ملک شام میں موجود نصیریوں کے عقائد
شیعوں کا ایک غالی فرقہ ، جس کے پیروشمالی لبنان ، بحیرہٴ روم کے ساحل اور شام سے لے کر ترکیہ کی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں ، ان کی مجموعی تعداد سات لاکھ کے لگ بھگ ہے ، جن میں سے نصف کے قریب شام میں جبال لاذقیہ ، طرابلس اورحماۃ وغیرہ میں آباد ہیں ، ان کی خاصی تعداد دمشق میں بھی موجود ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ نصیری یا علوی فرقے کا بانی محمد بن نصیر البصری النمیری تھا ، جوگیارہویں امام حسن العسکری کا ایک مداح اور رفیق کار تھا ، نصیریوں کے معتقدات بت پرستوں ، عیسائیوں اور اسماعیلی شیعوں کے عقائد کا معجون مرکب ہیں ، یہ لوگ اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور انہیں جان سے زیادہ عزیز جانتے ہیں ۔(1)
ملک شام میں موجود نصیریوں کے عقائد
"… شیخ ابو کلیم فیضی
جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور اسلام کی قوت وثبات کا اعلان واظہار ہوگیا تو شیطان کو بڑی مایوسی ہوئی اور اسے یہ یقین ہوگیا کہ کم ازکم اب جزیرہ عرب میں اس کی پرستش نہ کی جائے گی ، البتہ وہ اس بات سے مایوس نہیں ہوا کہ مسلمانوں کو باہم لڑاتا رہے گا اوران کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا رہے گا چنانچہ جب عہد فاروقی میں فارس اور روم کی دونوں عظیم طاقتیں ڈھیر ہوگئیں ، ان کے قلعے مسمار کردیےگئے اور ان کی تہذیب پر جنازہ پڑھ دیا گیا تو شیطان کے چیلے بھی مایوسی کا شکار ہوئے اور انھیں یہ امید نہ رہی کہ ان کی طاقت دوبارہ زور پکڑسکے گی کیونکہ مسلمانوں نے صرف ان طاقتوں کو ہی ختم نہیں کیا تھا بلکہ وہاں کے لوگوں کے سامنے جب انھوں نے دین حق کی دعوت پیش کی اور یہ واضح کیا کہ مذہب اسلام یہ ہے کہ بندہ مخلوق کی عبودیت سے نکل کر رب مخلوق کی عبودیت میں داخل ہوجائے تو لوگوں نے خوشی خوشی اور بصدق نیت اس مذہب کو قبول کرلیا ۔سیاسی محاذ پر شکست کھانے کے بعدشیطان اور اس کے چیلوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے دوسرے منصوبے بنائے اور اسلام کے خلاف کچھ ایسی سازشیں رچی گئیں اور تحریکیں چلائی گئیں جن سے اسلام کی بنیاد کھوکھلی کی جائے ۔انھی تحریکوں میں ایک تحریک شیعیت و رافضیت بھی تھی جس نے اہل بیت سے محبت اور ان سے لگاؤ کا نعرہ بلند کیا ، حالانکہ ان کا اصل مقصد دین اسلام کو نقصان پہنچانا اور روم و فارس کا بدلہ لینا تھا جیسا کہ اس فرقہ کے بانی اور اس کی اہم شخصیات کی سیرت وسوانح سے پتا چلتا ہے ۔اس فرقے میں بعض جماعتیں تو ایسی پیدا ہوئیں جو علی الاعلان شرک و کفر کا ارتکاب کرتی تھیں اور بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں جو محارم سے نکاح تک جائز قرار دیتی تھیں ، لیکن ایک چیزسب میں قدر مشترک تھی کہ صحابہ کرام نعوذ باللہ مرتد تھے اور ان کے ماننے والے جو اپنے کو اہل سنت کہتے ہیں ناصبی ہیں ، کافر ہیں اور مرتد ہیں لہذا ان کا قتل واجب اور ان سے قتال فرض عین ہے بلکہ کسی سنی کو قتل کرنا ان کے نزدیک دین کے بڑے اہم واجبات میں داخل تھا لہذا آج جو کچھ شام و ایران اور بحرین وغیرہ میں ہورہا ہے ، اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس وقت جو فرقہ شام میں اہل سنت و جماعت کا قتل عام کررہا ہے ،معصوم بچوں اورکمزور عورتوں تک کو ذبح کررہا ہے ، اہل سنت کی مسجدوں تک کو مسمار کردے رہا ہے ، یہ سب کچھ اس کے دین کا ایک حصہ ہے ۔یہ فرقہ جو آج اپنے کو علوی کہتا ہے اس کی تاریخ و حقیقت کو جاننے کے لیے درج ذیل سطور پڑھئے جو مختصر دائرہ معارف اسلامیہ سے نقل کیا جارہا ہے ۔
نصیری {علوی } شیعوں کا ایک غالی فرقہ ، جس کے پیروشمالی لبنان ، بحیرہٴ روم کے ساحل اور شام سے لے کر ترکیہ کی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں ، ان کی مجموعی تعداد سات لاکھ کے لگ بھگ ہے ، جن میں سے نصف کے قریب شام میں جبال لاذقیہ ، طرابلس اورحماۃ وغیرہ میں آباد ہیں ، ان کی خاصی تعداد دمشق میں بھی موجود ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ نصیری یا علوی فرقے کا بانی محمد بن نصیر البصری النمیری تھا ، جوگیارہویں امام حسن العسکری کا ایک مداح اور رفیق کار تھا ، نصیریوں کے معتقدات بت پرستوں ، عیسائیوں اور اسماعیلی شیعوں کے عقائد کا معجون مرکب ہیں ، یہ لوگ اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور انہیں جان سے زیادہ عزیز جانتے ہیں ۔(1)
نصیری قرامطہ اور مجوسیوں کی شاخ ہیں ، تناسخ ارواح اور قدم عالم کے قائل ہیں اور نماز ، روزہ ، حج ، و زکوۃ اور جنت و دوزح کے منکر ہیں ، ان کے نزدیک نماز پنجگانہ اہل بیت کے ذکر اور رمضان کے تیس روزے تیس ولیوں کے نام ہیں، وہ حضرت علی کو امام ارض و سما سمجھتے ہیں ۔(2)
نصیری حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ربوبیت کے قائل ہیں ، جو بادلوں میں سکونت پذیرہیں ، بادل کو دیکھ کر وہ حضرت علی پر سلام بھیجتے ہیں ، ان کے نزدیک بجلی کی گرج حضرت علی کی آواز اور اس کی چمک حضرت علی کی مسکراہٹ ہے ، اس لئے وہ بادلوں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں ، خلفائے ثلاثہ پر وہ سب و شتم کرتے ہیں، خصوصا حضرت عمر فاروق کو ناشائستہ الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور ان کے یوم وفات پر خوشیاں مناتے ہیں ، ان کی بعض شاخوں کا خیال ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے ، بلکہ کہیں غائب ہوئے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ دین اسلام کی تکمیل حضرت علی کی ولایت سے مشروط ہے ، اہل بیت ہی محرم اسرار شریعت ہیں ، جن کے فہم سے دوسرے قاصر ہیں ، غدیر خم کی بیعت اہل بیت کے حقوق کا اعلان ہے اور قرآن مجید کی محکم اور متشابہ آیات میں تمیز و تفریق کے اہل صرف ائمہ اہل بیت ہیں ، نصیری شراب کو نور سمجھ کر حلال جانتے ہیں ، اس لئے انگور کی بیل کی بڑی تعظیم و تکریم کرتے ہیں ، ان کے نزدیک ستاروں میں بھی روحانی دنیا آباد ہے ، جس کے اثرات نظام کائنات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں ۔(3)
نصیریوں کے نام عیسائیوں سے ملتے جلتے ہیں ، عید الفطر ، عید الاضحی ، عید غدیر خم اور عاشورہ محرم بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں ، علاوہ ازیں وہ کرسمس اور ایسڑ کے مسیحی اور نو روز اور مہرجان کے ایرانی تیوہار بھی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں ، وہ ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کے ہواخواہ اور آلہٴ کار رہے ہیں ، صلیبی جنگوں اور تاتاری حملوں کے دوران میں ان کی تمام تر ہمدردیاں عیسائیوں اور مغولوں سے تھیں ، اس لئے بیبرس نے ان کے خلاف تعزیری مہمیں بھیج کر ان کی گوشمالی کی ، ان کے ملحدانہ افکار و عقائد اور روز افزوں چیرہ دستیوں کو دیکھتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک استفتا کے جواب میں انہیں مرتدین اور خوارج کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے ۔(4)
سلطان عبد الحمید ثانی نے نصیریوں کی اصلاح کے لئے بڑی کوشش کی ان کے لئے علیحدہ مساجد بنوائیں ، جو جلد ہی ویران ہوکر جانوروں کا اصطبل بن گئیں ۔فرانسیسی انتداب [ 1920ء تا 1945ء ] نے نصیریوں کا نام بدل کر علویون رکھ دیا ، ان کو علیحدہ قومیت قرار دیا اور ان کو بہت سی مراعات سے نوازا اور فوج میں ان کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھرتی کیا ، آزادی کے بعد بھی علوی سرکار مناصب پر فائز ہوتے رہے اور آہستہ آہستہ تمام ملازمتوں پر قابض ہوتے گئے ، آج کل شام میں جو سوشلسٹ بعث پارٹی برسراقتدار ہے اس کے بیشتر ارکان علوی ہیں ۔
وہاں حکومت کی بعض زیادتیوں سے تنگ آکر ہزاروں ڈاکٹر ، انجنیئر ، دانشور اور ہنر مند افراد ملک چھوڑ کر سعودی عرب ، مصر اور مراکش جاکر آباد ہوگئے ہیں اور ملک میں قابل ، باصلاحیت اور تجربہ کار ملازموں کی کمی ہوگئی ہے ۔(5)
حواشی:
(1){ History of the Arabs :P.K.Hitti ص:448 تا 449 ، لندن 1958ء }۔
(2){ ابن قیم : اغاثۃ اللفان، 2: 244 ، حاشیہ قاہرہ 1961ء } ۔
(3){ محمد کرد علی : خطط الشام ، 6: 265 تا 268 ، دمشق 1928ء ، Ency of Religion and Ethics 9: 419 ، ایڈنبرا ، 1917}
(4){ ابن تیمیہ : الفتاوی الکبری ، 1 :358، 359، قاہرہ 1966ء }
(5){ Encyclopaedia Britannica ، طبع پانزدہم ، بذیل مادہ Syria } ۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟