قوم وملت کی تعمیر ڈاکٹر اے آر قدوائی کا مشن تھا
مہمان گرامی اور اس سیمنار میں شریک ہونے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جامعہ ملیہ میں جناب مطیع الرحمن صاحب نے یہ پیش کش کی تھی کہ جناب قدوائی صاحب کے لیے ایک سیمینار یہاں کرانا چاہتے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔ کیونکہ قدوائی صاحب کا بہت پرانا لگاؤ اس جامعہ ملیہ سےہے ۔ اور انہوں نے ایجو کیشن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور ان کی محنت صرف ایجو کیشن میں نہیں ہے بلکہ سیاست میں بھی اچھی کار کردگی رہی ہے۔ بلکہ وہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ ہمیں اس کی تعریف کرنے میں مشکل معلوم ہورہا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے یہ دیکھ کر کہ ایک اکیڈمیشن پورے 34 سال تک ایک اکیڈمی میں رہے اور بہت محنتیں کیں۔ بہت ساری قربانیاں دیں اور ریسرچ وغیرہ کئے۔ اور اس کے بعد وہ چار ریاستوں کے گورنر رہے۔ اور وہاں بھی انہوں نے ایجو کیشن میں بہت بہت قربانیاں دیں۔ جس ریاست کے گورنر رہے اس ریاست کو نئے نئے طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ خاص کر کے انہوں نے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ کام کیا ، کیونکہ وہ خود سائنس اینڈ ٹکنالوجی میں ماہر تھے ۔ انہوں نے اپنے وقت میں سائنس اور ٹکنالوجی کو بہت آگے بڑھایا ہے ۔ حالانکہ اس وقت ہندوستان میں بہت زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی ۔ اور ان کی دوسری جو اہم خدمات ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے مدرسہ پر خاص توجہ دی ہے ۔ چاہے بہار ہو یا بنگال ہو۔ اورمدرسہ میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم اور ٹکنالوجی ٹریننگ(جس کے بارے میں ہمارے مطیع الرحمن بھائی بتا رہے تھے) ان میں کافی اہم خدمات انجام دی ہیں ۔
تاثر |
قوم وملت کی تعمیر ڈاکٹر اے آر قدوائی کا مشن تھا
… پروفیسر طلعت احمد صاحب،وائس چانسلر،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی"
مہمان گرامی اور اس سیمنار میں شریک ہونے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جامعہ ملیہ میں جناب مطیع الرحمن صاحب نے یہ پیش کش کی تھی کہ جناب قدوائی صاحب کے لیے ایک سیمینار یہاں کرانا چاہتے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔ کیونکہ قدوائی صاحب کا بہت پرانا لگاؤ اس جامعہ ملیہ سےہے ۔ اور انہوں نے ایجو کیشن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور ان کی محنت صرف ایجو کیشن میں نہیں ہے بلکہ سیاست میں بھی اچھی کار کردگی رہی ہے۔ بلکہ وہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ ہمیں اس کی تعریف کرنے میں مشکل معلوم ہورہا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے یہ دیکھ کر کہ ایک اکیڈمیشن پورے 34 سال تک ایک اکیڈمی میں رہے اور بہت محنتیں کیں۔ بہت ساری قربانیاں دیں اور ریسرچ وغیرہ کئے۔ اور اس کے بعد وہ چار ریاستوں کے گورنر رہے۔ اور وہاں بھی انہوں نے ایجو کیشن میں بہت بہت قربانیاں دیں۔ جس ریاست کے گورنر رہے اس ریاست کو نئے نئے طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ خاص کر کے انہوں نے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ کام کیا ، کیونکہ وہ خود سائنس اینڈ ٹکنالوجی میں ماہر تھے ۔ انہوں نے اپنے وقت میں سائنس اور ٹکنالوجی کو بہت آگے بڑھایا ہے ۔ حالانکہ اس وقت ہندوستان میں بہت زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی ۔ اور ان کی دوسری جو اہم خدمات ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے مدرسہ پر خاص توجہ دی ہے ۔ چاہے بہار ہو یا بنگال ہو۔ اورمدرسہ میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم اور ٹکنالوجی ٹریننگ(جس کے بارے میں ہمارے مطیع الرحمن بھائی بتا رہے تھے) ان میں کافی اہم خدمات انجام دی ہیں ۔
ہم لوگوں کو قدوائی صاحب کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا چاہئے ۔ چونکہ مدرسہ سے پڑھا کر کتنے بچے کو آپ پیش امام بنائں گے ؟ اس لے کہ بچہ زیادہ ہیں اور مسجد یں کم ہیں، بہتر یہ ہےکہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی حصہ لیں۔ اور اپنی قوم کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے لیے بھی قربانی دے سکیں۔ جامعہ ملیہ نے قدوائی صاحب کے دکھائے ہوئے راستے پر اقلیتی فلاح کے منتری سے مل کر ایک پروگرام کیا ہے۔ جس کو برج کورس کہتے ہیں ۔یعنی نئی تعلیم، اس میں مدرسہ سے نکلے ہوئے لڑکے اور کچھ ایسے بچے جن کی کسی پریشانی کے سبب پڑھائی چھوٹ جاتی ہے۔ ایسے بچوں کے لیے ہم نے اس برج کورس کا آغاز کیا ہے۔
اس برج کورس میں ایک سال کی تربیت کے لیے ہم لوگوں نے 100بچوں کا ایڈمیشن لیا تھا ، ۔ اور سب سے خوشی کی بات یہ ہےکہ ان میں سے 70فیصد لڑکیاں غریب تھیں۔ اور ان سب میں سب سے اچھی بات یہ ہےکہ 17 بچوں نےفرسٹ ڈیویزن سے پاس کیا تھا ۔ اور اب تقریبا 77 بچے ایسےتھےجنہوں نے دلی کے مختلف یو نیورسٹی میں داخلہ لیا ہے یہ بڑی بات ہے کہ مدرسہ سے نکل کر آپ کو مین جگہ میں داخلہ لینے کا موقع ملا ۔ اور آپ کے آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ کھل گیا ۔ اس سال یہ پروگرام ہم پھر سے کررہے ہیں۔ جس میں نہ صرف ایک سال کی ٹرینگ ہوگی بلکہ تین ماہ اس میں شامل کرکے ان کو ہنر کی بھی ٹریننگ دی جائے گی، مجھے امید ہےکہ اس طرح کی پہل اور بھی جگہوںمیں خاص کر کے جہاں جہاں ہماری آبادی ہے خاص طور سے کشن گنج میں یہ چیزیں ہونی چاہئے ۔ حالانکہ میں دو تین دفع وہاں گیا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ توحید ٹرسٹ بہت اچھا کام کرتا ہے۔ میں وہاں کے ماحول اور تعلیم وتربیت سے بے حد متاثر ہوا۔ انشاء اللہ جب جب موقع ملے گا میں کشن گنج جاؤں گااور ہوسکتا ہےکہ میں جب ریٹائرڈ ہوں تو میں کوشش کروں گا کہ میں ادھر ہی کہیں کسی جگہ میں کام بھی کروں گا۔
دوسری چیز قدوائی صاحب کی بہت اہم ہے یہ کہ انہوں نے ہنر کے میدان میں کافی بڑی قربانی دی ہیں۔ اور ان میں خاص طور سے جو ان کی کارکردگی ہے ہم اس کو جانتے ہیں۔ کہ جہاں تک میں نے پڑھا ہے۔ وہ یوپی ایس سی کے چیر مین تھے۔ تو پہلے یہ تھاکہ یوپی ایس سی کے امتحان میں جس میں آئی ایس یا آئی پی ایس بنتے ہیں۔ وہ صرف انگلش میں ہوا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے بہت بڑے طبقے کو اس کی خواہش نہیں ہوتی تھی ۔ اس کی وجہ یہ کہ ان کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی تھی ۔ جو عام بچہ گاؤں سے نکل کر آئی ایس بننا چاہتا ہے۔ تو قدوائی صاحب نے پہلی مرتبہ ملٹی لنگول رائٹنگ اسکرپٹ کی اجازت دی۔ تب سے بہت بڑی تعداد میں جو پہلے صرف ساوتھ انڈیا سے آئی ایس ،آئی پی ایس بنتے تھے ۔ بہار نے اس میدان میں سب سے آگے جگہ بنائی ہے۔
اب تو ہندی یا اردو میں لوگوں نے لکھ کر امتحان پاس کیا ۔ تو یہ سب سے بڑی اوراچھی کارکردگی ہے۔ جن کو انہوں نے سمجھا اور وقت کے ساتھ عمل در آمد کیا ۔ اس لیے کہ وہ ایک مضبوط انسان تھے۔ اور انہوں نے عمدہ نقاط کو ترویج بھی دیا ۔ ان کے عزائم اور پلان کو دیکھ کر ۔ میں ان کی خدمات سے بہت ہی متاثر تھا ۔اس وقت انہوں نے کس طرح کی چیزیں سوچیں اور اس سے کتنے لوگوں کا فائدہ کرایا۔ انہوں نے سیاسی عمل در آمد کے لحاظ سے آزادی کی خاطر بہت ساری قربانیاں بھی دی ہیں۔ خاص طور سے 1942ء کے موقع پر گاندھی جی نے جو قول دیا تھا اس میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ اور جب وہ بہار میں گورنر تھے۔ تو انہوں نے گاندھی اسٹڈیز کا ایک سینٹر بھی بھا گلپو یونیورسٹی میں کھولی تھی ۔ تو ان کی یہ ساری خدمات بہت ہی اہم ہیں۔ خاص طور سے ہم لوگوں کے لیے جو اکیڈمک میں رہتے ہیں۔
کسی بھی قوم کو اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے تعلیم دلائے ،ان کی پریشانیاں خود ہی حل ہوجائیگی۔ انہوں نے بچوں کو اسکل یعنی ہنر مندی کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ خود سے روزی روز گار کرسکے۔ اور اس کا بہت اچھا گذارا بھی ہوسکے جیسا کہ ہمارے مطیع الرحمن صاحب کہہ رہے تھے کہ بہار میں بھی دیکھا گیا ہےکہ بہار میں انہوں نے بھارتیہ نرتیہ کلامندر پٹنہ کو پھر سے عمل میں لایا،جو خستہ حال ہوچکی تھی ۔ اسی طرح انہوں نے نالندہ یونیورسٹی میں بدھزم کے کورس کی شروعات کرائی ۔ ان ساری چیزوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے لیے کام نہیں کرتے تھے۔ بلکہ پورے ملک کے لیے سوچتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے جین لوگوں کے لیے جینولوجی کی شروعات ویشالی یونیورسٹی میں کی ۔ مجھے بڑی خوشی ہے آپ لوگوں کو بتا تے ہوئے کہ انہوں نے خدابخش لائبریری پٹنہ جو مشہور لائبریری ہے اس کو نئے سرے سے بنایا ۔ اور اب خدابخش لائبریری بہت ہی اچھی حالت میں ہے۔ قدوائی صاحب کی فیملی کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہےکہ ان کے نام سے دو اسکالر شپ دیا جائيگا، جامعہ ملیہ کے اسکول کے گیارھویں اور بارھویں کے سب سے اچھے ایک بچہ اور بچی کو دیا جائیگا۔اور یہ اسکالر شپ تقریبا دس سال تک جاری رہے گی۔ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اس سے قوم کا بھی بھلا ہوگا اور آپ کو دعائیں بھی ملیں گی۔ مجھے یہ پوری امید ہےکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کا کارنامہ جو انہوں نے انجام دیا ہے ان سے ہمیں تجربہ حاصل ہوگا۔ اور کوشش کریں کہ تھوڑا بہت ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ۔ تاکہ ہم بھی آگے بڑھیں گے اور اپنی قوم کو آگے لیکر چلیں گے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟