عالمی سیاست ڈکٹیٹر شپ کے سائے میں۔
یعنی جمہوریت کہتے ہیں ایسی حکومت کو جو عوام کا عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے ہی بنایا گیا ہو۔ ۔(Democracy is a government"of the people,by the people,and for the people ( یہ ایک تعریف ہے وگرنہ ڈکشنری میں اگر اپ دیکھیں گے تو آپکو معلوم ہوگا کہ۔ڈیمو کریسی کی تعریف کیا ہے۔
"…فیروز ھارونی
میں جب چھٹی ساتویں کلاسوں میں پڑھتا تھا اسوقت اور شاید آج بھی مدرسوں میں اسے متوسط کہا جاتا ہے۔جمہوریت اور سیاست کو بابرکت مشغلہ سمجھتا تھا۔۔اور سیاسی لیڈران فرشتہ صفت لیڈران سمجھے جاتے تھے۔۔اس لیے جب کبھی کوئ سیاسی پارٹی کے لیڈر مدرسے میں آتے تھے تو تمام طلبہ ان کی خوش آمدیدی کے لیے پھول اور مالوں سے سوغات کرتے۔ماننایہ تھا کہ یہی لوگ ہمارے رہنما ہیں ۔ان کے بغیر نہ رات رات ہو سکتی ہے اور نہ دن دن ہو سکتا ہے۔۔کیونکہ اسوقت خود بچوں پر معصومیت چھائ ہوتی تھی،اسلئے سیاست دانوں کو بھی معصوم ہی سمجھتا تھا۔باقی کبھی کبھار اگر کوئ خبر سن لیتا کہ کہیں کسی نے کسی کو مار دیا کہیں کسی کی زمین دبا لی گئی کہیں کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ ریپ ہوگیا وغیرہ وغیرہ تو ہمیشہ سیاسی لیڈران کو ان سے مستثنی رکھتا تھا ۔۔کیونکہ اپنا ایک ذہن بنا ہوا تھا کہ سیاسی لیڈران غلطی کر ہی نہیں سکتے اور جس پر زیادتی ہوئ اس کے بارے میں یہی سوچ کر دل کو تسلی دے لیتا تھا کہ ضرور مظلوم ہی کی غلطی رہی ہوگی۔اگر غلطی نہی ہوتی تو پھر مارا کیوں جاتا۔
انہیں دنوں میں ناگرک شاشتر (علم سماجیات)میں ابراہم لنکن کا مشہور و معروف قول پڑھا تھا ۔اور شاید اس وجہ سے ہی سیاست کے میدان کو سب سے پاک صاف میدان سمجھ رکھا تھا انہوں نے جمہوریت کی بہت ہی موزوں اور قابل اعتبار تعریف کی ہے جو دنیا بھر میں اب بھی پڑھائ جاتی ہے۔
یعنی جمہوریت کہتے ہیں ایسی حکومت کو جو عوام کا عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے ہی بنایا گیا ہو۔
۔(Democracy is a government"of the people,by the people,and for the people (
یہ ایک تعریف ہے وگرنہ ڈکشنری میں اگر اپ دیکھیں گے تو آپکو معلوم ہوگا کہ۔ڈیمو کریسی کی تعریف کیا ہے۔
(Democracy is government by the people is which the supreme power is vested in the people and exercised directly by them or by their elected agents under the free electoral system.)
ابراہم لنکن اور ڈکشنری کی تعریف میں بہت حد تک مماثلت ہے۔
بات کو آگے بڑھاؤں اس سے پہلے اور دوچار چیزیں جوڑ دینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ذہین میں ڈیموکریسی کا ایک چھوٹا موٹا خاکہ بھی تیار ہوجائے ۔۔اور موجودہ جمہوریت کو اور سیاست کو سمجھ نے کی کوشش کریں کہ آخر ہم جس سیاست کو یا جمہوریت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں یا کبھی کبھار برا بھلہ کہتے ہیں آیا اسکی حقیقت کیا ہے۔کیونکہ بسا اوقات ہم جمہوریت کو سمجھے بغیر اس کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔۔
چلئے اب آپکو جمہوریت کے کچھ بنیادی باتوں کو بتادیں جس کے بغیر جمہوریت کو جمہوریت کہا جانا ہی بے معنی ہو جائیگا چنانچہ جمہوریت کے بنیادی باتیں یوں ہیں۔
اکثریت کی حکومت بنے گی ۔
اقلیت کے حقوق کی پوری پوری پاسداری ہوگی ۔
بنیادی ہیومین رائٹس یعنی بنیادی حقوق کی گارنٹی ہوگی ۔
صاف ستھرا اور غیر جانبدارانا الیکشن ہوگا۔
قانون میں سارے لوگ برابر کے نظر سے دیکھے جائیں گے۔
سرکار پر آئینی حد بندی ہوگی ۔یعنی جوبھی سرکار کام کرے قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے ۔
اسکے علاوہ شوشلی اقتصادی اور پالیٹکلی سبھی عوام کی شراکت ہوگی اور عدم تشدد و آپسی میل جول اور سرکار کا سب کے ساتھ برابر کا تعلق کو ملحوظ نظر رکھا جائیگا ۔
یہ ایک معمولی سا خاکہ ہے وگرنہ اور بہت ساری چیزیں جمہوریت میں درکار ہیں ۔اگر یہ چیز یں آپکو سرکار میں یا جمہوریت میں دیکھائ دیتی ہے تو ٹھیک وگرنہ اس سرکار کو یا جمہوریت کو آپ جو نام دینا چاہیں دے لیں۔
مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ سیاست کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بہت ساری اونچ نیچ بھید بھاؤ چھوٹاپن بڑا پن ۔۔اور دنیا بھر کی لایعنیت جو جمہوریت کے منافی ہیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔پہلے چھوٹا تھا تو سیاسی لیڈروں کو دودھ کا دھلا ہوا سمجھتا تھا اب جب بڑا ہوگیا ہوں تو سیاست داں کو جادوگر سمجھتا ہوں جو کبھی بھی کچھ بھی کرشمہ کر دکھا سکتا ہے۔کیونکہ شعور کے ساتھ ساتھ انسان کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے اور نظریہ وقت اور حالات کے مطابق ہی پروان چڑھتا ہےاب تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ۔سیاست ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سب سے زیادہ بے حیائ بے غیرتی جھوٹی شان مکاری اور بے ایمانی ہےاس حمام میں کوئ کسی کا نہیں ہے باپ بیٹا سے لڑ رہاہے بیٹا باپ سے منھ کی کھا رہا ہے ماں کوٹنی بنے پھر رہی ہے استاد شاگرد سے مات کھا رہا ہے اور شاگرد استاد کو گرا کر منزل طے کر رہا ہے نہ باپ بیٹا کے اصلی شکل کو پہچان پا رہا ہے اور نہ ماں جس نے اپنی پیٹ سے بیٹا یا بیٹی کو نکالا ہے سمجھ پارہی ہے۔
حشر تو یہ ہیکہ ہر براکام ہر لڑائ ہر جھگڑا ہر فساد ہر قتل ہر کرپشن میں کسی نہ کسی سیاست دان کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور موجودہ زمانہ میں یہ چیزیں مزید پروان چڑھ رہی ہیں ۔
خیر آج بات عالمی سیاست کی کرنی ہے تو عالمی سیاست کابھی یہی کچھ منظر نامہ ہے بلکہ عالمی سیاست نے تو اج پوری دنیا کو لہولہان کر رکھا ہے ۔بات دوہزار دس سے ہی شروع کرتے ہیں ویسے دوہزار ایک سے ہی یہ سب خون خرابہ شروع ہو چکا تھا جب ورلڈ ٹریٹ سینٹر میں حملہ ہوا تھا ۔
اور اس کے بعد ۲۰۱۷ تک کا جو منظر نامہ ہے وہ پورا لہولہان منظر نامہ ہے جس میں انسان اور انسانیت کم بھیڑیا نما انسان زیادہ منتخب ہوکر سیاست کی باغ ڈور کو سنبھالے ہیں مجھے کہنے دیجئے دوہزار تیرہ تک جس نام نہاد پولیٹیکل لیڈروںےنے
اپنی ریشہ دوانیوں سے عوام کا قتل عام کیا ہے وہ ناگفتہ بہ ہے اسی بیچ دہشت گرد تنظیمیں القائدہ ،حقانی گروپ، داعش، بوکوحرام،بورو لین نکسلواد اور دوسری تنظیمیں زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوئیں اسی بیچ سیاست کے منظر نامہ کو بدلکر بجائے عام لوگوں کے خواص کا کر دیا گیا ایک مہذب تعلیمی ڈھانچہ کو بدل کر تعلیم کو تجارت بنادیاگیاہے۔تانیثیت کے نام پر بے حیائ بے غیرتی زناکاری اور اسقاط حمل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا گیا ۔
عورتوں کو گھر کی ملکہ کے بجائے سب سے زیادہ بازاری بنایا گیا عورتوں اور لڑکیوں کی خرید و فروخت شروع ہوئ ۔
انسان کے جان کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کم تر سمجھاگیا اور یہ کام ابھی تک رکا نہی ہے بلکہ مزید زور شور سے چل رہا ہے ۔
دوہزار بارہ کے بعد ایک بار پھر سیاست نے کروٹ لی اب کی بات پرانی کارستانیاں تو تھیں ہی مستزاد جمہوریت کو پارہ پارہ کر دیا گیا اب ہر ملک اپنے کو سپر پاور کے ہوڑ میں کھڑے ہونے کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگا ۔اب ایسے لوگ سیاست میں آنے لگے جو یاتو بہت زیادہ پیسے والے تھے یا جسکو چند مخصوص لوگوں کی حمایت حاصل رہی اب سپر پاور ملک کے بجائے سپر پاور شخصیت کی ہوڑ عروج کرنے لگی چنانچہ دوہزار نو میں بنجامن نیتن یاہو کا بطور وزیر اعظم انتخاب ہونا اس بات کی غماز تھی کہ اب ملک کے طاقت کے علاوہ شخصیت کی طاقت کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے کیونکہ یاہو ایک تجارت پیشہ شخص تھا۔انہیں صرف اپنے مفاد سے مطلب تھا انہوں نے فلسطین کے عرصئہ حیات کو تنگ کر دیا ۔وہاں کے بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ۔اپنی طاقت کے دم پرناجائز طور پر فلسطین کے زمین کو غصب کرکے نئ نئ کالونیاں آباد کیں یہ کام اب بھی کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ جس کا قیام ہی دنیا بھر میں امن و امان قائم کرنے کیلے ہے۔چیختے چلاتے رہ گئے کئ کانفرنسیں اور کئ جلسے جلوس بھی اسرائیل کے مخالفت میں ہوئے مگر کوئ ملک کھلکر سامنے نہیں آیا کہ فلسطین کے حقوق کی حفاظت کرے۔
اس کے دوچار سال کے اندر ولادمیر پوتین ،زی ژنگ پنگ ،انجیلا مورکل ،علی خامنہ ،سینجو آبے ،کیم جونگ ،ڈیوڈ کیمرون وغیرہ وغیرہ ڈکٹیٹر لیڈران چنے گئے جنہوں نے ملک سے زیادہ اپنی شخصیت کو فوقیت دیا ۔اسی زمانے میں سب سے زیادہ دہشت گرد تنظیموں کو فروغ ملا مصر ،لیبیا، سیریا کو تہس نہس کر دیا گیا ۔۔وہاں کی حکومتوں کو ظالم اور انسانیت سے دور گردانا گیا جس کے نتیجے میں حسنی مبارک ،معمر قذافی اور صدام حسین کو نہ صرف اقتدار سے دور کیا گیا بلکہ قذافی اور صدام حسین کو موت کے گھاٹ بھی اتاردیے گئے ۔ان تمام لوگوں کو سیاست سے دور کرنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ کہیں یہ لوگ مین اسٹریم میں نہ آجائے حالانکہ جن لوگون کومارا گیا وہ لوگ بھی کہیں سے کم نہیں تھے لیکن انکا ساتھ کسی نے نہیں دیا ۔
سیاست ایک ایسا پلیٹفارم ہے جہاں دکھتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہے ۔چنانچہ دوہزار تیرہ کے بعد جب پوتن کا انتخاب ہوا اسوقت تک عالمی پیمانے پر ایک ایسا سازگار ماحول بن چکا تھا جس میں شخصی سیاست کو ہوا دی جاچکی تھی-جس کی ہوا ہندوستان ہوکر بھی گزری اور یہاں استادی اور شاگردی کے شاہ مات والا واقعہ بھی درپیش آیا ۔چنانچہ لال کرشن اڈوانی کو مات دیکر نریندر مودی نے قلعہ فتح کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مودی نے ایک اکیلے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔اب انکے بغیر نہ کوئ منتری کوئ بات کہہ سکتا تھا اور نہ کوئ کیبینٹ منتری کوئ حکم نامہ جاری کر سکتا تھا ۔انہوں نے ہندوستان کے قانون کو جس میں صاف طور کہا گیا ہیکہ کہ یہاں ایک اکیلے شخص کیلے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہاں کا قانون یونین اور فیڈرل دونوں کو مشتمل ہے جسمیں سبھی چنے ہوئے لیڈران برابر کے شریک ہیں باوجود اس کے انہون نے 8دسمبر کو ایک اکیلے میں ڈی مونی ٹائزیشن کا فیصلہ لیا جس سے نہ صرف معاشی نقصان ہوئے۔
بلکہ بقول منموہن سنگھ ۔۔ (monumental mismanagement)ہمیشہ یاد دلانے والی بد انتظامی
کا واقعہ درپیش آیا ۔
اس کے بعدسے ایک خاص طبقہ کو بڑھاوا دیا گیا ۔جمہوریت کی بنیاد جسمیں صاف طور پر کہا گیا ہیکہ اس میں اقلیتوں کی حفاظت سب سے ضروری امر ہے مگر اس کو بالائے طاق رکھکر ہر اس حربہ کو اپنایا گیا جس سے اقلیتی طبقہ ہراساں و پریشان ہوں۔ حد تو تب ہوگئ جب انسان کے جان سے زیادہ جانور کے جان کی قیمت کر دی گئ۔۔اور کورٹ سے یہ بل بھی پاس کرا لیا گیا ۔
سیاست میں شخصیت پرستی کو بام عروج اسوقت ملی جب دنیا میں اپنے آپکو جمہوریت کا علم بردار کہنے والا ملک امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ چنے گئے ۔ چونکہ وہ خود تاجر پیشہ شخص ہیں اس وجہ سے اپنے سیاسی بگل بجانے کے شروعات سے ہی اپنے آپکو سب پر مقدم رکھا اگرنیوز چینل "سی این این "کی مانیں تو ہر جلسہ جلوس میں ہر سڑکوں ہر محلوں میں ان کی مدافعت یا مخالفت پر باتیں ہوئیں۔انہوں نے صرف ایک طبقہ کو ٹارگٹ کیا ۔جمہوریت کو پچھاڑ کر صرف گورووں کی بات کی اور ایک منظم مسلم مخالف لابی بھی چلائی ۔نتیجہ دیکھیے کہ وہ اپنے لابی اور سوچ میں کامیاب بھی ہو گئے۔
اب اگر موجودہ دور کو دیکھیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ سیاست میں بس خود پرستی رہ گئ ہے لوگ صرف اپنی ذات کو اپنی بقا کو دیکھتےہیں ان کو مطلب نہیں ہے کہ آیا ان کے ملک کا ان کے اپنے رعایا کا کیا حال ہے اسلئے اپنی مفاد کے خاطر کبھی انسانیت سوز واقعات کروادیتےہیں۔کبھی اپنے کمتر کو مروادیتےہیں کبھی اپنے مفاد کے خاطر ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑا دیتا ہے۔۔ جیسے بشار الاسد نیتن یاہو،بغدادی،کیم جونگ اور ڈونالڈ ٹرمپ وغیرہ کر رہے ہیں انہیں صرف اپنے مطلب سے مطلب ہے انہیں عام عوام سے کوئ لینا دینا نہیں ہے آیا کسکا فائدہ یا کسکا نقصان ہو رہا ہے ۔یہی وجہ ہیکہ اج ہم سیریا'،مصر،عراق ،افغانستان لیبیا،فلسطین وغیرہ ملکوں کو دیکھ رہے ہیں کہ چند مٹھی بھر لوگ اپنے مفاد کے خاطر اپنے ملک کے معاشرت،معاشی حالات اور اپنے ملک کے دولت کو لٹانے پر تلے ہیں انہیں کوئ مطلب نہیں ہے کہ ان کے عوام کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے ملک کی معاشی حالت کس جانب جارہا ہے۔عوام کا کس حال میں سونا جاگنا ہو رہا ہے۔اس کے برعکس خود عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔اب اللہ جانے یہ ڈکٹیٹر شپ دور کب تک چلیگا مگر جب تک چلیگا تب تک انسانیت کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی دہشت گردی کے نئے نئے گروپ بنتے جائیں گے ہر چوراہے پر قتل عام ہوتا رہیگا۔ ہر ملک میں محشر کا عالم برپا رہےگاہر چہار جانب سے یہی آواز آئے گی عام شہری محفوظ نہیں ہے اسلئے لیڈروں کو بھی محفوظ رہنے کا کوئ حق نہی ہے ۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟