اہل سنت والجماعت کے صحیح مفہوم کو سمجھنا مسلمانوں کا بنیادی فریضہ ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی سازش رچی جارہی ہے اس سے پتہ یہی چل رہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت و عداوت اہل باطل کی نس نس میں سمائی ہوئی ہے،انہیں اسلام کی ترقی و سربلندی کسی کروٹ چین کی نیند سونے نہیں دے رہی ہے،
اہل سنت والجماعت کے صحیح مفہوم کو سمجھنا مسلمانوں کا بنیادی فریضہ ہے۔
"…مطیع الرحمن عبد المتین
اس وقت مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی سازش رچی جارہی ہے اس سے پتہ یہی چل رہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت و عداوت اہل باطل کی نس نس میں سمائی ہوئی ہے،انہیں اسلام کی ترقی و سربلندی کسی کروٹ چین کی نیند سونے نہیں دے رہی ہے،کیونکہ اہل باطل کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تمام تدابیر لچر اور بودی ثابت ہوتی جارہی ہیں جس کے پاداش میں ملک اور بیرون ملک میں ایک نئی چال چلنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح سے مسلمانوں کے درمیان باہم نفرت و عداوت کی ایسی لمبی دیوار کھڑی کر دی جائے جسے مسمار کرنے کی سکت کسی میں نہ ہو،اسی کے مقصد کے پیش نظر اسلام دشمن طاقتین صحیح معنوں میں شریعت اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے والوں اور قرآن وسنت و سلف کی طرف اپنی نسبت کرنے والوں کے اوپر انتہا پسندی کا الزام لگا کر انہیں پوری دنیا میں متشدد فرقہ قرار دینے کی مذموم سعی کررہی ہیں، واضح رہے کہ اگر قرآن و سنت اور سلف صالحین کے طریقہ پر چلنے کا نام ہی انتہا پسندی ہے تو پھر اسلام کی صحیح اور موزوں تعریف اور کیا ہوگی۔یہ بات پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ہی صحیح معنی میں مذہب اسلام کی بنیاد ہیں۔اگر مسلمان ان دونوں پر عمل کرنے سے گریز کرے تو پھر ان کے پاس شریعت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جائیگی۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے مسلمانان عالم پوری شد ومد کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف متحد ہو کر قرآن و سنت کی پاسداری کا ثبوت دیں۔اس سلسلہ میں مسلمانوں پر جو بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اہل سنت و الجماعت کے صحیح مفہوم کو باریک بینی سے سمجھیں ،اور کسی فتنہ پرور کی فتنہ پروری میں ہر گز نہ پھنسیں۔
اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اہل سنت و الجماعت کا صحیح مفہوم اور افراط و تفریط سے بچانے میں اس کا کردار، کے عنوان پر فریق ربانی و موسسۃ رافد للبحوث و للدراسات کی جانب سے بروز ہفتہ، کویت میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا ،جس میں ہندستان ، پاکستان ،سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر ، سوڈان،اردن ، لبنان ، عراق، جزائر،اور کویت سمیت تقریبا پچیس ممالک میں سے علماء اہل سنت و الجماعت کے چنندہ حضرات نے شرکت کی،جن میں ہندستان کی مایہ ناز شخصیت شیخ اصغر علی امام مہدی و شیخ صلاح الدین مقبول اور عالم اسلام کے نامور عالم دین یوسف القرضاوی وغیرہ نے شرکت کی۔ انہوں نے اس عالمی کانفرنس میں اہل سنت و الجماعت کے صحیح مفہوم کی وضاحت اور دین کے نام سے رائج غلو و زیادتی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اہل سنت و الجماعت ہی در اصل کتاب و سنت کے پیروکار ہیں ، ان کے نزدیک دین کے نام سے رائج ہر وہ چیز قابل مذمت و باطل ہیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔اس کانفرنس میں شامل علماء اہل سنت والجماعت کا اصل نصب العین اور لائحہ عمل مندرجہ ذیل ہیں۔
)ا)مت اسلامیہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے طور طریقہ سے روشناس کرایا جائے،ساتھ ہی ساتھ علم و معرفت کے ائمہ جن میں چاروں امام شامل ہیں ان کے منہج سے امت مسلمہ کو واقف کرایا جائے،(۲)اہل سنت و الجماعت کا دفاع کیا جائے اس طور پر کہ غلو پسند لوگوں کی طرف سے شریعت میں تحریف و جاہلوں کی بیجا تاویلات کے ساتھ ساتھ اہل باطل کے خرافات سے اسے بری کیا جائے۔(۳)اس بات کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے کہ اس امت کے آخری سرے کی اصلاح و درستگی اسی چیز سے ممکن ہے جس سے اس امت کے اولین سرے کی اصلاح ہوئی ہے۔ (۴)امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کے لئے سب سے عمدہ و بہتر طریقہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ انہیں خیر و بھلائی کی تلقین کے ساتھ ساتھ حق بات کی وصیت کی جائے اور نیکی کے کاموں میں مدر کرنے،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرف راغب کیا جائے۔اس کے بعد کانفرنس میں شریک دانشوروں نے اپنا نصب العین طے کرنے کے بعد کچھ ضروری اور اہم قرار داد پاس کئے ہیں جن کا ذیل کی تحریروں میں ذکر کیا جارہا ہے۔
* اہل سنت و الجمات در حقیقت قرآن و سنت کے پیرو کار ہیں، انہی دونوں چیزوں کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے ان کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ قرآن و سنت کو ہر اس چیز پر مقدم رکھتے ہیں جو ان کے خلاف و متضاد ہو۔بلکہ وہ اسے مضبوطی تھامے رہتے ہیں۔اسی وجہ سے کہ ان کا نام اہلسنت و الجماعت پڑا ہے۔وہ کئی القاب سے جانے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اہل حدیث،اہل اثر،فرقہ ناجیہ، طائفہ منصورہ، امت وسط، اہل احق،سلفی، اور اس جماعت کے پیش رو و رہنما حضرات صحابہ کرام ہیں،ان کے بعد تابعین میں سے خاص طور پر سعیدابن مسیب ،ابن سرین، عطا بن ابی رباح، حسن البصری ، و الزہری ، اور تبع تابعین میں ابوحنیفہ، سفیان ثوری، مالک، اوزاعی، لیث بن سعد، اور وہ لوگ جو ان کے بعد دنیا میں آئے اور انہی کے طور طریقہ پر چلے،جن میں شافعی ، احمد ، امام بخاری،ابن خزیمہ وغیرہ سر فہرست ہیں۔چنانچہ یہ نہایت ہی پرانا مذہب ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کی شروعات امام احمد، و ابن تیمیہ، اور محمد بن عبد الوہاب سے ہوئی ہو۔بلکہ یہ تو صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین کا منہج و مسلک ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دین کا احیاء کرنے ،اسے غالب رکھنے اوراس کی نشر و اشاعت کرنے میں پیش پیش تھے،ایسے پر فتن دور میں جبکہ بدعت و خرافات سر چڑھ کر بول رہی تھیں،اور سنت رسول کی پامالی ہورہی تھی۔یہی وہ منہج ہے جس کی حفاظت و پاسداری کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی ہے ،لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دی ہے اور اس کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے متبعین کے لئے اپنی مغفرت کو واجب و ضروری قرار دیاہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشا د فرمایا:" وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ"(1)ترجمہ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ سب اسسے راضی ہؤے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بکثرت ثابت ہے کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا ان کو رسوا کرنے والے ان کا مذاق ازانے والے انہیں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہونچاسکتے ہیں یہاں تک اللہ کا فیصلہ نہ صادر ہوجائے۔
یہاں سلف صالحین کے بارے میں امام شافعی کے قول کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ علم و آگہی ، عقل و شعوراور فضل و کمال مین ہم سے حد درجہ بلند اور افضل ہیں، بلکہ وہ ہر اس چیز میں ہم سے افضل ہیں جو حصول علم کا سبب اور رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔یہاں تک کہ ان کی رائے ہماری رائے کے مقابلہ میں بدرجہاں بہتر ہے۔حافظ ابوالقاسم التیمی رحمہ اللہ کی وہ وہ بات بھی قابل ذکر ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب الحجۃ فی بیان المحجۃ میں کہی ہے کہ’’ اہل سنت و الجماعت نہ کتاب و سنت کے احکام میں حد سے تجاوز کرتے ہیں نہ ہی سلف صالحین کے اجماع سے سر مو انحراف کرتے ہیں نہ وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑتے ہیں نہ ہی ان کی ایسی تاویل کرتے ہیں جس سے کسی فتنہ کے جنم لینے کا خدشہ ہو۔‘‘بلکہ وہ تو صحابہ کرام اور تابعین کی اصل پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے متبعین کی بھی پیروی کرتے ہیں جو عملی و قولی طور پر انہیں اپنا آئڈیل و نمونہ سمجھتے ہیں۔
* اہل سنت و الجماعت کا منہج ایک ہے متعدد نہیں ہے،یہی اس کی پہچان ہے یہ ایسی حقیقت ہے جس میں باطل کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ یہ میانہ روی پہ قائم ہیں نا کہ غلو و زیادتی اور دین میں کمی و بیشی کے راستہ پر۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت سے گہری انسیت رکھتے ہیں اور حق کو سمجھنے میں سب سے پیش پیش ہیں۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل ہیں ،اپنے فیصلہ میں انصاف پسند ہیں اور راہ راست کی طرف ہدایت یافتہ ہیں۔وہ اپنی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی فرد بشر کی طرف نہیں کرتے ہیں نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کے سامنے کسی قیاسی دلیل ، عقلی دلیل، فلسفیانہ نظریہ،کسی مجتہد کا اجتہاد یا کسی منطقی قاعدہ کو پیش کرکے اپنی بات کو فوقیت دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ اس دین پر قطعیت کے ساتھ قائم و دائم ہیں جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا،وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس دین کی دعوت دی اس میں کسی طرح کی کوئی غلطی یا کمی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اس سلسلہ میں آپ کی ذات معصوم ہے بے گناہ ہے،اس کے علاوہ تمام لوگوں کے اقوال و افعال قرآن وسنت کے سامنے پیش کرنے کے بعد اگر وہ اس کسوٹی میں کھڑے ثابت ہوتے ہیں تو انہیں تسلیم کرتے ہیں اور اگر اس کے برخلاف ہو تو اسے لائق عمل نہیں سمجھتے ہیں۔خواہ جو بھی ہو۔ان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی نسبت کسی جماعت یا گروہ کی طرف نہیں بلکہ اسلام اور سنت رسول کی طرف کرنے ہی میں اکتفا ء کرتے ہیں۔اور شرعی القاب اختیار کرنے کے پابند ہیں۔
*اہل سنت و الجماعت محض اللہ تعالی کی عبادت کرنے پر قائم ہیں وہ عبادت میں اللہ اور اپنے درمیان کسی قریبی فرشتہ،کسی نبی مرسل، یا ولی وغیرہ کو واسطہ و ذریعہ نہیں بناتے ہیں۔اس لئے کہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عبادت اللہ تعالی کی تمام صفات کاملہ اور بزرگی و برتری کے ساتھ صرف اسی کے لئے خاص ہے اس میں صرف اسی کا حق ہے۔اور وہ اسے ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ کرتے ہیں جو اس کے شایان شان نہیں ہیں۔
*ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام شافغی اور امام احمد بن حنبل یہ سب امت مسلمہ کے مجتہدین میں سے ہیں،ان کے اجتہاد کا مقصد حق کی جانب رسائی کرنا ہے، لہذا امت اسلامیہ کے اوپر ان کی عزت و توقیر کرنا لازم و ضروی ہے۔ اس اعتقاد کے ساتھ کہ ان سے خطا و صحت دونوں کا امکان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں صورتوں میں وہ ثواب کے حق دار ہیں۔ان کی باتوں پر چلنے والوں کے لئے ضروی ہے کہ وہ صرف انہی باتوں کو قابل عمل سمجھیں جن پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو۔ان تمام کے لئے ہم رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ان کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
* ائمہ اربعہ ، امام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام شافغی اور امام احمد بن حنبل جس طرح یہ سب کے سب فقہ کے امام ہیں ٹھیک اسی طرح یہ عقیدہ توحید کے بھی امام ہیں۔ ان کے عقیدہ کے سلسلہ میں ان کے جلیل القدر تلامذہ جیسے ابو حعفر الطحاوی نے امام ابو حنیفہ اور ابن ابی زید القیروانی نے امام مالک اور ربیع بن سلیمان و یونس بن عبد الاعلی نے امام شافعی اور ابوبکر الخلال نے امام احمد کے عقائد کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ وہ تمام کے تمام عقیدہ کے بھی امام ہیں۔اس لئے عقیدہ میں ان کی پیروی کو ترک کر کے صرف ان کے فقہ کی پیروی کرنے پراکتفا کرنا سب سے بڑی غلطی ہے ، ضلالت وگمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب،اور ائمہ مجتہدین کوکو گمراہ و جاہل قرار دینے کے مترادف ہے۔
*ائمہ کے وہ اجتہادی مسائل جن کے سلسلہ میں نہ تو کوئی نص وارد ہے اور نہ ہی وہ اجماع سے ثابت ہیں تو ایسے مسائل میں فراخدلی سے کام لینا چاہئے نہ کہ ان کی برائی و مذمت کرنے یا گروہ بندی و اختلاف پیدا کرنے کا سبب بنایا جائے۔اس لئے اس طرح کے مسائل میں اختلاف دور اول کے علماء کے درمیان پائے گئے ہیں۔لیکن صورتحال یہ تھی کہ وہ لوگ فرقہ بندی کے ہر گز قائل نہیں تھے۔بلکہ وہ اس طرح کے اختلافی مسائل کو امت کے لئے باعث رحمت و وسعت سمجھتے تھے۔ساتھ ہی ساتھ اس بات کی ممانعت نہیں ہے کہ حق بات تک پہنچنے کے لئے باہم بحث و مباحثہ یا نقد و جرح نہ کیا جائے۔اس طرح کے مسائل میں اختلاف پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ سنت کے روگردانی کی جائے ،یافرقہ بندی اختیار کی جائے،یااختلاف کرنے والوں کو الگ الگ فرقہ کے ناموں سے موسوم کیا جائے ۔لہذااہل سنت و الجماعت کی طرف مختلف فرقوں کی نسبت کرنا درست نہیں ہے نہ ہی سلفیت کی تقسیم جائز ہے جیسا کہ ان دنوں کچھ انپڑھ و ناخواندہ حضرات ایسا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
*بعض علماء مجتہدین کی طرف سے کچھ مسائل میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اس سلسلہ میں علماء اہل سنت و الجماعت کا موقف یہ ہے کہ ان کی پیروی نہ کی جائے نہ انہیں لائقدلیل سمجھی جائے بلکہ اس کی تردید لازمی و ضروری ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان علماء کی اچھائیوں کو پس پشت ڈال دیا جائے اور ان کا مذاق اڑایا جائے۔بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کی قدر کی جائیگی۔
* مذہب سلف یہ اہل سنت و الجماعت کی شاخوں میں سے کوئی ایک شاخ نہیں ہے بلکہ یہ عین اہل سنت والجماعت ہے،بلکہ ان کے علاوہ جتنے فرقے ہیں جو اصول میں اہل سنت والجماعت سے اختلاف کرتے ہیں یا کسی دوسری علامت و نشانی سے اپنے کو متصف کرتے ہیں یہ وہ فرقے ہیں جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت بیان کی ہے۔جیسے انسانی عقل کو کتاب و سنت کے سامنے پیش کیا جائے،اور اسی کو کتاب و سنت کا حاکم بنایا جائے یا عقائد کے مسائل میں خبر آحاد کو رد کیا جائے،یا اللہ تعالی کو کتاب و سنت میں وارد ان کی جملہ صفات سے معطل قرارد یا جائے،یا اس کے معانی میں ردوبدل و تحریف کیا جائے،یا اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کی نفی کی جائے،یا اس کے مخلوق اور پوری کائنات سے بلند ہونے کا انکار کیا جائے،یا سزا و جزا میں اتنا غلو سے کام لیا جائے کہ مطلق گناہ کرنے سے کفر لازم آجائے اور مسلمانوں کی جماعت اور ان کے ائمہ سے خروج کیا جائے،یا بے گناہوں کے خون کو حلال سمجھا جائے،یا یہ عقیدہ اختیار کیا جائے کہ شریعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے ہٹ کر کسی دوسرے طریقہ سے حاصل کی جاسکتی ہے جیسے کشف و کرامات اور بزرگوں کے فیوض و برکات سے حاصل کی جائے،یا اللہ تعالی کی عبادت میں نئی نئی بدعات و خرافات ایجاد کی جائے جیسے ناچ گانا ، ڈھول تاشہ وغیرہ ۔یایہ عقیدہ رکھا جائے کہ ولایت کا مقام و مرتبہ نبوت سے افضل ہے۔وغیرہ
*کانفرنس میں شامل علماء کرام جب اللہ تعالی سے رشد و ہدایت پر تمام مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی دعا کرتے ہیں تو وہ ان تمام گروہوں کو جو کسی دوسری علامت سے متصف ہیں انہیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں وہ کتاب و سنت اور آثار سلف میں بصیرت پیدا کریں،ساتھ ہی ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ و مراجعہ کریں،اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں وہ اس دن سے ڈریں جس دن کہ نہ تو مال ودولت کام آئیگی نہ آل و اولاد سواے ان کے جو گناہ سے پاک و صاف دل لیکر آئے ،یہاں تک کہ وہ لوگ نبی کریم کی خالص سنت پر عمل پیرا ہو جائیں، جیسا کہ امام ابوا حسن اشعری کا اپنے عقیدہ کلام سے عقیدہ سلف یعنی اہل حدیث کی طرف رجوع ثابت ہے۔جس کا ذکر خود ان کی دو کتاب ،الابانۃو مقالات الاسلامین میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
*اس کانفرنس میں شامل علماء لوگوں کو بدعت و خرافات اور غلو و زیادتی کے تمام اقسام و انواع سے روکتے ہیں۔اور بعض غلو پسند جماعتوں کی نکیر کرتے ہیں جو ناحق مسلمانوں کو بدعتی یا کافر قرار دیتے ہیں۔یااسلامی ممالک میں بے گناہوں کا قتل حلال سمجھتے ہیں ،مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے کو اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا شمار کرتے ہیں۔ کانفرنس کے شرکاء خاص طور سے مسلم نوجوانوں کو اس طرح کے افکاو و خیالات سے اجتناب کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
*سلفیت کو الگ الگ گروہوں کی طرف تقسیم کرنا ،جیسے سلفیہ جہادیہ، سلفیہ تکفیریہ، یہ افتراپردازی کے سوا کچھ نہیں ہے،یہ انہی لوگوں کا کام ہے جو سلفیت کو سرے سے ہی نہیں جانتے ہیں یا پھر خواہش پرست ہیں۔اس لئے کہ سلف صالح کا منہج صرف ایک ہے اس میں تعدد اور تفرق بالکل نہیں ہے۔اور یہی اہل سنت و الجماعت کا منہج ہے نہ کسی اور کا۔جس نے بھی اس کے برعکس جو کچھ کہا گویا کہ اس نے سلفیت پر بہتان و الزام تراشی ہی نہیں بلکہ سلفیت پر ظلم و زیادتی کی ہے،ایک بات یاد رہے کہ انتہا پسند جماعتوں کا سلفیت کی طرف نسبت کرنا کسی بھی زاویہ سے صحیح و درست نہیں ہے اگرچہ وہ ایسا کرتے ہیں۔در حقیقت یہ لوگ خوارج ہیں اس لئے اعتبار حقیقت کا ہوتا ہے نہ کہ زبردستی سلفیت کے نعرے لگانے کا۔
*کانفرنس میں شریک علماء ذمہ دار مسلمانوں کو اہل سنت والجماعت کے منہج کو مستحکم کرنے اور اس کو پھیلانے ،اس کی حمایت کرنے اور اس کی دفاع کرنے کی پر زور دعوت دیتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ منہج ہے جس میں تسکین قلب ہے، تعظیم رب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور ان کی اطاعت ہے۔یہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے ساتھ ساتھ باہمی الفت و محبت کا ضامن ہے، اور دین و دنیا کی خیر و بھلائی کا کفیل ہے۔
*کانفرنس میں شریک علماء بعض مغربی و عربی میڈیاکی مذمت کرتے ہیں کہ وہ سلفیوں کے خلاف انتہا ء پسندی اور غلو پسند ہونے کا الزام لگاتے ہیں،حالانکہ وہ اس سے بری ہیں۔جیسا کہ ان کی کتابیں اور جملہ خدمات اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
*کانفرنس میں موجود اہل دانش حوثیوں کی طرف سے کعبہ مقدسہ کی ہتک عزت پر ان کی شدت سے مذمت کرتے ہیں،اور اسے نہایت ہی گھناونہ و وحشیانہ جرم قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کی حرمت کوپامال کیا ہے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی بد ترین کوشش کی ہیں۔
حاشیہ:
1۔ (التوبۃ ۔9/100)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟