی کو سزائے موت سنائی گئی ،انسانی حقوق کے ذرائع کی جانب سے اس بات کی تصدیق بھی ہوچکی ہے کہ یہ افراد پرامن مذہبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور کردستان کے علاقہ میں اپنی مساجد میں دعوت وتبلیغ میں مصروف رہاکرتے تھے۔حالیہ دنوں میں شہرام احمدی کو پھانسی کی سزاسنائی گئی ہے ،ان پر الزام ہے کہ سلفی تنظیم سے تعلق رکھتاہے ،اس سے قبل ان کے 17سالہ بھائی کو پھانسی دی جاچکی ہے ،ان کی دکھیاری ماں اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے،اور خود اس کے بدلے پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہے ؛مگر ایرانی حکومت محض سنی ہونے کی سزادینے پر آمادہ ہے۔2015کے ابتدائی 6مہینوں میں 700سے زیادہ افراد کو پھانسی کی سزادی جاچکی ہے ،ان میں اکثر کا تعلق سنی مسلک سے ہے ۔
ایران ایک بے ڈھنگے جھوٹ کے ذریعہ پوری دنیامیں مذہب اسلام کو بدنام کرنے اور سنیوں سےانتقام لینے میں مصروف ہے،اور ’’شیخ النمر کی پھانسی ‘‘ایک ایشو انھیں مل گیاہے،اور اس جھوٹ کو میڈیاکے ذریعہ اس طرح پیش کیاجارہاہے کہ ہمارے اکثر مسلم بھائیوں کو بھی غلط فہمی پیداہونے لگی ہے۔ ؎
چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
آپ کا ردعمل کیا ہے؟