تعلیمی اداروں کی تعمیر وترقی میں فضلاء جامعات سعودیہ کا کردار
مذہب اسلام میں تعلیم کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ تعلیم کی اہمیت وفضیلت کے لیے یہی بات کافی ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الہی کا آغاز حکم 'اقراء' سے ہوا۔ قرآن کی ہر آیت اپنے مخاطب کے اندر علم و ادراک پیدا کرتی ہے اور اسے اس کے حصول کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ مختلف اسلو ب اور پیرایہ میں انفس وآفاق میں غور وفکر کی دعوت اس حقیقت کی دلیل ہےکہ اسلام کو علم سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام چاہتا ہےکہ اس کے متبعین اپنے دل ونگاہ کو اللہ کے دیئے ہوئے نور علم سے منور کریں۔
تعلیمی اداروں کی تعمیر وترقی میں فضلاء جامعات سعودیہ کا کردار
"…محمد اشفاق سلفی
مذہب اسلام میں تعلیم کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ تعلیم کی اہمیت وفضیلت کے لیے یہی بات کافی ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الہی کا آغاز حکم 'اقراء' سے ہوا۔ قرآن کی ہر آیت اپنے مخاطب کے اندر علم و ادراک پیدا کرتی ہے اور اسے اس کے حصول کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ مختلف اسلو ب اور پیرایہ میں انفس وآفاق میں غور وفکر کی دعوت اس حقیقت کی دلیل ہےکہ اسلام کو علم سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام چاہتا ہےکہ اس کے متبعین اپنے دل ونگاہ کو اللہ کے دیئے ہوئے نور علم سے منور کریں۔
تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ہی اسلامی تاریخ کے ہر دور اور ہر زمانہ میں درس گاہیں اور تعلیم گاہیں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں۔ عہد نبوی میں بڑا تعلیمی ادارہ خود ذات نبوی تھی ۔ مقام نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد آپ کا ہر لحمہ ہر زمان ومکان میں تعلیم وتبلیغ کے لیے وقف تھا ۔ ذات رسالت کے بعد اسلام کا سب سے اہم تعلیمی ادارہ صفہ تھا ۔ یہ ایک مستقل تعلیمی درس گاہ تھی اور اس کے طلبہ (صحابہ کرام) آپ سے ہمہ وقت تعلیم وتربیت حاصل کیا کرتےتھے۔ تعلیم وتعلم کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ گویا دینی مدارس کا تاریخی تسلسل معلم کائنات کی اس درس گاہ سے جا کر ملتا ہے جس کے فیضان نے تاریخ انسانی کا دھارا موڑدیا اور یہ بھی اسی صفہ کا فیض ہےکہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود رہے وہ مدارس کے قیام اور اس کے انتظام و انصرام سے غافل نہیں رہے۔ اس اہم ترین دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے اہل خیر کے ہاتھ ہمیشہ کشادہ رہے اور افراد امت نے اپنی تنگ دستیوں میں بھی علم وعرفان کے چراغ کو بجھنے نہ دیا ۔
دینی مدارس اسلام کے قلعے، علم وعرفان کے گہوارے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے امین ہیں۔ امت پر جب بھی برا وقت آیا تو ان اداروں نے دشمنان دین کے خلاف سینہ سپر ہو کر امت کو باوقار اور آبرو مندانہ طور پر جینے کا حوصلہ بخشا، اسے ان گہواروں سے علمی وفکری اور انتظامی واخلاقی تمام محاذوں پر توانائی ملتی رہی، ان کے ذریعہ دین متین کی حفاظت وصیانت کا فریضہ انجام پاتا رہا اور اسلام کی کرنیں پورے آب وتاب کے ساتھ دنیا کو روشن کرتی رہیں۔
خود ہندوستان میں انگریزوں کے دور استعمار میں ان اداروں نے اسلامی اقدار کے تحفظ اور اسلامی علوم وروایات کی شمع کو فروزاں رکھنے کے لیے غیر معمولی اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔ آج کے مسلمانوں کی اپنے دین سے جوکچھ وابستگی ہے وہ انہی مدارس کی دین ہے۔ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے تو مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ، اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ تقسیم ہند کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑاان میں ایک بڑی مصیبت یہ بھی تھی کہ ان کے بڑے بڑے اور قدیم تعلیمی ادارے برباد ہوگئے، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر سے اپنے لٹے پٹے اداروں کو آباد کیا اور جدید ادارے بھی قائم کئے۔ اور آج الحمد للہ ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں تعلیمی ادارے موجود نہ ہوں اور جہاں قال اللہ وقال الرسول کی صدائے دلنوازنہ گونج رہی ہو۔
تعلیمی اداروں کے بقاوتحفظ کے تئیں ملت کی فکر مندی اور جدید اداروں کے قیام کے لیے اس کے قابل قدر جذبہ کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ مدارس اسلامیہ اپنے نصاب ونظام تعلیم کے تعلق سے ایک مخصوص اور قدیم روایتی ڈگر پر چلنے کے عادی ہوگئے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں اصلاح کی کوششیں نہیں ہوئیں لیکن بہر حال ان کوششوں کے وہ ثمرات حاصل نہ ہوسکے جن کی توقع تھی جس کے نتیجہ میں یہ مدارس متوقع اور مطلوبہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔ تاہم اصلاح کی ان کوششوں سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ پہلے جو لوگ اصلاح کے نام سے ہی کدکتے تھے انہوں نے بھی اس پہلو پر غور کرنا شروع کردیا ۔
دینی مدارس کی افادیت کو ہمہ گیر اور انہیں مزید نتیجہ خیز بنانے میں ملک سعودی عرب کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ سعودی عرب کی اسلامی جامعات کے دوازے ہندوستانی طلبہ کے لیے کھلے توگویا تعلیمی دنیا میں انقلاب آگیا ۔ ان طلبہ نے وہاں تفسیر، حدیث، فقہ، عقیدہ وغیرہ کا مطالعہ نئے انداز واسلوب میں کیا اور خالص علمی مزاج اور روح لے کر وہاں سے لوٹے اور اپنے ملک میں انہی خطوط پر تعلیمی نظام کو چلانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایسے علوم وفنون پر مشتمل نصاب جن کا دور گزرچکا ہے اور جن میں پڑھنے والوں کو دلچسپی بھی نہیں ہوتی ، جیسے منطق، فلسفہ ، علم کلام وغیرہ، ان کا داخل نصاب رہنا نہ صرف یہ کہ طلبہ کے لیے سود مند نہیں ہے بلکہ مدارس کے بھر پور کردارادا نہ کر پانے کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔ چنانچہ سعودی جامعات کے فارغین نے اصلاح نصاب کا ہم ترین کار نامہ انجام دیا اور ساتھ ہی جدید طرز تدریس بھی اختیار کیا۔انہوں نے قدیم علم کلام اور منطق وفلسفہ کو خارج کر کے تفسیر وحدیث اور عقائد کو مثبت انداز میں داخل نصاب کیا ۔ نصاب میں موجود فقہ کی کتابوں کی جگہ جو کسی نہ کسی خاص مکتب فکر کی ترجمان تھیں ، فقہ مقارن کو داخل کیا جو ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے مسلکوں کی وضاحت دلائل کے ساتھ کرتی ہوں۔
سعودی جامعات کے فارغین ہندونیپال میں ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دعوت وتبلیغ او وعظ وارشاد کے ساتھ ہی وہ تعلیم وتدریس کی خدمات سے بھی وابستہ ہیں۔ جن اداروں کو ان فضلاء کی خدمات حاصل ہیں بلاشبہ وہ دیگر اداروں سے بہتر ہیں۔ اس کے علاوہ ان فارغین نے نئے ادارے بھی قائم کئے ہیں اور انہیں سعودی جامعات کے طرز اور منہج پر چلانے کی سعی محمود کررہے ہیں۔ بعض ادارے بہت کم عرصے میں ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں۔ جامعۃ الامام البخاری کشن گنج(بہار) اپنے متعلقہ شعبوں سمیت کامیابی کے ساتھ جانب منزل رواں ہے اور عصری تقاضوں کے مطابق جدید منہج واسلوب میں کتاب وسنت کی تعلیم فراہم کر رہا ہے ۔ اسی طرح جامعہ امام ابن تیمیہ چندہ بارہ، جامعہ اسلامیہ دریاباد، کلیۃ الصفا للشریعۃدریا گنج، مدرسہ خدیجۃ الکبری نیپال، اور جامعہ المؤمنات لکھنؤ کے علاوہ بھی اور بھی بہت سارے ادارے ہیں جن کی حیثیت مدارس کی دنیا میں منارۂ نور کی ہے۔ فضلاء جامعات سعودیہ کے قائم کردہ اداروں کے فارغین کے ذریعہ خالص اسلام کی نشر واشاعت کا کام بہتر انداز میں ہورہا ہے اور یہ انہی کا فیض ہےکہ اب عوام میں بھی براہ راست کتاب وسنت سے استفادہ کا مزاج فروغ پارہا ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعمیر وترقی میں فضلاء جامعات کی یہ خدمات لائق تحسین ہی نہیں لائق تقلید بھی ہیں۔
لیکن ، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔ فضلاء جامعات کی ان قابل قدر اور لائق تحسین خدمات کے ساتھ ہی ان کے بعص منفی پہلو بھی بڑے نمایاں ہیں۔ تعلیمی اداروں کا قیام بلاشبہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئےکہ اداروں کا قیام مقصد نہیں حصول مقصد کا ایک ذریعہ ہے اور اسے کسی بھی حالت میں مقصد پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ ذمہ داران ادارہ اگر تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی بجائے عمارتوں کو بلندکرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے لگ جائیں تو یہ بات افسوس ناک ہی نہیں تشویش ناک بھی ہے۔ اسی طرح ان اداروں کے قیام کے پس پردہ خدمت دین اور علم دین کی نشر واشاعت کے علاوہ دیگر عوامل کار فرما ہوں تو مقصد کا حصول ناممکن ہوجائےگا۔ حصول مال وزر، شہرت وناموری یا کسی دوسرے ادارہ سے اختلاف کی بنیادوں پر جو ادارے قائم کئے جائیں ان سے بھلا دین وملت کی کون سی خدمت انجام پاسکتی ہے۔ ہمیں کسی کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور دلوں کا حال اللہ جانتا ہے پھر بھی یہ حقیقت ہےکہ بہت سے ادارے بلامقصد یا غلط مقصد کے پیش نظر قائم کئے گئے ہیں۔ بعض مقامات پربلاضرورت ایک سے زائد ادارے وجود میں لائے گئے۔اس طرح کے اداروں کے قیام سے نہ صرف یہ کہ وسائل کا بے جا اور غلط استعمال ہوتا ہے بلکہ عوام کی نگاہوں میں ان کے بانیین کا کردار بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ مدارس کے درمیان باہمی تعاون کا جو ماحول درکار ہوتا ہے اس کی جگہ حسد ورقابت لے لیتی ہے اور پھر یہ سلسلہ دراز تر ہوتا چلاجاتا ہے۔ اسی طرح بعض ذمہ داران مدارس کا ، جو خود بھی عالم دین ہوتے ہیں ماتحت کام کرنے والے اپنے ہی جیسے دوسرے علماء کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور طلبہ واساتذہ کی تضحیک نیز حصول زرکی خاطر ہرجاوبے جا طریقہ استعمال ایسی باتیں ہیں جن سے فضلاء جامعات کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا ذکر کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے لیکن بہر حال یہ حقائق ہیں جن کا اظہار نصح وخیر خواہی کے جذبہ اور اصلاح احوال کی غرض سے کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد فضلاء جامعات کی تنقیص وتضحیک اور ان کی قدر اندازی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمومی صورتحال ہے۔
مذکورہ بالا نقائص کے باوجود یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعمیر وترقی میں فضلاء جامعات کا کردار مستحسن ، مفید، قابل قدر اور نتیجہ خیز ہے اور اگر تھوڑی توجہ اور دی جائے اور باہمی تعاون کی فضا ہموار کی جائے تو مزید موثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ فضلاء جامعات کو سنجیدگی سے اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے اور ہماری نیتوں اور ہمارے کاموں میں اخلاص عطا فرمائے نیز ہمیں جامعات سعودیہ اور اپنے ملک وملت کے لیے مفید بنائے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟