مسلمانوں سے یہود ونصاری کی عداوت
اس دنیا کا خالق اللہ ہے۔دنیا کے تمام انسان اللہ ہی کے بندے ہیں۔اپنے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا انتظام خود اللہ نے کیا ہے۔چنانچہ اس نے ہر دور میں اپنے نبی بھیجے اور اپنی کتابیں نازل کیں اور اس طرح بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا سلسلہ جاری رہا۔قرآن مجید اور جناب محمد عربی ﷺ اسی ربانی ہدایت کی آخری کڑی ہیں۔قرآن سے پہلے جس قدر آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں،ان کو بدل ڈالا گیا اور جتنے انبیاء علیہم السلام آئے تھے،ان کی سیرت وشخصیت گم کردی گئی۔ چنانچہ آج قرآن سے پہلے نازل ہونے والی جتنی کتابیں موجود ہیں ،ان سے انسانی زندگی کا کوئی نظام ترتیب نہیں دیا جاسکتا ۔
مسلمانوں سے یہود ونصاری کی عداوت
"… رفیق احمد رئیس سلفی
وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَانَصِيرٍ (1)
" یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے۔"
اس دنیا کا خالق اللہ ہے۔دنیا کے تمام انسان اللہ ہی کے بندے ہیں۔اپنے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا انتظام خود اللہ نے کیا ہے۔چنانچہ اس نے ہر دور میں اپنے نبی بھیجے اور اپنی کتابیں نازل کیں اور اس طرح بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا سلسلہ جاری رہا۔قرآن مجید اور جناب محمد عربی ﷺ اسی ربانی ہدایت کی آخری کڑی ہیں۔قرآن سے پہلے جس قدر آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں،ان کو بدل ڈالا گیا اور جتنے انبیاء علیہم السلام آئے تھے،ان کی سیرت وشخصیت گم کردی گئی۔ چنانچہ آج قرآن سے پہلے نازل ہونے والی جتنی کتابیں موجود ہیں ،ان سے انسانی زندگی کا کوئی نظام ترتیب نہیں دیا جاسکتا ۔
اسی طرح محمد عربی ﷺ کے علاوہ کوئی ایسا نبی نہیں جس کے اسوے کو بنیاد بناکر انسانی زندگی کا کوئی نقشہ بنایا جاسکے۔قرآن مجید دنیا کے ہر انسان کے لیے نازل کیا گیا ہے،اسی طرح آخری نبی محمد عربی ﷺ تمام دنیا کے نبی اور ان کے لیے سراپا رحمت ہیں۔قرآن اور صاحب قرآن کی اس عظمت اور حیثیت کو نہ یہودی تسلیم کرتے ہیں اور نہ عیسائی بلکہ وہ قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو کسی احترام وتقدس کا مستحق نہیں سمجھتے۔قرآن مجید کو انسانوں کی لکھی ہوئی کتاب کہتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی نبوت ورسالت پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں یہودیوں نے ہر طرح کی سازشیں کیں لیکن وہ قرآن کی تعلیمات کو عام ہونے سے نہیں روک سکے ،اسی طرح نصاری نے اپنے سارے حربے آزما لیے لیکن اسلام کا راستہ روکنے میں ناکام رہے۔پے در پے شکست کھانے اور ذلت ورسوائی کا مسلسل سامنا کرنے کے باوجود اسلام کے خلاف ان کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور آخر جب اہل اسلام میں مختلف کمزوریوں نے سر اٹھایا اور وہ سیاسی اعتبار سے اپنی مرکزیت کھوبیٹھے تو ان کی سازشیں بار آور ہوئیں اور وہ مسلمانوں کو سیاسی ،معاشی اور علمی لحاظ سے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے تمام عیسائی اور یہودی اپنے تمام تر اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں ،ان کا عسکری نظام سب سے زیادہ مضبوط ہے اور وہ دنیا کے خطرناک ہتھیاروں کا اپنے پاس ذخیرہ رکھتے ہیں۔اس کے برعکس مسلم دنیا اتحاد کلمہ کے باوجود منتشر ہے ،ٹیکنالوجی کی صلاحیت سے محروم ہے اور سیاسی،معاشی اور علمی اعتبار سے حد درجہ کمزور ہے۔مسلم دنیا کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے ۔کہیں مسلم نوجوانوں کو مشتعل کیا جاتا ہے ،کہیں ان کو آلۂ کار بناکر خود ان کی حکومتوں کے خلاف انھیں استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح آج مسلم دنیا اپنے اندرونی اختلافات اور خانہ جنگیوں کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔
مسلم ممالک کا معاشی استحصال،ان کے وسائل پر قبضہ اور بعض مسلم ممالک کے خلاف عسکری طاقت کا استعمال کچھ اس طرح کیا جارہا ہے کہ نوجوان مشتعل ہورہے ہیں،انھیں ان کی مظلومیت سکون سے رہنے نہیں دیتی اور وہ کچھ کرگزرنے کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں ۔اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاکر مسلم دشمن عناصر دنیا میں ایسے حادثات کو جنم دیتے ہیں جن میں معصوم انسانوں کا خون بہتا ہے اور وہ اس کا الزام مسلمانوں پر لگادیتے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے سفاکیت ودرندگی اور قتل وغارت گری کا یہ خونی کھیل جاری ہے اور اسلام اور اہل اسلام کو دہشت گردی اور تشدد کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔
ان نازک حالات میں ہمارے بعض اسکالر اور مسلم حکمراں یہ سوچتے ہیں کہ عیسائی اور یہودی دنیا سے صلح صفائی ضروری ہے ۔ہمیں ان کے خیالات سننے چاہئیں اور اپنے طرز عمل اور اسلام کے تعلق سے اپنی بعض تعبیرات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔تفصیل میں نہ جاکر ان کے اس خیال کو مختصر لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کا ایک ایسا ایڈیشن تیار کیا جانا چاہئے جو یہود ونصاری کے لیے قابل قبول ہو۔اس کام کے لیے عالمی سطح کے بڑے بڑے ادارے شب وروز کام کررہے ہیں،مسلم دنیا کے ذہین اسکالر خریدے جارہے ہیں اور انھیں وسائل فراہم کرکے ان سے یہ کہلوانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام تو ایک سیدھا سادہ اور پرامن مذہب ہے ،اسے کچھ بگڑے ہوئے لوگوں نے اور بعض مولویوں کی غلط تعبیرات نے ایک سخت گیر مذہب بناڈالا ہے۔
قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت اسی موقع کے لیے ہے ۔اس کی رہنمائی یہ ہے کہ اے مسلمانو! تمھارا یہ سوچنا غلط ہے ،یہود ونصاری کو راضی کرنے کی تمھاری خواہش غلط ہے ،وہ تو اسلام اور اہل اسلام کے ازلی دشمن ہیں ۔وہ تو صرف اسی صورت میں تم سے راضی ہوسکتے ہیں جب تم ان کی تہذیب وثقافت کی پیروی کرنے لگو ،ان کے ہم نوا بن جاؤ اور ان کی خواہش کے مطابق جینا اور مرنا سیکھ لو ۔چنانچہ وہ مسلمانوں سے یہی چاہتے ہیں ۔ارتداد کے شکار لوگوں کو وہ آئیڈیل مسلمان کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔وہ میڈیا میں ایسے افراد کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنے گھر میں بڑی مظلومیت کی زندگی گزارتی ہے،اسے تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے اور اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔لیکن یہ کبھی نہیں دکھایا جاتا کہ جن لوگوں کو حقوق نسواں کا سب سے بڑا رہزن قرار دیا جاتا ہے ،ان کی قید میں رہنے کے بعد ایک فرانسیسی صحافی خاتون کیسے مسلمان ہوجاتی ہے اور دنیا میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے۔عورتوں کی عزت وناموس کو سب سے زیادہ خطرہ اسلامی تہذیب سے لاحق ہے یا مغربی تہذیب سے ۔دنیا جن کو دہشت گرد کہہ رہی ہے ،ان کو ہتھیار دینے والے کون ہیں؟کیوں نہیں ایسے ممالک سے جواب طلب کیا جاتا جو معصوموں کا خون کرنے کے لیے ہتھیار بناتے اور اس کی سپلائی کرتے ہیں۔معصوم انسانوں کو ذبح کرکے پیسہ کمانا اور اپنی تجوریاں بھرنا کس قانون میں جائز ہے ؟انسانیت کی یہ کون سی خدمت ہے جو پس پردہ انجام دی جارہی ہے؟
زیر مطالعہ آیت مسلمانوں کو خبر دار کرتی ہے کہ تم اسلام اور اس کی تعلیمات سے دست بردار ہوکر بے سہارا ہوجاؤ گے ،اللہ کی تائید ونصرت تمھارا ساتھ چھوڑ دے گی اور تم اس عظیم قوت سے محروم ہوجاؤ گے جو تمھاری بقا کی ضمانت ہے۔اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظر رکھنا اچھی بات ہے ،جائزہ ،تنقید اور احتساب ہی میں زندگی ہے۔لیکن وہ اسلام جو اللہ کا آخری دین ہے ،جو قرآن اور احادیث صحیحہ پر مبنی ہے ،اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین دائمی اور حتمی ہیں۔ان سے دست کش ہوکر تم کہیں کے نہیں رہوگے ۔ابتلا ء اور آزمائش کی یہ گھڑیاں قوموں کی زندگی میں آتی ہیں،تمھارے اسلاف کے ادوار میں بھی اس قسم کی آزمائشیں آئی تھیں ،انھوں نے جس طرح ان نازک حالات میں صبر وثبات کا مظاہرہ کیا اور اسلام پر ڈٹے رہے،اسی طرح تم بھی ثابت قدم رہو اور حق وصداقت کی راہ پر چلتے رہو۔
اسلام ایک عملی مذہب ہے۔وہ دوستوں اور دشمنوں سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے ۔اسلام کے دوستوں اور دشمنوں کی تمھیں پہچان ہونی چاہئے ۔دعوت وتبلیغ تمھارا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔اسلام کے ازلی دشمن کامیاب اسی وقت ہوتے ہیں جب وہ ایسے لوگوں کو اپنا آلۂ کار بنالیتے ہیں جو اسلام کو نہیں جانتے۔ایسے تمام لوگوں تک اسلام کی صداقت اور سچائی کو پہنچانا تمھاری منصبی ذمہ داری ہے۔اسلام جیسے امن وسلامتی کے مذہب کو تشدد پھیلانے والا مذہب وہی کہہ سکتا ہے جس نے اسلام کو پڑھا نہ ہو اور مسلمانوں کو وہی دہشت گرد کہہ سکتا ہے جس سے مسلمانوں کی قربت ویگانگت نہ ہو۔دنیا ظلمت وجہالت میں جی رہی ہے ،اندھیرے میں تیروں کی بارش ہورہی ہے،اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ کتاب وسنت کی روشنی جس قدر عام ہوتی جائے گی،ظلمت وجہالت کے یہ سایے سمٹتے جائیں گے ۔
حاشیہ:
1۔(البقرۃ(120/2
آپ کا ردعمل کیا ہے؟