مشکلات ومصائب میں ملت اسلامیہ کا صحیح طرز عمل
"مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے ۔اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خشیت الٰہی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔"
مشکلات ومصائب میں ملت اسلامیہ کا صحیح طرز عمل
"… رفیق احمد رئیس سلفی
لَتُبْلَوُنَّ فِيٓ أَمْوٰلِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوٓا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (1)
"مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے ۔اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خشیت الٰہی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔"
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے،وہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے،اس میں انسانی زندگی کے ان تمام مراحل کے لیے روشنی ہے جن سے ایک انسان گزرتا ہے۔قرآن کو ایک زندہ کتاب کی طرح جب سے ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے ،اس کی روشنی اور رہنمائی سے ہم کما حقہ مستفید نہیں ہوپارہے ہیں۔شجر اسلام کی جڑیں سوکھ رہی ہیں، ان میں دیمک لگی ہوئی ہے اور ہم اوپر کی شاخوں،پتیوں ،پھولوں اور پھلوں کی باتیں کررہے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب ایسے درخت پھول پھل دینا بھی بند کردیں گے،پتیاں زرد ہوکر زمین پر آرہیں گی اور شاخیں سوکھ کر ٹوٹ جائیں گی۔آج ہماری دین داری،دینی جماعتوں اور تنظیموں کی سرگرمیاں اور بڑے بڑے ادارے ان خطرات کو محسوس کرنے میں ناکام ہیں جو ملت اسلامیہ کے سر پر منڈلارہے ہیں۔استعماری قوتیں اپنا عسکری دبدبہ قائم کرکے عالم اسلام کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئی ہیں اور دوسری طرف وہ ہمارے درمیان ہی کے تعلیم یافتہ اور ذہین افراد کو آلۂ کار بناکر اور ان کی برین واشنگ کرکے انھیں اسلام،اس کی تعلیمات،اسلام کی تاریخ،اسلامی شخصیات اور اسلام کی تہذیب وثقافت کے تئیں بدظن اور بدگمان بنارہی ہیں۔مسلم سماج کی فکری قیادت کی صلاحیت رکھنے والے یہ حضرات نہ صرف کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں بلکہ ملت کی نئی نسل کو بھی فکری ضلالت کی راہ پرشعوری یا غیر شعوری طور پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔کافی بلند آواز میں اب یہ باتیں کہی جارہی ہیں کہ اسلام تو ایک ماڈرن دین ہے،دقیانوسیت اور قدامت پسندی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ،یہ تو بعض مولویوں کی غلط تعبیرات اور ناسمجھی ہے کہ دنیا اسلام کو دور جہالت وجاہلیت کی چیز سمجھنے کے لیے مجبور ہے۔اس فکر کے اثرات معاشرے میں نمایاں ہورہے ہیں ۔حلال وحرام کی تمیز اٹھتی جارہی ہے،مردوزن کا اختلاط معیوب نہیں سمجھاجاتا،حجاب کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہے اور ملی غیرت وحمیت سرد مہری کا شکار ہے۔
اس طرح اندرونی اور بیرونی آزمائشوں نے امت اسلامیہ کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔بڑی ہوشیاری سے اس وقت دہشت گردی کا ساراالزام مسلمانوں کے اوپر لگایا جارہا ہے۔دنیا میں تشدد کے واقعات جگہ جگہ ہورہے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں ہورہے ہیں لیکن ان کو دہشت گردی قرار دینے سے میڈیا کے لوگ بچتے ہیں۔دہشت گردی کیا ہے؟اس کا اطلاق کس طرح کے واقعات پر کیا جانا چاہئے ،یہ آج تک کسی نے واضح نہیں کیا۔ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے تحت اس کی تشریح وتوضیح کررہا ہے۔ملت اسلامیہ کے حکم راں اور علماء اپنے بیانات جاری کررہے ہیں اور یہ وضاحت کررہے ہیں کہ دین اسلام کسی معصوم اور بے گناہ کو قتل کرنے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے،فتنہ وفساد برپا کرنے اور عام لوگوں کو دہشت زدہ کرنے سے روکتا ہے لیکن کئی ایک ممالک ان وضاحتوں کے باوجوددہشت گردی کے واقعات کو اسلام اور اہل اسلام سے جوڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک بڑی آزمائش ہے جس سے ملت اسلامیہ آج دوچار ہے۔
زیر مطالعہ آیت کریمہ اور اس جیسی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ ایمان کو قبول کرنا اور ایمان کی راہ پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام اعدائے اسلام کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ ان کی جانب سے تمھاری جان کو بھی خطرات لاحق ہوں گے،تمھاری دولت کو بھی خطرات لاحق ہوں گے اور تم ان دشمنان اسلام سے ایسی باتیں بھی سنوگے جن سے تمھیں بے انتہا اذیت پہنچے گی اور تم شدت سے تکلیف محسوس کرو گے۔لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی،اہل حق کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے ۔اگر ان سخت حالات سے پریشان ہوکر تم نے اپنی جان و مال کی حفاظت کی خاطر اسلام کو چھوڑ دیا تو یہ بہت بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔تمھاری دنیا بھی برباد ہوجائے گی اور تم آخرت کی کامیابی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔اللہ نے اس موقع کے لیے دوباتوں کی تاکید فرمائی ہے:ایک صبر اور دوسرے تقوی۔
صبر کیا ہے؟اسلام کی اپنی اصطلاح میں صبر ثابت قدم رہنے اور جمے رہنے کو کہتے ہیں۔اردو میں یہ لفظ ایک محدود معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عربی میں اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان آزمائشوں میں صبر کا رویہ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی جن صداقتوں اور سچائیوں پر تم ایمان رکھتے ہو،اس میں کسی طرح کی کوئی کمزوری نہ آنے پائے ،حالات سے مجبور ہوکر یا کسی دباؤ کے نتیجے میں اسلام کے اصولوں اور اس کی تعلیمات سے دست بردار نہ ہونااور نہ اس کے کسی قانون کے بارے اپنے دل میں کوئی شک پیدا کرنا ۔آج کے حالات میں اسی صبر کا مظاہرہ ہم نہیں کرپاتے ہیں ۔ذرا سا جھٹکا لگا کہ سیکولر بن جاتے ہیں اور اسلام کے بجائے عام انسانی اخلاقیات اور اقدار کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔دل میں یہ خوف سماجاتا ہے کہ اگر یہ باتیں اسلام کے حوالے سے آئیں گی تو لوگ نہیں سنیں گے یا ہمارے اوپر مذہبی ہونے کاالزام عائد کردیا جائے گا اور پھر ان مراعات سے ہم محروم کردیے جائیں گے جو ایک آزاد خیال ہونے کے ناطے ہمیں حاصل ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمیں اس اسلام پر فخر نہیں ہے جس اسلام نے ہمیں زندگی کی صداقتوں سے روشناس کیا ہے،اللہ کی معرفت بخشی ہے اور صحیح غلط میں فرق کرنا سکھایا ہے،آ ج ہم اسلام سے ہٹ کر عزت تلاش کررہے ہیں۔ہماری یہ صورت حال ہماری بے صبری کی دلیل ہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام پر ثابت قدم رہیں اور اسلام کی ترجمانی بغیر کسی خوف کے مکمل دلائل کے ساتھ کریں۔
مصائب ومشکلات میں جس دوسری بات کی تاکید زیر مطالعہ آیت میں کی گئی ہے ،وہ تقوی ہے۔اللہ کی خشیت دل میں اپنی جگہ بنالے ،اسی کو تقوی کہتے ہیں۔ایک متقی مسلمان صرف اللہ سے ڈرتا ہے ،دنیا اور اہل دنیا سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔سچائی اور راست بازی انسان کو بے خوف بھی بناتی ہے اور جرأت مند بھی۔زندگی گزارتے ہوئے کئی ایک مواقع ایسے آتے ہیں جہاں ہمیں گناہ کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا لیکن ہم ایسے مواقع کا ناجائز فائدہ اٹھانا تقوی کے خلاف سمجھتے ہیں۔کانٹوں بھرے راستے سے دامن بچاکر نکل جانے کا نام بھی تقوی ہے۔اپنے آپ کو سنبھال کر احتیاط سے زندگی گزارنا بھی تقوی ہے۔حلال روزی پر اکتفا کرنااور قناعت پسندی اختیار کرنا بھی تقوی ہے۔آزمائشیں جب آتی ہیں تو سب سے پہلے روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی سے ایک انسان شکست کھاجاتا ہے لیکن وہ لوگ جن کی تربیت تقوی کے زیرسایہ ہوئی ہو ،ان کے لیے روزی روٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور نہ نان شبینہ کے لیے وہ اپنے ایمان وضمیر کا سودا کرتے ہیں۔تقوی میں غالب مفہوم بچنے اور پرہیز کرنے کا پایا جاتا ہے ۔اس کے ذیل میں تمام گناہ اور کارہائے معصیت آتے ہیں۔اسی سے ایک مومن کی پہچان ہوتی ہے اور ایسا ہی مومن اپنے مخالفین کی صفوں سے اپنے لیے ہم درد پیدا کرلیتا ہے اور پھر اعدائے اسلام کی ساری تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں اور وہ ان مصائب اور آزمائشوں سے سرخ رو ہوکر نکلتا ہے۔عہد رسالت میں نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو یہ نصیحت اگر اللہ نے فرمائی ہے تو وہی نصیحت ہمارے لیے آ ج کے دور میں بھی ہوگی بلکہ آج اپنی ایمانی کمزوریوں اور اعمال میں کوتاہی کے سبب ان نصیحتوں کے ہم کچھ زیادہ ہی محتاج ہیں۔
حاشیہ
1 ۔ (آل عمران 186/3 )
آپ کا ردعمل کیا ہے؟