تعلیم کی تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے : بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی !انسان کے ناموں کا اثر اس کی شخصیت پر پڑتا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث گرامی ہے ۔بانیان ادارہ اوربانیان جامعات ومدارس کے تقوی وپرہیزگاری کا اثر ان کے ادروں پر پڑتا ہے۔ اسی طرح سے انسان کے نام کا اثر ان کی شخصیت پر پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدو ائی صاحب اخلاق کامجسم تھے ، وہ تعلیم کے میدان میں سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں اسی طرح سے سوشل ویلفئر کے میدان میں وہ ایک ٹاپ موسٹ ورکر(سماجی کارکن) رہ چکے ہیں ملک میں گورنر کی حیثیت سے اور پروفیسر کی حیثیت سے رہ چکے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے قبر کونور سے بھر دے۔ حضرات!کسی شاعر نے کہا ہے تعلیم کی تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ،ہو جائے ملائم تو جد ھر چاہے ادھر پھیر۔ تعلیم ہی اہم ہے، تعلیم اگر نہ ہوتی تو ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی، ان سے بڑے یا ان سے چھوٹے لوگوں کا کوئی تذکرہ نہ ہوتا ان کی جاگیرداری وہیں کی وہیں رہ جاتی ۔ لیکن تعلیم ہی وہ چیز ہے جس نے ہم لوگوں کو یہاں تک پہنچایا ہے آپ لوگوں کو یہاں پر لا کر کے بیٹھا یا ۔سلیبس کے بارے میں شاعر نذیر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
|
تأثرات
… "
تعلیم کی تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
صلاح الدین مقبول :امیر جمعیت اہل حدیث ہند دہلی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے : بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی !انسان کے ناموں کا اثر اس کی شخصیت پر پڑتا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث گرامی ہے ۔بانیان ادارہ اوربانیان جامعات ومدارس کے تقوی وپرہیزگاری کا اثر ان کے ادروں پر پڑتا ہے۔ اسی طرح سے انسان کے نام کا اثر ان کی شخصیت پر پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدو ائی صاحب اخلاق کامجسم تھے ، وہ تعلیم کے میدان میں سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں اسی طرح سے سوشل ویلفئر کے میدان میں وہ ایک ٹاپ موسٹ ورکر(سماجی کارکن) رہ چکے ہیں ملک میں گورنر کی حیثیت سے اور پروفیسر کی حیثیت سے رہ چکے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے قبر کونور سے بھر دے۔
حضرات!کسی شاعر نے کہا ہے تعلیم کی تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ،ہو جائے ملائم تو جد ھر چاہے ادھر پھیر۔ تعلیم ہی اہم ہے، تعلیم اگر نہ ہوتی تو ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی، ان سے بڑے یا ان سے چھوٹے لوگوں کا کوئی تذکرہ نہ ہوتا ان کی جاگیرداری وہیں کی وہیں رہ جاتی ۔ لیکن تعلیم ہی وہ چیز ہے جس نے ہم لوگوں کو یہاں تک پہنچایا ہے آپ لوگوں کو یہاں پر لا کر کے بیٹھا یا ۔سلیبس کے بارے میں شاعر نذیر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
یوں قتل سے وہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی
انہوں نے یوپی ایس سی میں جو آسانیاں پیدا کیں، مدارس کی تجدید کاری کے لیے جو کام کیا اگر یہی اللہ قبول کر لے تو ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے ؎
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستاں اس گھر کی نگہبانی کرے
اور آخری جملہ اپنے برادر گرامی توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے بانی جناب عبد المتین رحمہ اللہ کے بارے میں کہنا چاہوں گاجنہوں نے اس پسماندہ علاقے میں تعلیم کا ایساشاندار ادارہ قائم کیا اور یہی چیز ان دونوں میں تادیر مثال بن کر رہی ، شیخ عبد المتین اور اخلاق الرحمن قدوائی میں تعلق کیوں ہوتا ؟اگر تعلیم کے میدان میں ان کا کام نہ دیکھتے تو ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے پاس یہ وقت نہیں تھاکہ چار مرتبہ وہاں پر جائے ، اللہ تعالی دونوں کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر تعلیم وتربیت کے میدان میں چلنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ان کے لیے دعا کریں اللہ ان کی مغفرت کرے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہر اول دستہ کے وہی لوگ تھے جو تحریک آزادی کے آخری لوگ تھے۔ جن کے زمانے میں دیش آزاد ہوئے اس کے آخری کارکنوں میں تھے، یہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری جن کے نام پر آڈو ٹوریم ہال ہے، جب گاندھی جی افریقہ سے آئے تو بہت سے لوگ ان کو کچھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں تھے مسلمانوں کے پچاس ہزار روپئے سے انہوں نے ہندوستان میں دورے کا کام شروع کیا تھا ۔ اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے اپنے اکاونٹ کھول دیا تھا کہ آپ کے لیے میرا اکاونٹ پھری ہے۔ جب وہ بھوک ہڑتال کرتے تھے تو ہرگھنٹے میں جاکر انکی خبر لیا کرتے تھے کہ کوئی پریشانی نہ ہوجائے ایک مرتبہ بھوک ہڑتال ختم کیا تو اس دوران محمد علی جوہر جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فاؤنڈر میں سے ہیں تو انہوں نے اور ان کی بیوی انجلی بیگم نے گائےکا تحفہ پیش کیا خوشی میں، یہ رواداریاں تھیں، آج سب ختم ہوگئیں ہیں، انہی رواداریوں کا ایک روشن مینار اخلاق الرحمن قدوائی اخلاق وآداب کے آدمی تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی ایک عبقری شخصیت
احمد مجتبی سلقی
اس مختصر سے وقت میں زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے ایک بات توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے بانی جناب عبد المتین السلفی کے بارے میں اور ایک بات جس شخصیت کی حیات وخدمات پر آج کا یہ سیمنار منعقد ہے یعنی ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے بارے میں کہوں گا ۔ وہ بات یہ ہےکہ جناب عبد المتین سلفی رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ بنارس میں مجھ سے ایک سال کےجونیر تھے۔ تبھی سے میرا ان سے گہرا تعلق ہے۔ ان کے اس دنیا سے رحلت کرجانے کے بعد ان کی وفات پر نیپال سے نور توحید کا خاص شمارہ نکلا تھا ۔ اس میں اس ناچیز کا بھی ایک تاثراتی مضمون بعنوان"سیمانچل کا سرسید" شائع ہوا تھا ۔ جو قارئین میں بے حد پسند کیا گیا ۔ اور ان کے کارناموں کی وجہ سے یہ عنوان ان پر بہت زیادہ فٹ آتا ہے کہ واقعۃ وہ سیمانچل کے سر سید تھے۔ اور رہی بات ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کی تو اب تک آپ لوگوں نے مقالات اور تاثرات کے ذریعہ جو کچھ سنا وہ سب ان کی عبقری شخصیت ہونے پر شاھد ہے۔ اس سلسلہ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آج لوگ ان کے لیے دعا کر رہے ہیں ان کی تعریف کر رہے ہیں اس بات کی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ۔
ہم امت مسلمہ شاھد ہیں۔ جس کے اچھا ہونے کی گواہی دیتے ہیں گویا وہ حقیقت میں اچھے ہیں لہذا ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی شخصیت بہت قابل احترام ہیں۔ اور وہ ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ ہم طلبہ کو جو یہاں موجود ہیں ان کی زندگی اور سیرت سے عبرت وسبق حاصل کرنا چاہئے ۔ اللہ کا فضل ہےکہ ایک بار اسی توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے ایک سالانہ جلسہ میں مجھے اسٹیج میں ان کے ساتھ بیٹھے کا موقع ملا تھا ۔ اور جامعہ عائشہ اسلامیہ للبنات میں جب انہوں نے کھجور کے درخت کو لگا یا تو میرے ذھن میں فورا آیا کہ عبد الرحمن اول کا لگایا ہوا کھجور کا درخت اب تک میرے ذھن میں ہے وہ واقعی اس پرفٹ آیا۔ پتہ نہیں وہ ہے یا نہیں اس کی حفاظت کیجئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر اے آر قدوائی ایک مثالی شخصیت تھے۔
انیس الرحمن قاسمی:امارت شریعہ پٹنہ
ڈاکٹر اخلاق الرحمن کے بارے میں صرف تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، پہلی بات یہ ھیکہ وہ افراد کو تیار کرتے تھے چاہے وہ افسران کی شکل میں ہوں، ٹیچر ہوں، یونیورسیٹی کے اساتذہ ہوں ۔اسی طرح جب وہ یوپی ایس سی کے چیرمین تھے تووہ آئی ایس اور آئی پی ایس کے افراد کو منتخب کرتے تھے اورانہیں تیار کرتے تھے ۔ان کو اس طرح آگے بڑھاتے تھے کہ سب ان کےگرویدہ ہوجاتے تھے ۔ہمیں یاد ہے کہ جب وہ گورنری کے پہلی معیاد پورا کر کے پٹنہ سے رخصت ہورہے تھے ، اس وقت پٹنہ ائیرپورٹ میں ان کو الوداعیہ تقریب دینے کا اہتمام ہوا تھا جس میں تقریبا پانچ سو سرکاری افسران اور غیر سرکاری اہم شخصیتیں جمع تھیں ، اور یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ ان کو رخصت کرتے ہوئے سب کی آنکھیں نم تھیں ۔اور خود قدوائی صاحب بھی آبدیدہ تھے، دوسری اہم خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ چاہے بہار میں رہے یا بنگال وجھارکھنڈ یا پھر ہریانہ میں، انہوں نے شخصیتوں کو آگے بڑھایا اداروں کو بھی قائم کرایا، اور جو قدیم ادارے تھے چھوٹے تھے یا بڑے تھے ان کی آبیاری کی ، وہ چھوٹے سے چھوٹے اسکول میں بھی دور دراز کے گاؤں تک جاتے تھے اور حوصلہ بڑھاتے تھے ۔ہمیں یاد ھیکہ ہمارے گاؤں کٹہری میں ہمارے بھائی ڈاکٹر صدر عالم نے ایک اسکول قائم کیا تھا اس کے سالانہ پروگرام میں ایک چھوٹا سا گاؤں میں گئے اور وہاں ایک مدرسہ تھا اس کے پروگرام میں بھی وہ شریک ہوئے، تو چاہے وہ بڑے ادارے ہوں، یونیورسیٹیوں یاسرکار کے ذریعہ جو چیزیں قائم ہوئیں، جہاں جہاں وہ گورنر تھے بہت سارے ادارے انہوں نے سرکاری طور پر قائم کئے اور ان کوگود بخشے ۔تیسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ قدوائی صاحب نے اس پچاس سالہ دور میں جو اصل ان کی خدمات کادور ہے بہت ساری تقریریں کیں ، خطبے دیئے، صدارتی خطبے دیئے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر اسٹیٹ سے ان کے خطبوں کو ان کے تقریروں کو ایکجا کر کے شائع کردیا جاتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر اے آر قدوی ایک بہترین لیڈر
مفتی عطاء الرحمن قاسمی:مولف:مرد مومن
قدوائی صاحب کی شخصیت کثیر الجھات تھی ، قدوائی صاحب کی سوچ عجیب وغریب تھی، 2007 میں مجھے طلب کیا ۔ مجھ سے کہا کہ "قاسمی صاحب ! ہندوستانی حکومت1857 کے ڈیرھ سو سالہ جشن منانے جارہی ہے، آپ ایسا کریں کہ ہندوستان میں جہاں انگریزوں کے خلاف جنگیں ہوئی ہیں۔ ان کی ایک لسٹ بنادیں، کیونکہ آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کا کیا رول رہا ؟گویا کہ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے "میں سوچتا رہاسوچتا رہا ، میں نے ایک لسٹ بنائی معرکہ آمبلہ سے لیکر شاملی تک ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف 1857 میں کہاں کہاں بغاوتیں مسلمانوں نے کی ہے ۔ ہم نے لسٹ دے دی، قدوائی صاحب کہنے لگے اس پر سیمینار بھی کیجئے ،اب میں نے کہا قدوائی صاحب یہ آسان کام نہیں ہے، بہت مشکل کا م ہے ، اسی ہال میں 1857 کی ڈیرھ سو سالہ جشن اخبارات کی تناظر میں قدوائی صاحب کی صدارت میں ہوا تھا ، اس میں شیلا جی بھی آئیں، کے رحمن بھی تھے اور شسی بھوشن بھی تھے شسی بھوشن جی کمیٹی کے وائس چیر مین اور ڈاکٹر منموہن سنگھ چیرمین تھے ، پروگرام بہت اچھاہوا ، قدوائی صاحب اور شسی بھوشن نے کہا کہ ان تمام صوبوں میں اجلاس کیا جائے ،دلی میں ہم نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے دو سیمنار کئے اور ایک مئو میں کیا ، مسلمانوں کی تہذیب اور کلچر سے قدوائی صاحب کو بڑی گہری دلچسپی تھی، وہ چاہتے تھے۔ مسلمانوں کےنام سامنے آئے۔ اور اس کی دو رپوٹیں چھپی ہیں، ایک تو 1857 میں پہلی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے احسانات، یہ تین چار سوصفحے پر مشتمل تھا اور 1857 اور ہریانہ۔ دوکام ہم نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ سے کیا۔وہ پروگرام بہت بناتے تھے ۔ قدوائی صاحب ایک مسلمان ضرور تھے وہ ایک سیکولر انسان تھے وہ بہت بچ بچاؤ سے کام کیا کرتے تھے۔
لیکن جتنا مسلمانوں کے لیے کرتے تھے اتنا ہندوں کے لیے بھی کرتے تھے ، ان کی سوچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور بات کو کس طرح پھیرتے تھے یہ عجیب وغریب تھا ، ہمارے کے سی یادو ایک روز کہنے لگے۔ قدوائی صاحب نے کہا کے سی یادو صاحب! کیا حال ہے اکیڈمی کا ، تو انہوں نے ایک لفظ اچھا نہیں کہا کہ وہاں پر یہ غلطی ہورہی ہے یہ غلطی ہوئی ہے ، قدوائی صاحب نے کہا۔ یادو صاحب! یہ گردی مت کہئے آپ افسر گردی کہئے میں نے ہریانہ پر بہت کام کیا ہے، میں پچھکولہ گیا ، اس ہال سے وسیع مسجد کا سنگ بنیاد قدوائی صاحب نے کیا تھا، اور اسکا افتتاح بھی کیا تھا ، ہریانہ میں شانداراور پچھکولہ میں مسجد بنوانا آسان کام نہیں تھا، قدوائی صاحب مسلمانوں کا کام کرنے کے لیے مرعوب نہیں ہوتے تھے مسلم افسروں اور گورنروں کی طرح وہ ہمت سے کام کرتے تھے جتنا آپ کے لیے کرتے تھے سے زیادہ غیروں کے لیے کرتے تھے، اس لیے اس کے کام پر کوئی افسر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا، دجانہ میں ایک بہت شاندار مسجد ہے۔ وہ 1947 کے بعد بنی تھی ، ہریانہ کے پولس کمیشنر عاقل نے مجھ سے کہاکہ قدوائی صاحب نے کہا کہ ایسا کرو دجانہ میں ایک پروگرام رکھ دو، اور جاتے وقت قدوائی صاحب نے کہا یہ کون سی عمارت ہے؟ اب ظاھر بات ہے گورنر جس کا معائنہ کرنا چاہے اس پر تالہ نہیں لگ سکتا تھا۔ چنانچہ افسروں نے جلدی جلدی تالہ کھولوا یا اور وہ مسجد آباد ہوگئی۔ یہ قدوائی صاحب کی سوچ اور انداز تھا، وہ نہیں کہتے تھے میں بڑا مسلمان ہوں لیکن مسلمان کا بھی کام کیا کردیتے تھے۔
قدوائی صاحب نے مجھے ایک دن فارسی کا ترجمہ کرنے لئے کچھ کاغذات دیئے تو میں ترجمہ کیا اس میں حضرت قدوہ کے سلسلے میں (قدوائي اسی فیملی سے ہے جو اجودھیا میں دفن ہے) مجھے فخر ہےکہ میں قدوائی صاحب کی زندگی میں اس کتاب (معیار زندگی) کو مرتب کیا اور اسکا اجرا حامد انصاری نے کیا تھا ، میں نے حامد صاحب سے کہا کہ اس کتاب کے مرتب کرنے سے میری عزت میں اضافہ نہیں ہوا ، میں نے اس لیے کیا تاکہ قدوائی صاحب اس عمر میں خوش ہوجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قدوائی صاحب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی
پروفیسرجاوید احمدڈین فیکلٹی آف سائنس۔
اس محفل میں صبح سے اب تک دو چیزوں کا ذکر نہیں ہوا وہ میں شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ میرا تعلق جامعہ ہمدرد سے ہے اور میری پہلی ملاقات ڈاکٹر قدوائی صاحب سے 1977 ہوئی تھی جو ایک( Institute ) انسٹی ٹیوٹ تھا جسکوہمددر نے قائم کیا تھا اور قدوائی صاحب کاجو Contribution جامعہ ہمدردکو بنانے میں ہے، اس کو بھی ہم فراموش نہیں کرسکتے، تو آج مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب وہ وہاں تشریف لاتے تھے 1977 اور 1988 کے بیچ میں، اس (Institute) انسٹی ٹیوٹ میں آپ کا مستقل آنا جانا رہتا تھا ۔ یہ بھی آپ کی Achievementمیں سے ہے جہاں آپ کیAchievementسے جامعہ ہمدرد کا قیام ہے یہ بھی آپ کے Achievement میں شامل ہوگا۔ ان کے تعلقات حکیم عبد الحمید صاحب سے تھے ۔ماڈرنائزیشن آف دوا خانہ، ماڈرنائزیشن آوف یونانی میڈیسن میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ وہ جن دواؤں میں خصوصا کام کیا ہمدرد میں ،و ہ اپنے شاگر دایم ایس وائی خان کو لیکر آئے جو(chemist) کمیسٹ تھے وہ ان دواؤں میں کام کرنا چاہتے تھے جو بہت ہی ہائی میدیسنل ہیں جیسے جرنب ہے، اوٹکی ہے، اسرول ہے اور لیور کی دوائیں ہیں ،ہائی پرٹنشن کی دوائیں ہیں ، کینسر کی دوا ہے، ان کے خاص پلانٹ جو انہوں نے اس زمانے میں شروع کئے ، وہاں کئی کانفرنس کرائیں، قدوائی صاحب کی وہ خدمات بھی ہمیں یاد کرنی چاہئے ۔ دوسرا ادارہ انڈیا اسلامک کلچرل سیٹنر ہے جس میں ان کی خدمات واقعی یاد رکھی جائیں گی ، چونکہ یہ ایک سمینار ہے اور یہvalidity sessionچل رہا ہے میں مولانا سے درخواست کروں گا کہvalidity sessionمیں کوئیRecommendationپاس ضرور کریں۔Recommendation ہوگی کہ ان کے نام سے ایک یونیورسیٹی قائم ہو اور اس یونیورسیٹی کا نام ہوگا ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یہاس میں ایک بہت بڑا شعبہ بنے گا اسکول آف کیمکل سائنس ہوگا، کیونکہ وہ خود پلانٹchemist کمیسٹ تھے تو ان کے نام کے اوپر ایک کمیسٹری کا بہت بڑا ڈپارٹمنٹ بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں لفظوں سے میں مولانا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ادارے کو بھی۔بہت شکریہ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر آخلاق الرحمن قدوائی پر بنائی گئی ڈوکومنٹری:
اترپردیش کے راجد ھانی لکھنؤ کے اطراف کا علاقہ اودھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ہندوستان کے تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں اودھ کا نام نمایاں خصوصیت کا حامل ہے ،اودھ کا ایک تاریخی ضلع بارہ بنکی جو لکھنؤ سے 29 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے بارہ بنکی سے بہرائچ جانے والے شاہ راہ پر بڑا گاؤں واقع ہے، آزادی سے پہلے اس گاؤں کی وجہ شہرت وہاں کے تعلقہ دار تھے ۔جنگ آزدای میں گاندھی جی کی آواز پر لبیک کہنے والے بارہ بنکی کے سبھی تعلقہ دار شامل تھے اور ان میں بڑا گاؤں بھی تھا ، آزاد ہندوستان میں بڑا گاؤں کی وجہ ہے شہرت ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی ہیں جو مختلف سرکاری اور آئینی عہدوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے باوجود ایک ایسے ماہر تعلیم کے طور پر جانے جاتے ہیں جس نے ہندوستان کے ہر طبقہ کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے انتھک خدمات انجام دی ہیں، اخلاق الرحمن یکم جولائی 1920 کو بڑا گاؤ میں پیدا ہوئے ان کے والد کانام اشفاق الرحمن قدوائی تھا، سیاسی اعتبار سے یہ دور افراتفری کا دور تھا، برطانوی سامراج کمزور ہو چلی تھی اور ہندوستان میں آزادی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا ، خاندانی روایت کے مطابق اخلاق الرحمن قدوائی کی ابتدائي تعلیم کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا، ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1928 میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے اور یہاں داخلہ لیا ، تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دوسری نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کہ حصہ لیتے تھے ، ایسی تمام سرگرمیوں میں بھی انہوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیت ثابت کی۔
1940 میں انہوں نے جامعہ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی 1940 میں ہی انہوں نے نیجی مشہور کمپنی سپلا سے اپنی کریئر کا آغاز کیا، اسی دوران اس کی شادی ہوئی اور جمیلہ صاحبہ سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ شادی کے بعدوہ امریکہ گئے اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور انہوں نے کچھ عرصے یونیورسٹی آف ایل ان وائس میں گزارا پھر کورنیل یونورسیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ، 1951 میں اخلاق الرحمن قدوائی علی گڑھ مسلم یونیوسیٹی گئے اور یہاں انہوں نے بایو کمیسٹری کا شعبہ قائم کیا جو ہندوستان میں اس شعبہ کا پہلا شعبہ تھا وہ اس شعبے کے سربراہ بنائے گئے۔ 1967 تک درس وتدریس کے اس سلسلے کے دوران انہوں نے بایو کیمسٹری کے موضوعات پر تقریبا50مقالے لکھے ،جن پر پہلے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا تھا ، یہ مقالے ملک کے اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہوئے۔ قدوائی صاحب نے تعلیم عام کرنے کو اپنا نصب العین بنایا اور تعلیم کو روزگار سے جوڑنے کے علاوہ مدرسوں میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی تعلیم عام کرنے میں خاص دلچسپی لی انہوں نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے خاندان سے باہر کے لوگوں کو بھی تعلیم کی طرف راغب کیا
40 |
اسی دوران وہ یہاں کی دونوں یونیور سیٹوں کے چانسلر بھی ہوگئے اور انہوں نے ان یونیورسیٹوں کی تعلیم وتدریس اور ترویج وترقی کے لیے خصوصی توجہ دی، انہوں نے نورتھ ایسٹن زونل کلچر کونسل کے صدر نشیں کی حیثیت سے عملی فنوں کے دواہم مراکز شانتی نکتین کولکاتہ میں قائم کئے اور ایسٹن زون کے ہر ممبر ریاست میں ثفافتی پروگرام کی شروعات کرائی اور ثقافتی سرگرمیوں میں ہم رفتگی پیداکی، ڈاکٹر قدوائی کی وجہ شہرت ایک ماہر تعلیم کے طور پر ہے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی زندگی یقینا ایک بہ مقصد اور کامیاب زندگی تھی ، وہ جہاں بھی رہے ایک نیر تاباں بن کر رہے، ہر چاہنے والے کو ان سے روشنی اور تقویت ملتی رہی ، بہار اور بنگال کے عہدہ گورنر نشینی کے دوران ڈاکٹر اخلاق الرحمن نے توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کی جس حیثیت سے سرپرستی اور آبیاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، در حقیقت توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے فاؤنڈر عبد المتین السلفی رحمہ اللہ سے ان کے گہرے تعلقات اور ٹرسٹ پر ان کے جو احسانات ہیں وہ فراموش نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کو ڈاکٹر صاحب نے متعدد بار شرف زیارت سے نوازا ، راحت پور ہائی مدرسہ دوموہانہ میں پہنچ کر ٹرسٹ کی ہمت افزائی کی ،جامعہ عائشہ الاسلامیہ للبنات میں تشریف لاکر شمالی مشرقی ہندوستان میں لڑکیوں کی اولین دینی درس گاہ کی تشجیع کی وہیں جامعہ الامام البخاری میں قدم رنجہ ہو کر نہ صرف اپنی تعلیمی دوستی کا ثبوت دیا بلکہ اس پسماندہ علاقے میں ٹرسٹ کی تعلیمی خدمات کی تعریف کی ۔اور ذمہ داروں کا حوصلہ بڑاھایا، ٹرسٹ پہنچ کر ان کی خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب ان کی نگاہوں نے آئی ٹی آئی کا معاینہ کیا ، کیونکہ وہ خود تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنالوجی سے مربوط متحرک نسل وقوم کے متمنی اور خواہاں تھے ڈاکٹر قدوائی چاہے کہیں بھی کسی بھی حال میں اور کسی بھی عہدے میں فائز رہے انہوں نے اپنی تمام زندگی انسانیت کی خدمات میں گزاری ہے ، سرکاری اور آئینی عہدوں نے ان کے ان جذبے کو مزید جلا بخشی ، ان کی تمام زندگی اور ان کی خدمات کسی بھی شخص کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر اخلاق الرحمن سادگی کے پیکر تھے
وجاہت حبیب اللہ
میرا رشتہ اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کے ساتھ ایک رشتہ دار کی حیثیت سے تھا ، ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن ان کے ساتھ بہت نزدیک کا رشتہ تھا ، اور اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، اور اس کے بارے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ قدوائی خاندان -جس کا نمائندہ اخلاق صاحب تھے اور ہمارا خاندان حبیب اللہ خاندان ہے اس کے رشتے بہت پرانے ہیں ، خونی رشتہ یقینا نہیں تھا لیکن شادیاں اکثر ہمارے خاندانوں کے درمیان ہوئی ہیں، اور اس کے نتیجے میں ہمیں ایک دوسرے کو بہت نزدیک سے دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا تھا اور اس لیے ان سے میں نے جو سیکھا وہ میری زندگی میں کام آیا۔ وہ دو چیزیں تھیں۔ اول تو آپ نے سنا ہےکہ کون کون سے عہدوں پر وہ مامور رہے ہیں۔ امریکہ سے لیکر پڑھائی اور گورنر تک ایک بات مسلسل ان کی زندگی میں پائی جاتی تھی سادگی۔ یعنی ظاھر ہے کابینہ کی حیثیت سے وہ صدارت کرتے تھے، لیکن خود ان میں وہ سادگی ہمیشہ رہی اور سادگی کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنا کام کرتے رہے اور ہر ایک سے ملنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے، ان سے ملنا ان سے ملاقات کرنا اور ان سے مشورہ حاصل کرنا یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی، میرے خیال میں یہ ایک سبق ہے جو ہمیں سیکھنا چاہئے، دوسری بات بغیر شور شرابےاور بغیر اشتہار کے اپنے کام میں لگے رہنا اور یہ طے کر لینا کہ زندگی میں ہمارامقصد کیاہے؟ اسی لیے جس عہدے پر وہ فائز تھے اس کی ذمہ داری خوب خوب نبھاتے تھے ۔ یہی ان کا مقصد تھا ان کی سائنسدانی میں یہ خوبیاں تھیں جن کا تذکرہ ہوا، ایک بات ہے جس کے بارے میں تذکرہ ضرور ہوا لیکن اس کی اہمیت جس پر ابھی تک کسی نے زور نہیں دیا اور وہ تھی تعلیم میں خطا نہیں کریں گے۔
آپ کو پتہ ہے ،آنکڑے آپ کو بتائیں گے کہ ہندوستان میں جو مسلمانوں کی آبادی ہے تعلیم میں وہ پچھڑ گئے، ترقی یقینا ہوئی لیکن اس رفتار سے نہیں ہوئی ہے جس طرح سے اوروں کی ہوئی ، لیکن یہ سارے ہندوستان کی بات نہیں ہے، میں لکشدی میں بھی رہا، لکشدی میں ساری آبادی مسلمان ہے اور سو فیصد پڑھی لکھی ہے ، کیرل میں بھی یہی بات ہے تو ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اور جب میں اقلیتی کمیشن کا چیر مین رہا تو میں نے پایا کہ جو مسلمان کی خواتین ہیں، جو بچیاں ہیں، ان کی تعلیم کا جو معیار ہے وہ بہت کم ہے لیکن ان کی کوششوں کے نتیجے میں اب وہ بدل چکا ہے، اب یہ حقیقت ہےکہ جہاں اسکول ہے وہاں مسلمان لڑکیاں زیادہ ہیں اور مسلمان لڑکےکم، تو تعلیم پورا کرنے میں جہاں ان کے پاس سہولت ہے اس میں لڑکیاں زیادہ تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ ایسی بہت ساری جگہیں ہیں جہاں اسکول نہیں ہےجس وجہ سے بچوں کو تعلیم کے لیے دور بھیجنا پڑتا ہے، وہاں والدین اپنے بچیوں کو پڑھنے کے لیے دور نہیں بھیجتے تو اس کا علاج ہےکہ ایسے علاقے میں اسکول کھولا جائے، سرکار اسکول کھولے تو اچھی بات ہے اور نہ کھولے تو ہم کھول سکتے ہیں ۔ اور بہت سارے ایسے ادارے ہیں جس میں محنت کر رہے ہیں، اس میں اس وقت حیثیت اتنی اچھی نہیں ہے لیکن آگے جاکے اچھی ہوسکتی ہے ،کیونکہ اخلاق چچا جیسےمسلمان یہاں ہیں ،جو اس کی طرف کوشش کررہے ہیں ، ضرور یہ ایک درس کا موقع ہے۔کہ ایک وسیع انسان کے لیے انفرادی خراج عقیدت دئے ہیں ، لیکن خوشی کا بھی موقع ہے آپ سب کو دیکھتے ہوئے، یہ بات کرتے ہیں کہ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہرکوئی آگے جاکے اس ہال سے باہر نکل کے کیا کرسکتے ہیں ؟کہ ان کی زندگی میں جو پیغام ہے اس کو آگے بڑھا یا جائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اظہار تشکر
مونس آر قدوائی
معزز حاضرین! اپنے والد کے بارے میں زیادہ کیا کہوں گا۔
خدا رحمت کننداں عاشقان پاک ہم طینت را۔ اور آپ لوگوں سے گذارش کروں گا کہ مرحوم کی مغفرت کی دعا فرمائیں مگر ایک بات میں ضرور کہنا چاہتا ہوں، وہ ہے اظہار تشکر، نہ صرف میں اپنی طرف سے بلکہ اپنے بھائی انیس الرحمن قدوائی کی طرف سے۔ اور باقی اھل خانہ کی طرف سے شکر گزار ہوں توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کا جنہوں نے اس مجلس کا اہتمام کیا اور بہت کم وقت میں انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ یہ سب کرلیا ۔ قدوائی صاحب کا بہار سے کافی تعلق رہا ،اور ایک محبت کارشتہ جوڑ دیا تھا ،جس کا مظہر آپ لوگوں نے آج دیکھاہوگا، ماشاء اللہ جتنے لوگ تھے ،زیادہ تر لوگ بہار سے تعلق رکھنے والے تھے قدوائی صاحب کو بھی بہار سے لگاؤ ہوگیا تھا اور بہار کے لوگوں کو بھی ایک بارپھر شکریہ۔ اور امید ہےکہ آپ لوگ دعا فرمائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرے پیارے بھائی اخلاق الرحمن قدوائی
نجمہ رضوی قدوائی
آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے کہ وہ میرے بڑے بھائی تھے ہم لوگ چار بہنیں اور تین بھائی تھے، ان کو ہم لوگ بھیا کہتے تھے، اور وہ ہم سب کا بے حد خیال رکھتے تھے ،اور ہم سب کی تعلیم کاان کو خاص طور پر خیال تھا، ان میں سب سے بڑی بات جو تھی وہ یہ کہ ان کا اٹیٹیوٹ تھا ۔ ہر چیز کے لیے وہ مثبت سوچ رکھتے تھے کبھی نا سننا پسند نہیں کرتے تھے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا، آٹھ سال کی عمر میں جامعہ ملیہ میں اپنے چچازاد بھائی شفیق الرحمن کے ساتھ آگئے ، یہیں سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اس کے بعد انہیں cipla کمپنی میں کام (job )مل گیا، جو ان کی مرضی اور مضمون کے مطابق تھا بھیامحنت سے کام کرتے رہے اور جب گاؤں آتے تھے تو ہم سب کی تعلیم وتربیت کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے ،اور تسلی دلاتے تھے کہ مجھے ممبئی میں گھر مل جائے گا تو میں تم سب کو وہاں لے چلوں گا اور وہیں پڑھنا ،کچھ عرصے بعدکورنیل یونیورسیٹی کی طرف سے اسکالر شپ آفر ہوگیا اور پھر وہاں جانے کی تیاری کرنے لگا ۔ بھائی کو کامباب بنانے میں ان کی بیوی کا بڑا ہاتھ تھا۔ جاتے وقت ان کی شادی ہوگئی تھی اور ان کے د وبچے بھی تھے۔
امریکہ سے واپس آنے کے بعد بھیا ہم لوگوں کو علی گڑھ لےگئے وہاں ہم لوگوں کا ایڈمیشن کرایا اور پھر ہم لوگ وہیں سے گریجویشن کئے پھر اردو میں ایم اے کرنے کا مشورہ لیا تو بھیا نے مجھے اجازت دےدی ۔خلاصہ کلام یہ کہ وہ ہم سب کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے اور انہی کی محنت سے ہم لوگ اس مقام تک پہنچے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے آر قدوائی یونیورسٹی کا قیام اصل خراج عقیدت ہے
انجینئر اسلم علیگ : صدر ہومین چین
میں یہاں صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ اگر سچ مچ میں جناب اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے لیے ایک اچھا موقع ہے اور جس طرح سے بہار سرکار نےابھی پرائویٹ یونیورسیٹی کھولنے کے لیے آسان بل پاس کیا ہے ،میں یہ چاہوں گاکہ جس طرح سے پروفیسر طلعت احمد صاحب نے یہاں اعلان کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوسکتا ہے کہ باقی زندگی سیمانچل کےکشن گنج میں گزاریں گے ۔اور ہمارےدس پندہ سال میں سیمانچل کے بہت سارے پروفیسر حضرات جس میں پروفیسر سرور صاحب جامعہ ہمدرد ، خالد مبشر ، رقیب،پروفیسر غالب صاحب پروفیسر اشتیاق صاحب یہ تمام لوگ اس علاقے کے لیے دھروہر ہیں ،تو توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیرمین سے گذارش ہیکہ آپ اپنی فائل کو پرائویٹ یونیورسٹی کے لیے جلد سے جلد بہار سرکار کو دیں اور انشاء اللہ اگلے سال ہم لوگ اس طرح کا ایک سیمنار کریں گے اس میں سچے دل کے ساتھ اس یونیورسیٹی کا سنگ بنیاد رکھا جائیگا اور اے آر قدوائی صاحب کو ہم لوگ اس وقت یاد کریں گے اور اس یونیورسیٹی کو زمین میں اتار کر کے کشن گنج میں سچ مچ میں اے آر قدوائی صاحب کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محنت اور اخلاص ہی کامیابی کا ضامن ہے
پروفیسر مجیب الرحمن: جے این یونئی دہلی۔
میں اس بات کا اہل نہیں ہوں کہ جناب ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے اوپر بولوں، ذاتی تجربات نہیں ہیں ، لیکن جو کچھ اس سیمینار میں میں نے سنا اور جو بھی اس کے بارے میں پڑھا ان میں سے دو باتیں صرف میں کہنا چاہوں گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "خیرکم من انفعکم للناس" تم میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو، اگر ہم اس حدیث کا مصداق ان کی زندگی میں دیکھیں تو اس سے اچھا مصداق نہیں ہوگا ، دوسری بات جو ہمیں ان کی زندگی سے درس ملتا ہے وہ یہ ہےکہ بنا محنت کے اور بنا اخلاص کے کوئی چیز دنیا میں نہیں حاصل ہوسکتی ، اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے اگر ہماری قوم کو کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو بڑی محنت کے ساتھ اور بڑی اخلاص کے ساتھ ہمیں اپنا راستہ خود چننا ہے ، اگر ہم اخلاص کے ساتھ کام کریں گے اور جو ہمارا میدان ہوگا اس میں ہم ایکسلینس لانے کی کوشش کریں گے تو ہمارے راستے ہمیشہ کھلیں ہیں اور ہمارا مستقبل روشن ہوگا اور آخری بات یہ کہنا چاہوں گا کہ چاہئے جتنی بھی دشواریاں ہو ہمیں ہمیشہPositive Atituteمثبت سوچ ہونا چاہئے جو ہمیں ان کی زندگی سے ملتا ہے، اور سب سے آخر میں توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ چیرمین مولانا مطیع الرحمن مدنی صاحب اور توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ کے تمام کارکنان کو میں مبارکبا ددیتا ہوں کہ انہوں نے اتنا شاندار پروگرام آرگنائز کیا ،اتنا بڑا ہال پورا بھرا ہوا تھا یہ اس بات کا شاھد ہے کہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کتنے مقبول تھے اور ان کی خدمات کتنے مقبول ہیں ۔
ہم دعا کرتے ہیں اللہ مرحوم کی مغفرت کرے اور ہم تمام مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔آمین!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ کلمہ تشکر
عرفان الرحمن
ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کی حیات و خدمات پر منعقد اس اہم سمینار میں مجھے یہ موقع ملا ہےکہ میں کلمہ تشکر پیش کروں ویسے تو میں بھی چاہتا تھا کہ اخلاق صاحب کے بارے میں کچھ بو لوں، ان کے لیے جتنا بھی بولاجائے وہ کم ہے۔ عام طور پرجب کوئی بھی انتقال کرتا ہےتویہ کہا جاتا ہے کہ چراغ گل ہوگیا ،لیکن میں آپ حضرات سے فخر کے ساتھ کہنا چاہوں گہ یہ بات اخلاق الرحمن پر لاگو نہیں ہوتی ہے۔
اس لیے کہ وہ چراغ گل نہیں ہوا ہےبلکہ انہوں نے ہزاروں چراغ چلادیئےہیں۔ اگر آپ ان باتوں پر غور کریں گے جو لوگوں نے یہاں آپ سےکہیں ہیں تو میں ان کے خاندان کا ایک فرد ہونے کے ناطے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید ایک بوند بھی نہیں تھی جو انہوں نے کارنامے انجام دیے ہیں۔ جو شاید آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے صرف باہر والوں کے لیے کام نہیں کیا ، انہوں نے اپنے خاندان کے لیے بھی بہت کچھ کیاہے ۔جو کچھ بھی آج ہم لوگ خاندان میں ہیں وہ انہی کی بدولت ہیں، خاندان کا جو بھی فرد پیدا ہوتا تھا اس کی پڑھائی کےلیے انہیں فکر ہوتی تھی ، چاہے اس کا بھتیجا ہو، بھانچہ ہو یا کسی طرح کا رشتہ دار ہو ہر ایک کے لیے فکر ہوتی تھی کہ وہ کہاں پڑھے گا ؟ کس اسکول میں پڑھے گا؟ کیسے اس کی تعلیم ہوگی؟۔ علی گڑھ میں تھے تو سب لوگوں کو بلاکر اپنے گھر میں رکھتے تھے سب لوگوں کو تعلیم دلاتے تھے یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اس سے ان کی کیا رشتہ داری ہے ۔آج ان کی وجہ سے خاندان میں لوگ بن گئے ہیں اورآگےبڑھ گئے ہیں، اگر شاید وہ ایک شخص خاند ان میں نہ ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ آج جو لوگ خاندان کے یہاں پر ہیں وہاں تک نہیں پہنچ پاتے، افسوس کی بات ہےکہ ہم لوگ ان کے ہونے کے باوجود اگر پانچ فیصد بھی ہم لوگوں میں کچھ آگیا ہوتا تو آج ہم بھی کچھ ہوتے۔
میں توحیدایجوکیشنل ٹرسٹ کا بہت بہت شکر گزار ہوں ، خاص طور سے مطیع الرحمن صاحب کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اتنا اچھا سیمنار منعقد کیا ۔ اس میں بہت اچھی اچھی باتیں ہوئیں ،لوگوں نے بڑی بڑی باتیں کہیں۔قدوائی صاحب کے لیے ان کے دل میں جو حوصلہ ہے اور قدوائی صاحب کا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو رہنمائی کے لیے جامعہ کے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں اخلاق الرحمن صاحب کا نام رکھ دیتا تو بہت اچھا ہوتا اسی طرح توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیرمین صاحب سے گزارش کروں گا کہ کورڈینٹ کر کے ان کے نام سے وہاں کوئی یونیورسیٹی کھول دے تو بہت اچھا ہوگا۔ قدوائی صاحب یوپی کے ہونے کے باوجود بہار کے ہوچکے تھے۔وہیں کی زبان میں بات بھی کرتے تھے۔
صلاح الدین مقبول :امیر جمعیت اہل حدیث ہند دہلی
آپ کا ردعمل کیا ہے؟